یوں تو حضرت مسیح موعود کے لیے ہر روز روزِ عید تھا۔ لیکن جب میں آپ کی عید کا ذکر کرتا ہوں تو میرا مطلب اس عید کے دن کا ہے۔ جو ہم سب عرفی رنگ میں مناتے ہیں۔ حضورکو اللہ تعالیٰ سے ایسا مقام قرب حاصل تھا کہ ایک مرتبہ خداتعالیٰ نے عید کی تقریب پر آپ کو مبارک باد دی اور یہ الہام ہوا۔
‘‘ساقیا آمدنِ عید مبارک بادا’’
پھر ایک عید کی تقریب پر آپ کو فصیح و بلیغ عربی خطبہ پڑھنے کی بشارت دی اور اس وقت آپ پر محویت اور فنا فی اللہ کا ایک ایسا مقام حاصل تھا کہ ہم جو آپ کے سامنے بیٹھے ہوئے اس تقریر کو سُن رہے تھے محسوس اور یقین کرتے تھے کہ آپ کی زبان سے خدا بول رہا ہے۔
2 فروری 1900ء کو عیدالفطر کی تقریب تھی۔ حضورؑ نے یہ نمازِ عید اپنی جماعت کو لے کر قادیان کی پُرانی عید گاہ میں جو قصبہ سے مغرب کی طرف آپ کے خاندانی قبرستان کےمتصل ہے، پڑھی اور نماز کے بعد آپ ہی نے خطبہ عیدالفطر پڑھا۔ اس خطبہ میں حضورؑ نے قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ النَّاسِ کی سورۃ کی تفسیر بیان فرمائی۔ اس تقریر میں سے بعض مطالب کو پیش کرتا ہوں۔ اور یہی ایڈیٹر الحکم کی طرف سے اپنے دوستوں کو ارمغانِ عید ہے۔
مومن کی فراست سے ڈرو!
فرمایا مجھے یقین ہے کہ میری جماعت میں نفاق نہیں ہے۔ اور میرے ساتھ تعلق پیدا کرنے میں ان کی فراست نے غلطی نہیں کی۔ اس لیے کہ مَیں دَرحقیقت وہی ہوں جس کے آنے پر ایمانی فراست ملتی ہے اور خداتعالیٰ گواہ اور آگاہ ہے کہ مَیں وہی صادق اور امین اور موعود ہوں جس کا وعدہ لوگوں کو ہمارے سیّد و مولیٰ صادق و مصدوقﷺ کی زبان مبارک سے دیا گیا تھا۔ مگر جنہوں نے مجھ سے تعلق پیدا نہیں کیا وہ اس نعمت سے محروم ہیں۔ فراست گویا ایک کرامت ہے۔
یہ لفظ ‘‘فراست’’ بہ فتح الفا بھی ہے اور بکسرالفا بھی۔ زبر کے ساتھ اس کے معنے ہیں گھوڑے پر چڑھنا۔ مومن فراست کے ساتھ اپنے نفس کا چابک سوار ہوتا ہے۔ خدا کی طرف سے اسے نور ملتا ہے۔ جس سے وہ راہ پاتا ہے۔ اس لیے رسول اللہﷺ نے فرمایا اِتَّقُوْا فَرَاسَۃَ الْمُوْمِنِ فَاِنَّہٗ یَنْظُرُ بِنُوْرِاللہِ۔ یعنی مومن کی فراست سے ڈرو۔ کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ غرض ہماری جماعت کی فراست حقہ کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے خدا کے نور کو شناخت کیا۔
سُنو اور یاد رکھو
فرمایا سنو اور یاد رکھو۔ تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو اور محض خدا کے لیے رکھتے ہو۔ نیکی کرنےوالوں کے ساتھ نیکی کرو اور بدی کرنے والوں کو معاف کرو۔کوئی شخص صدیق نہیں ہوسکتا۔ جب تک وہ یک رنگ نہ ہو۔ جو منافقانہ چال چلتا ہے اور دو رَنگی اختیار کرتا ہے۔ وہ آخر پکڑا جاتا ہے۔ مثل مشہور ہے۔ دروغ گو را حافظہ نہ باشد
مَیں نے اسی خطبہ حضرت مسیح موعود میں سے چند جملے محض ارمغانِ عید کے طور پر نقل کر دئیے ہیں۔ اس خطبہ میں سورۃ والناس کی بےنظیر تفسیر ہے۔
ایک مرحوم دوست کا ذکر خیر عید کی تقریب پر
مکرمی شیخ رحمت اللہ مرحوم لاہور کے مشہور تاجر اور ہماری جماعت کے مخلص احباب میں سے تھے۔ ان کا معمول تھا کہ وہ عید کی تقریب پر حضرت مسیح موعود کے لیے نیا لباس لایا کرتےتھے اور حضرت مسیح موعود اسے عید کے دن پہنا کرتے تھے۔ حضورؑ کی زندگی میں ان کا یہی طرزِعمل رہا اور آپ کے وصال کے بعد وہ حضرت خلیفہ اوّل کے لیے اسی طریق پر عامل رہے۔
اس عہد کا ایک مخلص دوست
حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز () کی خلافت کے وقت انہیں ابتلا آ گیا۔ یہ ابتلا جہاں تک مَیں سمجھتا ہوں محض بعض تعلقات کی بنا پر تھا۔ خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم اور دوسرے لوگوں سے ان کے گہرے تعلقات تھے۔ باایں حضرت خلیفۃ ثانی کے حضور وہ مؤدب تھے اور اگر زندگی انہیں موقعہ دیتی تو وہ خلافت کے سایہ تلے آجاتے۔ خدا کرے یہ فضل اب ان کی اولاد کو مل جاوے۔ حضرت خلیفۃ ثانی ایّدہ اللہ بنصرہِ العزیز() کے عہد میں ایک نہایت ہی مخلص دوست ہیں ان کا نام نامی سیٹھ محمد غوث احمدی حیدرآبادی ہے۔ ان کو حضرت خلیفۃالمسیح اور اہل بیت مسیح موعود سے بےانتہا محبت ہے۔ وہ اس محبت کے اظہار کے نہایت قیمتی نمونے اپنی زندگی میں رکھتے ہیں۔ ان کے معمول میں بھی یہ بات ہے کہ وہ ہر عید پر حضرت کے حضور لباس کا ہدیہ پیش کرتے ہیں اور یہ ان کی سعادت اور خوش بختی ہے اور یقیناً یہ لباس ان کے لیے لباس التقویٰ کا تحفہ لے کر آتا ہے۔

(الحکم قادیان 21 جنوری 1934ء جلد 37نمبر2 صفحہ 8)

متعلقہ مضمون

  • سیرت حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ

  • سیرت حضرت عثمان

  • ِلیا ظلم کا عَفو سے انتقام

  • جلسہ ہائے سیرت النبیﷺ