(مکرم ہادی علی چوہدری صاحب، مربی سلسلہ
نائب امیر جماعت احمدیہ کینیڈا)

جہاں تک صفاتِ حسنہ کے اجتماع اور ان میں توازن کی خصوصیت کا تعلق ہے، حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
"جو خلیفہ مقرر کیا جاتا ہے اس میں دیکھا جاتا ہے کہ اس نے کل خیالات کو جمع کرنا ہے۔ اس کی مجموعی حیثیت کو دیکھا جاوے۔ ممکن ہے کسی ایک بات میں دوسرا شخص اس سے بڑھ کرہو۔ ایک مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر کے لئے صرف یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ پڑھاتا اچھا ہے کہ نہیں یا اعلیٰ ڈگری پاس ہے یا نہیں، ممکن ہے کہ اس کے ماتحت اس سے بھی اعلیٰ ڈگری یافتہ ہوں۔ اس نے انتظام کرنا ہے، افسروں سے معاملہ کرنا ہے، ماتحتوں سے سلوک کرنا ہے، یہ سب باتیں اس میں دیکھی جاویں گی۔ اسی طرح خدا کی طرف سے جو خلیفہ ہوگا اس کی مجموعی حیثیت کو دیکھا جاوے گا۔ خالد بن ولیدؓ جیسی تلوار کس نے چلائی؟ مگر خلیفہ ابوبکرؓ ہوئے۔ آج اگر کوئی کہتا ہے کہ یورپ میں میری قلم کی دھاک مچی ہوئی ہے تو وہ خلیفہ نہیں ہوسکتا۔ خلیفہ وہی ہے جسے خدا نے بنایا۔ خدا نے جس کو چن لیا اُس کو چن لیا۔ خالد بن ولیدؓ نے 60 آدمیوں کے ہمراہ 60ہزار آدمیوں پر فتح پائی۔ عمرؓ نے ایسا نہیں کیا۔ مگر خلیفہ عمر ہی ہوئے۔ حضرت عثمانؓ کے وقت میں بڑے جنگی سپہ سالار موجود تھے، ایک سے ایک بڑھ کر جنگی قابلیت رکھنے والا ان میں موجود تھا۔ سارے جہاں کو اس نے فتح کیا، مگر خلیفہ عثمانؓ ہی ہوئے۔ پھر کوئی تیز مزاج ہوتا ہے، کوئی نرم مزاج، کوئی متواضع، کوئی منکسرالمزاج ہوتے ہیں، ہر ایک کے ساتھ سلوک کرنا ہوتا ہے جس کو وہی سمجھتا ہے۔ جس کو معاملات پیش آتے ہیں”۔ (خطباتِ محمود جلد4 صفحہ72-73 بحوالہ خطباتِ مسرور جلد2 صفحہ346-345)
تائید و رضائے الٰہی
اس انتخاب الٰہیہ کا منطقی اور واقعاتی نتیجہ ہے کہ خداتعالیٰ اپنے اس انتخاب کو تنہا نہیں رہنے دیتا۔ وہ اس کے ساتھ ہوتا ہے اور علیٰ منہاجِ النبوۃ اس کی تائید و نصرت فرماتا ہے۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا امتیازی سلوک ہوتا ہے جس کا اعلان وہ ان الفاظ میں فرماتا ہے کہ
اِنَّا لَنَنۡصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَیَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡاَشۡہَادُ۔
(المومن:52)
ترجمہ: یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور اُن کی جو ایمان لائے اِس دنیا کی زندگی میں بھی مدد کریں گے اور اُس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں:
"خدا جسے خلیفہ مقرر کرتا ہے اسے اپنی جناب سے مؤیّد و منصور کرتا ہے”۔ (درس القرآن صفحہ572)
خلیفۂ راشد رسول تو نہیں، مگر خداتعالیٰ چونکہ اسے ظلّی طور پر انوار و برکاتِ رسالت سے مزیّن کرتا ہے اور اسے نبوّت کے کمالات کا مظہر بناتا ہے۔ اس لئے اس کے ساتھ بھی خداتعالیٰ کا وہی سلوک ہوتا ہے جس کا وعدہ وہ اپنے نبی کے ساتھ کرتاہے۔ یہی خلافت علیٰ منہاج النبوہ ہے اوریہ وہ معیار اور کسوٹی ہے جو خداتعالیٰ کے قائم کردہ خلیفہ کو خالصۃً خداتعالیٰ کا انتخاب ثابت کرتی ہے۔ نبوّت کے ساتھ کئے گئے اس وعدہ کو خداتعالیٰ اس طرح پورا فرماتا ہے کہ اپنے قائم کردہ خلیفہ کی نبوّت کے اظلال کے طور پرخود تائید و نصرت فرماتا ہے۔ نہ صرف اس خلیفہ پر بلکہ وہ اس پر ایمان رکھنے والے مومنوں پر بھی اپنی تائید و نصرت کا سائبان تان دیتا ہے۔ یہ ایک ایسی الگ اور نمایاں شان ہے جو صرف اور صرف خداتعالیٰ کے قائم کردہ خلیفہ کو عطا ہوتی ہے۔ اس بناء پر ایسا انتخاب خداتعالیٰ کا انتخاب قرارپاتا ہے۔ اور حتمی طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔
اس الٰہی انتخاب کی ایک مثال حضرت علیؓ نے بھی فراہم فرمائی۔ آپؓ نے امیر معاویہؓ کو اپنی خلافت کی دلیل دیتے ہوئے لکھا:
اِنَّہٗ بَایَعَنِی القَومُ الَّذِینَ بَایَعُوا اَبَابَکرٍ وَ عُمَرَ وَعُثمَانَ عَلَی مَا بَایَعُوھُم عَلَیہِ کہ میری بیعت ان لوگوں نے کی ہے جنہوں نے ابوبکرؓ، عمرؓ اور عثمانؓ کی بیعت کی تھی اور انہی بنیادوں اور اصولوں پر کی ہے جن پر ان تینوں کی بیعت کی تھی۔ اور آگے فرمایا:
فَاِنِ اجتَمَعُوا عَلیٰ رَجُلٍ وَّسَمُّوہُ اِمَامًا کَانَ ذٰلِکَ لِلہِ رِضًی کہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر کسی ایک شخص کے ہاتھ پر جمع ہوجاتے ہیں اور اسے اپنا امام تسلیم کرلیتے ہیں تو خدا کی رضا اُس (امام) کے شاملِ حال ہوجاتی ہے۔ (نہج البلاغہ مشہدی صفحہ188 من کتابٍ لہٗ اِلیٰ معاویہ و نہج البلاغہ جلد2 صفحہ7 مطبوعہ مصر)
یعنی یہ ایسے لوگ ہیں جو ایمان، اعمالِ صالحہ اور اپنے تقوٰی و طہارت کے لحاظ سے اس معیار پر قائم ہیں کہ خداتعالیٰ کی مرضی، خداتعالیٰ کی رضا اور خداتعالیٰ کی تائیدو نصرت کا وعدہ ان میں پورا ہوتا ہے۔ خداتعالیٰ کی یہ رضا اس کی طرف سے ان کے انتخاب کی تصدیق ہے۔ ان کے چُنے ہوئے امام کے ساتھ خداتعالیٰ کی مرضی اور اس کی رضا شاملِ حال ہو جاتی ہے۔
رضا ئے الٰہی وہ امتیازی نشان ہے جسے کوئی شخص اپنی کوشش سے حاصل نہیں کر سکتا۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر وہ تائید و نصرت الٰہی ہے جو خداتعالیٰ اپنے قائم کردہ خلیفہ کو عطا کرتا ہے۔ یہ وہ موہبت ہے جو خاص طور پر نبوّت کے ساتھ مخصوص ہے۔ خلیفہ ٔراشد چونکہ ظلّی طور پر انوارِ رسالت اور برکاتِ نبوّت کا حامل ہوتا ہے۔ اس لئے اس کے شاملِ حال بھی اللہ تعالیٰ کے وہی وعدے ہوتے ہیں جو اِن آیات میں بیان فرمائے گئے ہیں کہ
کَتَبَ اللہُ لَاَغلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِی (المجادلہ:22) کہ اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ ضرور میں اور میرے رسول غالب آئیں گے۔ اور اِنَّالَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِینَ اٰمَنُوا…. (المومن:52) کہ ہم اپنے رسولوں کی اور ان کی جو ایمان لائے، اس دنیا کی زندگی میں بھی مدد کریں گے اور اس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے۔
دراصل یہی وہ امتیازات ہیں جوخلیفۂ راشد کو ہر دوسرے صاحبِ منصب اور صاحبِ صفات شخص سے ممتاز کرتے ہیں اور واضح کرتے ہیں کہ خلیفہ خدا بناتاہے۔ یہ امتیازی نشان کسی ایسے شخص کو نصیب نہیں ہوتے، جسے خداتعالیٰ قائم نہیں کرتا خواہ اسے دنیا کی تمام طاقتیں مل کر بھی خلیفہ قرار دے دیں۔ جس کے ساتھ خداتعالیٰ کی اپنی رضا نہ ہو وہ ان لوگوں کے مقرر کردہ ایسے فرد کی تائید کرنے کاکس طرح پابند ہوسکتا ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"سارا عالَمِ اسلام مل کر زور لگا لے اور خلیفہ بنا کر دکھا دے۔ وہ نہیں بنا سکتے کیونکہ خلیفہ کا تعلق خدا کی پسند سے ہے”۔ (الفضل انٹرنیشنل 2 اپریل 1993ء)
اظہارِ تقدیر
خداتعالیٰ خود خلیفہ بناتا ہے، اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ خداتعالیٰ جس شخص کا برائے خلیفہ انتخاب کرتا ہے، وہ اس کے بارہ میں دنیا میں کئی طریق پر اپنی اس تقدیر کا قبل از وقت اظہار بھی کر دیتا ہے۔ پھراس کی اس تقدیر کے آگے کوئی روک نہیں بن سکتا۔ جیسا کہ حضرت ابوبکرؓ کے بارہ میں آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا کہ آپؐ کا خیال تھا کہ ان کے بارہ میں وصیّت لکھ دیتے مگر اس لئے نہیں لکھی کہ ان کے علاوہ اگربعض لوگ کسی اور کو منتخب کرنا بھی چاہیں گے تو خداتعالیٰ بھی ان کے اس انتخاب کا انکار کر دے گا اور مومن بھی اس کا انکار کر دیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ پر جس تقدیر کو کھولا تھا وہ بالآخر اسی طرح نافذہو کر رہی۔ اسی طریق پر اللہ تعالیٰ اپنے ہونے والے دیگر خلفاء کے بارہ میں پہلے سے ہی لوگوں کو کئی طریق سے آگا ہ کر دیتا ہے۔
اِس دَور میں جماعت احمدیہ نے خداتعالیٰ کی اس تقدیر کے بکثرت ایسے جلوے دیکھے ہیں کہ آئندہ ہونے والے خلیفہ کے بارہ میں اس نے کئی لوگوں کو رؤیا و کشوف کے ذریعہ مطلع فرمایا۔ اس کے علاوہ اس کی ایک غیر معمولی تجلّی یہ بھی ہے کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے اپنے بعد قائم ہونے والے خلیفہ کا گو اپنی زندگی کے آخری دَور میں نام بھی تحریر کردیا تھا مگر ایک عرصہ پہلے ایک عجیب طرز پر نشاندہی بھی فرمائی تھی۔ جس کو لازماً اس دَور کے اصحابِ بصیرت تو واضح طور پر سمجھ گئے تھے مگرجن کے لئے ابتلا مقدّر تھا وہ اپنے ابتلا میں سرگرداں رہے اور اس "خاص مصلحت اور خالص بھلائی” سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ وہ واقعہ اس طرح سے ہے کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے 14جنوری 1910ء کو اپنے خطبۂ جمعہ میں تصوّف کے مضمون کو بیان فرمایا۔ اس کے بالکل آخر میں حسب ذیل بات کہہ کے خطبہ ختم فرما دیا کہ
"ایک نکتہ قابلِ یاد سنائے دیتا ہوں کہ جس کے اظہار سے میں باوجود کوشش کے رُک نہیں سکا۔ وہ یہ کہ میں نے حضرت خواجہ سلیمان رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا ہے۔ ان کو قرآنِ شریف سے بڑا تعلق تھا۔ ان کے ساتھ مجھے بہت محبّت ہے۔ 78 برس تک انہوں نے خلافت کی۔ 22 برس کی عمر میں وہ خلیفہ ہوئے تھے۔ یہ بات یاد رکھو کہ مَیں نے کسی خاص مصلحت اور خالص بھلائی کے لئے کہی ہے”۔ (خطباتِ نور صفحہ453 مطبوعہ نظارت اشاعت قادیان ایڈیشن2003ء)
اس میں "خاص مصلحت اور خالص بھلائی” کیا تھی؟ غور فرمائیں۔
1: حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدّین محمود احمدؓ کو قرآنِ شریف سے بڑا تعلق تھا۔
2: خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کو آپؓ سے محبّت بھی بہت تھی۔ آپؓ کی ولادت با سعادت 12جنوری 1889ء کو ہوئی۔
3: جنوری 1910ء میں اس خطبہ کے وقت آپؓ کی عمر عین22 سال تھی۔ لہٰذا حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کا اپنے خطبہ میں حضرت خواجہ سلیمانؒ کی 22 سال کی عمر کا ذکر کرنا ایک واضح اشارہ تھا۔
4: پھر 78 برس تک ان کاخلافت کرنا، ایک حیرت انگیز اظہار تھا جو سوائے خاص مصلحتِ الٰہی اور علمِ الٰہی کے ممکن نہ تھا۔ کیونکہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدّین محمود احمد خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے بھی اتنی ہی عمر تک خلافت کی۔ آپؓ کی عمر شمسی لحاظ سے 76سال 8ماہ اور 27 دن تھی جبکہ قمری اعتبار سے 78 سال بنتی تھی۔ یہ ایسی بات تھی جو حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے 1910ء میں کہی مگر آگے جا کر خداتعالیٰ نے اسے 1965ء تک حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کو 78 سال عمر دے کر یہ پیش خبری قطعی طور پر پوری تفصیلات کے ساتھ ظاہراور ثابت فرمائی۔ پس یہ صرف اور صرف خداتعالیٰ کا کام ہے کہ جسے وہ چاہتا ہے اپنا خلیفہ بناتا ہے اور اس نے جس کو خلیفہ قائم کرنا ہوتا ہے، اس کی خوشبو خاص مصلحت اور خالص بھلائی کے لئے چار سو بکھیر دیتا ہے۔
"خلیفہ خداتعالیٰ بناتا ہے” ایک لطیف تمثیل
حضرت مسیحِ موعود نے اس بحث کوایک لطیف مثال کے ساتھ واضح فرمایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:
"لکھا ہے کہ ایک بزرگ جب فوت ہوئے تو انہوں نے کہا کہ جب تم مجھے دفن کر چکو تو وہاں ایک سبزچڑیا آئے گی۔ جس کے سر پر وہ چڑیا بیٹھے، وہی میرا خلیفہ ہوگا۔ جب وہ اس کو دفن کر چکے تو اس انتظار میں بیٹھے کہ وہ چڑیا کب آتی ہے اور کس کے سر پر بیٹھتی ہے؟ بڑے بڑے پرانے مرید جو تھے ان کے دل میں خیال گزرا کہ چڑیا ہمارے سر پر بیٹھے گی۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک چڑیا ظاہر ہوئی اور وہ ایک بقّال (سبزی فروش۔ناقل) کے سر پر آ بیٹھی جو اتّفاق سے شریک جنازہ ہو گیا تھا۔ تب وہ سب حیران ہوئے لیکن اپنے مرشد کے قول کے مطابق اس کو لے گئے اور اس کو اپنے پیر کا خلیفہ بنایا”۔
(ملفوظات جلد8 صفحہ407)
حضرت مسیح موعود کی پیش فرمودہ یہ مثال خداتعالیٰ کی خلافت کے قیام کے بارہ میں غیرمعمولی عرفان کے دروازے کھولتی ہے۔ یہ خداتعالیٰ کا انتخاب ہے جو ایک سبز چڑیا کی مثال میں ظاہر کیا گیا ہے۔ یہ چڑیا صرف اس شخص کے سر پر بیٹھتی ہے جو خداتعالیٰ کے نزدیک اس منصب کا اہل ہوتا ہے۔ ایسے موقعوں پر بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ بعض لوگ خود کو اس منصب کا اہل سمجھ رہے ہوتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ ان کے سوا اس جماعت کو چلانے والا کوئی نہیں ہے۔ یہ لوگ دراصل خلافت کے بارہ میں ایمان کی بنیادی کڑی کوچھوڑ رہے ہوتے ہیں اور سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ خداتعالیٰ خلیفہ نہیں بناتا بلکہ وہ خود بہتر سمجھتے ہیں کہ خلیفہ کون ہو یا اسے کیسا ہونا چاہئے۔ اسی طرح بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ اپنے خیال، علم اور معلومات کے مطابق کسی اور کو اس کا اہل سمجھ رہے ہوتے ہیں اور ان کی نظریں اس پر لگی ہوتی ہیں۔ وہ اپنے دل کی عقیدت و وفا کو اس کے ساتھ وابستہ کر رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں قسم کے لوگوں کی مرضی پر اپنی مرضی کو نافذ کرتا ہے۔ کیونکہ اس کے نزدیک اس منصب کا اہل کوئی اور ہوتا ہے۔ چونکہ یہ خلافت خداتعالیٰ کی خلافت ہے،اس لئے اس کا قیام خداتعالیٰ خود اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے اور لوگوں کے خیالات کے برعکس اس "چڑیا” کو اس شخص کے سر پر بیٹھنے کا حکم دیتا ہے جو اس کے نزدیک خلافت کے منصب کا حقیقی اہل ہوتاہے۔ چنانچہ اُس جماعت کے بعض لوگوں کے علَی الرّغم وہ "چڑیا” اُس شخص کے سر پر بیٹھ جاتی ہے جو دراصل خداتعالیٰ کا چنا ہوا خاص شخص اور خلیفہ ہوتا ہے۔ جس کے دل میں وہ حق ڈالتا ہے۔
اس تمثیل کے عملی نظارے
یہ "سبز چڑیا” کیا ہے؟ یہ دراصل خداتعالیٰ کی مرضی ہے جو انتخاب کرنے والے افراد کے دلوں پر بیٹھتی ہے اور انہیں اس شخص کی طرف مائل کر تی ہے۔ وہ ان کے سروں پر بیٹھتی ہے اور صرف ان کی عقلوں ہی کو قائل نہیں کرتی بلکہ ان کے دلوں کوبھی مائل کرتی ہے کہ وہ خداتعالیٰ کے ارادہ سے ہم آہنگ اپنا ہاتھ اس شخص کے لئے کھڑا کریں جس کو خداتعالیٰ خود قائم کرنا چاہتاہے۔ اس قانونِ الٰہی کو سمجھاتے ہوئے ہمارے آقا و مولیٰ، سیّدالانبیاء حضرت محمد مصطفیﷺ بیان فرماتے ہیں:
"لَقَد ھَمَمتُ أَو أَرَدتُ أَن أُرسِلَ اِلٰی أَبِی بَکرٍ وَ ابنِہِ وَ أَعھَدَ أَن یَّقُولَ القَآئلُونَ أَو یَتَمَنَّی المُتَمَنُّونَ ثُمَّ قُلتُ یَأبَی اللہُ وَ یَدفَعُ المُؤمِنُونَ”
(بخاری کتاب المرضیٰ باب قول المریض انّی وجع وا رأساہ)
کہ مَیں نے ایک دفعہ ارادہ کیا تھا کہ ابوبکرؓ اور آپؓ کے بیٹے کو بلاؤں اور خلافت کی وصیّت لکھ دوں تاکہ باتیں بنانے والے باتیں نہ بنا سکیں اور اس کی تمنّا کرنے والے اس کی خواہش نہ کریں۔ پھر میں نے کہاکہ اللہ تعالیٰ لازماً (ابوبکرؓ کے علاوہ کسی بھی دوسرے کا) انکار کر دے گا اور مومن بھی اسے ضرور ردّ کر دیں گے۔
آنحضرتﷺ کا یہ قول اس قانونِ خدا وندی اور عقیدہ اسلام کا روشن ترین اظہار ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔ یہ "چڑیا” اسی کے سر پر بیٹھتی ہے جس پر بیٹھنے کا خد اتعالیٰ اسے حکم دیتا ہے۔ آنحضرتﷺ کے بعداسی مرضی ٔ خدا کے مطابق حضرت ابوبکرؓ بھی خلیفہ بنے اور آپؓ کے بعد دیگر خلفاءؓ بھی۔ پھر دَورِ آخرین میں حضرت مسیح موعود کی جماعت میں خلافت علیٰ منہاج النبوّۃ قائم ہوئی تو ہر خلیفہ کا انتخاب اسی قانون خداوندی کے مطابق عمل میں آیا۔
دَورِ آخرین میں اس کی ایک غیرمعمولی مثال جو اس قانونِ الٰہی کوعملی رنگ میں روشن کرتی ہے، یہ ہے کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی وفات کے بعدجماعت میں سب سے بڑا سوال خلیفۂ ثانی کے انتخاب کا تھا۔ اس وقت یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ مولوی محمد علی صاحب (جو بعد میں لاہوری جماعت کے امیر بنے) یہ کوشش کر نے لگے کہ فی الحال جماعت کسی ایک خلیفہ کے ہاتھ پر جمع نہ ہوبلکہ کچھ عرصہ انتظار کرلیا جائے اور جب جماعت اچھی طرح سوچ لے تو پھر اس بارہ میں کوئی اقدام کیا جائے۔ اس بارہ میں وہ اپنے بعض ساتھیوں کے ہمراہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی علالت کے ایّام میں ہی تگ ودَو کرتے رہے تھے اور حضرت مسیح موعود کی قائم کردہ صدرانجمن احمدیہ کے سیکرٹری ہونے کی وجہ سے انجمن کو جماعت کا نگران بنانے کی کوشش میں تھے۔ چونکہ وہ صدر انجمن کے سیکرٹری تھے اس لئے ظاہر تھا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی وفات کے بعد وہ خود ہی جماعت کے نگران متصور ہوں گے۔ یعنی حضرت مسیح موعود کی بیان فرمودہ تمثیل کے آئینہ میں "بڑے بڑے پرانے مرید جو تھے ان کے دل میں خیال گزرا کہ چڑیا ہمارے سر پر بیٹھے گی”۔ لیکن حالات ایسے ہوگئے تھے کہ انہیں یقین ہو چکا تھا کہ اگر یہ فیصلہ اب ہوا تو یہ چڑیا ان کے سر پر نہیں بیٹھے گی۔ اس لئے انہوں نے یہ ترکیب سوچی کہ خلیفہ کے انتخاب کو معرضِ تاخیر میں ڈال کر کسی طرح "چڑیا” کو قابو کرنا چاہئے۔ مگر یہ حقیقت ان سے اوجھل رہی کہ خداتعالیٰ کے کاموں پر کسی کو اختیار نہیں ہو سکتا۔ اس کی مرضی کو کوئی قابو نہیں کرسکتا۔ چنانچہ اکابر صحابہؓ، حضرت مسیح موعود کے اہلِ بیت اور جماعت کی اکثریت، سب اس عقیدہ کے حامل تھے کہ جلد از جلد خلیفہ کا انتخاب ہو اور سنّت کے مطابق خداتعالیٰ کا قائم کردہ خلیفہ ہی حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی نماز جنازہ پڑھائے اور جماعت دوبارہ اسلام کے قانون کے مطابق ایک ہاتھ پر جمع ہو۔ اس ماحول اور ان واقعات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ بیان فرماتے ہیں:
"ظہر کے بعد میں نے اپنے تمام رشتہ داروں کو جمع کیا اور ان سے اختلاف کے متعلق مشورہ طلب کیا۔ بعض نے رائے دی کہ جن عقائد کو ہم حق سمجھتے ہیں، ان کی اشاعت کے لئے ہمیں پوری طرح کوشش کرنی چاہئے۔ اور ضرور ہے کہ ایسا آدمی خلیفہ ہو جس سے ہمارے عقائد متفق ہوں۔ مگر میں نے سب کو سمجھایا کہ اصل بات جس کا اس وقت ہمیں خیال کرنا چاہئے وہ اتفاق ہے۔ خلیفہ کا ہونا ہمارے نزدیک مذہباً ضروری ہے۔ پس اگر وہ لوگ اس امر کو تسلیم کرلیں تو پھر مناسب یہی ہے کہ اوّل تو عام رائے لی جاوے۔
اگر اس سے وہ اختلاف کریں تو کسی ایسے آدمی پر اتفاق کرلیا جائے جو دونوں فریق کے نزدیک بےتعلق ہو۔
اور اگریہ بھی قبول نہ کریں تو ان لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کرلی جاوے اور میرے اصرار پر حضرت مسیح موعود کے تمام اہلِ بیت نے اس بات کو تسلیم کرلیا۔ یہ فیصلہ کرکے میں اپنے ذہن میں خوش تھا کہ اب اختلاف سے جماعت محفوظ رہے گی۔ مگر خداتعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا…”
"مَیں باہر آیا تو مولوی محمد علی صاحب کا رقعہ مجھے ملا کہ کل والی گفتگو کے متعلق ہم پھر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ مَیں نے اُن کو بلوا لیا۔ اس و قت میرے پاس مولوی سیّد محمد احسن صاحب، خان محمد علی صاحب اور ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدّین صاحب موجود تھے۔ مولوی صاحب بھی اپنے بعض احباب سمیت وہاں آگئے اورپھر کل کی بات شروع ہوئی۔ مَیں نے پھر اس امر پر زور دیا کہ خلافت کے متعلق آپ بحث نہ کریں۔ صرف اس امر پر گفتگو ہو کہ خلیفہ کون ہو۔ اور وہ اس بات پر مصر تھے کہ نہیں۔ ابھی کچھ بھی نہ ہو۔ کچھ عرصہ تک انتظار کیا جاوے۔ سب جماعت غور کرے کہ کیا کرنا چاہئے۔ پھر جو متفقہ فیصلہ ہو اس پر عمل کیا جاوے۔ میرا جواب وہی کل والا تھا اور پھرمَیں نے ان کو یہ بھی کہا کہ اگر پھر بھی اختلاف ہی رہے تو کیا ہوگا۔ اگر کثرت رائے سے فیصلہ ہونا ہے تو ابھی کیوں کثرت رائے پر فیصلہ نہ ہو۔……….. اس وقت جماعت کو تفرقہ سے بچانے کی فکر ہونی چاہئے۔ جب سلسلہ گفتگو کسی طرح ختم ہوتا نظر نہ آیا اور باہر بہت شور ہونے لگا اور جماعت کے حاضرالوقت اصحاب اس قدر جوش میں آگئے کہ دروازہ توڑے جانے کا خطرہ ہوگیا اور لوگوں نے زور دیا کہ اب ہم زیادہ صبر نہیں کرسکتے۔ آپ لوگ کسی امر کو طے نہیں کرتے اور جماعت اس وقت بغیر کسی رئیس کے ہے۔ تو مَیں نے مولوی محمد علی صاحب سے کہاکہ بہتر ہے کہ باہر چل کرجو لوگ موجود ہیں ان سے مشورہ لے لیا جائے۔ اس پر مولوی محمد علی صاحب کے منہ سے بےاختیار نکل گیا کہ آپ یہ بات اس لئے کہتے ہیں کہ آپ جانتے ہیں کہ وہ لوگ کسے منتخب کریں گے۔
اس پر مَیں نے ان سے کہا کہ نہیں میں تو فیصلہ کرچکا ہوں کہ آپ لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کرلوں۔ مگر اس پر بھی انہوں نے یہی جواب دیا کہ نہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ان لوگوں کی کیا رائے ہے یعنی وہ آپ کو خلیفہ مقرر کریں گے۔ اس پر میں اتفاق سے مایوس ہوگیا اور میں نے سمجھ لیا کہ خداتعالیٰ کا منشا کچھ اور ہے۔ کیونکہ باوجود اس فیصلہ کے جو میں اپنے دل میں کرچکا تھا میں نے دیکھا کہ یہ لوگ صلح کی طرف نہیں آتے اور مولوی محمد علی صاحب کی مخالفت خلافت سے بوجہ خلافت کے نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ ان کے خیال میں جماعت کے لوگ کسی اور کو خلیفہ بنانے پر آمادہ تھے”۔ (حیاتِ نور صفحہ728 تا 730 مطبوعہ1963ء پنجاب پریس وطن بلڈنگ لاہور)
یہ واقعہ تاریخ اسلام کا ایک اہم ترین واقعہ ہے جو واقعاتی لحاظ سے ایک ناقابلِ تردید اور قطعی ثبوت مہیّا کرتا ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔
حضرت مصلح موعود نے اس واقعہ کی تفصیل "خلافتِ راشدہ” (انوارالعلوم جلد15 صفحہ497تا 501) میں اور اپنی تصنیف "اختلافاتِ سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات” (صفحہ122 تا 124 مطبوعہ الشرکۃ الاسلامیہ ربوہ) اور اپنے درس القرآن میں بھی بیان فرمائی ہے۔
مولوی محمد علی صاحب جو حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی زندگی میں ہی جماعت کے انتظام و انصرام اوراختیار و اقتدار کو اپنے ہاتھ میں لینے کی سر توڑ کوشش کرتے رہے تھے اور ایک مہم کے طور پر اپنے اخبار "پیغام” کے ذریعہ اور اشتہارات اور ٹریکٹوں کی اشاعت کے ساتھ مسلسل جدّوجہد میں تھے کہ کسی طرح خلیفۂ وقت انجمن کے تحت ہو جائے۔ یعنی وہ ان کے دفتر کے ماتحت ہو اور اصل اقتدار انجمن کایعنی ان کا اپنا ہو۔ اسی کے لئے وہ خلافتِ ثانیہ کے انتخاب میں تاخیر کے لئے کوشاں تھے تاکہ جماعت کچھ عرصہ تک انجمن کے انتظام کے تحت رہنے کی عادی ہو جائے گی تو پھر خلیفہ کے انتخاب کی ضرورت نہ رہے گی۔ لہٰذا جماعت پران کا اقتدار قائم ہو جائے گا۔ لیکن خداتعالیٰ کی غالب تقدیر کے تحت یہ ہوا کہ عین اس وقت جب حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب (خلیفۃالمسیح الثانیؓ) ان کو خلیفہ بن جانے اور خود ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی پیشکش کرتے ہیں تو وہی مولوی محمد علی صاحب اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں۔ حالانکہ یہی اُن کے لئے نادر موقع تھا کہ اگر وہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی اس پیشکش کو قبول کرلیتے تو انہیں ان کے خوابوں کی تعبیراور جدّوجہد کی منزل مل جاتی اور وہ جماعت احمدیہ کے امام بن جاتے۔ لیکن ایک حتمی اور فیصلہ کن گھڑی میں مولوی محمد علی صاحب کا جماعت کا امام بننے سے پہلو تہی کر جانا خداتعالیٰ کے اس تصرّف کی پختہ ترین دلیل ہے کہ خداتعالیٰ جس کو چاہتا ہے خود خلیفہ بناتا ہے۔ اور وہ "سبز چڑیا” اسی کے سر پر بیٹھتی ہے جس پر بیٹھنے کا اسے اذن ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جسے اللہ تعالیٰ اس کا اہل نہیں سمجھتا، لوگ سرتوڑ کوشش بھی کریں تو بھی سرِلب لائے ہوئے پیالہ کواس کے منہ سے نہیں لگا سکتے۔

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • اسلام و قرآن نمائش

  • تائیوان انٹرنیشنل کتب میلہ

  • احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے