مکرم جمیل احمد بٹ صاحب

 

11 جنوری 2023ء کوخانہ خدا میں عشاء کی عبادت کے لئے جمع افراد جماعت میں سے نو بہادر اور دلیراحمدیوں نے اپنی پہاڑوں جیسی استقامت اور حیرت انگیز ایمان اور یقین سے جان کی قربانیاں دے کر ہمیشہ کی زندگی پائی اور افریقہ بلکہ دنیائے احمدیت میں قربانیوں کی ایک نئی تاریخ لکھی۔ اپنے خدا داد عشق، وفا اور اخلاص سے حضرت مسیح موعودؑ کی سچائی پر اپنے خون سے انمٹ گواہی دئیے جانے کا یہ حالیہ واقعہ قادیان سے 7800 کلومیٹر دور مغربی افریقہ کے ایک ملک برکینافاسو کے شہر ڈوری کے مقام مہدی آباد میں پیش آیا۔

غیر معمولی رنگ

احمدی ہونے کے جرم میں مخالفین کے ہاتھوں شہید ہونے والے ان زندہ و تابندہ شہدا کی مجموعی قربانی کا یہ رنگ غیر معمولی ہے کہ قاتلوں نے ان میں سے ہر ایک کو باری باری جان کے بدلے حضرت مسیح موعودؑ کے انکار کا موقع دیا۔ لیکن ان کا جواب یہ تھا کہ جان تو ایک دن جانی ہے، آج نہیں تو کل، اس کوبچانے کے لئے ہم اپنے ایمان کا سودا نہیں کر سکتے۔ جس سچائی کو ہم نے دیکھ لیا ہے اسے ہم چھوڑ نہیں سکتے۔ یوں ان سب نے ایک جیسے یقین محکم اور دلیری کا مظاہرہ کیا اور ایمان کا علم بلندرکھتے ہوئے اپنے ایمان کو زندگی پر ترجیح دی۔ اس دھمکی کو پہلے شہید کے بعد سب نے خود پورا ہوتے دیکھا اور 44 سالہ آخری شہید کو تو دشمن نے ان کی کم عمری کا حوالہ بھی دیا۔ لیکن آفرین ہے ان کی شجاعت، بہادری اور یقین پر کہ کسی کے پائے اِستقلال میں ذرہ برابر بھی جنبش نہ آئی اور سب نے سچائی کی خاطر اپنی جانیں نذر کر نے کی راہ کو ہی اَپنائے رکھا۔ ہر شہید کو کم و بیش تین گولیاں ماری گئیں اور ایک کے بعد دوسرا اپنی جان قربان کرتا چلا گیا۔

پہلوں کے قائم مقام

یہ وہی راستہ ہے جسے 120 سال پہلے کابل میں حضرت سیّد عبداللطیف شہیدؓ نے اختیار کیاتھا۔ جب بادشاہِ وقت نے ان سے حضرت مسیح موعودؑ کا انکار کر دینے پر جان بخشی کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن انہوں نے حق کی خاطر سنگساری کے ذریعہ شہید ہو جانے کو ترجیح دی تھی۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود نےتحریرفرمایا:
“جبکہ وہ کمر تک زمین مین گاڑ دئیےگئے تھے۔ امیر ان کے پاس گیا اور کہا کہ اگر تو قادیانی سے جو مسیح موعودؑ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے انکار کرے تو اب بھی میں تجھے بچا لیتاہوں… تب شہید مرحوم نے جواب دیا کہ نعوذباللہ سچائی سے کیونکر انکار ہو سکتا ہےاور جان کی کیا حقیقت ہے اور عیال و اطفال کیا چیز ہیں جن کے لئے میں ایمان کو چھوڑ دوں۔ مجھ سے ایسا ہرگز نہیں ہوگا اور میں حق کے لئے مروں گا۔ (تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 59)

کشف کی تعبیر

اس واقعہ سے حضرت مسیح موعودؑ کا یہ کشف بھی اپنی پوری شان سے ایک بار پھر پورا ہؤا جو آپ نےواقعہ شہادت حضرت سیّد عبداللطیف صاحب شہیدؓ کے قریب دیکھا تھا اور جس کے بارے میں آپ نے فرمایا تھا: مَیں نے اس کی یہی تعبیر کی کہ خداتعالیٰ بہت سے ان کے قائم مقام پیدا کر دےگا۔ سو مَیں یقین رکھتا ہوں کہ کسی وقت میرے اس کشف کی تعبیر ظاہر ہو جائے گی۔
(تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 76)
سو یہ قائم مقام نہ صرف پیدا ہوئے بلکہ حضرت خلیفۃ المسیح کے الفاظ میں انہوں نے قائم مقامی کا حق بھی ادا کر دیا۔

دیگر بہادر

ان جان دینے والوں کے علاوہ خانہ خدا میں ساٹھ ستر افراد موجود تھے جن کے سامنے ڈیڑھ گھنٹے تک دہشت گرد سوال و جواب، تیاری اور بالآخر ان کے پیاروں کو یکے بعد دیگرےقتل کی یہ کارروائی کرتے رہے۔ ان کی عورتوں اور بچوں نے یہ سب دیکھا لیکن کسی نے کوئی واویلا نہ کیا اور ثابت کر دیا کہ یہ سب احباب، خواتین اور بچے بھی کوئی کم بہادر نہ تھے۔

ایک اَور رنگ

یہ شہداء دنیوی طور پر کمزور تھے اور ان میں سے کام کرنے والے زیادہ تر کاشتکار تھے جبکہ ایک جوتوں کا کاروبار کرتے تھے۔ ان غریب اورنسبتاً نئے آنے والوں کا احمدیت پر ڈٹے رہنا اور انکار نہ کرنے کے جرم میں شہادت قبول کرلینے کےاس جرّی اور بہادرانہ اظہار نے ان سب مخالفین کے منہ بند کردئے ہیں جو ملک اور بیرون ملک یہ جھوٹاالزام لگاتے ہیں کہ جماعت غریبوں کو لالچ دے کر احمدی کر لیتی ہے۔ یہ پہلو بھی حضرت خلیفۃالمسیح نے اپنے خطبہ جمعہ میں بیان فرمایا ہے۔

ہمہ صفت

حضورانورایّدہ اللہ تعالیٰ نے ان شہداء کو احمدیت کے نو چمکتے ستارے فرمایا ہے۔ ان کے ذکر میں جو صفات بیان فرمائیں ان سے ان سب کا مخلص اور باعمل احمدی ہونا ظاہر ہے۔ بیشتر 1999ء کے احمدی تھے اور اس طرح یہ بعد میں آئے لیکن پہلوں سے سبقت لے گئے۔ ان میں سے کئی 2008 میں غانا میں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس کے دورےکے موقع پر ہزار میل سفر اختیار کرکے وہاں پہنچےتھے۔ یہ سب عام لوگوں کے کام آتے، مالی قربانیوں میں حصہ لیتے، نمازوں کی پابندی کرتے، خانۂ خدا سے جڑے رہتے، ایم ٹی اے سنتے، جماعت کے کاموں کے لئے وقت دیتے اور امام صاحب کے مددگار اور دَستِ راست رہتے۔ ان میں سے ایک صاحب زعیم انصاراللہ بھی تھے۔ 1997ء میں 20 سال کی عمر میں احمدی ہونے والےعبدالرحمٰن صاحب نائب امام الصلوٰۃ کی ذمہ داریاں اٹھائے ہوئے تھے۔
68 سالہ امام الحاج ابراہیم صاحب مکہ مدینہ میں تحصیل علم کئے ہوئے ایک عالم تھے۔ عربی خوب بولتے تھے۔ اپنی زبان میں مفسر قرآن تھے۔ احمدی ہونے سے پہلےچیف امام تھے۔ اور ان کے سینکڑوں شاگرد تھے جو کئی کئی دن ان سے اکتساب علم کرنے حاضرہوتے تھے۔ بہت تحقیق کے نتیجہ میں احمدی ہونے کے بعد کے ان کے شاگرد مختلف جگہوں پر معلّم اور امام ہیں۔ تبلیغ کا جنون تھا۔ اوراس میں کسی روک کو خاطر میں نہ لاتے۔ یہی درس دیتے کہ میڈیا کے ذریعہ تبلیغ کریں اور واٹس ایپ کو استعمال کریں۔ مالی قربانی میں بھی آگے رہتے۔ لندن جا کر حضرت خلیفۃالمسیح الرابع سے ملاقات کا شرف بھی پا چکے تھے۔

ممکنہ نتائج

یہ شہادتیں جہاں ان قربانیوں کا تسلسل ہیں جو افرادِجماعت سوا سو سال سے سچ کی خاطر دیتے چلے آرہے ہیں وہیں یہ ان عظیم کامیابیوں کی نوید بھی ہیں جو ان کے نتیجہ میں کل جماعت کو ملنے والی ہیں۔ جیسا کہ حضرت خلیفۃالمسیح نے فرمایا ہے کہ اللہ کی راہ میں جان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی بلکہ ان کا جان دینا ہی جما عت کی زندگی کا باعث ہے اور یہی پیچھے رہ جانے والوں کی زندگی اور ترقیات کا ذریعہ بھی۔

قربانیوں کا درس

حضرت خلیفۃالمسیح نے فرمایا ہے کہ اب پہلے سے بڑھ کر احمدیت یہاں بڑھے گی اور پنپے گی۔ حکمتِ عملی کے ساتھ دعوت کے پروگرام بنا نے چاہئیں۔ اب حکمت اور منصوبہ بندی سے وہاں کام کرنا ہوگا۔ یہ قربانی کرنے والے تو اس آزمائش میں پورے اُترے۔ اب پیچھے رہنے والوں کے ایمان اور یقین میں آگے بڑھنے کا امتحان ہے۔ برکینا فاسو کے لئے یہ درس شاید ہر اس جگہ کے لئے بھی ہے جہاں خدائی مشیّت کے تابع جماعت جانی قربانی دے رہی ہے۔ اللہ کرے ہم اس پیغام کو سمجھیں اور اس کے مطابق قدم بڑھائیں۔ اور اس خوش خبری کے حصول میں اپنا حصہ ڈالنے والے ہوں کہ: یہ مت خیال کرو کہ کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا۔ تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا۔ خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا۔ اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا۔
(الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 309)

حضور کی دعائیں

اللہ تعالیٰ ان میں سے ہر ایک کو ان بشارتوں کا وارث بنائےجو اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں قربانیاں کرنے والوں کو دی ہیں اللہ تعالیٰ ان کے لواحقین کو صبر و حوصلہ دے اور ان کے بزرگوں نے جس مقصد کے لئے اپنی جان کے نذرانے پیش کئے ہیں اس کی اہمیت ان کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔… اللہ تعالیٰ ان کی اولادوں اور نسلوں کو بھی اخلاص و وفا میں بڑھائے۔ اللہ ان قربانیوں کو وہ پھل پھول لگائے جن کے نتیجہ میں حضرت محمد رسول اللہﷺ کی حقیقی تعلیم کو ہم جلد سے جلد دنیا میں پھیلتا دیکھنے والے ہوں۔ جہالت دنیا سے ختم ہو۔ اور خدا کی حقیقی بادشاہت دنیا میں قائم ہو جائے، آمین۔

متعلقہ مضمون

  • جماعتی سرگرمیاں

  • مجلس انصاراللہ جرمنی کا 43واں سالانہ اجتماع

  • نیشنل وصیت سیمینار 2024ء

  • اسلام و قرآن نمائش