مرتّبہ: مکرم شاہد محمود عباسی صاحب

…………………………………………………………………………

سيّدنا حضرت خليفةالمسيح الثانيؓ جرمني ميں تبليغِ اسلام کے ليے غيرمعمولي جوش رکھتے تھے۔ اس کي ايک وجہ يہ بھي تھي کہ اللہ تعاليٰ نے آپ کو اس بارہ ميں بہت سے اميد افزا نظارے دکھائے تھے۔ ان ميں سے چند نظارے معروف تصنيف  ’’رؤيا و کشوف سيّدنا محمودؓ‘‘ کے حوالے ذيل ميں ہديہ قارئين ہيں۔

1956ء:

فرمايا: ميں نے ايک رؤيا ديکھاکہ جرمني کے مبلغ کا ايک خط آيا ہے کہ جرمني کا ايک بہت بڑا آدمي احمدي ہوگيا ہے بعد ميں رؤيا ميں ہي مجھے تار بھي آئي اور اس ميں بھي يہ لکھا تھا کہ وہ احمدي ہو گيا ہے اور اُميد ہے کہ اس کے ذريعہ جرمني ميں جماعت کا اثر و رسوخ بڑھ جائے گا۔

(الفضل 8 فروري 1957ء صفحہ2)

9 مئي 1941ء:

فرمايا: جب ہرہيس(Herr Hess) انگلستان ميں اترا ميں سندھ ميں تھا رات کو ميں نے ريڈيو پر خبريں سنيں ان ميں اس کے اُترنے کا کوئي ذکر نہ تھا يوں وہ اُتر چکا تھا رات کو مَيں نے خواب ميں ديکھا کہ ايک بڑا جرمن ليڈر ہوائي جہاز سےا نگلستان ميں اُترا ہے صبح ميں نے بعض دوستوں کو خطوط لکھے تو ان ميں اس کا ذکر کر ديا کيونکہ صبح کي خبروں ميں ريڈيو پر يہ خبر بھي آگئي تھي۔ مَيں نے خواب ميں جو جرمن ليڈر ديکھا اس کا اَور نام تھا مگر خواب ميں بعض اوقات ايک سے مراد دوسرا ہوتا ہے بعض اوقات باپ سے مراد بيٹا ہوتا ہے۔ بعض دفعہ خواب ميں بيٹا دکھايا جاتا ہے تو مراد اس سے باپ ہوتا ہے۔ خواب ميں مَيں نے اور جرمن ليڈر ديکھا تھامگر اس کي ايک تعبير يہ تھي کہ ہيس ہوائي جہاز سے اُترا ہے اور ابھي ايک اور تعبير ہے جو ابھي پوري ہونے والي ہے اس خواب ميں اللہ تعاليٰ نے مجھ پر بعض اور باتيں بھي ظاہر فرمائيں جو بہت مخفي ہيں اور کسي پر مَيں نے ان کو ظاہر نہيں کيا۔

(الفضل 9 نومبر 1941ء صفحہ 4 بحوالہ رؤيا و کشوف سيّدنا محمودؓ)

جنوري 1945ء

فرمايا: 1945ء کي بات ہے مَيں نے رؤيا ميں ديکھا کہ ہٹلر ہمارے گھر آيا ہے پہلے مجھے پتہ لگا کہ ہٹلر قاديان ميں آيا ہوا ہے اور مسجد اقصيٰ ميں گيا ہے۔ مَيں نے اس کي طرف ايک آدمي دَوڑايا اور کہا کہ اسے بلا لاؤ۔ چنانچہ وہ اسے بلا لايا مَيں نے اسے ايک چارپائي پر بٹھا ديا اور اس کے سامنے خود بيٹھ گيا مَيں نے ديکھا کہ وہ بےتکلف وہاں بيٹھا تھا اور ہمارے گھر کي مستورات بھي اس کے سامنے بيٹھي ہيں مَيں حيران تھا کہ ہماري مستورات نے اس سے پردہ کيوں نہيں کيا۔ پھر مجھے خيال آيا کہ ہٹلر چونکہ احمدي ہوگيا ہے اور ميرا بيٹا بن گيا ہے اس ليے ہمارے گھر کي مستورات اس سے پردہ نہيں کرتيں پھر مَيں نے اس سے دعا دي اور کہا اے خدا! تو اس کي حفاظت کر اور اسے ترقي دے پھر مَيں نے کہا وقت ہوگيا ہے مَيں اسے چھوڑ آؤں چنانچہ مَيں اسے چھوڑنے کے ليے گيا۔ مَيں اس کے ساتھ جا رہا تھا اور يہ خيال کر رہا تھا کہ مَيں نے تو اس کي ترقي کے ليے دعا کي ہے اور ہم انگريزوں کے ماتحت ہيں اور ان کے ساتھ ان کي لڑائي ہے يہ مَيں نے کيا کيا ہے ليکن پھر مجھے خيال آيا کہ وہ ہٹلر عيسائي ہے اور يہ ہٹلر احمدي ہوچکا ہے اس ليے اس کے ليے دعا کرنے ميں کيا حرج ہے۔

يہ رؤيا بھي بتاتي ہے کہ ناٹسي قوم اسلام کي طرف توجہ کرے گي اور ايک ہي ہفتہ ميں اس بات کا پتہ لگنا کہ ايک بڑے ناٹسي ليڈر کا لڑکا اسلام کي طرف مائل ہے اور اس ميں دلچسپي لے رہا ہے اور پھر پروفيسر ٹلٹاک کا بتانا کہ وہ خود بھي ناٹسيوں کے بڑے ليڈر تھے بتا رہا ہے کہ اللہ تعاليٰ ايک رَو چلا رہا ہے۔ (الفضل 8 فروري 1945ء صفحہ3)

فروري 1951ء:

فرمايا: سندھ جانے سے قبل مَيں نے ديکھا کہ برادرم عبدالشکور کنزے جرمن نَومسلم نے مجھ سے کوئي سوال کيا ہے۔ اس سوال کے جواب ميں مَيں نے اللہ تعاليٰ کي بعض صفات کو پيش کيا ہے جن ميں سے ايک رب بھي ہے۔ اس پر مسٹر عبدالشکور نے کہا کہ ان صفات کا ذکر بائبل ميں بھي آتا ہے اس ليے يہ دلائل عيسائيوں پر بھي اثر کرسکتے ہيں اور يہ معنے بھي ہوسکتے ہيں کہ گويا قرآن کريم بائبل کي نقل کرتا ہے مَيں نے ان دونوں معنوں کا خيال کرکے دل ميں سوچا کہ يہ نَومسلم ہيں ايسا نہ ہوکہ ان کے دل ميں يہ خيال آيا ہو کہ قرآنِ کريم کي بہت سي تعليم بائبل سے ملتي جلتي ہے پھر اس کي فضيلت کيا ہوئي اس خيال کے پيدا ہونے پر مَيں نے بڑے جوش سے ان کے سامنے تقرير شروع کي کہ بائبل ميں جو يہ صفات آئي ہيں ان سے قرآن صفات کو امتياز حاصل ہے۔ بائبل ميں محض رسمي ناموں کے طور پر وہ صفات بيان کي گئي ہيں اور قرآن کريم نے ان صفات کي باريکيوں کو بيان کيا ہے اور مضامين ميں وسعت پيدا کي ہے اور ان کے راز بيان کئے ہيں چنانچہ مَيں نے کہا ديکھو رب کا لفظ ہے بائبل نے بھي خداتعاليٰ کو پيدا کرنے والا يا پالنے والا کہا ہے يا زمين و آسمان کا رَبّ کہا ہے ليکن قرآن کريم يہ نہيں کہتا بلکہ قرآن کريم سورہ فاتحہ ميں خداتعاليٰ کو رَبُّ العالمين کے طور پر پيش کرتا ہے اور لفظ رب اور لفظ العالمين دونوں اپنے اندر امتيازي شان رکھتے ہيں۔ رب صرف اس مضمون پر ہي دلالت نہيں کرتا کہ وہ پيدا کرنے والا ہے اور پالنے والا ہے بلکہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ نہايت ہي مناسب طور پر اس کي باريک دَر باريک قوتوں اور طاقتوں کو درجہ بدرجہ اور مناسب حال ترقي ديتا چلا جاتا ہے اور عالمين کا لفظ محض زمين و آسمان پر دلالت نہيں کرتا بلکہ زمين و آسمان کے علاوہ مختلف اجناس کي مختلف کيفيتوں پر بھي دلالت کرتا ہے اور يہ مضمون پہلي کتب ميں بالکل بيان نہيں ہوا مثلاً عالمين ميں جہاں يہ مراد ہے کہ اس جہان کا بھي کوئي رب ہے اگلے جہاں کا بھي رب ہے آسمانوں کا بھي رب ہے اور زمينوں کا بھي رب ہے وہاں اس طرف بھي اشارہ ہے کہ عالم اجسام اور عالم ارواح اور عالم نساء اور عالم رجال اور پھر عالم فکر اور عالم شعور اور عالم تصور اور عالم تقدير اور عالم عقل ان سب کا بھي وہ رب ہے يعني وہ صرف روٹي ہي مہيا نہيں کرتا، وہ صرف انہي چيزوں کو مہيا نہيں کرتا جو جسموں کو پالنے والي ہيں بلکہ وہ ارواح کے پالنے کا بھي سامان کرتا ہے اور پھر مختلف تقاضے جو انسان کي فطرت ميں پائے جاتے ہيں ان ميں سے ہر ايک کے نشو و نما کے ليے اس نے قرآن کريم ميں تعليم دي ہے چنانچہ اس قسم کے مضمون پر تفصيلي ليکچر ان کے سامنے دے رہا ہوں اور خود مجھے نہايت لذت اور سرور حاصل ہو رہا ہے اور مَيں محسوس کرتا ہوں کہ ايک نيا مضمون اور نئي کيفيت ميرے اندر پيدا ہو رہي ہے يہي ليکچر ديتے ديتے ميري آنکھ کھل گئي۔

(الفضل 29 مارچ 1951ء صفحہ3، بحوالہ رؤيا و کشوف سيّدنا محمودؓ صفحہ 471)

 

متعلقہ مضمون

  • جلسہ گاہ میں ایک تعارفی پروگرام

  • پہلا جلسہ سالانہ جرمنی

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم

  • جماعتی سرگرمیاں