(مکرم ڈاکٹر عبدالرحمان بھٹہ صاحب)

بائبل میں حضرت مسیح کی آمدِثانی کا ذکر کئی مقامات پر ملتا ہے تاہم انجیل متی کے باب 24۔ انجیل مرقس کے باب 13 اور انجیل لوقا کے باب 21 میں اس کو وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ ان ابواب میں مسیح کی آمدِثانی سے متعلق بعض آسمانی اور زمینی علامات بھی بیان کی گئی ہیں۔ مثلاً سورج تاریک ہو جائے گا۔ چاند روشنی نہ دے گا۔ ستارے گریں گے۔ سورج چاند کے ان نشانوں کا ذکر یوایل نبی کی کتاب کے باب دو اور مکاشفہ کے باب چھ میں بھی ہے۔ زمینی علامات میں قوموں کی آپس کی جنگیں، زلزلے، طوفان اور وبائیں وغیرہ شامل ہیں۔ بائبل کے ان بیانات کی روشنی میں عیسائی دنیا صدیوں سے مسیح کی آمدِثانی کا انتظار بڑے خلوص اور ذوق و شوق سے کرتی آئی ہے۔ ذیل کی سطور میں ان نشانات پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی جائے گی۔

1۔ بعض نشانات کا ظہور

اٹھارویں صدی کے آخر میں عیسائی حلقوں میں اس بات کا شدید احساس پیدا ہوگیا تھا کہ حضرت مسیح کی آمدِثانی قریب ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ 19 مئی 1780ء کو سورج کے تاریک اور چاند کے خون ہوجانے کا نشان ظاہر ہوگیا تھا۔ اور یہ نشان سارے امریکہ میں دیکھا گیا تھا۔ لکھا ہے کہ صبح آٹھ بجے کے بعد سورج کی روشنی کم ہونے لگی تھی۔ مطلع صاف تھا اور چاند پورا تھا۔ آہستہ آہستہ اندھیرا چھاتا گیا حتیٰ کہ دوپہر کو ایسی تاریکی چھا گئی جیسے آدھی رات ہو۔ شام کو سورج کی ہلکی سی جھلک نظر آئی اور پھر غائب ہوگئی۔ رات کو چاند دھندلا اور خون کی طرح گہرا سرخی مائل دکھائی دیا۔
جہاں تک ستاروں کے گرنے کا تعلق ہے یہ نشان 13 نومبر 1833ء کو سارے امریکہ میں دیکھا گیا۔ آسمان پر ستاروں کے ٹوٹنے اور گرنے کا سلسلہ رات دو بجے کے قریب شروع ہوا اور دن چڑھنے تک جاری رہا۔ شمال، جنوب، مشرق مغرب۔ ہر طرف آسمان پر چمک دمک ہوتی رہی۔ عجب مسحور کن نظارہ تھا۔ اس کثرت سے ستارے گرتے رہے جیسے بارش ہو رہی ہو۔ اس نشان کے بعد تو یہ تاثر عام تھا کہ مسیح کی آمدِثانی ایسی قریب ھے جیسے وہ دروازے پر ہوں۔

1.1 مسیح کا انتظار۔ 1844ء میں

1820ء کی دہائی میں جوزف ولف نامی ایک امریکن عیسائی منّاد نے یہ اعلان عام کیا کہ حضرت عیسیٰ کی آمدِثانی 1840ء کے قریب ہوگی۔ اس غرض کے لئے اس نے امریکہ کے علاوہ یورپ، ایشیا اور افریقہ کے کئی ممالک کا دورہ کیا۔ اس عالمی دورے کے پیشِ نظر اس کو مشنری آف دی ورلڈ کا خطاب دیا گیا۔ بعد میں اس نے لکھا کہ یمن۔ بخارا اور ایسے بہت سے دور دراز علاقوں میں اس نے عیسائیوں کو پہلے ہی 1840ء کے قریب حضرت مسیح کے نزول کا منتظر پایا تھا۔
انہی ایام میں بائبل کے ایک امریکن مفکر ولیم ملر نے یہ نظریہ پیش کیا کہ کتاب دانیال کے ابواب 8 اور 9 میں حضرت مسیح کی آمدِثانی کا وقت مذکور ہے۔ اس نے ان ابواب میں بیان کردہ اعداد و شمار سے حساب کرکے یہ اعلان کیا کہ حضرت مسیح کا نزول 1844ء میں ہوگا۔ اس کو اپنی اس تحقیق پر بڑا فخر تھا اور پختہ یقین بھی۔ اس موضوع پر اس نے امریکہ اور یورپ میں تقاریر کرکے لاکھوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اس خیال سے کہ وہ نزول مسیح کا یہ ایمان افروز نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے عوام میں خوشی اور بیداری کی لہر دوڑ گئی اور وہ مسیح کے استقبال کی تیاریاں کرنے لگے۔ ہزاروں نے اپنے طور طریقے بدلے اور سیر و تفریح کے پروگرام چھوڑ کر گرجوں کا رُخ کیا۔
خدا خدا کرکے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور 1844ء کا سال آیا۔ اور پھر آہستہ آہستہ وہ سال گزر گیا اور کوئی آسمان سے نازل نہ ہوا۔ ہر طرف مایوسی، پریشانی اور گھبراہٹ پھیل گئی۔ مسٹر ولیم ملر اور اس کے رفقاء نے کئی ماہ کی سوچ بچار کے بعد یہ عُذر پیش کیا کہ ان کو پیشگوئی کے بعض الفاظ کے سمجھنے میں غلطی لگی تھی۔ اب سمجھ آئی ہے کہ مسیح کی آمد زمین پر مقدّر نہ تھی۔ اس کو آسمان پر ہی کسی مقام پر ہماری نجات کے سامان کرنے کے لئے جانا تھا۔ اس مایوسی کے نتیجے میں مسیح کی آمدِثانی کے بارے میں عیسائی دنیا میں اختلاف پیدا ہوگیا۔ اور آہستہ آہستہ ایسے فرقے وجود میں آ گئے جو اب یہ کہتے پھرتے ہیں کہ مسیح اس دنیا میں جسمانی طور پر نہیں آئے گا بلکہ وہ آسمان سے ہی روحانی طور پر دنیا پر راج کر رہا ہے۔
جس تحدّی اور وضاحت کے ساتھ بائبل میں مسیح کے اس دنیا میں آنے کا ذکر ہے، جس کثرت اور تفصیل کے ساتھ اس کی آمدِثانی سے متعلق زمینی علامات اور حالات بیان کئے گئے ہیں اور جس خلوص اور یقین کے ساتھ صدیوں سے اس کا انتظار اس زمین پر ہوتا رہا ہے، اس کے بعد اس زمین پر مسیح کی آمد کا انکار عقل و فہم سے بالا ہے۔ اگر مسیح ان کو نظر نہیں آیا تو یقیناً قصور ان کی اپنی بصیرت کا ہے نہ کہ ان کے صحائف کی پیشگوئیوں کا۔ یہود کو بھی اپنا مسیح نظر نہیں آیا تھا اور ان کو بھی مایوسی ہوئی تھی۔ لیکن یہود اپنے مسیح کی آمد کے انکاری نہیں ہوئے اور آج تک اس کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ عیسائی تو یہود سے بھی بڑھ کر کوتہ بین اور بےبصیرت نکلے جو اس کی آمد کا ہی انکار کر بیٹھے ہیں۔

2۔ وہی غلطیاں جو یہود نے کی تھیں:

مسیح کی آمدِثانی کے بارے میں عیسائی دنیا نے وہی غلطیاں کی ہیں جو یہود نے مسیح کی آمد اوّل کے موقع پر کی تھیں۔ یہود کی سب سے بڑی غلطی تو ان کا یہ اصرار تھا کہ مسیح کی آمد سے پہلے ایلیا کو جسمانی طور پر آسمان سے نازل ہونا چاہیے۔ چنانچہ انہوں نے حضرت مسیح کی اس وضاحت کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا کہ ایلیا کے نزول سے مراد اس کا جسمانی نزول نہیں بلکہ کسی نبی کا ایلیا کی روحانی صفات کے ساتھ پیدا ہونا تھا۔ اور یہ کہ ایلیا کی آمدِثانی کی پیشگوئی یوحنا بن زکریا کی شکل میں پوری ہو چکی ہے۔
یہود تو حضرت مسیح کے منکر تھےاس لئے انہوں نے ان کی وضاحت کو قبول نہ کیا۔ لیکن عیسائیوں کو تو ان کی وضاحت قبول کرنی چاہیے تھی اور یہود کی غلطی سے سبق حاصل کرنا چاہیے تھا۔ لیکن افسوس کہ عیسائیوں نے بھی وہیں ٹھوکر کھائی جہاں یہود نے کھائی تھی اور آمدِثانی میں مسیح کے آسمان سے جسمانی نزول کے ہی منتظر رہے اور جب مسیح آسمان سے نازل ہوتا دکھائی نہ دیا تو اس کی آمد سے ہی انکاری ہو گئے۔ حالانکہ جو وضاحت حضرت مسیح نے ایلیا کی آمدِثانی کے بارے میں دی تھی وہ خود ان کی اپنی آمدِثانی کے بارے میں بھی تو رہنما تھی۔ ظاہر ہے کہ جس طرح یوحنا (یحییٰ) ایلیا کی روح اور قوت کے ساتھ پیدا ہوا تھا اور اس کے وجود میں ایلیا کی آمدثانی کی پیشگوئی پوری ہوگئی تھی۔ اسی طرح کوئی شخص مسیح کی روح اور قوت کے ساتھ پیدا ہوگا۔ اور اس کے وجود میں مسیح کی آمد ثانی کی پیشگوئی پوری ہو جائے گی۔

2.1 عیسائی علماء کی یہود پر تنقید

حضرت مسیح کی آمد اوّل کے وقت یہود نے جو غلطیاں کی تھیں عیسائی علماء ان کو خوب اُچھالتے ہیں۔ چنانچہ ایک عیسائی عالم لکھتے ہیں کہ:
……اس زمانے کے یہود نے مسیح کی پیدائش۔ زندگی اور موت کے بارے میں پیشگوئیوں کو جزوی یا کلی طور پر غلط سمجھا۔ وہ ایک فاتح بادشاہ کے منتظر تھے جو رومن حکومت کا تختہ اُلٹ دے۔ یہودی قوم کی اکثریت ایسے وقت کی منتظر تھی جب داؤد کی نسل کا ایک حکمران راج کرے گا اور دنیا کی قوموں سے خراج وصول کرے گا۔
اسی طرح ایک اور عیسائی مفکر یہود کے علماء پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
…انہوں نے (مسیح کے متعلق) پیشگوئیوں کا مطالعہ روحانی بصیرت کے بغیر کیا۔ اس طرح انہوں نے ان پیشگوئیوں کو نظر انداز کیا جو مسیح کی آمد اوّل میں اس کی تحقیر کی طرف اشارہ کرتی تھیں۔ اور ان پیشگوئیوں کو ان پر چسپاں کیا جو آمدِثانی کی شان و شوکت کا ذکر کرتی تھیں۔ تکبّر نے ان کی نظر کو دھندلا دیا تھا۔ انہوں نے پیشگوئیوں کی تعبیر اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق کی۔

مسیح کے حواریوں پر تنقید

ان عیسائی علماء نے صرف یہود کو ہی قصور وار نہیں ٹھہرایا بلکہ حضرت مسیح کے حواریوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ:
… اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خدا رسیدہ افراد کے ذہن بھی عوامی خیالات، روایات اور غلط تعلیمات سے ایسے اندھے ہو جاتے ہیں کہ وہ ان عظیم حقائق کو جزوی طور پر ہی سمجھ پاتے ہیں جو خدا نے اپنے کلام میں نازل کی ہوتی ہیں۔ مسیح کے حواریوں کا بھی یہی حال تھا جب ان کا نجات دہندہ جسمانی طور پر ان کے درمیان موجود تھا۔ ان کے ذہن اس عوامی تصوّر سے سرشار تھے کہ مسیح ایک دنیاوی شہزادہ ہوگا جو اسرائیل کو ایک عالمگیر سلطنت کے تخت پر بیٹھا دے گا۔ وہ ان پیشگوئیوں کا مفہوم نہ سمجھ سکے جو مسیح کے دکھ درد اور موت کی طرف اشارہ کرتی تھیں۔
ہم نے دیکھا کہ مسیح کی پہلی آمد کے حوالے سے یہ عیسائی علماء یہود کے رابیوں اور مسیح کے حواریوں پر کس قدر سخت گرفت کرتے ہیں لیکن آمدِثانی کے بارے میں یہ خود وہی غلطیاں کرتے ہیں جن کا دوش یہ یہود کو دیتے ہیں۔ خود انہوں نے آمدِثانی کی پیشگوئیوں کو دیکھتے وقت روحانی بصیرت سے کام نہیں لیا۔ خود انہوں نے پیشگوئیوں کی تعبیر عوامی روایات اور نفسانی خواہشات کے مطابق کی ہے اور خود ان کے ذہن بھی اس عوامی تصوّر سے سرشار ہیں کہ آمدِثانی میں مسیح ایک بادشاہ کی طرح ظاہری شان و شوکت کے ساتھ آسمان سے نازل ہوگا اور لاکھوں جانثار تالیاں بجا کر اس کا استقبال کریں گے۔ اور یہ خود بھی بائبل کے ان شواہد کو نظر انداز کرتے ہیں جو آمدِثانی میں مسیح کے دکھ درد اور مخالفت کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں کہ اس کی آمدِثانی عیسائیوں کی توقعات کے برخلاف ہو گی اور وہ اس کو پہچان نہ سکیں گے۔ اس ضمن میں ہم بائبل سے بعض حقائق پیش کرتے ہیں۔

3۔ آمدِثانی اور بائبل کے شواہد

اگر بائبل کا غور اور غیر جانبداری سے مطالعہ کیا جائے تو اس میں ایسے شواہد مل جاتے ہیں جو حضرت مسیح کی آمدِثانی کے اصل حالات و واقعات پر روشنی ڈالتے ہیں اور ان کی تلاش اور پہچان میں مدد دیتے ہیں، مثلاً:

3.1۔ آمدِثانی میں دکھ درد

حضرت مسیح نے اپنی آمدِثانی کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا:
… جیسے بجلی آسمان کے ایک طرف سے کوند کر دوسری طرف چمکتی ہے ویسے ہی ابن آدم اپنے دن میں ظاہر ہوگا۔ لیکن پہلے ضرور ہے کہ وہ بہت دکھ اٹھائے اور اس زمانہ کے لوگ اسے رَدّ کریں۔ اور جیسا نوح کے دنوں میں ہوا تھا ویسا ہی ابن آدم کے دنوں میں بھی ہوگا۔
اب اگر آمدِثانی میں مسیح نے آسمان سے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ اُترنا تھا تو ایسے مسیح کو کون رَدّ کر سکتا ہے اور دکھ دے سکتا ہے۔ حضرت نوح کی مثال دے کر تو بات اور بھی واضح کر دی۔ جس سختی سے حضرت نوحؑ کو رَدّ کیا گیا اور دکھ دیا گیا تھا اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ پس ظاہر ہے کہ آمدِثانی میں بھی مسیح اسی طرح رَدّ کیا جائے گا اور دکھ دیا جائے گا جیسا کہ پہلی آمد پر دیا گیا تھا۔

3.2۔ بادشاہت ظاہری طور پر نہیں آئے گی

عیسائی علماء حضرت مسیح کی پہلی اور دوسری آمد میں یہ فرق کرتے ہیں کہ پہلی آمد میں مسیح کے لئے تحقیر اور تکلیف اٹھانا مقدر تھا لیکن دوسری آمد میں وہ شاہانہ شان و شوکت کے ساتھ آئیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ پہلی آمد میں بھی مسیح بادشاہ کے طور پر ہی آئے تھے لیکن ان کی بادشاہت آسمانی تھی اور صرف ان لوگوں کو ہی نظر آئی تھی جو روحانی بصیرت رکھتے تھے۔ دوسری آمد میں بھی مسیح کو بادشاہ کے طور پر ہی آنا ہے اور اس بار بھی مسیح کی بادشاہت آسمانی ہی ہوگی اور ان لوگوں کو ہی نظر آئے گی جو روحانی بصیرت رکھتے ہوں گے۔ تاہم اس دفعہ ان کی آسمانی بادشاہت پہلے کی طرح صرف ایک قوم کے لئے نہیں بلکہ دنیا کی سب قوموں پر محیط ہوگی لہٰذا ان کی بادشاہت اور شان و شوکت پہلے سے بہت بڑھ کر ہوگی۔
جہاں تک دکھ درد اور مخالفت کا تعلق ہے تو یہ مسیح کی آمد اوّل اور آمدِثانی، دونوں کا حصہ ہے۔ دونوں دفعہ یہ اندھی دنیا ان کو پہچان نہ سکے گی اور ان کو رَدّ کرے گی۔ پس یہ تصوّر غلط ہے کہ آمدِثانی میں مسیح کی بادشاہت ظاہری ہوگی اور دنیا ان کو سر آنکھوں پر بٹھائے گی۔ چنانچہ بائبل میں لکھا ہے کہ:
… جب فریسیوں نے اس سے پوچھا کہ خدا کی بادشاہت کب آئے گی تو اس نے جواب میں ان سے کہا کہ خدا کی بادشاہت ظاہری طور پر نہ آئے گی۔ اور لوگ یہ نہ کہیں گے کہ دیکھو یہاں ہے یا وہاں ہے۔ کیوںکہ دیکھو خدا کی بادشاہت تمہارے درمیان ہے۔

3.3۔ مسیح کا نزول مشرق میں ہوگا

حضرت مسیح نے اپنی آمدِثانی کو آسمانی بجلی کے چمکنے سے تشبیہ دیتے ہوئے ایک جگہ یہ فرمایا ہے کہ …جیسے بجلی مشرق سے کوند کر مغرب تک دکھائی دیتی ہے ویسے ہی ابن آدم کا آنا ہوگا۔
اب آسمانی بجلی کے چمکنے کے لئے کوئی خاص سمت تو مقرر نہیں۔ لیکن حضرت مسیح نے اپنی آمدِثانی کے لئے بجلی کے مشرق میں کوند کر مغرب میں دکھائی دینے کی مثال دی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسیح کی آمدِثانی کسی مشرقی علاقے میں ہوگی نہ کہ مغربی علاقے میں جیسا کہ مغربی عیسائی اقوام اُمید لگائے بیٹھی ہیں۔ اور پھر مشرق سے ان کا پیغام بجلی کے آلات کے ذریعے مغربی اقوام میں پھیلے گا۔

3.4۔ آمدِثانی میں الیکٹرانک میڈیا کا استعمال

بائبل میں ایسے شواہد بھی ملتے ہیں کہ آمدِثانی میں مسیح اپنے مبلّغین کو دنیا میں چاروں طرف بھیجے گا۔ اور اپنے پیغام کو پھیلانے کے لئے الیکٹرانک میڈیا کا استعمال کرے گا۔ اور اس کو اپنی عالمگیر روحانی سلطنت کی کمانڈ اور کنٹرول کے لئے نشریاتی سیٹلائٹ نیٹ ورک کی سہولت بھی حاصل ہوگی۔ آئیں دیکھتے ہیں کہ بائبل میں اس جدید دَور کی ایجادات کا، خصوصاً ٹیلیویژن نیٹ ورک کا، دو ہزار سال قبل کیسا عجب نقشہ کھینچا گیا ہے۔ لکھا ہے کہ:
… اس وقت ابن آدم کا نشان آسمان پر دکھائی دے گا۔ اور اس وقت زمین کی سب قومیں چھاتی پیٹیں گی۔ اور ابن آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں گی۔ اور وہ نرسنگے کی بڑی آواز کے ساتھ اپنے فرشتوں کو بھیجے گا اور وہ اس کے برگزیدوں کو چاروں طرف سے آسمان کے اس کنارے سے اس کنارے تک جمع کریں گے۔
… جب ابن آدم اپنے جلال میں آئے گا اور سب فرشتے اس کے ساتھ آئیں گے تب وہ اپنے جلال کے ساتھ تخت پر بیٹھے گا اور سب قومیں اس کے سامنے جمع کی جائیں گی۔ اور وہ ایک کو دوسرے سے جدا کرے گا۔
…ہم جو زندہ ہیں اور خداوند کے آنے تک باقی رہیں گے سوئے ہوؤں سے ہرگز آگے نہ بڑھیں گے۔ کیونکہ خداوند خود آسمان سے للکار اور مقرب فرشتے کی آواز اور خدا کے نرسنگے کے ساتھ اتر آئے گا…۔

3.5۔ آمدِثانی نئے نام سے اور

نئے یروشلم میں
بائبل سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آمدِثانی میں مسیح اپنے پہلے نام جیسےیا یسوع سے نہیں بلکہ کسی نئے نام سے آئے گا۔ اور وہ موجودہ یروشلم میں نہیں بلکہ خدا کے کسی اور مقدس شہر نئے یروشلم میں آئے گا۔ چنانچہ لکھا ہے:
… مَیں جلد آنے والا ہوں۔ جو کچھ تیرے پاس ہے اسے تھامے رہ تاکہ تیرا تاج کوئی چھین نہ لے۔ جو غالب آئے میں اسے اپنے خدا کے مقدّس میں ایک ستون بناؤں گا۔ وہ پھر کبھی باہر نہ نکلے گا۔ اور اپنے خدا کا نام اور اپنے خدا کے شہر یعنی اس نئے یروشلم کا نام جو میرے خدا کے پاس سے آسمان سے اُتر نے والا ہے۔ اور اپنا نیا نام اس پر لکھوں گا۔
جیسا کہ ہم اوپر درج کر چکے ہیں خدا کا یہ مقدّس شہر نیا یروشلم جس میں مسیح آمدِثانی میں نازل ہوگا۔ پرانے یروشلم کے مشرق میں واقع ہوگا۔ اور مسیح کے نئے نام کے متعلق بھی ہمیں صحیفہ دمشق سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایمد(احمد) ہوگا۔

3.6۔ مسیح عیسائیت میں نہیں آئے گا

بائبل کی بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح نے اپنی آمدِثانی کے بارے میں اپنی قوم کو بتایا کرتے تھے کہ ان کا آنا چور کی طرح ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے کہا:
… پس جاگتے رہو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ تمہارا خداوند کس دن آئے گا۔ لیکن یہ جان رکھو کہ اگر گھر کے مالک کو معلوم ہوتا کہ چور رات کے کون سے پہر آئے گا تو جاگتا رہتا۔ اور اپنے گھر میں نقب نہ لگانے دیتا۔ اس لئے تم بھی تیار رہو کیونکہ جس گھڑی تمہیں گمان بھی نہ ہوگا ابنِ آدم آجائے گا۔
اسی طرح پطرس کے دوسرے خط میں لکھا ھے کہ خداوند کا دن چور کی طرح آ جائے گا۔
اور مکاشفہ میں دو جگہ درج ہے کہ:
… پس یاد کر کہ تو نے کس طرح تعلیم پائی اور سنی تھی۔ اور اس اس پر قائم رَہ اور توبہ کر۔ اور اگر تو جاگتا نہ رہے گا تو میں چور کی طرح آ جاؤں گا اور تجھے ہرگز معلوم نہ ہوگا…۔
…دیکھو میں چور کی طرح آتا ہوں۔ مبارک وہ جو جاگتا ہے اور اپنی پوشاک کی حفاظت کرتا ہے…۔
یہ چور کی طرح آنے کی مثال بہت اہم اور معنی خیز ہے۔ یہ مثال مسیح کی آمد اوّل کے حوالے سے یہود کی روایات میں نہیں پائی جاتی۔ اور نہ ہی آمدِثانی کے حوالے سے یہ مثال اسلامی روایات میں پائی جاتی ہے۔ چور کی یہ مثال صرف عہدنامہ جدید میں بیان ہوئی ہے جس کا تعلق خاص طور پر عیسائیوں سے ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس مثال سے عیسائی دنیا کو خبردار کیا گیا ہے کہ آمدِثانی میں مسیح ان کے مذہبی گھرانے کا فرد نہیں ہوگا۔ بلکہ ان کے لئے ایک غیر اور اجنبی شخص ہوگا اور اس کی آمد ان کے لئے غیرمتوقع اور پریشان کن ہوگی۔ اس مثال سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ عیسائی دنیا کو مسیح کی آمد کی خبر اور پہچان بہت بعد میں ہوگی جب وہ چور کی طرح اپنا کام کرکے جا چکا ہوگا۔
چور کی یہ مثال دے کر عیسائیوں کو تلقین کی گئی تھی کہ وہ جاگتے رَہیں اور جو تعلیم پائی اور سُنی ہے اس پر قائم رہیں اور جو تعلیم انہوں نے حضرت مسیح سے پائی اور سُنی تھی وہ زیادہ تر موسیٰؑ جیسے نبی کے ظہور کے متعلق تھی جس کی طرف وہ یہ کہہ کر توجہ دلایا کرتے تھے کہ خدا کی بادشاہت قریب ہے۔ اسی سلسلے میں حضرت مسیح نے یہود کو تاکستان کے مالک اور نوکروں کی تمثیل سنائی تھی۔
اس تمثیل کے آخر میں حضرت مسیح نے یہود سے واضح طور پر کہا تھا کہ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور اس قوم کو دے دی جائے گی جو اس کے پھل لائے گی۔ اس قول سے ظاہر ہے کہ خدا کی بادشاہت اس وقت یہود کے پاس تھی۔ اور یہود میں یہ بادشاہت اس وقت قائم ہوئی تھی جب خدا نے حضرت موسیٰ کے ذریعے ان کو شریعت عطا کی تھی۔ اس تمثیل کے ذریعے حضرت مسیح نے یہود کو یہ بتایا تھا کہ اب وہ وقت قریب ہے جب خداتعالیٰ موسیٰ جیسا نبی کسی اور قوم میں بھیج کر ان کو شریعت عطا کرے گا اور اس طرح خدا کی بادشاہت اس دوسری قوم میں قائم ہو جائے گی۔
یہود کو یہ تمثیل بہت بُری لگی تھی کیونکہ وہ حضرت موسیٰؑ کی اس پیشگوئی کو جانتے تھے اور خدا کی بادشاہت کے چِھن جانے کا مطلب بھی سمجھتے تھے۔ لیکن عیسائیوں نے اس تمثیل کے مفہوم اور اہمیت کو نہیں سمجھا۔ اور مثیلِ موسیٰؑ جیسی عظیم پیشگوئی کو نظرانداز کیا حالانکہ اس پیشگوئی کو سمجھے بغیر مسیح کی آمدِثانی کی حقیقت کو سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔

مزید معلومات اور حوالہ جات کے لئے مندجہ ذیل شمارہ دیکھیں
https://www.alislam.org/akhbar-e-ahmadiyya/AHG202303.pdf

 

حوالہ جات

– The Great Controversy by Ellen G. White, p. 259f.Edition1977,

– The Great Controversy by Ellen G. White page 282f

– The Great Controversy by Ellen G. White page 302,306

– The Great Controversy by Ellen G. White Pages 276-283,298,347,360f.

– (متی ابواب 11 اور 17،لوقا باب 1)

– (لوقا۔ باب 1 آیت 17)

– The life and teaching of Christ by Stanley Wood, Vol.1, Ed.1933, page 37

– The Desire of Ages, by E. G. White, Ed.1974, p-28.

– The Great Controversy, by E. G. White, Ed 1977, page 292.

– (لوقا۔ باب 17 آیات 25-26)

– (لوقا۔ باب 17 آیات 20-21)

– (متی۔ باب 24 آیت 27)

– متی۔ باب 24 آیات 30۔ 31

– متی۔ باب 25 آیات 31۔ 32

– 1 تھسلنیکیوں۔ باب 4۔ آیات 15-16

– مکاشفہ باب 3 آیات 11-12

– تفصیل کے لئے دیکھیں۔ شارٹ کمنٹری مرتبہ ملک غلام فرید صاحبؓ۔ اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشن۔ ایڈیشن 2006۔ صفحہ 1132۔ سورہ نمبر 61۔ الصف۔ کمنٹری نمبر 3037

– متی۔ باب 24 آیات 43-44

– باب 3۔ آیت 10

– باب 3 آیت 3

– (باب 16 آیت 15)

– (متی باب 21)

 

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • فیصلہ جات مجلس شوریٰ جماعت احمدیہ جرمنی 2024

  • اسلام و قرآن نمائش

  • تائیوان انٹرنیشنل کتب میلہ