(مضمون: مکرم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب)

 

آنحضرتﷺ کي مبارک احاديث ميں کھانے پينے کے متعلق جو اصولي راہنمائي پائي جاتي ہے اس ميں سے بعض ہدايات نيچے درج کي جاتي ہيں۔

’’حضرت انسؓ سے روايت ہے کہ آنحضرتﷺ جب کھانا کھاتے تو انگليوں کو چاٹ ليتے اور آپؐ فرماتے تھے کہ جب کسي کا لقمہ گر پڑے تو اس کا گندہ حصہ عليحدہ کرے اور اسے کھالے اور اسے شيطان کے لئے نہ چھوڑے۔ اور آپؐ نے ہميں حکم ديا کہ ہم پونچھ ليں رکابي کو اور فرماتے تھے کہ تم نہيں جانتے کس کھانے ميں تمہارے لئے برکت ہے‘‘۔

(جامع ترمذي۔ كتاب الأطعمة)

اور جامع ترمذي کے اسي باب ميں مذکور اگلي حديث ميں آنحضرتﷺ کا يہ حکم درج ہے کہ جو کسي برتن ميں کھائے تو اسے پونچھ لے۔

سنن ابن ماجہ ميں يہ حديث مذکور ہے۔

’’حضرت عائشہ سے روايت ہے کہ آنحضرتﷺ گھر ميں تشريف لائے تو روٹي کا ٹکڑا پڑا ديکھا۔ آپ نے اسے اُٹھايا اور پونچھا اور کھا ليا۔ اور فرمايا کہ اے عائشہ عزت والي چيز کو عزت دو کيونکہ اللہ تعاليٰ کا رزق جب کسي قوم سے چلا گيا تو اس کي طرف لوٹ کر نہيں آتا‘‘۔ (سنن ابن ماجہ۔ کتاب الاطعمة)

رزق کي قدر کرنے کے بارے ميں صحيح ابن حبان ميں روايت ہے کہ آنحضرتﷺ نے حضرت ابو ايوب کے گھر پر کھانا تناول فرمايا۔ اور آپ کي آنکھوں سے آنسو جاري ہوگئے۔ آپﷺ نے فرمايا:

’’روٹي، گوشت اور خشک اور تر کھجوريں۔ مجھے اس ذات کي قسم ہے جس کے قبضہ قدرت ميں ميري جان ہے يہ وہ نعمتيں ہيں جن کے بار ے ميں سوال ہوگا‘‘۔

(صحيح ابن حبان کتاب الاطعمة)

سامنے موجود کھانے کو آخر تک ختم کرنے کے بارے ميں آنحضرتﷺنے ارشاد فرمايا:

يقيناً کھانے کے آخري حصے ميں برکت ہے۔

(صحيح ابن حبان۔ کتاب الاطعمة)

آپﷺنے دستر خوان پر کھانے کے بچ جانے والے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو بھي ضائع نہ کرنے کے بارے ميں يہ ہدايات عطا فرمائيں۔

’’جو دسترخوان پر ريزوں کو تلاش کرے گا اس کي بخشش کر دي جائے گي‘‘۔

(کنزالعمال اردو ترجمہ از دارالاشاعت جلد 8 صفحہ 118)

’’روٹي کي قدر کرو۔ کيونکہ اللہ نے اسے آسمان کي برکتوں سے اتارا اور زمين کي برکتوں سے نکالا ہے۔ جو دسترخوان کے ريزے کھائے گا اس کے گناہ معاف ہوں گے‘‘۔ (کنزالعمال اردو ترجمہ از دارالاشاعت جلد 8 صفحہ 120)

اور اس حديث سے معلوم ہوتا ہے کہ دستر خوان پر کھانے کو ضائع نہ ہونے دينا اولاد کي تربيت کا بھي عمدہ ذريعہ ہے۔ آپﷺ نے فرمايا:

’’جس نے دستر خوان کے ريزے کھائے وہ وسعت کي زندگي گزارے گا اور اپنے بيٹے اور پوتے ميں حماقت سے محفوظ رہے گا‘‘۔

(کنزالعمال اردو ترجمہ از دارالاشاعت جلد8صفحہ 123)

مندرجہ بالا احاديث ميں يہ تعليم دي گئي ہے کہ اللہ تعاليٰ کي عطا کردہ خوراک ضائع نہيں کرني چاہيے۔ يہ وہ نعمت ہے جس کا حساب ليا جائے گا۔ جو توجہ سے خوراک کو ضائع ہونے سے بچاتا ہے تو يہ فعل اس کے لئے بخشش اور خوشحالي کا باعث بنتا ہے۔ ان ارشادات کي ايک واضح حکمت تو يہ ہے کہ خوراک بہرحال اللہ تعاليٰ کي ايک نعمت ہے جسے ضائع نہيں کرنا چاہيے۔ ليکن اس دَور ميں جب کہ ہر قسم کے اعداد و شمار جمع ہو رہے ہيں اور کسي بھي چيز کا جائزہ لينا پہلے کي نسبت بہت آسان ہوچکا ہے، يہ جائزہ لينا ضروري ہے اس طرح اگر خوراک کو ضائع ہونے سے بچايا جائے تو اس کے کيا عالمي اثرات ہو سکتے ہيں؟ يا دوسري صورت ميں اگر خوراک کو ضائع ہونے ديا جائے تو اس کے دنيا پر کيا اثرات پڑ سکتے ہيں؟

پہلے يہ ديکھتے ہيں کہ مختلف مراحل ميں اندازاً ہر سال دنيا ميں کتني خوراک ضائع ہو جاتي ہے۔ خوراک کے عالمي ادارے FAO کے اندازے کے مطابق ہر سال دنيا ميں 1.3 ارب ٹن خوراک ضائع ہو جاتي ہے۔ اور اسے بچا کر استعمال ميں لانا ممکن ہے۔ اس کا مطلب يہ ہے کہ ہر سال دنيا بھر ميں جتني خوراک لوگوں کے پيٹ ميں جانے کي بجائے ضائع ہو جاتي ہے وہ دنيا بھر کي خوراک کي پيداوار کا ايک تہائي ہے۔ اس کي قيمت 2.6 کھرب امريکي ڈالر کے برابر ہے۔ يہ مقدار اتني ہے کہ دنيا بھر ميں جن لوگوں کو صحيح خوراک ميسر نہيں نہ صرف اِن لوگوں کو کھلانے کو کافي ہے بلکہ اگر ان سے چارگنا زيادہ تعداد ميں لوگ دنيا ميں بھوکے ہوں تو ان کا پيٹ بھرنے کے لئے بھي کافي ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اِ س وقت بھي دنيا ميں اتني خوراک پيدا ہو رہي ہے جو کہ دنيا ميں موجود آبادي کي ضرورت سے زيادہ ہے ليکن يہ خوراک اتني زيادہ مقدار ميں ضائع ہو جاتي ہے کہ دنيا ميں 81 کروڑ سے زائد افراد پوري طرح اپنا پيٹ نہيں بھر سکتے۔

يہ صورتِ حال واضح کرتي ہے کہ دنيا ميں ايک طبقہ خوراک ضائع کر رہا ہے اور دوسرا کم از کم مطلوبہ خوراک سے بھي محروم ہے۔ اس مسئلے کي اہميت کا اندازہ اس بات سے لگايا جا سکتا ہے کہ 2018ء ميں دنيا ميں پانچ سال سے کم عمر بچوں ميں 21.9 فيصد بچوں کا قد خوراک کي کمي کے باعث چھوٹا رہ گيا تھا۔جس کا مطلب يہ ہے کہ تقريباََ ڈيڑھ کروڑ بچوں کا قد عمر سے چھوٹا تھا۔اور 7.3 فيصد بچوں کا وزن قد کي نسبت سے کم تھا۔ دوسري انتہا يہ تھي کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں ميں سے 5.9 فيصد بچے موٹاپے کا شکار تھے۔ دنيا کے تين خطے ہيں جہاں پر خوراک کي کمي کي وجہ سے بچوں ميں چھوٹے قد کا مسئلہ زيادہ سنگين ہے اور يہ خطے جنوبي ايشيا، مشرقي افريقہ اور وسطي افريقہ ہيں۔ايسے پانچ بچوں ميں سے دو جنوبي ايشيا سے تعلق رکھتے ہيں۔

(Levels and trends in child malnutrition UNICEF / WHO / World Bank Group Joint Child Malnutrition Estimates 2019)

خوراک کي پيداوار کا بہت سا حصہ کھيتوں ميں جمع کرتے ہوئے يا خوارک کي ترسيل اور پيکنگ کے وقت ضائع ہوجاتا ہے۔ اور جو صنعت کھانے پينے کي اشياء کو کھانے والوں يعني صارف تک سپلائي کرتي ہے وہ بھي بڑي حد تک اس ضياع ميں حصہ دار ہے۔ کئي ممالک ميں تو اس ضمن ميں سائنسي خطوط پر اعداد و شمار جمع نہيں کئے گئے۔ مگرايک تحقيق کے مطابق سويڈن ميں فوڈ سروس انڈسٹري کھانے پينے کي جو اشياء خريدتي ہے اس ميں سے بيس فيصد ضائع کر ديا جاتا ہے۔ امريکہ ميں پرچون کي سطح پر کھانے پينے کي اشياء کا 19 فيصد ضائع جاتا ہے۔ کم وسائل والے ممالک بھي خوراک کے ضياع ميں امير ممالک سے کچھ زيادہ پيچھے نہيں ہيں۔ايک طرف دنيا کے کروڑوں افراد بھوکے ہوں اور دوسري طرف اس سنگدلي سے خوراک ضائع کي جا رہي ہو، يہ ايک الميہ نہيں تو کيا ہے؟

امريکہ ميں کينساس سٹيٹ يونيورسٹي نے اپنے طلباء ميں دو مرتبہ يہ جائزہ ليا کہ کتنے فيصد طلباء اپني ٹرے ميں کھانے کي اشياء چھوڑ ديتے ہيں؟ اس تحقيق سے معلوم ہوا کہ ناشتہ ميں 49 فيصد، دوپہر کے کھانے ميں 55 فيصد اور رات کے کھانے ميں35 فيصد طلباء کھانے کي اشياء مکمل طور پر کھائے بغير چھوڑ ديتے ہيں۔ اس تحقيق کے مطابق دنيا ميں باقي مراحل پر جو غذا ضائع جاتي ہے وہ تو ضائع جاتي ہے صرف پليٹوں کے اندر بھي 6 فيصد سے کچھ زائد خوراک ضائع ہو جاتي ہے۔ اور يہ ابھي سب سےکم اندازہ ہے دوسري تحقيقات کے مطابق يونيورسٹي کے کھانے کے مقام پر 11سے 30 فيصد خوراک پليٹوں ميں ضائع ہوجاتي ہے۔

(Quantifying Food Plate Waste: Case Study of a University Dining Facility by Ochieng’ Allan Alooh)

LUMS يونيورسٹي نے لاہور کے ريستورانوں ميں تحقيق کي کہ کتني خوراک ضائع کي جاتي ہے۔ اس تحقيق کے مطابق ان مقامات پر خوراک کي تين بڑي وجوہات ضرورت سے زيادہ کھانا تيار کرنا، کھانا کھانے والوں کا کھانے کو ضائع کرنا اور کھانے کا سڑ جانا ہيں۔ اس تحقيق کے مطابق جتنا مہنگا ريستوران ہو گا اتنا ہي يہ امکان زيادہ ہو گا کہ ضرورت سے زيادہ کھانا تيار ہونے کي وجہ سے رزق ضائع جاتا ہے۔ اور سستے ريستورانوں ميں زيادہ تر کھانا اس لئے ضائع ہو جاتا ہے کيونکہ کھانے والے پليٹوں ميں کھانا کھائے بغير چھوڑ ديتے ہيں۔

(Musa Aamir, Huzaifa Ahmad, Qasim Javaid & Syed M. Hasan (2018) Waste Not, Want Not: A Case Study on Food Waste in Restaurants of Lahore, Pakistan, Journal of Food Products Marketing, 24:5, 591-610, DOI: 10.1080/10454446. 2018.1472695)

اس مسئلہ پر دنيا بھر ميں تحقيق کي جا رہي ہے کہ خوراک کے اس ضياع پر کس طرح قابو پايا جائے؟ سب سے پہلے تو کھيتوں ميں اناج کے ضياع پر قابو پانا اور ترسيل کے دوران اور معيار برقرار رکھنے کے نام پر خوراک ضائع ہونے کو روکنا ضروري ہے۔ اس بات کي احتياط کرني ضروري ہے کہ ضرورت سے زيادہ کھانا نہ پکايا جائے۔جيسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمايا کہ دو افراد کا کھانا تين کے لئے اور تين کا چار کے لئے کافي ہوتا ہے۔

(صحيح بخاري۔ کتاب الاطعمہ، باب طعام الواحد يکفي الاثنين)

اور سب اپنے طور پر يہ مثبت قدم تو اُٹھا سکتے ہيں کہ اپني پليٹوں ميں ضرورت سے زائد کھانا ڈال کر ضائع نہ کريں۔ اب مختلف ممالک ميں اس بات کے انتظامات کئے جا رہے ہيں کہ گھروں ميں جو کھانا بچ جائے اور قابل استعمال ہو وہ فوري طور پر مستحقين تک پہنچايا جائے۔ اور جو کھانا پھر بھي بچ جائے وہ کم از کم کھاد بنا کر مفيد بنايا جائے۔

 

متعلقہ مضمون

  • محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

  • قرآنِ کریم اور کائنات

  • بھاگتے ذرّے اور سرن

  • عظیم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب اور سرن