دشمن کو ظلم کی برچھی سے تم سینہ و دل بَرمانے دو
یہ درد رہے گا بن کے دوا تم صبر کرو وقت آنے دو
یہ عشق و وفا کے کھیت کبھی خوں سینچے بغیر نہ پنپیں گے
اس راہ میں جان کی کیا پروا جاتی ہے اگر تو جانے دو
تم دیکھو گے کہ انہی میں سے قطراتِ محبّت ٹپکیں گے
بادل آفات و مصائب کے چھاتےہیں اگر تو چھانے دو
صادق ہے اگر تو صدق دکھا قربانی کر ہر خواہش کی
ہی جنسِ وفا کے ماپنے کے دنیا میں یہی پیمانے دو
جب سونا آگ میں پڑتا ہے تو کندن بن کے نکلتا ہے
پھر گالیوں سے کیوں ڈرتے ہو دل جلتے ہیں جل جانے دو
عاقل کا یہاں پر کام نہیں وہ لاکھوں بھی بے فائدہ ہیں
مقصود مرا پورا ہو اگر مل جائیں مجھے دیوانے دو
وہ اپنا سر ہی پھوڑے گا وہ اپنا خون ہی ِبیٹے گا
دشمن حق کے پہاڑ سے گر ٹکراتا ہے ٹکرانے دو
یہ زخم تمہارے سینوں کے بن جائیں گے رشکِ چمن اس دن
ہے قادرِ مطلق یار مرا، تم میرے یار کو آنے دو
جو سچے مومن بن جاتے ہیں موت بھی ان سے ڈرتی ہے
تم سچے مومن بن جاؤ اور خوف کو پاس نہ آنے دو
یا صدقِ محمدؐ عربی ہے یا احمدِ ہندی کی ہے وفا
باقی تو پرانے قصے ہیں زندہ ہیں یہی افسانے دو
وہ تم کو حسین بناتے ہیں اور آپ یزیدی بنتے ہیں
یہ کیا ہی سستا سودا ہے دشمن کو تیر چلانے دو
میخانہ وہی، ساقی بھی وہی، پھر اس میں کہاں غیرت کا محل
ہے دشمن خود بھینگا جس کو آتے ہیں نظر خُم خانے دو
محمودؔ اگر منزل ہے کٹھن تو راہ نما بھی کامل ہے
تم اس پہ توکّل کرکے چلو، آفات کا خیال ہی جانے دو

 

(اخبار الفضل جلد 23۔ 14 جولائی 1935ء)

کلام محمود صفحہ154

متعلقہ مضمون

  • خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی

  • اُسی کو پا کے سب کچھ ہم نے پایا

  • گلے کا تعویذ اسے بناؤ، ہمیں یہی حکمِ مصطفیٰ ہے