اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت انسان کچھ فیصلے کرتا ہے، پیچھے رہ جانے والوں کو کچھ ہدایات دیتا ہے۔ بعض اوقات یہ فیصلے اسے امر کردیتے ہیں۔ اسے وفات کے بعد مزید نیک نامی اور شہرت عطا کر دیتے ہیں۔ ایسے ہی ایک خوش قسمت انسان کا نام الفریڈ نوبل ہے، جنہوں نے وفات سے قبل وصیت کی کہ ان کے مال جائیداد اور کاروبار سے حاصل شدہ منافع کو ہر سال انعام کی صورت میں ایسے لوگوں میں تقسیم کیا جائے جو انسانیت کی بہبود کے لئے گراں قدر خدمات بجا لاچکے ہوں۔ ان کی اس وصیت پر عمل کرتے ہوئے نوبل کمیٹی ہر سال طبیعات، طِبّ، کیمیا، ادب، امن اور معاشیات کے لئے بہترین خدمت کرنے والوں کو نوبل انعام دیتی ہے۔ تقسیم انعامات 10 دسمبر کو نوبل کی وفات کے دن ہوتی ہے۔ سال 2023ء میں گیارہ خوش قسمت افراد کو نوبل انعام کے لئے چنا گیا ہے۔ اس مضمون میں اختصار کے ساتھ اور سادہ فہم انداز میں ان کی خدمات اور اس سے بنی نوع انسان کو حاصل ہونے والے فوائد کا ذکر کیا جائے گا۔

الیکٹرانز کی دنیا اور فزکس کا نوبل انعام

اس سال جن تین سائنسدانوں کو فزکس کا نوبل انعام ملا ہے ان کی ریسرچ کی بدولت محققین ایٹمز اور مالیکیولز کے اندر حیران کن تیز رفتار سے حرکت کرتے اور اپنی حالتوں میں تبدیلی کرتے الیکٹرانز کی دنیا کو بہتر انداز میں سمجھ پائیں گے۔ ایٹمز کے اندر الیکٹرانز میں ایک حالت سے دوسری حالت میں تغیر attosecond اسکیل پر ہوتا ہے۔ ایٹو سیکنڈ ناقابلِ یقین حد تک مختصر وقت ہے۔ یوں سمجھیں کہ ایک سیکنڈ میں اتنے ہی ایٹو سیکنڈز ہیں جتنے کائنات کے معرض وجود میں آنے سے اب تک کے دورانیہ میں موجود سیکنڈز۔

تینوں محققین Ferenc Krausz، Pierre Agostini ،Anne L’Huillier نے روشنی کی اس قدر مختصر پلسز pulses پیدا کرنے کا طریقہ ایجاد کیا ہے کہ روشنی کی ان چمکوں کی پیمائش ایٹو سیکنڈ میں کی جاتی ہے۔ روشنی کی یہ مختصر چمک ایٹمز اور مالیکیولز کے اندر ہونے والی تبدیلیوں کی تصویر کشی کرسکتی ہے۔ اس ریسرچ سے بنی نوع انسان کو مستقبل میں بہت فائدہ پہنچنے والا ہے۔ چنانچہ سائنسدان جسم میں ہونے والی کیمیائی تبدیلیوں کودیکھ سکیں گے جس سے طبّی تشخیص میں خاطر خواہ مدد ملے گی۔

قارئین کرام کو معلوم ہوگا کہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو بھی 1979ء میں فزکس کا نوبل انعام ملا تھا۔ آپ مسلم دنیا کے پہلے سائنسدان ہیں جنہیں سائنس کے میدان میں نہایت اعلیٰ پائے کی تحقیق پر انعام کا حق دار قرار دیا گیا۔

Quantum Dots اور کیمسٹری کا انعام

عمارتوں کو بنانے کے لئے اینٹیں یا پتھر درکار ہوتے ہیں۔ بڑے قلعہ کی تعمیر کے لئے بڑے پتھر جبکہ گھروں کے لئے چھوٹی اینٹیں یا ٹائلز وغیرہ استعمال ہوتی ہیں۔ اسی طرح ہر چیز کی تیاری کے لئے مواد کی خصوصیات اس کے حجم پر منحصر ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے اگر ایک بہت ہی چھوٹی عمارت تیار کرنی ہو، اتنی چھوٹی کہ بغیر خوردبین کے نظر نہ آسکے، تو اس کے لئے درکار اینٹیں بھی غیرمعمولی طور پرچھوٹی ہونی چاہئیں۔ سائنسدان اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ اگر بہت چھوٹے ذرات یا دوسرے الفاظ میں اینٹیں بنا لی جائیں، تو ان سے تیار شدہ مواد سے حیرت انگیز فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔

نینو پارٹیکلز انسان کے بنائے ہوئے سب سے چھوٹے ذرات میں سے ہیں جو اتنے چھوٹے ہیں کہ بلحاظ حجم ایٹمز اور مالیکیولز کے برابر ہوتے ہیں۔ ان کا سائز ایک نینو میٹر سے سو نینو میٹر کےدرمیان ہوتا ہے۔ ایک نینو میٹر کا مطلب ہے ایک میٹر کا ایک اربواں حصہ۔ یوں سمجھیں کہ ایک نینومیٹر ایک میٹر سے اتنا ہی چھوٹا ہے جتنا بچوں کے کھیلنے والا شیشے کا کنچا ہماری زمین سے۔

کوانٹم ڈاٹس نینو پارٹیکلز کی ہی ایک قسم ہے جن کا حجم ایک سے دس نینو میٹر کے برابر ہے۔ ان پر اگر روشنی پھینکی جائے تو یہ مخصوص رنگوں کی روشنی خارج کرتے ہیں۔ اس روشنی کا رنگ ان کے حجم پر منحصر ہے۔ اپنی اس صلاحیت کی بدولت کوانٹم ڈاٹس کو اب QLED ٹیکنالوجی پر مبنی کمپیوٹر مانیٹر اور ٹیلی ویژن اسکرینوں کو روشن کرنے کے لئے استعمال کیا جارہاہے۔

میڈیسن میں ان کا استعمال جسم کے اندر ٹشوز کی imaging یعنی تصویر کشی میں ہوگا۔ اپنے چھوٹے سائز کی وجہ سے یہ خلیوں کے اندر پہنچ جاتے ہیں۔ جہاں سےان سے نکلنے والی روشنی کی بدولت اردگرد کی امیجنگ ہوسکتی ہے۔ یہ معلومات ڈاکٹرز کو سرجری کے دوران کینسرشدہ ٹشوز کو نکالنے میں مدد دے گی۔

ان چھوٹے ذرّات کی صلاحیتوں کے بارے میں ابھی موجودہ علم محدود ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق ان سے بنی نوع انسان کو مستقبل میں بہت فائدہ ملنے والا ہے۔ مثلاً لچکدار الیکٹرانکس، دُبلے پتلے سولر سیلز وغیرہ۔ تصوّر کریں کہ آپ گھر کی بیرونی دیواروں پر رنگ کی جگہ سولر سیلز کا پینٹ کر دیں اور یہ دیواریں سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرتی رہیں۔ یہ سب کوانٹم ڈاٹس کی بدولت مستقبل قریب میں ممکن ہوجائے گا۔

چنانچہ 2023ء میں کیمسٹری کا نوبل انعام تین سائنسدانوں Moungi Bawendi, Alexei Iwanowitsch Jekimow, Louis Brusm کو دیا گیا جنہوں نے کوانٹم ڈاٹس کی دریافت، تیاری اور ان کو قابلِ استعمال بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

طِبّ کا انعام COVID-19 کے نام

اس سال طِبّ کا نوبل انعام متوقع طور پر COVID-19 کے لئے تیار کی جانے والی ویکسین پر ہی دیا جانا تھا۔ اس ویکسین کی بدولت دنیا بھر میں کروڑہا انسانوں کو کووِڈ وائرس کے خلاف مدافعت فراہم کی گئی۔ کووِڈ کے لئے ایک نئی قسم کی ویکسین استعمال ہوئی جسے mRNA ویکسین کہتے ہیں۔ جس میں BioNTech اور Moderna ویکسینز شامل ہیں۔

ویکسین کو عمومی طور پر اس طرح تیار کیا جاتا ہے کہ وائرس ہی کی کمزور، مردہ قسم کی شکل یا اس کے بےضرر ٹکڑوں کو جسم میں داخل کیا جائےتا کہ جسم کا دفاعی نظام اس کے خلاف مدافعت حاصل کرنا سیکھ لے اور اگر بعد میں اصلی وائرس جسم میں داخل ہو بھی جائے تو دفاعی نظام اسےمختصر ترین دورانیہ میں باآسانی شکست دے سکے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کمال کا دفاعی نظام عطا کیا ہے جو نئے دشمن کے حملوں کا ناصرف مقابلہ کرتا ہے بلکہ اس ساری کارروائی کو اپنی یاداشت میں محفوظ بھی کرلیتا ہے کہ کس وائرس کے لئے کون سا طریقِ دفاع موثر ہے۔ ویکسین کا کام انسانی دفاعی نظام کو تربیت دے کر اسی یادداشت کو محفوظ کرنا ہے جس سے بعدازاں اصل حملہ ہونے پر پیشتر اس سے کہ وائرس اپنا کام دکھائے، دفاعی نظام حملہ آوروں کو تباہ کر دیتاہے۔

ان ویکسینز کو بڑے پیمانے پر تیار کرنے کے لئے کافی وقت درکار ہوتا ہے۔ جبکہ کووڈ کے حالات میں دنیا کو مختصر وقت میں کثیر مقدار میں ویکسین چاہئے تھی۔ اس لئےروایتی طریقہ کی بجائے مصنوعی mRNA کی بدولت کووڈ ویکسین کو تیار کیا گیا جس نے دنیا بھر کی ضرورت کو کم سے کم وقت میں پورا کر دیا۔ یہ غیرروایتی ویکسین کیسے کام کرتی ہے۔ اس کے لئے ہمیں mRNA یعنی messenger RNA کا کردار سمجھنا ہوگا۔ جیسا کہ نام سے واضح ہے کہ یہ پیغام رساں RNA انسانی ڈی این اے کے دئیے ہوئے پیغام کو پروٹینز تیار کرنے والی فیکٹریز تک لے جاتے ہیں۔ ان فیکٹریز کو رائبوسومز Ribosomes کہتے ہیں۔

ایک وائرس جب انسانی خلیوں میں داخل ہوتا ہے تو وہ خلیوں کو ہائی جیک کرکے ان پر مکمل کنٹرول سنبھال لیتا ہے اور اپنی جینیاتی مواد میں لکھی ہوئی ہدایات کو رائبوسومز تک بھجوانا شروع کردیتا ہے تاکہ وائرل پروٹینز تیار ہوں اور اس طرح وائرس اپنی کروڑہا کاپیاں تیار کرلیتا ہے۔ ان وائرل پروٹینز کے خلاف جسمانی دفاعی نظام بھی فعال ہوجاتا ہے اور آہستہ آہستہ ایسی وائرس مخالف پروٹینز جنہیں اینٹی باڈیز کہتے ہیں تیار کرلیتا ہے جو وائرس کو شکست دے سکیں۔ جب وائرس انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے تو اس کی سطح پر موجود پروٹینز کی بدولت انسانی دفاعی نظام پہچان لیتا ہے کہ دشمن نے حملہ کیا ہے اور اس کے خلاف جنگ کی تیاری شروع کردیتا ہے۔ اسے قوّت مدافعت یا immunity کہتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے اس نظام کو سمجھ کر سائنسدانوں کو یہ سوجھی کہ بجائے جسم میں مردہ وائرس داخل کرنے کے کیوں نہ ہم جسم میں براہِ راست ایسی ہدایات داخل کریں جن کی بدولت جسم وائرل پروٹینز تیار کرنا شروع کردے۔ چنانچہ mRNA کے ذریعہ اگر کسی وائرس کے جینیاتی مواد سے لی گئی ہدایات کو جسم میں داخل کیا جائے تو رائبوسومز اسی وائرس کی پروٹینز تیار کرنا شروع کردیں گے۔ اسی اصول کو مدِّنظر رکھتے ہوئے جب کووڈ کی وبا پھوٹی ہے تو کچھ سائنسدانوں نے کورونا وائرس کی سطح پر موجود پروٹینز جنہیں Spike Proteins کہتے ہیں، ان کی تیاری کا ‘‘بلیو پرنٹ’’ یعنی جینیاتی ہدایات حاصل کیں اور انہیں مصنوعی mRNA میں داخل کرکے ویکسین تیار کرلی۔ یعنی جب یہ ویکسین انسانی جسم میں داخل ہو تو جسم کورونا وائرس کی سطحی پروٹینز تیار کرنا شروع کردے جنہیں دیکھ کر جسم ویسی ہی مدافعت حاصل کرلے جیسی اصل کورونا وائرس کے داخل ہونے پر کرےگا۔ یہ یقیناً بہت بڑی کامیابی تھی۔

2023ء میں طِبّ کا نوبل انعام حاصل کرنے والے دونوں سائنسدانوں نے مصنوعی طورپر mRNA تیار کیا تھا۔ ان میں سے ایک Katalin Karikَ اور دوسرے Drew Weissman ہیں جنہوں نے نَوّے کی دہائی میں مصنوعی mRNA کی تیاری پر تجارب کرنا شروع کئے۔ جن سے بالاآخر وہ یہ جاننےمیں کامیاب ہوگئے کہ انہیں انسانی مدافعتی نظام کو متحرک کرنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ان کے اسی علم کو استعمال کرتے ہوئے کووِڈ کے خلاف mRNA ویکسینز تیار کی گئیں۔

ادب کا نوبل انعام

اس سال ادب کا نوبل انعام ناروے کے 64 سالہ مصنف Jon Fosse کو ان کےاختراعی ڈراموں اور نثر کے لئے دیا گیا۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ چند دن مطالعہ نہ کیا جائے تو گفتگو پھیکی ہونے لگتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں مطالعہ کتب کو آج بھی بہت اہمیت حاصل ہے۔ یورپ کے مہنگے ترین شہروں میں اگر بینکوں کی عمارتیں بڑی بڑی بنائی جاتی ہیں تو وہاں کتب کی دُکانیں بھی اپنی خوبصورتی اور بڑے سائز کی ہونے کے اعتبار سے نمایاں ہوتی ہیں۔ یہ دلکش بک شاپس اور لائبریریاں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ یہاں کے باشندے کتابوں کے مطالعہ کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ کتابوں سے اسی محبّت نے شاید ان قوموں میں حصولِ علم کو زندہ رکھا ہوا ہے۔

ایک وقت تھا جب مسلمانوں میں بھی کتب کی محبّت بہت زیادہ تھی۔ وہ حصول علم کے لئے دور دور کے سفر کرتے اور ہر نادر کتاب کو اپنی لائبریری کی زینت بنانا چاہتے۔ یہاں ایک واقعہ کا لکھنا بےجا نہ ہوگا جو حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے کتب سے عشق اور احمدی خدام کی خلافت سے محبّت اور اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دینے پر تیار رہنے کو ظاہر کرتا ہے۔

حضرت مولوی غلام نبی مصریؓ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے شاگرد اور مدرسہ احمدیہ قادیان کے استاد تھے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کتابوں کے عاشق تھے کسی کتاب کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ کتاب صرف مصر کے کسی کتب خانہ میں موجود ہے، دنیا میں کہیں اور کسی جگہ دستیاب نہیں۔ حضرت مولوی صاحب نے اس خواہش کا اظہار کیا اے کاش یہ کتاب ہمیں دستیاب ہوجائے۔ شاگرد نے استاد کی بات سنی۔ سفر کی اجازت چاہی اور مصر روانہ ہوگئے۔ کوئی زادِ راہ پاس نہ تھا۔ توکل کا دامن پکڑا اور چل پڑے۔ راہ میں کسی مریض کا علاج کرنے کا موقعہ میسر آیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو شفا یاب کیا تو اس کے ورثاء نے ایک قیمتی کمبل ان کی نذر کیا۔ بمبئی پہنچے تو ایک جہاز عدن جا رہا تھا۔ کمبل بیچا تو کرایہ کی رقم میسر آگئی۔ عدن پہنچ گئے وہاں سے ایک قافلہ کے ساتھ مصر چل پڑے۔ پیدل چلے جاتے تھے۔ مسافروں کا سامان اُٹھانے اور اونٹوں پر اتارنے لادنے کا کام کرتے اور کھانا میسر آجاتا۔ کبھی کبھار وہ انہیں اونٹ پر سوار ہو جانے کی اجازت بھی دے دیتا۔ آخر مصر جا پہنچے۔ کھجوروں کی گٹھلیاں چنتے بیچتے تو دو وقت کا کھانا میسر آجاتا۔ لائبریری میں کتاب موجود تھی مگر اس کو قلم سے نقل کرنے کی اجازت نہ تھی۔ پنسل سے نقل تیار کرتے۔ گھر پہنچ کر سیاہی سے اسے روشن کرتے اور اپنے مرشد کی خدمت میں بھیج دیتے۔ کئی سالوں میں کام مکمل ہوا۔ درمیان میں یہ آزمائش بھی آئی کہ کتب خانہ والوں نے کتاب کو پنسل سے نقل کرنے کی اجازت بھی منسوخ کردی۔ مولوی صاحب نے کتاب حفظ کرنا شروع کردی۔ جتنا حصہ حفظ کرتے گھر پہنچ کر لکھ لیتے۔ کئی برسوں میں یہ کام مکمل کیا۔ واپسی کا حکم ہوا تو اسی طریق سے واپس آگئے۔ (الفضل 4 جولائی 2015ء)

31 برس قید اور اَمن کا نوبل انعام

اس سال امن انعام کا حق دار ایران کی نرگس محمدی کو قرار دیا گیا جو ایران میں خواتین کو مساوی انسانی حقوق دلانے اور خواتین پر بےجا پابندیوں اور ظلم کے خلاف آواز اٹھائے ہوئے ہیں۔ انسانی حقوق اور آزادی کے لئے کی جانے والی کوششوں کے باعث انہیں ایرانی حکومت نے 13 مرتبہ گرفتار کیا، پانچ بار مجرم ٹھہرایا، 154 کوڑے لگائے اور مجموعی طور 31 برس کی قید سنائی ہوئی ہے۔ نوبل کمیٹی نے جب ان کے نام کا اعلان کیا تو اس وقت بھی نرگس محمدی قید ہی میں تھیں۔

سال 2022ء میں ایرانی پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والی نوجوان کرد خاتون مہسا امینی کے لئے ایران میں بہت بڑے سیاسی مظاہرے ہوئے۔ ’’عورت۔ زندگی۔ آزادی‘‘کے نعرے کے تحت، لاکھوں ایرانیوں نے خواتین پر حکام کی بربریت اور جبر کے خلاف پُرامن احتجاج میں حصہ لیا۔ یہ نعرہ نرگس محمدی کی کوششوں یعنی عورت کے حقوق، اس کے باوقار زندگی گزارنے اور شخصی آزادی کی کوششوں کو دیکھتے ہوئے اپنایا گیا۔ انہوں نے جیل سے ان مظاہرین کے لئے حمایت کا اعلان کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ مظاہرے ختم نہ ہوں۔ سال 2003ء میں نرگس محمدی نے شیریں عبادی کی قائم کردہ تنظیم میں شمولیت اختیار کی۔ شیریں عبادی کا تعلق بھی ایران سےہے اور انہیں سال 2003ء میں امن کا نوبل انعام دیا گیاتھا۔ نرگس محمدی نے ایران میں رائج سزائے موت کے خلاف بھی آواز اٹھائی جس کے لئے انہیں گرفتار کیا گیا۔

اکنامک سائنسز

الفریڈ نوبل کی یاد میں اکنامک سائنسز میں Sveriges Riksbank پرائز کلاڈیا گولڈن کو ’’خواتین کی لیبر مارکیٹ کے نتائج کے بارے میں ہماری سمجھ کو آگے بڑھانے کے لیے‘‘دیا گیا۔ کلاڈیا گولڈن نے امریکہ کا گزشتہ دو سو سال کا ڈیٹا اکٹھا کیا اور یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ مختلف اوقات میں خواتین کی لیبر مارکیٹ میں نمائندگی میں اُتار چڑھاؤ کی کیا وجوہ تھیں۔

مثال کے طور پر انہوں نے یہ معلوم کیا کہ انیسویں صدی کے آغاز میں شادی شدہ خواتین جو پہلے شعبہ زراعت میں کام کر رہی تھی، صنعتی انقلاب آنے پر ان کی شرکت کم ہونا شروع ہوگئی۔ لیکن پھر بیسیویں صدی کے اوائل میں سروس سیکٹر کی ترقی کے ساتھ اس میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔ بیسویں صدی کے دوران، خواتین کی تعلیم کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوا، اور زیادہ تر آمدنی والے ممالک میں اب وہ مردوں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہیں۔ گولڈن نے یہ بھی ثابت کیا کہ مانع حمل ادویات نے بھی خواتین کو بہتر کیریر پلاننگ میں مدد فراہم کی ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ احمدی والدین اپنے بچوں کی اس نہج پر تربیت کریں اور ان میں علوم حاصل کرنے کا شوق پیدا کریں تاکہ احمدی طلبا علم کے میدان میں ترقی کرتے ہوئے بنی نوع انسان کے لئے بےلوث خدمات بجا لائیں۔ اور جس طرح ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے اسلام احمدیت کا نام روشن کیا، مستقبل میں درجنوں احمدی سائنسدان ہوں جو نوبل انعام حاصل کرسکیں،آمین۔

(مکرم ڈاکٹر شکیل احمد شاہد صاحب۔ پی ایچ ڈی)

(اخبار احمدیہ جرمنی، شمارہ جنوری 2024ء صفحہ 37)

متعلقہ مضمون

  • محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

  • قرآنِ کریم اور کائنات

  • بھاگتے ذرّے اور سرن

  • عظیم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب اور سرن