قسط دوم

تقریر جلسہ سالانہ جرمنی 2023ء
مولانا عبدالسمیع خان صاحب، استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا

سرینام کے ابتدائی احمدی محترم حسینی بدولہ صاحب تھے۔ 1994ء میں سرینام میں ایم ٹی اے کا اجراء ہوا تو آپ نے کئی دفعہ اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں ایک ایسا بوسٹر لگوانا چاہتا ہوں کہ سرینام میں ہر گھر میں ایم ٹی اے دیکھا جاسکے اور وہ اس کام کے لئے پورا خرچ دینے کو تیار ہوگئے۔

(الفضل 18 نومبر 2013ء)

جمعہ کے دن ایک احمدی کی سب سے بڑی اور بابرکت مصروفیت حضور کا خطبہ جمعہ سننا ہےدنیا میں دن کا آغاز سورج طلوع ہونے سے ہوتا ہے مگر احمدی کا سورج اس کا محبوب امام ہے پہلے ہم پاکستان میں شام کے وقت خطبہ سنتے تھے پھر گھانا میں عین دوپہر کے وقت سنتے تھے ہم کینیڈا میں صبح 8بجے سنتے ہیں اور جرمنی میں 2بجے دوپہر سنتے ہیں دنیا میں ایسے ملک بھی ہیں جو رات گئے اور بعض فجر کے وقت سنتے ہیں ایسے گھرانے بھی ہیں جہاں صرف ایم ٹی اے چلتا ہے اور اپنوں کے لئے تربیت اور غیروں کے لئے تبلیغ کا سامان مہیا کرتا رہتا ہے

اس جمعہ نے جماعت احمدیہ کی اندرونی زندگی کو متعدد جمعوں سے بھر دیا ہے دنیا میں جب سورج ڈھلتا ہے تو جماعت احمدیہ کا سورج طلوع ہوتا ہے تمام آنکھیں ٹیلی ویژن کی سکرین پر جم جاتی ہیں سب ایک آواز اور ایک تصویر کے منتظر ہوتے ہیں کہیں دن، کہیں رات، کہیں صبح کی ٹھنڈی ہوائیں، کہیں تپتی دوپہریں، کہیں مرغزار، کہیں گلستان، کہیں نخلستان، کہیں برف زار، مگر سب کے دل ایم ٹی اے کی برقی لہروں کے ساتھ دھڑکتے ہیں خدا کا پیارا جب السلام علیکم کے ذریعہ ساری دنیا میں سلامتی کا پیغام دیتا ہے تو لاکھوں زبانوں سے وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کا جواب فضا کو برکتوں سے بھر دیتا ہے۔ اس جمعہ کی عید نے عیدالفطر اور عیدالاضحی کی خوشیوں کو بھی دو چند کر دیا ہے ہر طرف پھیلی دھند میں وہ ٹھنڈی چاندنی احمدیوں کی قوت اور سہارا ہے

ایم ٹی اے کے قیام سے پہلے اخبار الفضل قریباً 90 سال تک بلا شرکت غیرے خلافت اور جماعت کی محبّت کا حوالہ بنا رہا یہ آغا ز میں ہفت روزہ تھا مگر جماعت حضور کا خطبہ اور دیگر خبریں سننے کے لئے ایک ہفتہ انتظار نہیں کر سکتی تھی اس لئےجماعت نے بار بار درخواستیں کیں کہ اسے روزانہ کر دیا جائے۔

اس پر حضور نے 1935ء میں فیصلہ فرمایا کہ الفضل کو فی الحال 6 ماہ کے لئے روزانہ کر دیا جائے الفضل روزنامہ ہوگیا اور 6 ماہ کی بجائے ہمیشہ کے لئے ہوگیا۔ اسے ربوہ سے بند کیا گیا تو لندن سے روزنامہ الفضل انٹرنیشنل خلافت اور جماعت کی محبّت کی گواہی دے رہا ہے۔اب ایم ٹی اے کے 8 چینل اسی محبّت کے نئے جلوے دکھا رہے ہیں۔ جب سے خلیفہ وقت کے خطبات ایم ٹی اے پر نشر ہونا شروع ہوئے ہیں ایک آدھ کے سوا کوئی ناغہ نہیں ہؤا حتّٰی کہ ایک خلیفہ نے آخری خطبہ دیا اور اگلا جمعہ نئے خلیفہ نے پڑھایا۔ حضور کا پتے کا آپریشن ہؤا تو اس طرح پلان کیا کہ خطبہ کا ناغہ نہ ہو۔

کورونا کی وبا سے دنیا بھر کے رابطے منقطع ہوگئے مگر خلافت احمدیہ کا رابطہ نہیں ٹوٹا جب جمعہ پڑھنا ممکن نہ رہا تو حضور نے دفتر سے پیغام دیا۔ اس طرح بھی جمعہ پڑھایا کہ خطبہ کے وقت سامنے صرف ایک خادم ہوتا تھا اور نماز میں چند خدام۔ مگر اپنی جماعت سے رابطہ قائم رکھا۔ ذاتی ملاقاتیں آن لائن ملاقاتوں میں تبدیل ہوگئیں اور اب تک متعدد ممالک کی سینکڑوں جماعتیں اور ہزاروں احباب یہ سعادت پا چکے ہیں جن میں یہ عاجز بھی شامل ہےجامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا سے ملاقات کے دوران حضور نے مجھے طلبہ کے درمیان پہچانا اور نام لے کر مخاطب کیا اور مجھے نئی زندگی دے دی۔

2021ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس یہاں جرمنی میں مجلس خدام الاحمدیہ کے اجتماع سے آن لائن خطاب فرما رہے تھے کہ تیزبارش شروع ہوگئی مگر تمام خدام پورے سکون کے ساتھ بیٹھے سنتے رہے تمام عالم نے یہ نظارہ دیکھا اور خلافت اور جماعت کے بےمثال تعلق کا مشاہدہ کیا۔ ابھی نیا نیا سسٹم تھا حضور کو پتہ لگا کہ آن لائن ملاقات کے دوران ایک ملک میں بچوں کو ٹھنڈ میں بٹھایا گیا تھا تو حضور نے اس ملک کے صدر خدام الاحمدیہ سے جواب طلبی کی۔

(کتاب اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز صفحہ4، مرتبہ ادارہ الفضل آن لائن)

بعض والدین کا یہ کہنا تھا کہ ہمیں بچوں میں خلافت سے محبّت کا پہلے اتنا اندازہ نہیں تھا لیکن اب اس بات سے اندازہ ہوا کہ آن لائن ملاقات سے ایک رات پہلے بچوں نے سونے سے پہلے اپنے کپڑے تیار کیے۔ الارم لگائے، صبح اُٹھ کر تہجد کی نماز ادا کی۔ صدقہ دیا اور ہمیں کہا کہ جلدی ہمیں کلاس میں لے کے چلیں ہم کہیں لیٹ نہ ہو جائیں۔ ایک ماں کہتی ہے میرے 2 بچے اس خوشی میں ساری رات نہیں سوئے کہ کل ان کی حضور سے ملاقات ہے اور اگلی رات اس لئے نہیں سوئے کہ حضور نے انہیں تحفہ میں چاکلیٹ دی تھی۔

(کتاب اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز صفحہ 96-97)

ایک زمانہ میں لائبیریا کے حالات خراب ہوئے اور باغیوں نے قتل و غارت شروع کر دی ایک علاقہ میں ہمارے مربی بھی تھے رابطے کٹ گئے تھے اور کوئی خبر نہیں تھی حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ بہت فکرمند تھے دعا بھی کر رہے تھے اور صدقہ بھی دے رہے تھے فرمایا اس سے پہلے بھی ایک مربی صاحب کے لئے صدقہ دیا تھا اور وہ مل گئے تھےان شاءاللہ یہ بھی مل جائیں گے 2 ہفتوں بعد ان کی خیریت کی خبر ملی تو حضورؒ کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا۔

(ماہنامہ خالد طاہر نمبر 2004 صفحہ 99)

حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ جلسہ سالانہ جرمنی کی ڈیوٹیوں والی کارکنات کے قریب سے گزر رہے تھے ایک خاتون کے ساتھ اس کی چھوٹی بچی بھی تھی اس بچی نے بلند آواز سے کہا کہ حضور آپ نے ہمیں پیار ہی نہیں کیا حضور جو آگے جا چکے تھے واپس لوٹے اس بچی کے گال پر پیار کیا۔

(الفضل 21 مئی 2021ء)

یہ وہ محبّت اور عشق کا تعلق ہے جو صرف خدا پیدا کرتا ہے ہمارے موجودہ امام حضرت خلیفۃالمسیح الخامس اپریل 2003ء میں منصب خلافت پر فائز ہوئے اس وقت بیرون پاکستان بہت کم احمدی آپ سے ذاتی طور پر واقف تھے مگر خلیفہ بنتے ہی خدا نے دونوں طرف محبّت کے ایسے چشمے رواں کئے جو بےمثال ہیں آپ فرماتے ہیں:

دنیا میں کوئی ایسی جماعت نہیں اور کوئی ایسا لیڈر نہیں جو ایک دوسرے کے لیے اتنے بےقرار ہوں حضور فرماتے ہیں:

دنیا میں کوئی ملک نہیں جہاں رات سونے سے پہلے چشمِ تصور میں میں نہ پہنچتا ہوں اور ان کے لیے سوتے وقت بھی اور جاگتےوقت بھی دعا نہ کرتا ہوں۔

(الفضل یکم اگست 2014ء)

ایک دفعہ جلسہ لندن کے موقع پر شام کے وقت بارش شروع ہوگئی قافلے جلسہ گاہ سے قیام گاہوں کی طرف واپس جا رہے تھے کہ سسٹم درہم برہم ہوگیا اور سینکڑوں احمدی کئی گھنٹے بارش میں کھڑے رہے حضور کو معلوم ہؤا تو تمام مصروفیات چھوڑ کر تشریف لے آئے اور احباب کے پاس بارش میں اس وقت تک کھڑے رہے جب تک تمام مہمان خیریت سے روانہ نہیں ہوگئے اور پھر ساری رات ان کے لئے دعائیں کرتے رہے اب حضور کی دعا کا اعجاز دیکھیں۔ خطرہ تھا کہ سردی میں بارش سے بھیگنے والے اکثر احباب بیمار ہو جائیں گے مگر بعد کی رپورٹوں سے پتہ لگا کہ کسی کو چھینک تک نہیں آئی۔

(خلافت صفحہ 365 الفضل 24 مئی 2019ء۔ الفضل انٹرنیشنل 24 اگست 2007ء)

یہی وہ لازوال محبّت ہے جس سے اطاعت کے چشمے پھوٹتے ہیں حضرت مولوی غلام نبی مصری حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے شاگرد اور مدرسہ احمدیہ قادیان کے استاد تھے حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کتابوں کے عاشق تھے کسی کتاب کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ کتاب صرف مصر کے کسی کتب خانہ میں موجود ہے دنیا میں کہیں اور کسی جگہ دستیاب نہیں۔ حضرت مولوی صاحب نے اس خواہش کا اظہار کیا اے کاش یہ کتاب ہمیں دستیاب ہو جائے شاگرد نے استاد کی بات سنی سفر کی اجازت چاہی اور مصر روانہ ہوگئے۔ کوئی زادِ راہ پاس نہ تھا توکل کا دامن پکڑا اور چل پڑے۔ راہ میں کسی مریض کا علاج کرنے کا موقعہ میسر آیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو شفایاب کیا تو اس کے والی وارثوں نے ایک قیمتی کمبل ان کی نذر کیا۔ بمبئی پہنچے تو ایک جہاز عدن جا رہا تھا۔ کمبل بیچا تو کرایہ کی رقم میسر آگئی۔ عدن پہنچ گئے وہاں سے ایک قافلہ کے ساتھ مصر چل پڑے۔ پیدل چلے جاتے تھے مسافروں کا سامان اٹھانے اور اونٹوں پر اُتارنے لادنے کا کام کرتے تھے کھانا میسر آ جاتا کبھی کبھار وہ انہیں اونٹ پر سوار ہو جانے کی اجازت بھی دے دیتا آخر مصر جا پہنچے۔ کھجوروں کی گٹھلیاں چنتے بیچتے تو دو وقت کا کھانا میسر آ جاتا۔ لائبریری میں کتاب موجود تھی مگر اس کو قلم سے نقل کرنے کی اجازت نہ تھی پنسل سے نقل تیار کرتے گھر پہنچ کر سیاہی سے اسے روشن کرتے اور اپنے مرشد کی خدمت میں بھیج دیتے۔ کئی سالوں میں کام مکمل ہوا۔ درمیان میں یہ آزمائش بھی آئی کہ کتب خانہ والوں نے کتاب کو پنسل سے نقل کرنے کی اجازت منسوخ کر دی مولوی صاحب نے کتاب حفظ کرنا شرو ع کر دی۔ جتنا حصہ حفظ کرتے گھر پہنچ کر لکھ لیتے کئی برسوں میں یہ کام مکمل کیا۔ واپسی کا حکم ہوا تو اسی طریق سے واپس آ گئے۔

(الفضل 4 جولائی 2015ء)

سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کو حقّہ سے سخت نفرت تھی آپ نے 1912ء میں ایک خطاب میں تمباکو نوشی چھوڑنے کی پُرزور تلقین فرمائی۔ (الحکم 28 فروری 1912ء صفحہ6) حضور کی یہ نصیحت نہایت مؤثر اور کارگر ثابت ہوئی۔ اخبار الحکم لکھتا ہے۔ بہت سے آدمیوں نے حقہ نوشی سے توبہ کرلی اور حقے ٹوٹ گئے۔ جو سگریٹ نوشی کے عادی تھے۔ وہ اپنی توبہ کی درخواستیں پے درپے بھیج رہے ہیں۔ بعض کو اس قبیح عادت کے ترک سے تکلیف بھی ہوئی ہے۔ حضور نے ان کے لئے یہ نسخہ تجویز کیا ہے۔ کہ جب حقہ کی خواہش پیدا ہو تو چند کالی مرچیں منہ میں رکھ لو بہرحال اب یہ بلا ہمارے مدرسہ سے رخصت ہونے کو ہے بلکہ ہوچکی ہے۔

(الحکم 14 فروری 1912ء صفحہ8)

حضرت مصلح موعودؓ نے ایک دفعہ مرزا غلام اللہ صاحب سے فرمایا کہ دوستوں کو حقہ چھوڑنے کی تلقین کیا کریں۔ وہ خود حقہ پیتے تھے۔ انہوں نے گھر آکر اپنا حقہ جو دیوار کے ساتھ کھڑا تھا اسے توڑ دیا۔ بیوی نے پوچھا تو کہا مجھے حضرت صاحب نے حقہ پینے سے لوگوں کو منع کرنے کی تلقین کرنے کے لئے ارشاد فرمایا ہے اس لئے پہلے اپنے حقے کو توڑا ہے۔ اور پھر مَرتے دَم تک حقے کو ہاتھ نہ لگایا اور دوسروں کو بھی حقہ چھوڑنے کی تلقین کرتے رہے۔

(سوانح فضل عمر جلد2 صفحہ34)

تمباکو نوشی سے نجات ایک ایسا خوشکن اور قابل ذکر امر تھا کہ قادیان میں آنے والے غیروں نے بھی اس کا مشاہدہ کیا اور اس کا کھلے دل سے اعتراف کیا۔ ایک معزز سکھ سردار اننت سنگھ صاحب خالصہ پرچارک ودیالہ ترنتارن کے پرنسپل نے 1937ء اور 1938ء کے جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت کی اور اپنے مضمون میں لکھا۔

وہاں مَیں نے خوبی ہی خوبی دیکھی ہے مَیں نے کسی کو تمباکونوشی کرتے فضول بکواس کرتے لڑتے جھگڑتے بھیک مانگتے۔ عورتوں پر آوازے کستے، دھوکہ بازی کرتے، لوٹتے اور لغو طور پر ہنستے نہیں دیکھا، شرابی، جواری، جیب تراش، اس قسم کے بدمعاش لوگ قادیان کی احمدی آبادی میں قطعاً مفقود ہیں…… مَیں بہت مقامات پر پھرا ہوں اور پورے زور کے ساتھ ہر جگہ یہ بات کہنے کو تیار ہوں کہ بجلی کے زبردست جنریٹر کی طرح قادیان کا مقدّس وجود اپنے سچے متبعین کے قلوب کو پاکیزہ علوم سے منور کرتا ہے اور قادیان میں احمدیوں کی قابل تقلید زندگی اور کامیابی کا راز یہی ہے۔

(الحکم 14 فروری 1939ء صفحہ1)

حضرت مصلح موعودؓ نے روسی علاقوں میں تبلیغ کا ارشاد فرمایا تو نوجوان نتائج کی پروا کئے بغیر پاسپورٹوں کے بغیر نکل کھڑے ہوئے وہاں جا کر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے مگر قید میں بھی تبلیغ نہیں چھوڑی۔ حضرت مولوی ظہور حسین صاحب اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ کئی دن تک وہ نہ رات کو سو سکے نہ دن کو اور مسلسل فاقے کرنے پڑے۔ ان کے سامنے قید میں سؤر کا گوشت بھی رکھا جاتا تھا جسے وہ کھا نہیں سکتے تھے۔ اور محض پانی میں روٹی بھگو کر کھاتے۔ ان کو بد ترین قید میں رکھا گیا اور طرح طرح کی اذیتیں قید میں ان کو دی گئیں۔

(ماخوذ از ’آپ بیتی مجاہد روس و بخارا‘ صفحہ 86)

جب حضرت مولوی ظہور حسین صاحب واپس ہندوستان تشریف لائے تو ایک اخبار نے لکھا کہ آپ پر مختلف مظالم توڑے گئے۔ قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔ بےرحمی سے مارا گیا۔ کئی کئی دن سؤر کا گوشت ان کے سامنے رکھا گیا۔ لیکن وہ سرفروش عقیدت جادہ استقلال پر برابر قائم رہا۔ کوئی شخص جو قید خانے میں انہیں دیکھنے آیا مولوی صاحب اس کو یہ پیغام دینے لگ گئے۔ اس طرح تقریباً چالیس اشخاص احمدی ہو گئے’’۔

(الفضل 23 جنوری 1984ء)

حضرت مصلح موعودؓ نے 1923ء میں تحریک شدھی کے خلاف مہم چلائی تو سینکڑوں رضاکار حاضر ہوگئے جنہوں نے جماعت سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا اور اپنا سامان سروں پر اٹھا کر میلوں پیدل چلتے رہے بھوکے سوتے رہے مگر اسلام اور اپنے امام کی محبّت پر کوئی آنچ نہیں آنے دی اسی تحریک کے دوران ریاست بھرت پور کے گاؤں کی ایک بڑھیا مسلمان ہوگئی تو اس کی فصل کاٹنے سے اس کے بیٹوں نے انکار کر دیا تو حضرت مصلح موعودؓ کے حکم پر قادیان کے گریجویٹ اور عربی فاضل اس بڑھیا کی فصل کاٹنے کے لئے پہنچے۔ وہ جو صرف قلم چلاتے تھے اور کبھی درانتی اور کسی نہیں پکڑی تھی وہ زخمی ہاتھوں سے اسلام اور امام کی غیرت دکھا رہے تھے اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے اخبار ’’زمیندار‘‘نے لکھا:

’’احمدی بھائیوں نے جس خلوص، جس ایثار، جس جوش اور جس ہمدردی سے اس کام میں حصہ لیا ہے وہ اس قابل ہے کہ ہرمسلمان اس پر فخر کرے‘‘۔

(زمیندار 8 اپریل 1923ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد5صفحہ347)

حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی حضرت حکیم فضل الرحمٰن صاحبؓ حضرت مصلح موعودؓ کے حکم پر 1923ء میں بطور مبلغ گھانا تشریف لے گئے اور چھ سال بعد 1929ء میں وطن واپس آئے قادیان میں آپ کی شادی ہوئی اور شادی کے تقریباً ڈیڑھ برس بعد ہی 1933ء میں آپ کو پھر مغربی افریقہ بھیج دیا گیا جہاں آپ 14 سال اپنے مقدّس فریضہ کی ادائیگی میں مصروف رہے۔ 1947ء میں آپ مرکز میں واپس تشریف لائے تو بڑھاپے میں قدم رکھ چکے تھے۔ اور آپ کی اہلیہ جنہوں نے شادی کے بعد صرف ڈیڑھ برس ہی اپنے خاوند کے ساتھ گزارے تھے وہ بھی اب ادھیڑ عمر کو پہنچ چکی تھیں۔ لیکن یہ سب کچھ محض اللہ کے دین کی خاطر اور اپنے امام کی محبّت میں تھا۔

(روح پرور یادیں صفحہ32-31۔ از محمد صدیق امرتسری)

حضورؓ نے حضرت مولانا رحمت علی صاحب کو انڈونیشیا بھجوایا مگر جماعت احمدیہ کی غربت کا ان دنوں یہ حال تھا کہ مبلغ بھجوانے کے لئے تو پیسے جمع کرلئے جاتے مگر واپس بلانے کا خرچ مہیا نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ مولانا کو بھی جب بھجوایا گیا تو سال پر سال گزرتے گئے لیکن جماعت کو یہ توفیق نہ مل سکی کہ انہیں اپنے بیوی بچوں سے ملنے کے لئے واپس بلائے۔ ایک دن ان کے سب سے چھوٹے بیٹے نے جو سکول میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ اپنی ماں سے پوچھا کہ اماں سکول میں سب بچے اپنے ابا کی باتیں کرتے ہیں میرے اباکہاں چلے گئے کہ واپس آنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ ماں یہ سن کر آبدیدہ ہوگئی اور جس سمت میں اس نے سمجھا کہ انڈونیشیا واقع ہے اس سمت میں انگلی اٹھا کر یہ کہا کہ بیٹا تمہارے ابا اس طرف خدا کا پیغام پہنچانے گئے ہیں اور اسی وقت واپس آئیں گے جب خدا کو منظور ہوگا۔ انڈونیشیا میں اپنے اہل و عیال سے الگ رہ کرتبلیغ و تربیت میں جو وقت انہوں نے صرف کیا اس کا عرصہ 26سال بنتا ہے۔ بالآخر جماعت نے یہ فیصلہ کیا کہ اب ان کو مستقلاً واپس بلا لیا جائے۔ تب ان کی بیوی جو اب بوڑھی ہو چکی تھی حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور بڑے درد سے یہ عرض کیا کہ میں جوان تھی تو اللہ کی خاطر صبر کیا اور اپنے بچوں کو کسمپرسی کی حالت میں پالا پوسا اور جوان کیا۔ اب جب کہ میں بوڑھی اور بچے جوان ہوچکے ہیں اب تو میری تمنا پوری کر دیجئے کہ میرا خاوند مجھ سے دور خدمت دین کی مہم ہی میں دیارِ غیر میں مَر جائے اور میں فخر سے کہہ سکوں کہ میں نے اپنی تمام شادی شدہ زندگی دین کی خاطر قربان کر دی۔

(ماہنامہ خالد ربوہ۔ فروری1988ء)

(اخبار احمدیہ جرمنی، شمارہ مارچ 2024ء صفحہ 37)

متعلقہ مضمون

  • پروگرام 48 واں جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ جرمنی 2024ء

  • جلسہ سالانہ کا ایک مقصد ’’زہد‘‘ اختیار کرنا ہے

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • ہدایات برائے جلسہ سالانہ جرمنی 2024ء