قسط چہارم، آخری

تقریر جلسہ سالانہ جرمنی 2023ء
مولانا عبدالسمیع خان صاحب، استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا

ایک بار حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے اپنے بعض خدام کو یہ کام سپرد فرمایا کہ وہ قرآنِ مجید کے اسماء افعال اور حروف کی فہرستیں تیار کریں۔ اس طریق سے خدام میں قرآنِ مجیدکی خدمت اور اس پر غوروفکر کی عادت پیدا کرنا مقصود تھا۔ مولوی ارجمند خان صاحب کا بیان ہے کہ اس تحریک کے سلسلہ میں میرے حصہ میں اٹھارہواں پارہ آیا جو میں نے پیش کر دیا۔ ایک بار آپ نے 12 دوستوں کو تحریک فرمائی کہ اڑھائی اڑھائی پارے یاد کرلیں۔ اس طرح سب مل کر حافظ قرآن بن جائیں۔

(تشحیذالاذہان مارچ 1912ء جلد7 صفحہ101)

حضور نے تحریک جدید کے چندوں میں اضافہ کی تحریک فرمائی تو ایک احمدی نے حضور کی خدمت میں لکھا کہ میں بےکار تھا۔ اور اپنے اہل و عیال کو چار ماہ سے متواتر کچھ نہیں بھیجا تھا۔ ان کے لئے چھ روپے جمع کئے تھے۔ مگر جب میں انہیں گھر روانہ کرنے والا تھا۔ آپ کاپیغام ملا۔ چھ روپے وہ اور چار روپے ایک دوست سے قرض لے کر دو سالوں کا چندہ بھیجنے کی نیّت کی۔ لیکن اضافہ کرنے کے لئے دس آنہ کی ضرورت تھی۔ ایک دوست کو اپنی دو چارپائیاں بنوانے کی ضرورت تھی۔ مَیں نے کہا مَیں بُن دوں گا۔ آپ اتنی اُجرت مجھے دے دیں۔ پس میں نے وہ دو چارپائیاں بُن کر آٹھ آنے حاصل کئے اور دو آنہ کا اور اضافہ کرکے دس روپے دس آنے بھیج رہا ہوں، الحمدللہ۔ (الفضل 5 اگست 1939ء صفحہ 2)

حضور نے عورتوں کو تحریک کی کہ وہ چندوں کی وصولی میں مدد کریں۔ اس پر ایک جماعت کے دوستوں نے جاکر ایک سست دوست کی بیوی سے کہا کہ اس کام میں آپ ہماری مدد کریں۔ اس دوست نے جب تنخواہ لاکر بیوی کو دی تو اس نے پوچھا کہ آپ چندہ دے آئے ہیں۔ اس نے جواب دیا کہ نہیں چندہ تو نہیں دیا سیکرٹری ملا نہیں تھا۔ پھر دے دوں گا۔ مگر بیوی نے کہا کہ مَیں تو ایسے مال کو ہاتھ لگانے کو تیار نہیں ہوں۔ جس میں سے خداتعالیٰ کا حق ادا نہ کیا گیا ہو۔ مَیں تو نہ اس سے کھانا پکاؤں گی اور نہ کسی اور کام میں صَرف کروں گی۔ مرد نے کہا چندہ میں صبح دے دوں گا۔ اس وقت دیر ہوچکی ہے رکھو۔ مگر بیوی نے کہا کہ پہلے چندہ ادا کر آؤ۔ پھر میں ہاتھ لگاؤں گی۔ اس پر وہ شخص اسی وقت سیکرٹری مال کے پاس گیا اور ادائیگی کی اور کہا کہ آئندہ تنخواہ کے ملنے کے دن ہی مجھ سے چندہ لے لیا کرو تا گھر میں جھگڑا نہ ہو۔

(الفضل 12 مئی 1939ء)

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں۔ جب میں امریکہ میں تھا مجھے کوئی تکلیف مثلاً علالت یا دعوت الیٰ اللہ امور میں کچھ مشکلات پیش آتیں۔ تو میری عادت تھی کہ میں فوراً حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت میں دعا کے لئے خط لکھتا تھا مَیں جانتا تھا کہ امریکہ سے ہندوستان خط ایک ماہ میں پہنچتا ہے اور معاملہ بیماری کا یا کوئی دوسرا امر ایسا ہوتا تھا کہ اس کا علاج فوری ہونا چاہئے۔ لیکن ساتھ ہی مجھے یہ خیال ہوتا کہ جس مالک کے حضور میں حضرت نے میرے لئے دعا کرنی ہے۔ وہ تو عالم الغیب ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ مَیں آج دعا کے واسطے خط لکھ رہا ہوں اور وہ یہ بھی پہلے سے جانتا ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ میرے لئے دعا کریں گے پس وہ قادر ہے کہ جو دعا آج سے ایک ماہ بعد ہونے والی ہے۔ اس کے واسطے قبولیت کے سامان آج ہی کردے۔ مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ مبلغین کے وفد کے ساتھ 1946ء میں لندن پہنچے۔ اس وقت لندن مشن کی صورت حال انہوں نے ایک انٹرویو میں بیان کی جس کا کچھ حصہ احباب کی خدمت میں پیش ہے۔ فرماتے ہیں:

حضرت صاحب نے ہمیں تقسیم ہند کے بعدلکھا کہ ملک تقسیم ہوگیا ہے ہم لاہور آگئے ہیں اس لئے میں اب ان تمام مبلغین کو جنہو ں نے وقف کیا ہوا ہے وقف سے آزاد کرتا ہوں جو آزاد ہونا چاہتا ہے ہو جائے جب حالات بہتر ہوں گے میں تنکا تنکا اکٹھا کرکے گھونسلہ بنا لوں گا اور آپ کو بلا لوں گا۔ کرم الٰہی ظفر صاحب نے لکھا کہ مجھے الاؤنس نہ دیں مجھے رہنے کی اجازت دیں مَیں اپنے طور پر تبلیغ کرتا ہوں۔ وہ پرفیوم بیچا کرتے تھے اس لئے وہ سپین میں رہ گئے۔ عطاءالرحمان صاحب نے کہا کہ مجھے فارغ نہ کریں مجھے رہنے دیں وہ فرانس میں تھے۔ تیسرا میں تھا…۔ یہ جو وقت تھا مالی تنگی کا یہ تین چار ماہ رہا اس کے بعد پھر حضرت صاحب نے پیسے بھجوانے کا انتظام کر دیا تھا۔

نگار صبح کی امید میں پگھلتے ہوئے

چراغ خود کو نہیں دیکھتا ہے جلتے ہوئے

وہ آرہے ہیں زمانے کہ تم بھی دیکھو گے

خدا کے ہاتھ سے انسان کو بدلتے ہوئے

1934ء میں خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے تحریک جدید کے آغاز پر واقفین زندگی کا مطالبہ کیا جس پر بیسیوں احباب نے لبیک کہا اور اموال پیش کر دیئے دنیا بھر میں تبلیغ کی ایک مربوط اور منظّم سکیم کا آغاز ہوا۔ اسلام کی اشاعت کے لئے سابقہ بزرگوں نے بہت محنت کی ہے مگر اسلام کی 1400 سالہ تاریخ میں تبلیغ اسلام کا یہ سب سے بڑا اور مربوط اور منظّم منصوبہ ہے جو خلافت اور جماعت کے تعلق کی زندہ داستان ہے جماعت نے اپنے جگر گوشے پیش کر دئیے اور خلافت نے ان کو سینے سے لگا لیا۔ 80 ہزار تو صرف واقفین نَو ہیں۔ جماعت نے اپنے اموال پیش کر دئیے تو خلافت قائم کرنے والے خدا نے ہزاروں گنا بڑھا کر لَوٹا دئیے جن کے نظارے اس جلسہ پر بھی نظر آ رہے ہیں۔

ایک صاحب 1934ء میں احمدی ہوئے اور اسی وقت تحریک جدید کے مالی جہاد میں شامل ہوگئے ایک عرصہ بعد انہوں نے اپنی آمد کا اندازہ کرکے 2034ء تک 100 سال کا چندہ ادا کر دیا جب کہ ان کی وفات 2002ء میں ہوگئی مگر وہ آج بھی تحریک جدید کے مجاہدین میں شامل ہیں۔ (الفضل 28 اپریل 2004ء)

اخبار سیاست کے ایک مضمون نگار نے لکھا کہ ‘‘آئے دن چندے دیتے دیتے قادیانی مرید تھک سے گئے ہیں’’۔ اس پر ایک احمدی نے حضرت مصلح موعودؓ کو لکھا:

سیاست کے بودے اعتراضات پڑھے جن کو ایک عقلمند نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے… احمدی احباب تھک نہیں گئے بلکہ استقامت سے اپنے فرض منصبی کو ادا کررہے ہیں لہٰذا مبلغ ایک سو روپیہ بندہ اپنے حساب سے زائد ایک لاکھ کی تحریک میں نقد ارسال کرتا ہے تاکہ دشمنوں کو معلوم ہوجائے کہ احمدی چندوں سے ہرگز نہیں تھکتے بلکہ اگر امام وقت حکم فرمائیں کہ جانیں حاضر کرو تو بغیر حیل و حجّت کے حاضر ہوجاویں۔ (الفضل 21 اپریل 1925ء)

حضرت مصلح موعودؓ نے جلسہ سالانہ 1957ء پر وقف جدید کا اعلان کیا واقفین کی درخواستیں آنی شروع ہوگئیں چنانچہ 18 جنوری 1958ء کو 14 واقفین کو بطور معلّم منتخب کر لیا گیا ان کے لئے ایک ہفتہ کی تربیتی کلاس منعقد کی گئی اور یکم فروری 1958ء کو 6معلّمین کا پہلا قافلہ سوئے منزل روانہ ہوگیا چنانچہ پہلے سال کے اختتام پر 90 مراکز وقف جدید کے تحت قائم ہوچکے تھے اور ستر ہزار روپیہ کی مطلوبہ رقم بھی موصول ہوگئی۔

سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس نے طاہرہارٹ انسٹیٹیوٹ کے بارہ میں تحریک فرمائی اور امریکہ کے ڈاکٹروں کو تین ملین ڈالر جمع کرنے کا ارشاد فرمایا۔ جس ڈاکٹر کو اس کا نگران بنایا گیا اس نے ایک معقول رقم کا وعدہ لکھوایا۔ مگر اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے۔ اس نے اپنی سپورٹس کار بیچ دی۔ چند روز بعد ہی اسے غیرمعمولی آفر ہوئی اور ادا کردہ رقم سے خدا نے کئی گنا زیادہ عطا کردیا۔ (عدالت عالیہ تک کا سفر صفحہ 313)

حضور نے منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد متعدد ملکوں کے دَورے فرمائے اور ہر دفعہ جب آپ سے پریس والے پوچھتے ہیں کہ اس دَورہ کا مقصد کیا ہے تو آپ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلا مقصد احباب جماعت سے ملنا ہے آپ نے کووِڈ کی وبا سے پہلے 2018ء تک جو دورے فرمائے ہیں ان کے اعداد و شمار پر ہی نظر ڈالی جائے تو آدمی دَنگ رہ جاتا ہے آپ نے 29 ممالک کا سفر کیا۔ کئی ممالک میں کئی بار گئے۔ اس طرح ان کی تعداد 109 بنتی ہے دَورے کے ایام 1071 ہیں قریباً 3 سال۔ ان میں 42 مساجد کا سنگِ بنیاد رکھا اور 103 کا افتتاح کیا جن احمدی احباب سے انفرادی یا اجتماعی ملاقات کی ان کی تعداد 186678 ہے دفتری ملاقاتیں اس کے علاوہ ہیں ان سب ملاقاتوں میں ہر ایک کے حالات دریافت کرنا، مردوں سے مصافحہ کرنا بچوں میں تحائف کی تقسیم یہ سب تھکا دینےوالے کام ہیں مگر خلافت اور جماعت کی باہمی محبّت یہ نہیں دیکھتی۔ احباب بھی ان ملاقاتوں کے لئے کئی دفعہ سالوں انتظار کرتے ہیں سفروں کے دوران کئی دفعہ حضور کی طبیعت ناساز ہوئی مگر حضور نے کبھی اس تکلیف کو اپنے پروگرام اور ملاقاتوں پر اثر انداز نہیں ہونے دیا۔

2013ء میں حضور جلسہ سالانہ آسٹریلیا کے لئے تشریف لے گئے نماز ظہر و عصر کے بعد اچانک ایک احمدی حضور کے سامنے آ گیا اور درخواست کی کہ حضور اس کے بیٹے کی آمین کروا دیں۔ حضور نے فرمایا شام کو آمین کی تقریب ہے اس میں بیٹے کو لے آنا اس احمدی نے کہا کہ میری شام کو واپسی ہے حضور نے فرمایا اپنے بیٹے کو ابھی لے آؤ اور اپنی رہائش گاہ کے سامنے اس بچے کی آمین کی تقریب منعقد کروا دی۔ (الفضل 24 مئی 2019ء)

کینیڈا کے 2008ء کے دورے میں خدام الاحمدیہ کا کبڈی میچ تھا حضورانور بھی یہ میچ دیکھ رہے تھے کہ ایک چھوٹی بچی آئی اور حضور کی گود میں اپنا سر رکھ دیا حضور نے سارا میچ اسی طرح دیکھا اور بعد میں جب کھلاڑیوں کے ساتھ تصویر بنائی تو بھی اس بچی کا ہاتھ پکڑا ہؤا تھا۔

(الفضل 25 جولائی 2008ء)

مراکش کےایک احمدی 2006ء میں حضور سے ملنے کے لئے آئے تو حضور نے ان سے فرمایا کہ جب میں 2005ء میں سپین گیا تھا تو جبرالٹر کے پہاڑوں کی سیر کے دوران مَیں نے وہاں سے اپنےمراکشی بھائیوں کو السلام علیکم کہا تھا اور سلامتی کی دعائیں کی تھیں۔

(الفضل 24 مئی 2019ء)

محترم امیر صاحب جرمنی دفتر میں جو کرسی استعمال کرتے ہیں وہ بہت پرانی ہے مگر وہ تبدیل نہیں کرتے کیونکہ تین خلفاء نے اس کرسی کو اعزاز بخشا ہے۔

(’’اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز‘‘مرتبہ الفضل آن لائن صفحہ 111)

حضور ایک ملک کے دَورہ پر تھے معلوم ہوتا ہے کہ حضور کو کھانے کے حوالہ سے کوئی اطلاع ملی تو حضور نے امیر صاحب کو بلا کر فرمایا اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ ہر فرد واحد کو اچھی مقدار میں کھانا ملے کوئی بھی بھوکا واپس نہ جائے اگر آپ کے پاس پیسوں کا انتظام نہیں تو مَیں ذاتی طور پر آپ کو پیسے دے دوں گا۔ (’’اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز ‘‘ مرتبہ الفضل آن لائن صفحہ 20)

احباب جماعت کے گھریلو سکون کے بارہ میں حضور کس قدر فکرمند ہیں اس کا اندازہ دارالقضاء کو دی جانی والی ہدایت سے فرمائیے آپ نے فرمایا۔ اگر جھگڑوں کے کیسز بڑھ رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ شعبہ تربیت، نیشنل امیر، خدام، لجنہ، اور دیگر عہدیدار احباب جماعت کی تربیت کے حوالہ سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہے حضور نے جماعت کے قاضیوں سے فرمایا جب شادی بیاہ کے لڑائی جھگڑے سن رہے ہوں تو آپ کا پہلا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ میاں بیوی کے درمیان صلح کی کوشش کی جائے اور ہر فیصلہ سے پہلے قاضی 2 نفل پڑھے (’’ اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز‘‘ مرتبہ الفضل آن لائن صفحہ24) واقعی حضور دنیا میں جس اَمن کا پیغام دے رہے ہیں اس کا آغاز احمدیوں کے گھروں سے کرنا چاہتے ہیں دنیا میں کوئی ایسا لیڈر ہے جو اپنے متبعین کی ذاتی زندگی میں اس قدر امن و سکون کا خواہش مند ہو۔

حضور نے اپنے ایک خادم کو تحفہ کے طور پر گھڑی عنایت فرمائی ان کے 6 سالہ بیٹے نے کہا کہ جب آپ فوت ہو جائیں گے تو کیا میں حضور کی دی ہوئی گھڑی لے سکوں گا اس خادم نے مذاق کے طور پر یہ بات حضور کے سامنے کہہ دی حضور نے اسی وقت اپنی الماری کھولی ایک گھڑی نکالی اور فرمایا یہ اپنے بیٹے کو دے دینا اب اسے تمہارے مَرنے کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ (’’اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز‘‘مرتبہ الفضل آن لائن صفحہ29) اب اس بچے کی تمام چیزوں میں سب سے قابل فخر چیز وہی ہے۔

ایک خاتون نے دوران ملاقات عرض کی کہ ان کی انگوٹھی گم ہوگئی ہے حضور نے فوراً اپنے دراز سے ایک انگوٹھی نکالی اور عطا فرما دی اب وہ خاتون اپنی سابقہ انگوٹھی گم ہونے پر خوش ہیں۔ مَیں نے ایک بار ملاقات میں کچھ پین پیش کرکے عرض کیا کہ دعا کرکے متبرک کر دیں فرمایا یہ تو تھوڑے ہیں دراز سے ایک مٹھی بھر کے اور پیں نکالے اور عطا کر دیئے۔

جماعت احمدیہ نے خلافت سے وفا کی ہے خلیفہ کی محبّت کے آگے ہر محبّت ہیچ ہے ہر رشتہ کمزور ہے ہر دولت دو کوڑی کی ہے ہر جان قربان ہے ہر روح خلافت کی محبّت سے سرشار ہےاحمدیوں نےبیوی بچوں کو چھوڑ دیا دوستوں اور مادر وطن سے جدائی اختیار کرلی مگر خلیفہ کا مان نہیں توڑا۔ اسی لئے خدا بھی ہر وقت ہمارے ساتھ ہے اس نے کبھی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑا اور نہ چھوڑے گا۔

خلافت احمدیہ نے جماعت کے کمزور طبقات کے لئے متعدد منصوبے جاری کر رکھے ہیں طلبہ کے لئے وظائف اور قرضوں کا سلسلہ ہے اسیران اور شہدا کی فیملیز کے لئے سیّدنا بلال فنڈ قائم ہے یتامیٰ کے لئے کفالت یتامیٰ کی تحریک ہے غریب لوگوں کی رہائشی سہولتوں کے لئے بیوت الحمد سکیم ہے غریب بچیوں کے لئے مریم شادی فنڈ کی تحریک ہے اکیلے رَہ جانے والے جوڑوں کے لئے دارالاکرام کے نام سے انتظام ہے یہ ساری کامیاب سکیمیں بھی خلافت اور جماعت کی محبّت کی مظہر ہیں کیونکہ تمام رقم جماعت ہی پیش کرتی ہے اور جماعت پر ہی خرچ ہوتی ہے۔

ایک خاتون اور ان کی بوڑھی والدہ نے بیعت کی تو سب فیملی ممبرز نے قطع تعلقی کا اعلان کر دیا کچھ عرصہ بعد والدہ سخت بیمار ہوگئیں تو خاتون پریشان تھیں کہ والدہ فوت ہو گئیں تو کفن دفن کا انتظام کس طرح ہوگا اس دوران انہوں نے خواب میں حضورانور کو دیکھا حضور نے فرمایا آپ پریشان نہ ہوں ہم سب انتظام کر دیں گے اس کے تین دن بعد والدہ کی وفات ہوگئی جماعت نے خود ان سے رابطہ کیا اور پہلی بات جو جماعتی نمائندہ نے ان سے کہی وہ وہی تھی جو حضور نے خواب میں کہی تھی کہ آپ پریشان نہ ہوں ہم سب انتظام کر دیں گےاور سب انتظام کر دیا۔ (’’ اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز‘‘مرتبہ الفضل آن لائن صفحہ101)

حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت آج 213 ملکوں میں پھیل چکی ہے اور سب کا ایک ہی خلیفہ ہے تمام جماعتوں، ان کی ذیلی تنظیموں اور اداروں کی رپورٹس حضور ملاحظہ فرماتے ہیں تمام جامعات کی ذاتی طور پر نگرانی فرماتے ہیں کئی ملکوں کے کانووکیشن میں شاہد کی ڈگریاں دیتے ہیں جماعت کی تبلیغ و تربیت پر نظر رکھتے ہیں افتا اور قضا کے نظام کو دیکھتے ہیں۔ روزانہ 5 نمازوں کی امامت اور ہر جمعہ کے خطبہ کے علاوہ سالانہ جلسوں، اجتماعات، مجالس شوریٰ، پیس سمپوزیمز سے خطاب کرتے ہیں طلبہ اور طالبات کو انعامات دیتے ہیں ہر ہفتے قریباً 2 آن لائن ملاقاتیں فرما کر ہدایات دیتے ہیں دشمن کی سازشوں کا قلع قمع کرتے ہیں ہر احمدی کو دنیا میں جو دکھ پہنچتا ہے وہ حضور کے سینے میں جمع ہوتا ہے اور دعاؤں میں ڈھلتا ہے حضور کی خدمت میں ذاتی طور پر 1000 سے زیادہ خط روزانہ موصول ہوتے ہیں اور متعدد زبانوں میں ہوتے ہیں جن کے تراجم ہوتے ہیں ان سب خطوں کو پڑھ کر مناسب حال جواب دیتے ہیں اور پھر سب جوابات پر یعنی 1000 سے زیادہ خطوط پر دستخط بھی کرتے ہیں اور گو دعائیں ہر وقت ہی جاری رہتی ہیں خصوصاً رات کو پھر جماعت کے لئے گریہ و زاری کرتے ہیں۔

کتنے ہی لوگ تھے جو بےاولاد تھے اور حضور کی دعا کے طفیل ان کو اولاد ملی کتنوں کو اولاد نرینہ عطا ہوئی کتنے ہی بےروزگار اور مالی تنگی میں مبتلا تھے جن کو حضور کی دعا سے مکان ملے، دولت ملی، خوشحالی ملی، کتنے ہی غیرملکوں میں پناہ کی تلاش میں تھے اور مایوسی کی آخری حدوں کو چھو رہے تھے خدا نے خلیفہ کی دعا سے ان کو ٹھکانے دے دیئے کتنے ہی طالب علم تھے جن کو کامیابی کی تمنا تھی مگر بہت دور نظر آتی تھی دعا نے ان کو ڈگریاں بھی دیں اور ملازمتیں بھی دیں کتنے ہی دشمن کے نرغے میں تھے۔ اسیر تھے۔ خدا نے خلیفہ کی دعا سے موت کے منہ سے بچا لیا۔ کتنے بیمار تھے جنہوں نے اذیت سے نجات پائی اور لمبی عمریں پائیں۔

حضور روزانہ کتنے بچوں کے نام تجویز کرتے ہیں کتنے نکاح اور جنازے پڑھاتے ہیں۔ جماعت کے بیسیوں اخبارات و رسائل کا اور احباب کے مضامین اور تحقیق کا مطالعہ فرماتے ہیں اور رہنمائی کرتے ہیں۔ ایم۔ٹی۔اے کے اکثر پروگرام نشر ہونے سے پہلے دیکھ کے ہدایات دیتے ہیں اپنے دَوروں کی رپورٹس اور ڈائری ملاحظہ فرماتے ہیں عام اخبارات اور کتب کا مطالعہ کرکے تازہ ترین عالمی حالات سے واقف ہوتے ہیں جو جماعت ہی کے کام آتا ہے۔

حضور 2005ء میں قادیان تشریف لے گئے تو امور عامہ کے ایک کارکن بہت خوش تھے کہ میں نے 6 ماہ پہلے حضور سے یونیورسٹی میں بیٹے کے داخلہ کے لئے دعا کی درخواست کی تھی آج حضور نے پوچھا ہے کہ اس کا داخلہ ہؤا یا نہیں۔ (’’خلافت‘‘مرتبہ الفضل آن لائن صفحہ 43)

حیدرآباد پاکستان میں نَومبایعین کا اجتماع تھا اس پر آتےہوئے ایک بچہ موٹر سائیکل کی ٹکر سے زخمی ہوگیا امیر صاحب ضلع نے اس کے لئے حضور کی خدمت میں دعا کی درخواست کی۔ اس کے قریباً 3 ماہ بعد امیر ضلع کے ایک ذاتی خط کے ایک طرف یہ جملہ لکھا ہؤا تھا امید ہے وہ بچہ صحت یاب ہو چکا ہوگا۔ (’’ خلافت‘‘مرتبہ الفضل آن لائن صفحہ 69) اس میں یہ سبق بھی تھا کہ جب خلیفہ وقت کو اس قسم کی خبریں دیتے ہیں تو ان کے بعد کے حالات سے بھی مطلع کیا کریں۔ یہ واقعات بیسیوں احمدیوں کے ساتھ گزرے ہیں کہ ایمرجنسی کی حالت میں حضور بار بار اس بیمار کا پتہ بھی کرواتے ہیں اور حسبِ حالات دوا بھی تجویز کرتے ہیں۔

اس محبّت میں کالے اور گورے مشرق اور مغرب کی کوئی تمیز نہیں ایک عرب دوست مصطفیٰ ثابت صاحب اپنے آخری ایّام حضور کے قرب میں گزارنا چاہتے تھے اور حضور کی اجازت سے مسجد فضل کے قریبی گیسٹ ہاؤس میں آگئے حضور ان کی عیادت کے لئے جانا چاہتے تھے۔ انہیں پتہ لگا تو جلدی سے تکلیف اٹھا کر حضور کے دفتر پہنچ گئے تاکہ حضور کو دقت نہ ہو۔ (’’خلافت ‘‘ مرتبہ الفضل آن لائن صفحہ87-88) دورہ تنزانیہ کے دوران 2005ء میں حضور سے ملاقات کرنے والوں میں ایک پرانے بزرگ اور بیمار احمدی بھی تھے جو چلنے پھرنے سے معذور تھے جن کو ان کے بچے دور سے لائے تھے اور اٹھا کر کرسی پر بٹھایا تھا حضور ان سے ملنے کے لئے دفتر سے باہر تشریف لے آئے۔ (الفضل ربوہ یکم جون 2005ء)

حضور نے 2004ء میں کثرت سے نظام وصیت میں شمولیت کی تحریک فرمائی جس پر چند سالوں میں وصایا کی تعداد دوگنی سے بھی زیادہ ہوگئیں۔ حضور کے ایک نمائندہ نے اس سلسلہ میں افریقہ کا دَورہ بھی کیا اور ان کا ایک پروگرام ریڈیو پر نشر ہؤا۔ ایک غریب احمدی دوست نے یہ پروگرام سن کر وصیت کا چندہ جمع کرنا شروع کر دیا اور جب مبلغ ان کے پاس گئے تو اصرار کے ساتھ چندہ ادا کیا اور بعد میں ان کا وصیت فارم پر کرا یا گیا۔ (‘‘خلافت’’ مرتبہ الفضل آن لائن صفحہ112) افریقہ میں انٹرنیشنل جامعہ احمدیہ کے قیام کا منصوبہ بنا تو گھانا کے ایک احمدی نے 50۔ ایکڑ زمین تحفہ کے طور پر پیش کر دی جہاں جامعہ تعمیر کیا گیا۔

جرمنی میں ترک احباب سے ملاقات میں ایک نَو مبائع ترک نے مائیکروفون لیا اور حضور سے کہا I love you Hazoor۔ اس پر حضور نے نہایت شفقت سے فرمایا I love you too۔

(’’ اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز‘‘مرتبہ الفضل آن لائن صفحہ 116)

حضور 2008ء میں خلافت جوبلی جلسہ قادیان کے لئے انڈیا تشریف لے گئے مگر ملکی حالات ایسے ہوگئے کہ قادیان کا جلسہ کینسل کرنا پڑا ایک سرکاری اہل کار نے کہا کہ اگر حضور قادیان جانا چاہیں تو محدود پیمانہ پر حفاظتی انتظامات کئے جا سکتے ہیں حضور نے فرمایا حفاظت تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے لیکن میرے اردگرد ہر وقت سینکڑوں افراد ہوتے ہیں اور مَیں کسی احمدی کی جان کو خطرہ میں نہیں ڈال سکتا۔ (الحکم 20 ستمبر 2019ء) حضور فرماتے ہیں:

کون سا ڈکٹیٹر ہے جو اپنے ملک کی رعایا سے ذاتی تعلق بھی رکھتا ہو۔ خلیفۂ وقت کا تو دنیا میں پھیلے ہوئے ہر قوم اور ہر نسل کے احمدی سے ذاتی تعلق ہے۔ ان کے ذاتی خطوط آتے ہیں جن میں ان کے ذاتی معاملات کا ذکر ہوتا ہے۔ ان روزانہ کے خطوط کو ہی اگر دیکھیں تو دنیا والوں کے لئے ایک یہ ناقابل یقین بات ہے۔ یہ خلافت ہی ہے جو دنیا میں بسنے والے ہر احمدی کی تکلیف پر توجہ دیتی ہے۔ ان کے لئے خلیفۂ وقت دعا کرتا ہے۔

کون سا دنیاوی لیڈر ہے جو بیماروں کے لئے دعائیں بھی کرتا ہو۔ کون سا لیڈر ہے جو اپنی قوم کی بچیوں کے رشتوں کے لئے بےچین اور ان کے لئے دعا کرتا ہو۔ کون سا لیڈر ہے جس کو بچوں کی تعلیم کی فکر ہو…… غرض کہ کوئی مسئلہ بھی دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں کا چاہے وہ ذاتی ہو یا جماعتی ایسا نہیں جس پر خلیفۂ وقت کی نظر نہ ہو اور اس کے حل کے لئے وہ عملی کوشش کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا نہ ہو۔ اس سے دعائیں نہ مانگتا ہو۔ مَیں بھی اور میرے سے پہلے خلفاء بھی یہی کچھ کرتے رہے…… یہ مَیں باتیں اس لئے نہیں بتا رہا کہ کوئی احسان ہے۔ یہ میرا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ اس سے بڑھ کر مَیں فرض ادا کرنے والا بنوں۔

(خطبہ 6 جون 2014ء۔ خطبات مسرور جلد 12 صفحہ 348)

حضور 2022ء میں امریکہ تشریف لے گئے ایک صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں حضور کی اقتدا میں نماز فجر پڑھ کر نکلا تو دیکھا کہ مسجد کی پارکنگ لاٹ میں ایک لمبی لائن لگی ہوئی ہے جو قریباً 100 افراد پر مشتمل تھی پوچھا تو معلوم ہؤا یہ سب نماز جمعہ کے لئے 7 گھنٹے پہلے قطار میں کھڑے ہوگئے ہیں۔ (‘‘خلافت’’ مرتبہ الفضل آن لائن صفحہ 719)

ایک مربی سلسلہ پر فالج کا حملہ ہؤا۔ حضور ان کے لئے دعا کرتے رہے کچھ بہتر ہوئے تو ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تو حضور نے ہومیوپیتھی ادویہ بھی تجویز فرمائیں اور اپنی ایک چھڑی بھی عطا فرمائی جو ان کے پاس رہتی ہے اور اس پر انگریزی میں لکھا ہے۔

AMEER-UL-MU`MINEEN V

(’’خلافت ‘‘ مرتبہ الفضل آن لائن صفحہ 290)

کتنے ہی لوگ تھے جو بےاولاد تھے اور حضور کی دعا کے طفیل ان کو اولاد ملی کتنوں کو اولاد نرینہ عطا ہوئی کتنے ہی بےروزگار اور مالی تنگی میں مبتلا تھے۔ جن کو حضور کی دعا سے مکان ملے دولت ملی خوشحالی ملی کتنے ہی غیرملکوں میں پناہ کی تلاش میں تھے اور مایوسی کی آخری حدوں کو چھو رہے تھے خدا نے خلیفہ وقت کی دعا سے ان کو ٹھکانے دے دیئے کتنے ہی طالب علم تھے جن کو کامیابی کی تمنا تھی مگر بہت دور نظر آتی تھی دعا نے ان کو ڈگریاں بھی دیں اور ملازمتیں بھی دیں کتنے ہی دشمن کے نرغے میں تھے اسیر تھے خدا نے حضور کی دعا سے موت کے منہ سے بچا لیا کتنے بیمار تھے جنہوں نے اذیت سے نجات پائی اور لمبی عمریں پائیں۔

حضور روزانہ کتنے بچوں کے نام تجویز کرتے ہیں کتنے نکاح اور جنازے پڑھاتے ہیں جماعت کے بیسیوں اخبارات و رسائل کا اور احباب کے مضامین اور تحقیق کا مطالعہ فرماتے ہیں اور رہنمائی کرتے ہیں۔ ایم۔ٹی۔اے کے اکثر پروگرام نشر ہونے سے پہلے دیکھ کے ہدایات دیتے ہیں۔ اپنے دَوروں کی رپورٹس اور ڈائری ملاحظہ فرماتے ہیں عام اخبارات اور کتب کا مطالعہ کرکے تازہ ترین عالمی حالات سے واقف ہوتے ہیں جو جماعت ہی کے کام آتا ہے۔

خلافت اور جماعت کا رشتہ عجیب رشتہ ہے۔ یہ حبل اللہ ہےخدا تک پہنچانے کا رستہ ہے احمدیوں کے لئے ماں باپ سے بڑھ کر پیار کرنے والی ہے خلافت بےسہاروں کا سہارا ہے غمزدوں کے لیے تسکین جاں ہے۔

تنزانیہ کے ایک دور دراز علاقے میں جہاں سڑکیں اتنی خراب ہیں کہ ایک شہر سے دوسرے شہر تک پہنچنے میں چھ سات سو کلومیٹرکا سفر بعض دفعہ آٹھ دس دن میں طے ہوتا ہے۔ حضور اس علاقہ میں گئے تو وہاں لوگ اردگرد سے بھی ملنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ ان میں جوش قابل دید تھا۔ بہت جگہوں پر ایم۔ٹی۔اے کی سہولت بھی نہیں ہے۔ مصافحے کے لئے لوگ لائن میں تھے ایک شخص نے ہاتھ بڑھایا اور ساتھ ہی جذبات سے مغلوب ہو کر رونا شروع کر دیا ایک صاحب پرانے احمدی جو فالج کی وجہ سے بہت بیمار تھے، ضد کرکے 50-40 میل کا فاصلہ طے کرکے حضور سے ملنے کے لئے آئے۔

یوگنڈا میں جب حضورایئرپورٹ سے گاڑی پر باہر نکلے تو ایک عورت اپنے دو اڑھائی سال کےبچے کو اٹھائے ہوئےساتھ ساتھ دوڑتی چلی جا رہی تھی۔ وہ چاہتی تھی بچہ حضور کو دیکھ لے تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کا منہ پھیرتی تھی کہ اس طرف دیکھو اور کافی دور تک دوڑتی گئی۔ اتنا رَش تھا کہ اس کو دھکے بھی لگتے رہے لیکن اس نے پروا نہیں کی۔ آخر جب بچے کی نظر حضور پر پڑ گئی تو بچہ دیکھ کے مسکرایا۔ ہاتھ ہلایا۔ تب ماں کو چین آیا۔ بچے کے چہرے کی جو رونق اور مسکراہٹ تھی اس طرح تھی جیسے برسوں سے پہچانتا ہو۔ حضور نے یہ واقعہ بیان کرکے فرمایا جب تک ایسی مائیں پیدا ہوتی رہیں گی جن کی گود میں خلافت سے محبّت کرنے والے بچے پروان چڑھیں گے اس وقت تک خلافت احمدیہ کو کوئی خطرہ نہیں۔

(خطبہ جمعہ 27مئی 2005ء)

ہم اپنے امام کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ آج بھی وہ مائیں موجود ہیں آج بھی وہ باپ موجود ہیں جن کی ہر سانس خلافت احمدیہ کے ساتھ چلتی ہے ان کی ہر خوشی اس میں ہے کہ خلیفہ وقت ان سے خوش ہو وہ اس کے ساتھ آنسو بہاتے ہیں اور اس کے ساتھ مسکراتے ہیں۔ ان کا خلیفہ ان کے لئے بےقرار ہوتا ہے تو وہ اس کے لئے تڑپتے ہیں۔ یاد رکھیں یہ رحمۃللعالمین محمد مصطفیٰﷺ کا اعجاز ہے یہ مسیح موعودؑ کی برکت ہے۔ ساری دنیا اپنی ساری دولتیں بھی جمع کرلے تو ایسی محبّت پیدا نہیں کر سکتی خدا کا شکر ادا کریں کہ 1400 سال بعد خلافت احمدیہ جیسی نعمت ہمیں عطا ہوئی ہے۔ اس سے جڑے رہیں اپنی اولادوں کو اس کے ساتھ جوڑ دیں کہ آج دنیا میں ایسی سچّی محبّت کہیں اور نہیں مل سکتی۔

ہماری جاں خلافت پر فدا ہے

یہ روحانی مریضوں کی دوا ہے

اندھیرا دل کا اس سے مٹ گیا ہے

یہی ظلمات میں شمعِ ھُدیٰ ہے

اربوں کی دنیا میں ایک خدا کا خلیفہ ہے جس کی دعائیں کثرت سے عرش پر سنی جاتی ہیں جس کو دعا کا خط لکھ کر مصیبت زدہ انسان چین کی نیند سو جاتا ہے مگر وہ درد کا مارا ساری رات اس کے لیے بےچین رہتا ہے۔ جس کے مشورے آسمان سے تائید یافتہ ہوتے ہیں۔ جو خدا کے نور سے دیکھتا ہے اور مستقبل کے خدشات کو پہلے سے بھانپ کر راہ سداد دکھا دیتا ہے جس کے دل میں اپنی جماعت کے لیے خصوصاً اور انسانیت کے لیے عموماً ایک درد ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح موجزن ہے جس کے مددگاروں کو خدا کامیاب کرتا ہے اور جس کی آواز پر لبیک کہنے والے بےپایاں اجر کے مستحق ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں اس نعمت کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ مئی 2024ء صفحہ 37)

متعلقہ مضمون

  • پروگرام 48 واں جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ جرمنی 2024ء

  • جلسہ سالانہ کا ایک مقصد ’’زہد‘‘ اختیار کرنا ہے

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • ہدایات برائے جلسہ سالانہ جرمنی 2024ء