حضرت مصلح موعودؓ کے دورہ جرمنی 1955ء کے حالات پر مشتمل یہ مضمون بنیادی طور پر مکرم عرفان احمد خان صاحب، ممبر کمیٹی نے دستیاب ریکارڈ کی مدد سے تیار کیا جس پر بعدازاں ممبران کمیٹی مکرم محمد انیس دیالگڑھی اور مکرم محمد لقمان مجوکہ صاحب نے بڑی محنت سے تحقیقی کام مکمل کیا ہے، فجزاھم اللہ احسن الجزاء۔ اگر کسی دوست کے پاس اس کے علاوہ بھی کوئی معلومات ہوں تو براہ کرم تاریخ کمیٹی کو ارسال کرکے ممنون فرمائیں،(صدر تاریخ کمیٹی جرمنی)

1955ء کا سال جماعت احمديہ جرمني کي تاريخ ميں نہايت ہي اہميت کا حامل سال ہے کہ اس سال حضرت مسيح موعودؑ کے موعود فرزند اور اولوالعزم خليفہؓ حضرت مرزا بشيرالدين محمود احمد صاحبؓ نے اِس سرزمين کو پہلي بار اپنے بابرکت قدموں اور ورودِمسعود سے سرفراز فرمايا۔ يہ سال اس لحاظ سے بھي اہميت کا حامل ہے کہ اسي سال اگست ميں ہمبرگ کے حکومتي محکمہ ميں جماعت احمديہ جرمني کا بطور رجسٹرڈ ايسوسي ايشن باقاعدہ اِندراج ہوا۔ اگرچہ اس سے قبل 1949ء ميں بھي بطور مذہبي جماعت اندراج ہوچکا تھا تاہم 1955ء ميں ہونے والي رجسٹريشن بطور e.Vتھي[1]۔

اُس وقت جنگِ عظيم کو ختم ہوئے دس سال گذر چکے تھے اور جرمني کے عوام جنگ عظيم کے صدمہ اور اثرات سے نکل کر بڑي تيزي سے اقتصادي، معاشي اور صنعتي ميدان ميں ترقي کي منازل طے کرنے لگے تھے۔ چنانچہ ايسے وقت ميں مسيح موعودؑ کے موعود خليفہ کا اس زمين پر ورود فرمانا يقيناً خدا کي تقديروں ميں سے ايک خاص تقدير تھي۔

حضرت مصلح موعودؓ کا جرمني ميں پہلي بار ورودِ مسعود

حضرت خليفةالمسيح الثاني 15 جون؍ 1955ء کو آسٹريا سے جرمني کے جنوبي صوبہ بائرن کے دوسرے بڑے شہر نيورن برگ ميں شام چھ بجے وُرود فرما ہوئے۔ مبلغ سلسلہ چوہدري عبداللطيف صاحب اور مقامي صدر جماعت ڈاکٹر Karl Koller نے اَفراد جماعت کے ہمراہ حضورؓ کا پُر تپاک اِستقبال کيا[2]۔ ياد رہے کہ اُس وقت تک محترم شيخ ناصر احمد صاحب مبلّغ سوئٹزرلينڈ اور مکرم چودھري عبداللطيف صاحب مبلغ جرمني کي کوششوں سے 15 نَومسلم مرد و خواتين پر مشتمل جماعت قائم ہوچکي تھي جو سب کے سب اخلاص اور محبّت سے سرشار تھے[3]۔ اس شہر ميں حضورؓ کي قيام گاہ سے متعلق محترم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب يا چودھري عبداللطيف صاحب کي کسي رپورٹ ميں ذکر نہيں مل سکا۔ تاہم مقامي جرمن اخبار Nürnberger Zeitungکے شمارے 16.06.1955 ميں حضورؓ کے دورہ سے متعلق شائع ہونے والي خبر ميں لکھا ہے کہ آپ ہوٹلDer Kaiserhof Nürnberg کے اپارٹمنٹ3 ميں قيام پذير ہيں، علاوہ ازيں ايک دوسرے مقامي جرمن اخبارNürnberger Nachrichten کے 15 جون 1955ء کے شمارے ميں شائع ہونے والي خبر ميں بھي لکھا ہے کہ حضور شہر کے معروف ہوٹل Der Kaiserhof Nürnberg ميں اپني جماعت کے افراد سے خطاب فرمائيں گے۔

ہوٹلDer Kaiserhof نيورن برگ شہر کے مرکزي بازار ميں Königstraße 39 پر واقع تھا۔ اِس وقت ہوٹل کي عمارت تو اگرچہ بعينہٖ قائم ہے تاہم يہ ہوٹل نہيں رہا بلکہ اِس ميں مختلف دُکانيں اور ڈاکٹروں کے کلينک بن چکے ہيں۔ تاريخ کميٹي جرمني کے ايک ممبر نے وہاں جا کرہوٹل کي اس عمارت کو ديکھا بھي ہے۔ وہاں ايک دکان کے مالک نے اِس سابقہ ہوٹل کے نقشہ کي تفصيل بھي بتائي۔

مجلس عرفان

اسي شام ہوٹل کے بڑے کمرے ميں مجلس عرفان منعقد ہوئي جس ميں حضورؓ نے احباب جماعت کے ساتھ جرمني ميں تبليغِ اسلام کے موضوع پر تبادلہ خيال فرمايا[4]۔ حضورؓ کے يہاں وُرودِ مسعود کي مندرجہ ذيل خبر اُسي روز مقامي اخبار Nürnberger Nachrichten کے صفحہ 10 پر اس سرخي کے ساتھ شائع ہوئي:

پاکستان سے عظيم شخصيّت کي آمد مسلمانوں کے امام سفرِ يورپ پر

آج شام احمديہ کميونٹي جو اسلام ميں ايک نئي تحريک ہے کے امام(خليفہ) حضرت مرزا محمود احمدصاحب ربوہ پاکستان سے نيورن برگ پہنچ رہے ہيں۔ چھياسٹھ سالہ خليفہ اٹلي اور سوئٹزرلينڈ سے ہوتے ہوئے يہاں پہنچ رہے ہيں اور جمعہ کو ہالينڈ اور انگلستان کے سفر پر تشريف لے جائيں گے۔ آپ جماعت کے صوبہ بائرن کے صدر ڈاکٹر Karl Koller کي دعوت پر تشريف لائے ہيں۔ ان کي پيشوائي کے لئے امام عبداللطيف جو جرمني جماعت کےانچارج ہيں کل سے ہي (ڈاکٹر کارل کولر) کے گھر (Melanchthonplatz 2) پہنچ چکے ہيں۔ کل شام سات بجے امام حضرت مرزا محمود احمد ہوٹل Kaiserhof ميں نيورن برگ اور بائرن کے ممبران جماعت سے مليں گے اور اسي طرح اسلامي تعليمات سے دلچسپي رکھنے والے دوسرے احباب سے بھي ملاقات کريں گے[5]۔

علاوہ ازيں اسي اخبار نے تين روز بعد ايک مرتبہ پھر تفصيلي خبر شائع کي جس کے ساتھ ايک بڑي تصوير بھي تھي جس ميں حضورؒ کے ساتھ افراد قافلہ اور مقامي احباب کو دکھايا گيا۔ خبر کا اردو ترجمہ حسب ذيل ہے:

امام کي نيورن برگ کے مسلمانوں سے ملاقات

ہوٹل Kaiserhof ميں استقباليہ

محمدؐ کے پيروکار ايک مسجد کي تعمير کا ارادہ رکھتے ہيں

لوکل مسلمانوں کي جماعت کے صدر ڈاکٹر کارل کولر Karl Koller نے کل ہوٹل Kaiserhof ميں منعقدہ اپنے دوستوں کے ايک اجلاس ميں بتايا کہ کہ نيورن برگ کے مسلمانوں کي چھوٹي سي جماعت نے Keßlerplatz ميں ايک قطعہ زمين مسجد کي تعمير کے ليے حاصل کر ليا ہے۔ ان کي تعداد نيورن برگ ميں صرف 20 افراد پر مشتمل ہے اس کے علاوہ يہاں کے کچھ مسلمان پيروکار Weißenburg, Hilpoltstein اور صوبہ بائرن کے ديگر شہروں ميں موجود ہيں جو کہ جماعت احمديہ کے مرکزي مشن ہمبرگ کے ماتحت ہيں۔ احمديہ مشن ايک اسلامي اصلاحي تحريک ہے۔ جيسا کہ ہم پہلے بھي يہ بيان کرچکے ہيں کہ اس تحريک کے روحاني پيشوا حضرت مرزا محمود احمد، جن کا تعلق پاکستان سے ہے، آجکل اپني يورپين جماعتوں کے دورہ پر ہيں۔ ہوٹل Kaiserhof ميں اس باوقار عمر رسيدہ شخصيت نے انگريزي ميں ايک چھوٹا سے خطاب کيا۔ اس سے پہلے انہوں نے آنکھيں بند کرکے کچھ دعائيہ کلمات پڑھے۔ ان کي بيان کردہ اسلامي تعليمات بہت سادہ ہيں۔ مختصر يہ کہ ہم سب خداتعاليٰ کي مخلوق ہيں اس ليے ہميں آپس ميں محبت سے رہنا چاہيے اور لڑائي سے اجتناب کرنا چاہيے۔ جرمني کا امام صاحب نے اچھے الفاظ ميں ذکر کيا۔ ان کے ہمراہ پاکستان سے آئے ہو ئے اپنے مخصوص لباس ميں ملبوس ديگر پيروکار بھي تھے (ايسے ملبوسات ہم اکثر ٹي وي خبروں ميں ہي مشاہدہ کرتے ہيں)۔ ان سب کا رويہ بہت شائستہ اور ايک ايسا پر اطمينان تھا جيسا کہKarl May نے بھي مسلمانوں کے دين کا ايک بہت بڑا وصف بيان کيا ہے۔

علاوہ ازيں ايک دوسرے مقامي جرمن اخبار Nürnberger Zeitung کي اشاعت مؤرخہ 16 جون 1955ء ميں حضورؓ کے اس دَورے کي خبر ان الفاظ ميں شائع ہوئي:

امام حضرت مرزا محمود احمد

امام حضرت مرزا محمود احمد، مسيح موعودؑ کے بيٹے اور منتخب خليفہ جو کہ ربوہ پاکستان سے تشريف لائے ہيں کل شام سے ہوٹل Kaiserhof کے اپارٹمنٹ نمبر3 ميں مقيم ہيں۔ ڈاکٹر Karl Koller صوبہ بائرن ميں جماعت کے سربراہ، جن کي دعوت پر 66 سالہ امام نيورن برگ تشريف لائے ہيں اور جرمن جماعت کے سربراہ عبداللطيف نے اپنے مذہبي راہنما کا ايک با ادب السلام عليکم سے استقبال کيا جس کے بعد وہ اپنے کمرہ ميں تشريف لے گئے۔ امام جو کہ چار باپردہ خواتين، اپنے بيٹے اور پرائيوٹ سيکرٹري کے ساتھ تشريف لائے ہيں، اپنے دورۂ يورپ کے دوران دو دن نيورن برگ ميں ٹھہريں گے۔ اب تک وہ اٹلي اور سوئٹزرلينڈ ميں رک چکےہيں۔ آج شام سات بجے ہوٹل Kaiserhof ميں اپنے احباب جماعت اور شہري انتظاميہ کي طرف سے ديئے گئے استقباليہ کے بعد وہ ہالينڈ اور انگلستان کي جانب مزيد سفر اختيار کريں گے، شايد اسي جوش و خروش سے جيسا کہ يہاں ان کي آمد پر ہوا۔ نيورن برگ کے ہوٹل کے ملازمين نے بھي ان مہمانوں کي آمد پر غير معمولي دلچسپي کا اظہار کيا، حالانکہ وہ سال بھر کئي بين الاقوامي زائرين کي مہمان نوازي کرتے ہيں۔

امام بطور ايک مشرقي مذہب کے راہنما کے يورپي روايات پر عمل نہيں کرتے۔ وہ پنڈت نہرو کي طرح سفيد شلوار اور سوتي کپڑے کي سفيد پگڑي نيز ايک کالي اچکن زيب تن کرتے ہيں۔ ان کے سامان ميں جو کہ محض دو چھوٹے سوٹ کيس پر مشتمل ہے، خاص طور پر کچھ قالين ہيں جو نماز پڑھنے يا بيٹھنے کے ليے استعمال ہوتے ہيں۔ يہ بات ہوٹل پر کام کرنے والے ايک لڑکے نے بتائي جو يہ سامان کمرہ ميں چھوڑنے گيا تھا۔

ڈاکٹر Karl Koller جن کا اسلامي نام محمد سعيد ہے يعني سعادت مند اور امام کے جرمن قاصد عبداللطيف جنہوں نے امام کے ليے تمام انتظامات کيے، اپنے مذہب کے مقصد اور امام کے مقام کو مزيد کھول کر بيان کيا۔ حضرت احمد جو کہ امام صاحب کے والد محترم تھے اور 1835ء تا 1908ء ربوہ (اخبار نے پوري معلومات نہ ہونے کي بنا پر قاديان کي بجائے ربوہ لکھ ديا) ميں مقيم رہے، کا مقام اسلام ميں اور ايسا ہي ہے جيسا کہ Luther کا پروٹسٹنٹ عيسائيوں کے نزديک۔ وہ ايک اصلاحي تحريک کے باني تھے، جس کو آج ان کے بيٹے آگے چلا رہے ہيں۔ جماعت احمديہ کے جرمني بھر ميں تقريباً 50 ممبران ہيں، جن ميں سے 20 نيورن برگ ميں رہتے ہيں۔ Dr.Koller کو اس بات پر بڑي خوشي ہے کہ امام نے نہ تو مشن کے مرکز ہمبرگ اور نہ ہي Schwetzingen کي لال مسجد کا دورہ کيا بلکہ نيورن برگ کو ان پر ترجيح دي۔ ’’يہ ميري زندگي کا سب سے اہم دن ہے‘‘ انہوں اس وقت کہا جب وہ امام کو السلام عليکم ’’آپ پر سلامتي ہو‘‘ کہہ کر استقبال کررہے تھے۔

16؍ جون 1955ء

آج صبح گيارہ بجے حضرت خليفةالمسيح الثانيؓ Erlangen يونيورسٹي طبّي معائنہ کے لئے تشريف لے گئے۔ مکرم ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب، مکرم چودھري عبداللطيف صاحب، نَومسلم بھائي مکرم عبداللہ ہوفر صاحب اور محترم ڈاکٹر مرزا منوّر احمد صاحب بھي حضورؓ کےہمراہ تھے۔ نيورن برگ سے قريباً بيس کلوميٹر کے فاصلہ پر واقع ارلانگن شہر کي اس طبّي يونيورسٹي ميں شعبہ اعصابي امراض کے نگران اور مشہور ماہر ڈاکٹر Fritz Flügel[6] نے حضورؓ کا معائنہ کيا۔ معائنہ کي رپورٹ ميں ڈاکٹر صاحب موصوف نے بتايا کہ حضورؓ کي طبيعت اب بہتر ہے۔

طبّي معائنہ کے بعد ايک بجے کے قريب حضورؓ مع افراد قافلہ واپس نيورن برگ ميں اپني رہائش گاہ پہنچ گئے۔ کھانے سے فارغ ہوکر حضورؓ کچھ دير کے ليے بازار تشريف لے گئے۔ چار بجے حضورؓ نے نماز ظہر و عصر باجماعت ادا فرمائي اور مقامي نَومسلم دوستوں کے ساتھ گفتگو فرماتے رہے۔ پھر کچھ دير کے ليے بازار تشريف لے گئے۔

اسي روز سات بجے شام مقامي نَومسلم احمديوں کے ساتھ ضروري ميٹنگ تھي۔ جس کے لئے ہوٹل کے ايک چھوٹے ڈائننگ ہال ميں انتظام کيا گيا تھا۔ اس ميٹنگ ميں حضورؓ کے ہمراہ حضرت چودھري ظفراللہ خان صاحب بھي شريک ہوئے۔ ديگر شاملين ميں نيورن برگ کے 15 مرد اور عورتيں احمدي نَومسلم اور افراد قافلہ تھے۔ اس ميٹنگ ميں نيورن برگ اور جرمني ميں تبليغ اسلام کے موضوع پر تبادلۂ خيالات ہوتا رہا۔ اس دوران ان احباب جماعت کي طرف سے نہايت اخلاص کا مظاہرہ ديکھنے ميں آيا، انہوں نے بڑے جوش سے اس شہر ميں مسجد کي تعمير کا منصوبہ حضورؓ کي خدمت ميں پيش کيا[7]۔

حضرت مصلح موعودؓ اپنے خطبہ فرمودہ 9 ستمبر 1955ء بمقام کراچي اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہيں:

جرمني ميں ايک شہر کي جماعت نے کہا کہ اگر ہميں مبلغ مل جائے اور مسجد کے ليے زمين خريد کر دے دي جائے تو ہم اُميد کرتے ہيں کہ اگلے چھ ماہ ميں کئي سو احمدي مسلمان اس شہر ميں پيدا ہوجائيں گے اور ايک دو سال ميں ہزار دو ہزار ہوجائيں گے۔ وہاں ايک احمدي عرب موجود تھا[8] انہوں نے کہا کہ في الحال اس کو يہاں مقرر کر ديا جائے۔ چنانچہ مَيں نے اس کو وہاں مقرر کر ديا۔ پھر مَيں نے پوچھا کہ زمين کے ليے کتني رقم کي ضرورت ہے؟ مَيں اپنے ملک پر قياس کرکے سمجھتا تھا کہ وہ پچاس ساٹھ ہزار روپيہ مانگيں گے مگر انہوں نے کہا کہ ہميں صرف دو ہزار مارک دے ديں۔ مَيں نے کہا کہ يہ دو ہزار مارک تو مَيں اپني جيب سے بھي دے دوں گا۔ تم اس کے متعلق تسلي رکھو۔ مجھے صرف يہ بتا دو کہ عمارت کے ليے کتنا روپيہ لوگے؟ وہ فوراً بول اُٹھے کہ عمارت کے ليے ہم آپ سے ايک پيسہ بھي نہيں ليں گے۔ سارا کام ہم اپنے ہاتھ سے کريں گے۔ آپ ہميں صرف دو ہزار مارک دے ديں تاکہ ہم زمين خريد ليں۔ اس کے بعد اس پر عمارت ہم خود بنا ليں گے۔ يہ چيز ايسي ہے جو سارے جرمني ميں پائي جاتي ہے[9]۔

ان نو احمدي احباب جماعت سے متعلق محترم ڈاکٹر مرزا منوّر احمد صاحب نے اپنے تأثرات ان الفاظ ميں بيان فرمائے:

سب ہي اخلاص رکھتے ہيں مگر چند ايک تو نہايت مخلص ہيں۔ يعني ڈاکٹر سعيد کولر، مسٹر عبداللہ ہوفر، مسٹر محمد ترکئي[10] ان کا اخلاص اور محبّت ديکھ کر پاکستان کے مخلص احمدي ياد آجاتے ہيں۔ اس ميٹنگ ميں نيورن برگ ميں مسجد بنانے کا سوال بھي زيرِ بحث آيا۔ نَومسلم بھائيوں نے حضورؓ سے درخواست کي کہ ہميں مسجد کے ليے زمين خريد دي جائے۔ اس پر حضورؓ نے پوچھا کہ مسجد بنانے پر کيا خرچ آئے گا؟ تو وہ کہنے لگے ہم خود اپنے ہاتھوں سے مسجد بنائيں گے۔ اللہ اللہ! ان لوگوں ميں توحيد کي ايسي محبت۔ اللہ تعاليٰ ان کے ايمانوں کو تقويت بخشے اور اپني رضا پر چلنے کي توفيق عطا فرمائے،آمين[11]۔

حضورؓ کے اعزاز ميں استقباليہ

16 جون آٹھ بجے شام اسي ہوٹل ميں مقامي نَومسلم بھائيوں اور جرمني کے مبلغ چودھري عبداللطيف صاحب کي طرف سے حضورؓ کے اعزاز ميں ايک استقباليہ کا انتظام کيا گيا۔ جس ميں نَومسلم بھائيوں کے علاوہ کچھ معززينِ شہر اور اخباري نمائندے بھي مدعو تھے۔ 35 کے قريب حاضري تھي۔ پہلے ڈاکٹر سعيد کولر صاحب نے کھڑے ہوکر حضورؓ کا تعارف کروايا اور حضورؓ کو خوش آمديد کہا۔ پھر حضورؓ نے انگريزي زبان ميں تقرير فرمائي جس کا ترجمہ جرمن زبان ميں مکرم چودھري عبداللطيف صاحب نے کيا۔ حضورؓ نے اپني تقرير ميں فرمايا کہ حضورؓ کو جرمني آنے کا بہت شوق تھا کيونکہ جرمن قوم ميں ايک خوبي ہے کہ باوجود لڑائيوں کي تباہي کے يہ قوم پھر بہت جلد ترقي کي طرف بڑھي ہے۔ حضورؓ کي ايک خواب کي بناء پر جرمن قوم اسلام کي طرف جلد آئے گي[12]۔

حضورؓ نے پاکستان واپسي پر ايک خطبہ جمعہ ميں جرمن قوم کے محنتي ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرمايا:

قاضي فيملي کے ايک نوجوان جو قاضي محمد اسلم صاحب کے بھتيجے ہيں وہاں تعليم کے ليے گئے ہوئے ہيں۔ مَيں نے ان کے پاس جرمن قوم کا ذکر کيا اور کہا کہ وہ بڑے محنتي ہيں۔ وہ کہنے لگے مَيں ابھي جرمني سے آ رہا ہوں۔ وہاں مَيں جس مکان ميں رہتا تھا اس کي کھڑکي سے مَيں روزانہ يہ نظارہ ديکھتا تھا کہ سامنے ايک بلڈنگ گري پڑي ہے۔ وہ اسے بنانے کے ليے اکھٹے ہوجاتے اور دوسرے دن شام کو مَيں ديکھتا تو وہ چھتوں تک پہنچي ہوئي ہوتي۔ اور يہ سارا کام محلہ والے بغير ايک پيسہ مزدوري ليے کرتے تھے۔ مَيں نے خود ہمبرگ ديکھا۔ وہاں چودہ لاکھ کي آبادي ہے اور اميرانہ ٹھاٹھ کے ساتھ رہنے والے لوگ ہيں۔ مگر ايک عمارت بھي مجھے ٹوٹي ہوئي نظر نہيں آئي۔ اس کے مقابلہ ميں انگلستان ميں بمباري سے صرف چند ہزار مکان ٹوٹا تھا مگر اب بھي وہ اسي طرح گرا پڑا ہے[13]۔

تقرير کے بعد اخباري نمائندے حضورؓ سے ملاقات اور باتيں کرتے رہے اور نَو بجے کے قريب يہ تقريب ختم ہوئي جو اللہ تعاليٰ کے فضل سے بہت ہي کامياب رہي۔ ساڑھے نَو بجے کے قريب جب کھانا کھانے کے ليے بيٹھے تو حضورؓ کو ضعف کي شکايت محسوس ہوئي چنانچہ حضورؓ فوراً ہي اپنے کمرہ ميں تشريف لے گئے۔ دراصل حضورؓ کو آج دن بھر کي مصروفيت کي وجہ سے بہت کوفت ہوگئي تھي جس کي وجہ سے طبيعت ميں بہت گھبراہٹ اور بےچيني تھي۔ دوائيں وغيرہ دي گئيں اور دو گھنٹے کے بعد حضورؓ کي طبيعت اچھي ہوئي اور حضورؓ سوگئے[14]۔

اس موقع پر حضرت خليفةالمسيح الثانيؓ کے معالج خصوصي حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحبؓ کي سوانح حيات “ايازِمحمود” ميں سے ايک اقتباس دلچسپي کا باعث ہوگا، لکھا ہے:

جب حضور 1955ء ميں بغرض حصول طبي مشورہ يورپ تشريف لے جا رہے تھے تو سفر سے دس بارہ روز قبل حضور کو علم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب(يعني ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب) کا پاسپورٹ تيار نہيں کرايا گيا۔ اس پر حضور سخت ناراض ہوئے اور فرمايا کہ اگر ان کا پاسپورٹ نہ بنا تو مَيں بھي نہيں جاؤں گا خواہ ميرا دو لاکھ روپيہ بھي کيوں نہ خرچ ہو گيا ہو۔ سفر پر روانگي کےو قت قافلہ دو حصوں ميں تقسيم کيا گيا۔ ايک حصہ سيدھا لندن گيا جن ميں حضور کے گھر کے افراد اور ڈاکٹر صاحب تھے۔

دوسرا قافلہ جس ميں حضور کے ہمراہ سيّدہ اُم متين صاحبہ، صاحبزادي امةالمتين صاحبہ، سيّدہ بشريٰ بيگم صاحبہ(مہرآپا)، صاحبزادہ مرزا ڈاکٹر منور احمد صاحب، صاحبزادي امةالجميل بيگم صاحبہ اور چودھري محمد ظفراللہ صاحب تھے۔ يہ افراد قافلہ 28 اپريل کو دمشق اور وہاں سے روم پھر جنيوا اور وہاں سے 08 مئي کو زيورخ پہنچے جہاں حضور نے معائنہ اور علاج کروانا تھا۔ اور لنڈن ڈاکٹر صاحب کے نام ارشاد بھجوا ديا کہ 08 مئي تک زيورخ پہنچ جائيں۔

حضور نيورن برگ جرمني ميں دو تين روز کے ليے قيام پذير تھے کہ ايک روز حضور کي طبيعت رات کو بہت خراب ہوگئي آپ اس وقت مردانہ پارٹي ميں بيٹھےکھانا کھانے لگے تھے اور ابھي کھانا شروع ہي ہوا تھاکہ حضور نے آپ کو اپنے کمرے ميں بلا ليا اور اپني گھبراہٹ اور بےچيني کي شکايت کي۔ جب آپ نے حضور کو ديکھ ليا اور دوائي دے دي تو فرمايا کہ آپ اسي کمرہ ميں پاس ٹھہريں اور ان کا بستر فرش پر لگوا ديا۔ چونکہ آپ نے اس وقت کھانا چکھا بھي نہ تھا اس ليے بيرہ دو مرتبہ آپ کو کھانے کے ليے بلانے آيا ليکن آپ حضور کو چھوڑ کر نہ گئے۔ آخر کچھ دير کے بعد بيرے سے کہہ ديا کہ ميرا کھانا برآمدہ ميں رکھ دو اگر موقع ملا اور حضور کو نيند آگئي تو ميں کھا لوں گا ورنہ خير۔ آپ فرماتے ہيں کہ بارہ بجے کے قريب مجھے کھانا کھانے کا موقع مل گيا۔ جبکہ حضور کو نيند آگئي اور باقي تمام رات آپ نے حضور کے پاس سوتے جاگتے گزاري۔ آپ فرماتے ہيں کہ اُس وقت مجھے سمجھ آيا کہ حضور مجھے کيوں اس قدر اصرار کے ساتھ سفر پر لائے تھے[15]۔

جرمني ميں تيسرا روز: 17؍ جون 1955ء

گزشتہ رات حضورؓ کي طبيعت بے چيني اور گھبراہٹ کي وجہ سے ناساز ہوگئي تھي تاہم صبح تک اللہ تعاليٰ کے فضل سے بحال ہوگئي تھي۔ نَو بجے کے قريب حضورؓ مع قافلہ نيورن برگ سے ہالينڈ کے لئے روانہ ہوئے۔ روانگي کے وقت ڈاکٹر سعيد کولر صاحب(صدر جماعت نيورن برگ) اور مسٹر محمد ترکئي[16] بھي الوداع کہنے کے ليے آئے ہوئے تھے۔ دونوں نے نہايت محبّت سے حضورؓ کےساتھ معانقہ کيا۔ قافلہ ميں چودھري عبداللطيف صاحب بھي شامل تھے جبکہ مکرم چودھري مشتاق احمد صاحب باجوہ جو پرائيويٹ سيکرٹري کے فرائض انجام دے رہے تھے، اپني علالت کے باعث حضور کے ارشاد پر واپس زيورخ چلے گئے۔ ساڑھے دس بجے کے قريب ايک شہر Kitzingen ميں داخل ہوئے۔ يہاں ايک ريسٹورنٹ ميں ٹھہر کر حضور نے کافي پي۔ اس موقع پر حضورؓ کي شخصيت سے متأثر ہو کر ايک مقامي شخص نے حضورؓسے دستخط بھي ايک کارڈ پر ليے۔ ساڑھے بارہ بجے کے قريب قافلہ سڑک کے کنارے ايک ريسٹورنٹ ميں کھانے کے ليے ٹھہرا۔

اس روز جرمني کا ايک قومي تہوار تھا جس کي وجہ سے ريسٹورنٹ لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ہجوم کي وجہ سے حضور کي طبيعت کچھ خراب ہوئي۔ لہٰذا جلد جلد کھانے سے فارغ ہوکر اپني منزل کي طرف روانہ ہوگئے۔ سوا تين بجے کے قريب جرمني کے اہم شہر فرانکفرٹ ميں داخل ہوئے۔ يہ شہر بہت بڑا اور خوبصورت ہے اور امريکہ کي فوج (Occupation Army) کا مرکز ہے۔ فرانکفرٹ سے گزرتے ہوئے آگے روانہ ہوئے۔ ساڑھے چار بجے کے قريب آٹو بان کے کنارے ايک ريسٹورنٹ ميں حضورؓ نے چائے پي اور آگے روانہ ہوئے۔ ساڑھے پانچ بجے کے قريب قافلہ دريائے رائن کے کنارے واقع شہر پيٹرزبرگ Petersburg ميں داخل ہوا۔ يہاں سے دريا کا پُل عبور کيا اور شہر Bonn ميں داخل ہوئے۔ يہ شہر مغربي جرمني کا دارالحکومت تھا۔ اس شہر ميں سے گذرتے ہوئے قافلہ باڈگوڈس برگ Bad Godesberg شہر ميں داخل ہواجو بون شہر سے چھ ميل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ اس جگہ رہائش کا انتظام مکرم چودھري ظفراللہ خاں صاحب نے ايک دوست کي معرفت ہوٹل Rheinland ميں کروايا ہوا تھا[17]۔

شام سوا چھ بجے قافلہ اس ہوٹل ميں پہنچا۔ اسي مقام پر مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب مع اہل و عيال اور مکرم سيّدمير داؤد احمد صاحب بھي جو لنڈن سے آئے ہوئے تھے حضورؓ کے ساتھ قافلہ ميں شامل ہوگئے۔ پونے آٹھ بجے کے قريب دو نَومسلم بھائي کولون سے حضور کو ملنے آئے۔ کولون يہاں سے قريباً پچاس کلو ميٹر کے فاصلہ پر ہے۔ حضور کچھ دير ان سے باتيں کرتے رہے۔ ساڑھے آٹھ بجے افراد قافلہ نے کھانا کھايا اور ان نَومسلم بھائيوں نے بھي ساتھ ہي کھانا کھايا۔ کھانے سے فارغ ہوکر يہ لوگ اجازت لے کر واپس چلے گئے[18]۔

مذکورہ دو نوں نَومسلم بھائيوں کے بارے ميں علم نہيں ہو سکا کہ وہ کون خوش قسمت تھے البتہ حضورؓ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 2 نومبر 1956ء ميں ايک احمدي کا ذکر فرمايا ہے شايد يہ ان دونوں ميں سے ايک ہو، حضور فرماتے ہيں:

اسي طرح کولون جرمني ميں ايک احمدي تھے جن کا نام مبارک احمد شولر تھا۔ وہ اس سال فوت ہوگئے ہيں۔ ان کي وفات کي وجہ سے وہاں کي جماعت ختم ہوگئي تھي مگر اللہ تعاليٰ نے ان کے بدلہ ميں اور کچھ اِس فتنہ کے بدلے ميں جو اب کھڑا کيا گيا ہے، ہميں بعض نئي جماعتيں عطا فرمائي ہيں[19]۔

علاوہ ازيں 1956ء کي بيعتوں ميں مندرجہ ذيل دو نام ملے ہيں جن کے ساتھ کولون کا پتہ درج ہے۔

  1. Leist

Frank Mannfried Franke[20]

ممکن ہے کہ يہي دوست حضورؓ سے ملنے آئے ہوں اور اس وقت تک انہوں نے بيعت تو نہ کي ہو البتہ زيرِتبليغ ہوں۔

18؍ جون 1955ء

18؍ جون 1955ء کي صبح آٹھ بجے کے قريب باڈگوڈز برگ(Bad Godesberg)سے ہالينڈ کے لئے روانہ ہوئے۔ مکرم چودھري عبداللطيف صاحب نے يہاں سے حضورؓ کو الوداع کيا۔ پاکستاني ايمبيسي کے کارکن مسٹر شوکت علي بھي روانگي کے وقت موجود تھے۔ انہي کي معرفت مکرم چودھري صاحب نے ہماري رہائش کا اس ہوٹل ميں انتظام کروايا تھا، فجزاھم اللہ احسن الجزاء[21]۔

حضورؓ کا قافلہ کولون شہر کے پاس سے ہوکر گزرا اور سوا بارہ بجے کے قريب جرمني کے سرحدي شہر ايمرش Emmerich پہنچا[22]۔ ايمرش کے ايک ريسٹورنٹ ميں حضورؓ نے مع افرادِ قافلہ کھانا تناول فرمايا۔ کھانے سے فارغ ہوکر پونے تين بجے کے قريب يہاں سے روانہ ہوئے۔ دس منٹ کے بعد ہي جرمني ہالينڈ کي سرحد آگئي۔ يہاں پاسپورٹ وغيرہ دکھانے کے بعد حضورؓ پہلي بار ہالينڈ ميں داخل ہوئے اورپانچ بجے کے قريب ہيگ ميں ورود فرما ہوئے[23]۔

حضور کے اس سفرِ جرمني کے ليے دو کاريں خريدي گئي تھيں ايک ہمبر Humbor دوسري فولکس واگن مائيکرو بس۔ حضورؓ کي گاڑي مختلف احباب کو چلانے کي سعادت نصيب ہوئي۔ جن ميں سے دو کے نام معلوم ہوسکے ہيں، ايک مسٹر کالبے جن کا تعلق سوئٹزرلينڈ سے تھا اور دوسرے جرمن نژاد نَومسلم احمدي بھائي مکرم خالد فنک صاحب(Khalid Fink) تھے[24]۔ ايک تيسرے صاحب کا بھي حضرت خليفةالمسيح الثانيؓ نے جرمني سے واپس جا کر اپنے خطبہ ميں اس طرح سے ذکر فرمايا ہے:

چونکہ قرآنِ کريم کے تراجم يورپ ميں شائع ہوچکے ہيں، اس لئے لوگ جب ان کو پڑھتے ہيں تو بڑے متأثر ہوتے ہيں۔ ہمارا ڈرائيور ايک جرمن مسٹر سٹوڈر تھا، اس نے بھي قرآن کا ترجمہ پڑھا ہوا تھا۔ ايک دن ہم ڈاکٹر کے ہاں جا رہے تھے کہ وہ کہنے لگا حضرت صاحب! مَيں نے آپ سے کچھ باتيں پوچھني ہيں۔ ميں نے کہا پوچھو۔ کہنے لگا ميں نے قرآن پڑھا ہے۔ اس ميں بڑي اچھي باتيں ہيں[25]۔

مزید معلومات اورتصاویر کے لئے مندرجہ ذیل شمارہ دیکھیں

https://akhbareahmadiyya.de/wp-content/uploads/2023/03/AHG202302.pdf

[1]– (غير مطبوعہ ريکارڈ، فائل ہمبرگ آرکائيو)

 

[2]– (الفضل 19 جون 1955ء صفحہ اوّل)

 

[3]– (خود نوشت سرگزشت محترم چوہدري عبداللطيف صاحب صفحہ 25)

 

[4]– (الفضل 19 جون 1955ء)

 

[5]– Nürnberger Nachrichten 15. Juni 1955 seite 10

 

[6]– Der Nervenarzt March 2006 p.350

 

[7]– روزنامہ الفضل ربوہ، 29 اگست 1955ء

 

[8]– محمد ترکئي صاحب آف تيونس مراد ہيں

 

[9]– (خطبات محمود جلد 36 صفحہ 127)

 

[10]– محمدترکئي صاحب غير ملکي ہيں۔ تيونس کے رہنے والے ہيں اور نيورن برگ ميں آباد ہوگئے ہيں۔

 

[11]– روزنامہ الفضل ربوہ، 29 اگست 1955ء

 

[12]– (روزنامہ الفضل ربوہ، 29 اگست 1955ء)

 

[13]– خطبات محمود جلد36 صفحہ 127-128

 

[14]– (روزنامہ الفضل ربوہ، 29 اگست 1955ء)

 

[15]– (اياز محمود صفحہ 249)

 

[16]– (حضورؓ نے انہيں باقاعدہ مبلغ بھي مقرر فرمايا تھا بحوالہ سالانہ بجٹ 1956/57 و ريکارڈ تبشير ربوہ فائل 55، صفحہ 69)

 

[17]– اس ہوٹل کي عمارت 1912ء ميں تعمير ہوئي تھي ايک صدي سے زائد عرصہ تک استعمال کے بعد اکتوبر 2022ء ميں بطور ہوٹل متروک ہوچکي ہے۔

 

[18]– روزنامہ الفضل 29اگست 1955ء صفحہ3

 

[19]– خطبات محمود جلد37 صفحہ499

 

[20]– (غير مطبوعہ ريکارڈ تاريخ احمديت جرمني،فائل ابتدائي بيعت فارم، فہرست از وکالت تبشير ربوہ)

 

[21]– روزنامہ الفضل 29 اگست 1955ءصفحہ3

 

[22]– اس شہر سے چند کلو ميٹر کے فاصلہ پر Isselburg کے مقام پر جماعت کو مسجد بنانے کي توفيق ملي جس کا افتتاح حضرت خليفةالمسيح الخامس نے جنوري 2007ء ميں فرمايا۔

 

[23]– روزنامہ الفضل يکم ستمبر1955ء صفحہ 3 (اس طرح حضورؓ کا پہلا دورۂ جرمني مکمل ہوا)

 

[24]– (الفضل 18 جون 1955ء)

 

[25]– (الفضل 16 اکتوبر 1955ء صفحہ 4)

 

متعلقہ مضمون

  • جلسہ گاہ میں ایک تعارفی پروگرام

  • پہلا جلسہ سالانہ جرمنی

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم

  • جماعتی سرگرمیاں