حضرت خليفةالمسيح الثانيؓ  نيورن برگ (جرمني) ميں چند روزہ قيام کے بعد ہالينڈ تشريف لے گئے تھے، وہاں بھي چند دن قيام کے دوران تبليغ اسلام کي مہم کا جائزہ لينے کے بعد ايک مرتبہ پھر جرمني تشريف لائے۔ اس مرتبہ آپ بذريعہ ہوائي جہاز ہمبرگ تشريف لائے اور چار دن ہمبرگ ميں قيام فرمانے کے بعدوہيں سے بذريعہ ہوائي جہازہالينڈ واپس تشريف لے گئے۔ اس دوران حضورؓکي مصروفيات کي تفصيل حسب ذيل ہے۔

25 جون 1955ء

حضورؓ 25 جون کو بذريعہ ہوائي جہاز مع افرادِقافلہ (حضرت سيّدہ اُمّ متين صاحبہؒ، حضرت سيّدہ مہرآپاؒ صاحبہ، محترمہ صاحبزادي امةالجميل صاحبہ اور محترمہ صاحبزادي امةالمتين صاحبہ، محترم سيّد مير داؤد احمد صاحب، محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب مع اہليہ صاحبہ و بيٹي، محترم صاحبزادہ ڈاکٹرمرزا منور احمد صاحب اور محترم ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب) ہمبرگ تشريف لائے۔ حضورؓ ہيگ سے 56 کلوميٹر کے فاصلہ پر واقع ايمسٹرڈم Amsterdam کےہوائي مستقر سخيپول Schiphol سے سوا تين بجے KLM کمپني کے دو انجنوں والے کانوئير جہاز (Convair)کے ذريعے روانہ ہوئے۔ روانگي سے قبل حضورؓ نے جہاز ميں بيٹھ کر ہاتھ اٹھا کر دعا کرائي۔ اس اجتماعي دعا ميں الوداع کہنے کے لئے آئے ہوئے دوست بھي باہر کھڑے شامل ہوئے۔ ہوائي جہاز نےسوا تين بجے پرواز کي اور ساڑھے چار بجے کے قريب ہمبرگ کے ہوائي مستقر پرحضورؓؓکا جہاز اترا۔ اُس وقت موسلادھار بارش ہو رہي تھي۔ محترم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے جہاز کي سيڑھي پر حضورؓ کو سہارا دے کر اُترنے ميں مدد کي۔ محترم چودھري عبداللطيف صاحب مبلغ سلسلہ کي قيادت ميں مقامي جرمن نو احمديوں مکرم عبدالکريم ڈنکر صاحب (Dunker) مع اہليہ، مکرم عبدالحميد ڈنگر صاحب (Dünger) اور ايک پاکستاني دوست مکرم محمود الٰہي صاحب اِستقبال کے ليے موجود تھے۔ حضورؓ کا استقبال کرتے ہوئے مسٹر اور مسز ڈنکر نے حضورؓ کي خدمت ميں پھول پيش کيے اور حضورؓ کو انتظارگاہ ميں لے گئے۔ يہاں سے سامان لينے، پاسپورٹ دکھانے اور کسٹم وغيرہ سے فارغ ہو کر حضورؓ مع افراد قافلہ ٹيکسيوں ميں سوار ہو کر پانچ بجے اپني قيام گاہ Hotel Europäischer Hof پہنچے جہاں ديگر احباب ِجماعت(جرمن نواحمدي) پذيرائي کے لئے موجود تھے۔ حضورؓ کے لئے اس ہوٹل کي چوتھي منزل پر کمرہ نمبر 447 مخصوص تھا[1]۔

حضورؓ کي مصروفيات

حضرت خليفةالمسيح الثانيؓ ہوٹل پہنچنےکے بعد اپنے کمرے ميں تشريف لے گئے اور نصف گھنٹہ کے بعد ملاقات کے کمرہ ميں تشريف لے آئے۔ يہاں پہلے ہمبرگ کے ايک فوٹو جرنلسٹ مسٹرHelmuth Pirath[2] نے اپنے ايک ساتھي کے ساتھ حضورؓ کا انٹرويو ليا اور متعدد فوٹو بنائے۔ چنانچہ ہمبرگ کے مقامي اخبارات ميں يہ تصاوير اور حضورؓ کے دورہ کي خبريں بھي شائع ہوئيں۔ اس انٹرويو کے بعد حضورؓنے نماز ظہر و عصر پڑھائي جس ميں تمام موجود احباب شامل ہوئے۔ نمازوں کے بعد ايک گھنٹہ تک حضورؓ پُر نور احباب جماعت سے مشن کے استحکام سےمتعلق تبادلۂ خيالات فرماتے رہے اور بعض ديگر ضروري امور کے علاوہ ہمبرگ ميں مسجد کي تعمير کے متعلق تفصيلي گفتگو فرمائي۔

بعد ازاں سات بجے شام کھانے کے ليے حضورؓ تمام افرادِ قافلہ کے ساتھ مبلّغ سلسلہ محترم چودھري عبداللطيف صاحب کے گھر تشريف لے گئے جہاں حضورؓنے محترم چودھري صاحب کے اہل خانہ اور بچوں کو خصوصي شفقت سے نوازا۔ کھانے سے فارغ ہوکر حضورؓ نو بجے کے قريب واپس ہوٹل تشريف لائے۔

(الفضل 15 جولائي 1955ء و الفضل يکم ستمبر 1955ء)

26 جون 1955ء

ابتداء ميں ذکر ہو چکا ہے کہ حضرت خليفةالمسيح الثانيؓ کے دورہ يورپ کا ايک مقصد تفصيلي طبّي معائنہ بھي تھا۔ چنانچہ اس سے قبل سوئٹزرلينڈ کے بعد جرمني کے شہر نيورن برگ ميں بھي اعصابي امراض کے ماہرين حضورؓ کا معائنہ کرچکے تھے، ہمبرگ ميں تشريف آوري پر بھي دو مختلف ماہر ڈاکٹروں نے حضورؓ کا معائنہ کرنے کي سعادت پائي۔

ہمبرگ ميں پہلا طبّي معائنہ

چنانچہ 26 جون بروز اتوار صبح دس بجے حضورؓ طبّي معائنہ کے ليے ہمبرگ يونيورسٹي کے پروفيسر Dr. H. Pette کے مکان پر تشريف لے گئے۔ اس موقع پرمحترم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب، محترم ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب، ڈاکٹر دھاون صاحب[3] اور محترم چودھري عبداللطيف صاحب حضورؓ کے ہمراہ تھے۔ پروفيسر مذکور نے حضورؓ کا مکمل معائنہ کيا اور حضورؓ کي صحت کي ترقي کي رفتار پر خوشي اور اطمينان کا اظہار کيا، الحمدللہ۔

طبّي معائنہ کے بعد واپس تشريف لا کر حضورؓ نے کچھ آرام فرمايا، ساڑھے بارہ بجے دوپہر کے کھانے کے ليے ہوٹل کے ريسٹورنٹ ميں گئے۔ جہاں ايک عليحدہ کمرے ميں حضورؓ اور اہلِ خانہ کےليے کھانے کا انتظام کيا گيا تھا۔ کھانےکے بعد Kiel سے آئے ہوئے محترم چودھري عبداللطيف صاحب کے زيرِتبليغ ايک جرمن مسيحي دينيات کے استاد جناب ٹلٹاک صاحب سے ملاقات فرمائي۔ پھر Hannover سے آئے ہوئے ايک احمدي دوست مسٹر امين سے نصف گھنٹہ تک گفتگو فرمائي۔ موصوف اچھے فوٹو گرافر تھے چنانچہ انہوں نے حضورؓ کي بہت سي تصاوير بھي بنائيں۔

جناب ٹلٹاک صاحب نے اُسي روز دوسري ملاقات کے دوران بيعت کرنے کي خواہش کي جس پر حضورؓ پُر نور نے ان سے بيعت لي۔ بيعت لينے کے بعد حضورؓنے فرمايا کہ خداتعاليٰ غالباً مجھ کو ہمبرگ اس ليے لايا تھا کہ آپ ميرے ہاتھ پر اسلام قبول کريں۔ حضورؓ نے ان کا اسلامي نام زبير تجويز فرمايا۔ انہوں نے کہا کہ في الحال ان کي بيعت مخفي رکھي جائے مگر جب بيعت کے بعد حضورؓ ساتھ والے کمرے ميں نمازيں پڑھانے تشريف لے گئے جہاں دوسرے نَو مسلم بھائي بيٹھے تھے تو يہ پروفيسر صاحب بھي نمازوں ميں شامل ہوئے۔ اس طرح ان کا مسلمان ہو جانا سب پر ظاہر ہوگيا[4]۔

اسي روز Conti press کا ايک نمائندہ بھي حضورؓ سے ملاقات کے ليے آيا اور بہت سے فوٹو ليے۔ علاوہ ازيں آج کي مصروفيات ميں ہمبرگ کے ايک نامور جرمن مستشرق ڈاکٹر Abel کے ساتھ ايک اہم ملاقات بھي شامل تھي۔ موصوف خصوصي طور پر حضورؓ سے ملاقات کے ليے آئے اور نصف گھنٹہ تک حضورؓ ان سے عربي ميں گفتگو فرماتے رہے۔ بعد ميں حضورؓ نے ان کي زبان داني کي تعريف فرمائي۔

ان ملاقاتوں سے فارغ ہونے کے بعد حضورؓ نماز کے ليے تشريف لائےاور ظہر اور عصر کي نمازيں جمع کرکے پڑھائيں، اس موقع پر مقامي احمديوں نے بھي حضورؓ کي اقتداء ميں نمازيں ادا کيں۔ نماز وں کے بعد حضورؓ قريباً ايک گھنٹہ احباب ميں رونق افروز رہے، اور مقامي احمديوں سے مختلف امور کے بارہ ميں گفتگو فرماتے رہے۔ ان دوستوں کے لئے حسبِ ضرورت جرمن ميں ترجمہ محترم چودھري عبداللطيف صاحب کرتےرہے۔ حضورؓ نے ديگر امور کے علاوہ مسجد کي تعمير کے بارہ ميں پھر اپنے خيالات کا اظہار فرمايا۔ اور جلد از جلد زمين کے حصول کي تاکيد فرمائي۔ اس موقع پر ہنوفر سے آئے ہوئے ايک احمدي دوست نے حضورؓ کے بہت سے فوٹو ليے، موصوف پريس فوٹوگرافر تھے۔

ايک پاکستاني دوست مکرم محمود علي صاحب کچھ عرصہ سے بسلسلہ تجارت جرمني ميں تھے اور مبلغ سلسلہ مکرم چودھري صاحب سے اچھا تعلق رکھتے تھے، نے بھي اسي موقع پر حضورؓ سے شرف ملاقات حاصل کيا۔ ان سب ملاقاتوں سے فارغ ہوکر سوا پانچ بجے حضورؓ اپنے کمرے ميں تشريف لے گئے۔ اور محترم مرزا منوّر احمد صاحب کو فرما گئے کہ سب دوستوں کو چائے پلائي جائے۔ چنانچہ سب دوستوں نے ريسٹورنٹ کے ايک کمرے ميں جا کر چائے نوش کي جس کے بعد سب دوست گھروں کو چلے گئے۔ چھ بجے کے قريب حضورؓ مع افراد قافلہ سير کے ليے موٹروں ميں گئے۔ پہلے ہمبرگ کي بندرگاہ گئے جہاں دريا کے نيچے ايک سرنگ ہے جس ميں سے موٹريں گزرتي ہيں، قافلہ کي موٹريں بھي اسي ميں سے گذريں۔ بعدازاں حضورؓ ازراہ ذرّہ نوازي شام کے کھانے کے ليے مع قافلہ محترم چودھري عبداللطيف صاحب کے ہاں تشريف لے گئے اور اپني محبّت اور شفقت سے نوازا۔ کھانے سے فارغ ہوکر واپس ہوٹل آگئے۔ اس طرح آج کے پروگرام مکمل ہوئے۔ (الفضل 15 جولائي و 2 ستمبر 1955ء)

27 جون 1955ء

آج صبح نو بجے ہمبرگ يونيورسٹي کے ايک بڑے سرجن ڈاکٹر (Junker)کو دکھانے جانا تھا۔ مگر ان کا فون آگيا کہ ساڑھے بارہ بجے آئيں کيونکہ انہيں ضروري کام پيش آگيا ہے۔ چنانچہ اس وقت حضورؓ خريداري کے ليے تشريف لے گئے اور کئي ايک ضروري اشياء خريد فرمائيں اس کے بعد ہوٹل تشريف لائے اور Hildesheim شہر سے آئے ہوئے ايک احمدي دوست مسٹرسعيد Kretzschmar سے ملاقات فرمائي[5]۔

ٹاؤن ہال ہمبرگ ميں استقباليہ

حضورؓ کي بلند پايہ شخصيّت کے پيشِ نظر آج ہمبرگ کي صوبائي حکومت کي طرف سے ايک استقباليہ کا اہتمام کيا گيا تھا۔ اس استقباليہ ميں شموليت کے لئے حضورؓ پونے گيارہ بجے ٹاؤن ہال (Rathaus) تشريف لے گئے۔ يہاں وزير بحاليات و تعميرات مسٹر Josef von Fisenne اور گورنمنٹ کے سيکرٹري جنرل مسٹر Jess نے حضورؓ سے ملاقات کي۔ حضورؓ نے ان سے بيس منٹ تک گفتگو فرمائي۔ اس موقع پر Conti press کے نمائندہ نے کثرت سے فوٹو ليے۔ جو ہمبرگ کے دو روزنامہ اخبارات ميں اب تک شائع ہو چکے ہيں۔ اس استقباليہ ميں حضورؓ کے ہمراہ مکرم ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب۔ مکرم چودھري عبداللطيف صاحب، محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب، محترم مير داؤد احمد صاحب اور محترم ڈاکٹرمرزا منوّر احمد صاحب گئے۔ ٹاؤن ہال کے دروازے پر ہمبرگ حکومت کے وزير بحاليات و تعميرات نے حضورؓ کا استقبال کيا۔ ان کے ساتھ حکومت کے سب سے بڑے ڈائريکٹر آف ريليجن Director of religion تھے۔ حضورؓ کو بڑے کمرہ ميں بٹھايا گيا۔ اور وزير موصوف نے ہيمبرگ حکومت کي طرف سے حضورؓ کے ہمبرگ شہر ميں تشريف لانے پر خوش آمديد کہا جس پر حضورؓ نے فرمايا:

“مجھے بھي جرمني اور ہمبرگ آنے پر بہت خوشي ہوئي ہے۔ اور جرمن قوم ميں زندگي کے آثار ديکھ کر حضورؓ بہت متاثر ہوئے ہيں کہ کس طرح باوجود جنگ ميں تباہ ہوجانے کے اس قوم نے کتني جلدي ترقي کرلي ہے اور يہي چيز قوموں کي زندگي کي علامت ہے۔

اس پر وزير موصوف نے دلي خوشي کا اظہار کيا اور حضورؓ سے درخواست کي کہ حضورؓ پھر زيادہ وقت کے ليے ہيمبرگ تشريف لائيں۔ اس سرکاري استقباليہ کے بارہ ميں خبر ديتے ہوئے ہمبرگ کي ايک روزنامہ اخبار Hamburger Anzeiger نے اپني اشاعت مؤرخہ 28 جون ميں حضورؓ کي اس تقرير اور ہمبرگ گورنمنٹ کي طرف سے استقباليہ کا ذکر ايک نہايت اچھے فوٹو کے ساتھ حسبِ ذيل الفاظ ميں کيا ہے:

اميرالمومنين ٹاؤن ہال ميں

احمديہ جماعت کے امام حضرت ميرزا محمود احمد صاحب کو کل ٹاؤن ہال ميں Minister von Fisenne تصوير ميں دائيں طرف) نے خوش آمديد کہا۔ 66 سال کي عمر کے اميرالمومنين نے کل جماعت کي طرف سے دي ہوئي دعوت چائے کے موقع پر بيان کيا کہ ربوہ کي تعمير کس طرح 1950ء ميں مخالف حالات ميں ہوئي ايک بےآب و گياہ گاؤں سے کس طرح يہ ايک بڑا شہر بنا جس ميں اب مختلف کالج اور مشنري کالج تعمير ہوچکے ہيں۔ اسلام صلح اور امن کا مذہب ہے اور عالمگير طاقت کو قائم کرنے کے اصول پيش کرتا ہے اس ليے اسلام يورپ کے ليے مناسب حال مذہب ہے اور خاص طور پر جرمني کے ليے عالمگير مذہب ہونے کي بنا پر اسلام کا مستقبل جرمني ميں نماياں حيثيت رکھتا ہے۔ اسلامي روح جرمني ميں زندہ ہے۔ احمديہ جماعت کاجرمني ميں مرکز ہمبرگ ہے اور اس کے تبليغي مشن مختلف ممالک ميں موجود ہيں۔

اس کے علاوہ اخبار Hamburger Abendblatt کي 28 جون 1955ء کي اشاعت ميں صفحہ نمبر3 پر شائع ہونے والي خبر کا خلاصہ حسب ذيل ہے۔

جماعت احمديہ کے سربراہ خليفہ مرزا محمود احمد صاحب تين روز کے دورے پر ہمبرگ تشريف لائے ہيں، گزشتہ روز ٹاؤن ہال ميں سينيٹر Josef von Fisenne نے خوش آمديد کہا۔ خليفہ جن کي عمر66 سال ہے کا تعلق ربوہ پاکستان سے ہے۔ ان کے جرمني ميں رہنے والے 150 ممبران کا سنٹر ہمبرگ ميں ہے۔ وہ پُراميد ہيں کہ ان کے ممبران کي تعداد جرمني ميں بڑھ جائے گي۔

جرمني بھر کي بيسيوں اخبارات ميں حضورؓ کي آمد کي خبر کم و بيش مندرجہ ذيل الفاظ ميں شائع ہوچکي ہے۔

اسلامي خليفہ بطور مہمان

ہمبرگ ميں حضرت ميرزا محمود احمد صاحب امام جماعت احمديہ تين روز کے ليے بطور مہمان تشريف لائے۔ ان کا ايک خطاب اميرالمومنين بھي ہے۔ 66سال کي عمر کے خليفہ ربوہ پاکستان سے آئے ہيں اور حضرت باني سلسلہ احمديہ کے بيٹے بھي ہيں۔ ہمبرگ گورنمنٹ کے ايک وزير Minister von Fisenne (ان صاحب کا نام Josef von Fisenne تھا جو ہمبرگ ميں بحاليات و تعميرات کے نگران تھے،ناقل) نے انہيں ٹاؤن ہال ميں خوش آمديد کہا۔ اکثر اخبارات نے يہ خبر حضورؓ کي فوٹو کے ساتھ شائع کي ہے۔ اس استقباليہ کا ذکر حضورؓ نے اپنے ايک خطبہ ميں يوں فرمايا:

جرمني ميں جب گورنمنٹ نے مجھے ريسيپشنReception ديا تو ہمارے تمام ساتھيوں کے ساتھ ايک ايک وزير بيٹھ گيا اور باتيں کرنے لگا۔ ان کے ملک ميں يہ دستور ہے کہ جو کام سب سے زيادہ اہم ہو، جس وزير کے سپرد ہو اُسي کو پرائم منسٹر سمجھا جاتا ہے۔ چونکہ يہ ريسپشن Reception ميري خاطر تھا اس ليے انہوں نے جس وزير کو ميرے ساتھ بٹھايا وہ وزيرِ تعميرات تھا۔ پہلے تو مجھے اس پر تعجب ہوا مگر پھر انہوں نے بتايا کہ چونکہ آج کل ہم سب سے زيادہ زور تعمير پر خرچ کر رہے ہيں اور ہمارے ملک کي طاقت کا بيشتر حصہ تعميرات پر صَرف ہو رہا ہے اس ليے اب وزير تعميرات ہي ہم ميں سے سب سے بڑا وزير سمجھا جاتا ہے۔ وہ باتوں باتوں ميں پوچھنے لگے کہ جماعت کي کتني تعداد ہے اور آپ کے کتنے مشن اس وقت قائم ہيں؟ جب انہيں بتايا گيا کہ ہماري اتني تعداد ہے اور اس قدر مشن ہيں تو انہوں نے تعجب کے ساتھ کہا کہ جماعت اس سے زيادہ مشن کيوں نہيں کھولتي؟ مَيں نے انہيں بتايا کہ اب ہمارا ارادہ ہے کہ اپنے مشنوں کو بڑھائيں اور اس بارہ ميں جلد کوئي قدم اٹھايا جائے گا۔ غرض جرمني ميں اسلام کي اشاعت کا ايک وسيع ميدان پايا جاتا ہے اور ان ميں اسلام کي طرف رغبت اور شوق کا احساس نظر آتا ہے۔

(خطبات محمود جلد 36 صفحہ126)

مشہور سرجن کے ہاں طبّي معائنہ

اس غير معمولي پروگرام سے فارغ ہونے کے بعد ساڑھے بارہ بجے حضورؓ ہمبرگ کے مشہور سرجن Prof. Dr. Junker سے مشورہ کے ليے تشريف لے گئے۔ پروفيسر مذکور نے ايکسرے فوٹو ديکھنے اور گردن ميں جہاں ڈيڑھ سال قبل چاقو سے زخم لگا تھا، وہاں ہڈي کے پاس چاقو کي نوک ديکھي۔ ايکسرےديکھنے کے بعد کہا کہ اس کا نکالنا ٹھيک نہيں کيونکہ بہت کانٹ چھانٹ کرني پڑے گي جو ان کے نزديک درست نہيں۔ چونکہ چاقو کي يہ نوک کوئي تکليف نہيں دے رہي اور آئندہ اس کا کوئي خطرہ بھي نہيں لہٰذا اِسے اسي طرح رہنے ديا جائے۔ اس سے حضورؓ پُر نور کي تسلي ہوگئي۔ يہ خدا کا فضل ہے کہ دوبارہ آپريشن کي ضرورت پيش نہيں آئي۔ ڈاکٹر صاحب موصوف کے ساتھ اس ملاقات کا ذکر حضورؓ اپنے خطبہ ميں کرتے ہوئے فرماتے ہيں:

پھر ان کي ہمّتيں ايسي بلند ہيں کہ ايک جرمن ڈاکٹر سے مَيں نے وقت مقرر کيا۔ جب مَيں وہاں پہنچا تو وہ جگہ جو ہسپتال کي يونيورسٹي تھي، وہاں بم گرنے کي وجہ سے اس مسجد کے برابر شگاف پڑے ہوئے تھے اور اندر صرف دو ٹوٹي ہوئي کرسياں اور ايک رَدّي سي چارپائي رکھي تھي اور اِنہيں ٹوٹي ہوئي کرسيوں پر ہسپتال ميں کام کرنے والے ڈاکٹر کام کر رہے تھے۔ مَيں جب گيا تو ايک ادنيٰ سي کرسي پر انہوں نے مجھے بھي بٹھا ديا۔ مگر ان کے چہروں پر اس قدر بشاشت تھي کہ وہ رپورٹ پڑھتے جاتے اور ہنستے جاتے تھے اور يوں معلوم ہوتا تھا کہ گويا ان کے ہاں کوئي شادي کي تقريب ہے۔ جس ڈاکٹر نے ميرا معائنہ کرنا تھا وہ اس وقت 135ميل دور کسي اور مقام پر کسي ضروري آپريشن کے ليے گيا ہوا تھا اور چونکہ ميرے ساتھ وقت مقرر تھا اس ليے وہ وہاں سے موٹر دوڑاتے ہوئے پہنچا اور کمرہ ميں آتے ہي بغير سانس ليے اس نے ميرا معائنہ شروع کر ديا۔ اگر کوئي ہمارا آدمي ايسے موقع پر آتا تو وہ پہلے يہي کہتا کہ ساہ تے لين ديو يعني پہلے مجھے سانس تو لينے دو پھر ميں معائنہ بھي کرتا ہوں مگر اس نے بغير سانس ليے ميرا معائنہ شروع کر ديا۔ اور پھر جب ہم نے اسے فيس دينا چاہي تو اس نے فيس لينے سے انکار کر ديا۔ دوسري دفعہ ہم نے اس کے سيکرٹري سے کہا کہ فيس لے لي جائے۔ اس نے فون کيا تو جرمن ڈاکٹر نے اسے ڈانٹا اور کہا کہ مَيں ايک دفعہ جو کہہ چکا ہوں کہ مَيں نے فيس نہيں ليني۔ اس کے بعد ہم نے اپنے جرمني کے مبلغ سے کہا کہ تم اسے جا کر کہو کہ ہم اتني دور سے يہاں علاج کرانے کے ليے ہي آئے ہيں۔ اس ليے آپ اپني فيس لے ليں۔ مگر اس نے پھر يہي کہا کہ يہ مذہبي آدمي ہيں اس ليے مَيں نے ان سے فيس نہيں ليني۔ پندرہ بيس منٹ اس کے ساتھ جھگڑا رہا مگر اس نے فيس نہيں لي۔

(خطبات محمود جلد 36 صفحہ 128)

سرجن کو دکھانے کے بعد حضورؓ ہوٹل آئے اور يہاں سے مستورات کو لے کر مسٹر عبدالکريم ڈنکر صاحب کي دعوت ميں شامل ہونے کے ليے تشريف لےگئے۔ ڈنکر صاحب نے بندرگاہ پر دريا کے کنارے ايک ريسٹورنٹ ميں حضورؓ کي دعوت کا انتظام کيا گيا تھا پونے دو بجے کے قريب حضورؓ مع افراد قافلہ وہاں پہنچےاور نہايت خوشگوار ماحول ميں کھانا تناول فرمايا۔ اس سے فارغ ہوکر تين بجے کے قريب واپس ہوٹل تشريف لےآئے۔ يہاں نَومسلم بھائي حضورؓ کے منتظر تھے۔ چنانچہ حضورؓ نے ان کے ساتھ نماز ظہر و عصر باجماعت ادا فرمائيں اور کافي دير تک بيٹھے ان سے گفتگو فرماتے رہے۔

مقامي جماعت کي طرف سے استقباليہ

اسي روز شام کے ساڑھے سات بجے اسي ہوٹل ميں حضورؓ کے اعزاز ميں ہمبرگ کي جماعت کي طرف سے ايک استقباليہ کا انتظام تھا جس ميں احمدي احباب کے علاوہ ہمبرگ کے بعض سرکردہ مہمانوں نے بھي شرکت کي۔ پريس کے نمائندے بھي شامل ہوئے اور انہوں نے فوٹو بھي ليے۔ مکرم عبدالکريم صاحب ڈنکر نے حضورؓ کي خدمت ميں مقامي جماعت کي طرف سے ايڈريس پيش کرتے ہوئے حضورؓ کو ہيمبرگ تشريف لانے پر خوش آمديد کہا اور اپني دلي خوشي کا اظہار کيا اور احباب سے حضورؓ کو متعارف کرايا۔ اس استقباليہ کے جواب ميں حضورؓ نے کھڑے ہوکر ايک خاص ولولہ اور روحاني کيفيت کے ساتھ نصف گھنٹہ تک تقرير انگريزي ميں فرمائي۔ جس ميں احمدي احباب کا شکريہ ادا کرنے کے بعد ربوہ مرکزِ احمديت کي تعمير کي تفاصيل بيان فرمائيں کہ کس طرح ايک بنجر علاقہ جس ميں صرف تين خيمے ابتداء ميں لگائے گئے تھے، خداتعاليٰ نے ايک پُر رونق شہر بسا ديا۔ حضورؓ نے فرمايا ابتداء ميں اس جگہ پينے کا پاني نام کو نہ تھا۔ اور وہاں کے پاني کو جب معائنہ کے ليے لاہور بھجوايا گيا تو ڈاکٹروں نے کہا کہ يہ پاني انسانوں کے ليے مضر ہے۔ حضورؓ نے فرمايا کہ خداتعاليٰ نے مجھے اس وقت الہاماً بتايا کہ يہاں ميٹھا پينے کا پاني ضرور مہيا ہوگا اور اب وہاں خدائي وعدہ کے مطابق پينے کے پاني کي کمي نہيں۔ اور يہ خداتعاليٰ کے زندہ ہونے اور احمديت کي صداقت کا بين نشان ہے۔ اس کے بعد حضورؓ نے فرمايا۔ کہ جرمن قوم کا کيريکٹر بلند ہے اور انہوں نے ہمبرگ شہر کو اتني جلدي تعمير کرليا ہے۔ حضورؓ نے فرمايا کہ جرمن قوم اس زندہ روح کے ساتھ ضرور جلد از جلد اسلام کو جو خود اسي روح کو بلند کرنے کے ليے تعليم ديتا ہے، قبول کرے گي۔ حضورؓ نے فرمايا کہ مَيں اس نبي (ﷺ) کا پيروکار ہوں۔ جس نے دنيا ميں اَمن اور رواداري کو قائم کرنے کي پوري کوشش کي اور اپنے مخالفين جنہوں نے مسلمانوں کو تہ تيغ کرنے ميں کوئي دقيقہ فروگذاشت نہ کيا کو فاتح ہونے کي حيثيت ميں کس طرح معاف کر ديا۔ حضورؓ نے فرمايا کہ اسلام اس رواداري کي تعليم کا حامل ہے۔ اور اس کي مثال کسي اور مذہب ميں نہيں ملتي۔ اسلام قوميت اور رنگ و نسل کي تميز سے بالا ہے۔ اور دنيا ميں عالمگير برادري اور اخوت کو قائم کرنے کے ليے زرّيں اصول پيش کرتا ہے۔

حضورؓ کي اس محبّت بھري تقرير کا جرمن ترجمہ مکرم چودھري عبداللطيف صاحب نے بعد ميں کيا۔

ايک عراقي طالب علم کي کج بحثي

اس کے بعد مختلف لوگ حضورؓ سے ملتے اور باتيں کرتے رہے۔ اسي دوران ايک عراقي لڑکا جو ہمبرگ ميں طبّي تعليم حاصل کر رہا تھا، حضورؓ سے ملنے آگيا اور فوراً ہي بحث شروع کر دي۔ اور نہايت نامناسب الفاظ ميں باتيں کرنے لگا۔ جس پر اس کو وہاں سے اٹھادياگيا۔ پھر اس استقباليہ کے اختتام پر حضورؓ اپنے کمرے ميں تشريف لے گئے۔

حضورؓ کے تشريف لے جانے کے بعد محترم عبدالکريم ڈنکر صاحب نے اس عراقي لڑکے سے پوچھا کہ تم نے کيوں اس وقت بحث شروع کر دي۔ اس وقت معلوم ہوا کہ يہ لڑکا بغير بلائے پارٹي ميں شامل ہوا ہے اور اس کے پاس جماعت اسلامي کا لٹريچر بھي تھا۔ اور يہ شرارت کي نيت سے وہاں آيا تھا۔ چنانچہ اس پرمحترم ڈنکر صاحب نے اسےتنبيہ کي کہ اگر آئندہ کبھي بغير بلائے ہمارے کسي پروگرام ميں آئے تو تمہيں پوليس کے حوالے کر ديا جائے گا۔ اِس واقعہ کا ذکر بھي حضورؓنے اپنے ايک خطبہ ميں اس طرح بيان فرمايا:

مجھ سے ہمبرگ ميں ايک مودودي طرز کا آدمي ملا۔ وہ اپنے آپ کو عراقي کہتا تھا ليکن لوگوں نے بتايا کہ يہ ايک معجون مرکب کي قسم کا آدمي ہے۔ کبھي يہ اپنے آپ کو بہائي کہتا ہے اور کبھي مودودي۔ اس نے ہميں دھوکا ديا۔ جب اسے بتايا گيا کہ مَيں بيماري کي وجہ سے مل نہيں سکتا تو وہ کہنے لگا کہ مَيں صرف مصافحہ کرنا چاہتا ہوں مگر پھر اس نے بحث شروع کر دي۔ آخر جرمن لوگ اسے اٹھا کر لے گئے۔ اور انہوں نے کہا کہ يہ ہماري دعوت تھي۔ اس ميں تم بغير ہماري اجازت کے کيوں آئے؟ ہم ابھي پوليس کو اطلاع ديتے ہيں۔ دوسرے دن وہاں کے ايک نَومسلم مجھ سے معافي مانگنے آئے۔ اور انہوں نے کہا کہ اس شخص کي وجہ سے آپ جرمن قوم کو بُرا نہ سمجھ ليں۔ يہ ايشيائي تھا۔ اس ليے اس نے يہ غلطي کي ہے۔ اُس وقت ميري بھي ايشيائي رَگ بھڑک اُٹھي اور مَيں نے کہا کہ بُرے آدمي ايشيا ميں ہي نہيں ہوتے يورپ ميں بھي موجود ہيں۔ وہ کہنے لگے بےشک موجود ہيں۔ مَيں صرف يہ کہنے آيا تھا کہ آپ کے دل ميں ہمارے متعلق ناراضگي پيدا نہ ہو۔ ہم آپ کو اپنا معزز مہمان سمجھتے ہيں۔ اور يہ شخص جس نے غلطي کي ايشيائي تھا۔ مَيں نے کہا ايشيائي تو تھا مگر اس کي اپني حرکات اسلامي تعليم کے خلاف تھيں۔ (خطبات محمود جلد36 صفحہ130)

اسي روز رات کي گاڑي سے ايک نَومسلم احمدي دوست ہنوفرHannover کے قريب مزدوري کرتے ہيں۔ اور چند ماہ سے مسلمان ہوئے ہيں۔ حضورؓ کو ملنے آئے[6]۔ (روزنامہ الفضل ربوہ مؤرخہ 2 ستمبر 1955ء)

28 جون 1955ء

آج ہالينڈ واپسي کا پروگرام تھا مگر ہمبرگ کي آب و ہوا اور يہاں کے دوستوں کا اِخلاص ديکھ کر حضورؓ نے قيام ايک دن بڑھا ديا اور صبح کے وقت اپني قيام گاہ پر ہي حاضر ہونے والے احباب جماعت کے ساتھ ملاقات فرمائي جس ميں جرمني ميں تبليغ ِاسلام کے بارہ ميں تفصيل سے گفتگو فرماتے رہے۔ان احباب نے ظہر و عصر کي نمازيں بھي حضورؓ کي اقتداء ميں ادا کيں۔ کھانے کے بعد مقامي نَومسلم دوست حضورؓ سے ملنے آئے۔ جن کے ساتھ حضورؓ بہت دير تک گفتگو فرماتے رہے۔ نماز ظہر و عصر حضورؓ نے دوستوں کے ساتھ باجماعت ادا فرمائي۔ آج حضورؓ کي طبيعت اللہ تعاليٰ کے فضل سے اچھي رہي۔ آج پہلے پہر حضورؓ باہر تشريف نہيں لے گئے تاہم شام کو کچھ دير کے لئے سير کي غرض سے باہر تشريف لے گئے۔ مکرم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب اپني اسي روز کي رپورٹ ميں ہمبرگ کے پرفضا ماحول کا نقشہ کھينچتے ہوئے لکھتے ہيں:

ہمبرگ شہر بہت خوبصورت ہے۔ شہر کے اندر دو جھيليں ہيں۔ ايک بڑي ايک چھوٹي جن کو آلسٹر Alster کہتے ہيں۔ يہ دونوں آپس ميں ايک نہر کے ذريعہ ملي ہوئي ہيں اور پھر نہر کے ذريعہ دريائے ايلب سے ملي ہوئي ہيں۔

سير کے بعدشام کے کھانے کے ليے ازراہِ ذرّہ نوازي مع اہلِ قافلہ مکرم چودھري عبداللطيف صاحب کے گھر تشريف لےگئے۔

(روزنامہ الفضل ربوہ 15 جولائي و 4 ستمبر 1955ء)

29 جون 1955ء

آج 29 جون بروزبدھ جرمني ميں حضور کے قيام کا آخري روز تھا، صبح سوا گيارہ بجے کے قريب حضورؓ مع قافلہ ہوٹل سے روانہ ہوئے اور پونے بارہ بجے ہوائي اڈہ پر پہنچےجبکہ جہاز نے ساڑھے بارہ بجے روانہ ہونا تھا۔ الوداع کہنے کے لئےمکرم چودھري عبداللطيف صاحب کے ساتھ مکرم عبدالکريم صاحب ڈنکر اور مکرم سعيد Kretzschmar بھي ہوائي مستقر پر موجود تھے۔ مکرم چودھري عبد اللطيف صاحب کوحضورؓ کے ہوائي جہاز ميں اپني سيٹ پر بيٹھ جانے تک ساتھ رہنے کي سعادت ملي۔ آپ نے حضورؓ کا سامان جہاز کے اندر رکھوايا اور اس کے بعد حضورؓ سے رخصت حاصل کرکے جہاز سےاُترے۔ ساڑھے بارہ بجے سے کچھ دير بعد KLM کے جہاز نے پرواز کي۔ اس وقت ہلکي بارش ہو رہي تھي۔ جہاز پر حلال کھانے کا انتظام نہ تھا اس ليے سب افراد قافلہ نے صرف چائے پي۔ اس کے پيشِ نظر جہاز کے کپتان نے ايمسٹرڈم وائرليس کے ذريعہ مناسب کھانے کے انتظام کے ليے اطلاع کر دي۔ ڈيڑھ گھنٹہ بعد حضورؓ اللہ تعاليٰ کے فضل سے بخيريت ايمسٹرڈيم وُرود فرما ہوئے، الحمدللہ۔ (روزنامہ الفضل ربوہ 15 جولائي و 4 ستمبر)

مکرم چودھري عبداللطيف صاحب حضورؓ کے اس دَورے کي ياديں تازہ کرتے ہوئے اپني خود نوشت ميں لکھتے ہيں:

حضورؓ پُرنور نے اپنے مختصر عرصہ قيام ميں خاکسار اور خاکسار کے اہل و عيال پر جو نوازشات فرمائيں۔ اس سے نہ صرف ہم بلکہ ہماري آئندہ نسليں بھي عہدہ برآ نہيں ہوسکتيں حضورؓ کي ذرہ نوازياں عنايات اور حسنِ سلوک کي ياد ہمارے قلوب سے محو نہيں ہوسکتي۔ ميں اپنے مولا کريم کا کس طرح شکريہ ادا کروں۔ جس نے اس عاجز کو زندگي وقف کرنے کي توفيق عطا فرمائي۔ اور پھر ميرے مولا کي يہ عطا ہے کہ اس نے اپنے سلسلہ عاليہ کي خدمات باوجود کمزوريوں اور کوتاہيوں کے ايک حد تک سرانجام دينے کي توفيق عطا فرمائي اور پھر يہ خدا کا اور بھي فضل ہے کہ اس کے محبوب مصلح موعودايدہ اللہ تعاليٰ کي روحاني فوج ميں شامل ہوکر اسلامي خدمات کو حضورؓ پُر نور کي رائے ميں کاميابي سے سرانجام دينے کي توفيق عطا فرمائي۔ حضورؓ پُر نور کي خدمت خاکسار نے مشن کي Guest book دستخطوں کے ليے پيش کي۔ اس پر حضورؓ نے جو نوٹ درج فرمايا وہ انگريزي ميں ہے۔ اس کو من و عن نقل کرتا ہوں۔

Dear Abdul Latif,

السلام عليکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

your success in Germany is wonderful and miraculous.You have won the hearts of German people and this could not be done by your efforts.It is surely Gods work.Some converts are wonderfully zealous in Islam and pure hearted,May God give you more and more converts and open the hearts of German people for Islam and your hands and help you to erect a fitting mosque in Hamburg and make it a centre for German people and specially German Muslims,Amin

Europe is certainly going to be muslim as is foretold by Promissed Messiah.As this prophecy is going to be fulfilled through you,it will be a great blessings for you and your family.May God bless the German Muslims and increase their number to million and million and millions,untill they become majority in Germany

Mirza B. Mahmud Ahmad

28.June 1955

 

پيارے عبداللطيف۔ السلام عليکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

جرمني ميں تمہاري کاميابي حيرت انگيز ہے اور معجزانہ رنگ رکھتي ہے۔ تم نے جرمني ميں رہنے والوں کے دلوں کو فتح کيا ہے۔ اور يہ کام صرف تمہاري کوششوں سے نہيں ہو سکتاتھا۔ يہ يقيني طور پر خدا کا کام ہے۔ بعض نَو مسلم نہايت جوشيلے اور مخلص ہيں۔ خداتعاليٰ تمہيں زيادہ سے زيادہ نَو مسلم عطا کرے۔ اور تمہارے ذريعے جرمني کے لوگوں کے دل اسلام کے لئے کھول دے۔ اور خداتعاليٰ تمہيں ہمبرگ ميں ايک موزوں مسجد تعمير کرنے کي توفيق عطا فرمائے اور اس کو جرمني کے تمام لوگوں کے لئے اور خاص طور پر يہاں کے نَومسلموں کے لئے ايک مرکز بنائے،آمين۔

حضرت مسيح موعودؑ کي پيش گوئي کے مطابق يورپ يقيني طور پر اسلام کي طرف رجوع کر رہا ہے۔ کيونکہ يہ پيش گوئي تمہارے ذريعے سے پوري ہو رہي ہے۔ اس لئے يہ تمہارے لئے، تمہارے خاندان کے لئے بہت بڑي برکت کا موجب ہوگي۔ خداتعاليٰ جرمني کے نَومسلموں کو اپني برکات ميں سے حصہ عطا فرمائے۔ اور ان کو لاکھوں لاکھ کي تعداد ميں بڑھاتا چلا جائے۔ يہاں تک کہ جرمني ميں ان کي اکثريت ہو جائے۔ آمين

دستخط مرزا بشيرالدين محمود احمد۔ 28؍ جون 1955ء

(روزنامہ الفضل ربوہ 15 جولائي 1955ء صفحہ 4)

نوٹ: يہ امر ملحوظ خاطر رہے کہ حضرت خليفةالمسيح الثانيؓ کے اس دورۂ جرمني کي رُوداد مکرم صاحبزادہ مرزا منوراحمد صاحب اور مکرم چودھري عبداللطيف صاحب کي الفضل ميں شائع ہونے والي رپورٹس سے ماخوذ ہے۔ ان ہر دو رپورٹس ميں بعض مقامات پر کسي قدر فرق موجود ہے۔ مثلاً صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب 4 ستمبر 1955ء کے الفضل ميں تحرير کرتے ہيں کہ 28 جون کي صبح ہمبرگ سے ہالينڈ کے ليے روانہ ہوئے۔ جبکہ چودھري عبداللطيف صاحب کي ڈائري جو 15 جولائي 1955ء کے الفضل ميں شائع ہوئي، ميں تحرير ہے کہ حضورؓ 29 جون کو ہمبرگ سے ايمسٹرڈم تشريف لے گئے۔

تاريخ کميٹي جرمني نے ايسے امور کے بارہ ميں ديگر دستاويزات اور ذرائع سے تحقيق کرکے درست نتيجہ تک پہنچنے کي کوشش کي ہے۔ چنانچہ مندرجہ بالا مثال کے بارہ ميں روزنامہ الفضل کي 3 اور 10 جولائي 1955ء کے شمارے ديکھے گئے تو ان ميں شائع شدہ رپورٹ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حضورؓ جرمني سے ہالينڈ کے لئے 29 جون کو ہي روانہ ہوئے تھے۔ صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کي شائع شدہ ڈائري ميں 28 جون کا اندراج سہوِ کتابت ہے۔

علاوہ ازيں بزرگان کي ان رپورٹس ميں جرمني کے بعض شہروں اور حضورؓ سے ملنے والي شخصيات کے ناموں ميں بھي ہجوں کي بعض اغلاط تھيں جنہيں بعد از تحقيق درست کر ديا گيا ہے۔

[1]– (يہ ہوٹل Kirchenallee 45, 20099 Hamburg پر ہمبرگ کے بڑے ريلوے اسٹيشن کے سامنے واقع ہے۔ اس کي تعمير 1925ء ميں ہوئي تھي اور اس کا شمار جرمني کے بڑے پرائيويٹ ہوٹلوں ميں ہوتا ہے) (روزنامہ الفضل ربوہ مؤرخہ 15 جولائي و يکم ستمبر 1955ء)

 

[2]– Pirath مشہور صحافي اور فوٹوگرافر تھا، اس کي تصوير کو اگلے سال يعني 1956ء ميں “عالمي پريس فوٹو” کا ايوارڈ ملا تھا۔

 

[3]– ڈاکٹر دھاون ہندوستاني ڈاکٹر ہيں اور 26 سال سے جرمني ميں کام کر رہے ہيں۔ مکرم چودھري عبداللطيف صاحب کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات ہيں۔ يہ ڈيرہ اسماعيل خان فرنٹيئر کے باشندے ہيں۔

 

[4]– موصوف بعدازاں ربوہ بھي گئے اور تعليم و تربيت کے لئے کچھ عرصہ وہاں رہے ليکن افسوس کہ موصوف نے بعدازاں ايک خط کے ذريعہ جماعت سے عليحدگي اختيار کرلي اور وجہ يہ بتائي کہ ان کے احمدي ہونے کا علم ہو جانے سے انہيں چرچ نے ان کي ملازمت ميں توسيع نہيں کي۔

 

[5]– موصوف سعيد صاحب نہايت مخلص احمدي تھے جنہوں نے 1955ء ميں بيعت کي تھي اور 1985ء ميں وفات تک نہايت اخلاص کے ساتھ جماعت سے وابستہ رہے، چندوں ميں باقاعدہ تھے اور جماعتي پروگراموں کے لئے دو سو کلوميٹر کا سفر کرکے شامل ہوا کرتے تھے، ان کا تفصيلي ذکرِخير اخبار احمديہ جرمني جنوري 2021ء کے شمارے ميں پڑھا جا سکتا ہے۔

 

[6]– يہ ذکر محترم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کي ڈائري ميں ہے جبکہ اسي روز کي محترم چودھري عبداللطيف صاحب کي ڈائري ميں صبح کے وقت محترم سعيد کريچمر صاحب کي حضورؓ سے ملاقات کا ذکر ہے۔ تاريخ کميٹي جرمني کي تحقيق کے مطابق يہ دو مختلف دوست نہيں ہيں بلکہ ايک ہي دوست مکرم سعيد صاحب ہيں جو ہنوفر کے قريب رہتے تھے اور 1955ء ميں احمدي ہوئے تھے۔ محترم ڈاکٹر صاحب نے جو 27 جون کي ڈائري کے آخر پر لکھا ہے کہ وہ رات کي گاڑي سے آئے وہ درست نہيں لگتا۔ موصوف دراصل 26 جون کي رات آئے ہوں گے اور اگلے روز صبح ان کي حضورؓ سے ملاقات ہوئي جيسا کہ محترم چودھري صاحب نے بيان کيا ہے۔

مزید معلومات اورتصاویر کے لئے مندرجہ ذیل شمارہ دیکھیں

https://akhbareahmadiyya.de/wp-content/uploads/2023/03/AHG202302.pdf

متعلقہ مضمون

  • جلسہ گاہ میں ایک تعارفی پروگرام

  • پہلا جلسہ سالانہ جرمنی

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم

  • جماعتی سرگرمیاں