مکرم مولانا محمد اسماعیل صاحب منیر مبلغ سلسلہ، مرحوم

 

دنيا کي ترقي کا مدار قومي اجتماع پر ہے۔ خداتعاليٰ نے مذہب اسلام ميں بھي مختلف ذرائع سے قومي اجتماعوں کو قائم فرمايا ہے۔ مثلاً حج ہے۔ دنيا کاکوئي اور مذہب اس کي نظير پيش نہيں کرسکتا۔ ہمارے زمانہ ميں حضرت مسيح موعود کے ذريعہ سے ايک نئے قومي اجتماع کي بنياد رکھي گئي ہے اسي کو ہم جلسہ سالانہ کہتے ہيں۔ حضرت مسيح موعود اشتہار 30 دسمبر 1891ء ميں اس جلسہ کي غرض و غايت بيان کرتے ہوئے تحرير فرماتے ہيں کہ:

’’…… اس جلسہ ميں ايسے حقائق اور معارف کے سنائے جانے کا شغل رہے گا جو ايمان اور معرفت کو ترقي دينے کے ليے ضروري ہيں۔

…… اور تمام بھائيوں کو روحاني طور پر ايک کرنے اور ان کي خشکي اور اجنبيت اور نفاق کو درميان سے اٹھا دينے کے لئے بدرگاہِ حضرت عزت جلشانہ کوشش کي جائے گي…… اور اس روحاني جلسہ ميں اور بھي کئي روحاني فوائد اور منافع ہوں گے‘‘۔

امسال بھي ہمارا جلسہ سالانہ 26-28 اکتوبر 1949ء کو ہمارے نئے مرکز ربوہ ميں پوري شان و شوکت کے ساتھ ہو رہا ہے(ان شاءاللہ) موقع کي اہميت کے مدِّنظر رسول کريمﷺ کے چند ارشادات پيش خدمت ہيں۔ احباب کو چاہيے کہ ان قيمتي ارشادات سے زيادہ سے زيادہ مستفيد ہونے کي کوشش کريں تاکہ وہ اس جلسہ سے روحاني اور علمي فيوض حاصل کرنے والے بھي ہوں اور احاديث الرسولؐ پر عمل کرکے ثواب في الدارين کے بھي مستحق ہوجائيں گے۔

1۔ حضرت رسول کريمﷺ کي ايک لمبي حديث کا ٹکڑا

 اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ،(بخاري)

جس کے بہت سے مطالب بيان کئے گئے ہيں۔ ان ميں سے ايک يہ ہے کہ رسول کريمﷺ نے فرمايا کہ انسان جس قسم کي نيّت کرے گا اسي قسم کے اعمال سرزد ہوں گے۔ چنانچہ کہتے ہيں کہ دنيا ميں اعليٰ اور اتقيٰ اعمال پيدا کرنے کے ليے ضروري ہے کہ ہمارا نصب العين بلند اور بالا ہو۔ کيونکہ جتنا کسي کا بلند نصب العين ہوتا ہے وہ اتني ہي زيادہ اس کے حصول کے ليے کوشش اور سعي کرتا ہے۔

حضرت خليفةالمسيح اوّلؓ کا واقعہ مشہور ہے کہ آپ طِبّ کے حصول کي خاطر ہندوستان کے ايک بہت بڑے طبيب کے پاس پہنچے۔ اس نے پوچھا کہ تم کہاں تک طِبّ پڑھنا چاہتے ہو؟ آپؓ نے فرمايا کہ کم از کم افلاطون تک پڑھوں گا۔ اس نے کہا بيٹھ جاؤ۔ جس کا نصب العين اتنا بلند ہے وہ ضرور کچھ نہ کچھ بن جائے گا۔ رسول کريمﷺ کا يہ ارشاد جلسہ ميں شامل ہونے والے احباب کے پيشِ نظررہنا چاہيے اور انہيں اس جلسہ ميں محض روحاني، تنظيمي اور علمي ترقي کے حصول کي خاطر شموليت کا ارادہ کر لينا چاہيے۔ اور عام قاعدہ ہے کہ جب انسان کے سامنے ايک واضح مقصد ہو اور بار بار اس کے سامنے پيش ہو تو اس سے اس کي قوتِ عمليہ بڑھ جاتي ہے۔ لہٰذا ايسے شخص کي تمام تَر توجہ جلسہ سے زيادہ سے زيادہ مستفيد ہونے کي طرف ہوگي اور اس طرح اس کا بہت سا وقت فضول پھرنے سے بچ جائے گا۔

2۔ حضرت رسول کريمﷺ سے حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے دريافت فرمايا:

 اَيُّ الْاِسْلَامِ خيرٌ

کہ کون سا عمل اسلام ميں سب سے بہتر ہے

تو آپﷺ نے اس کے جواب ميں فرمايا:

 تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وتَقْرَأُ السَّلَامَ علَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ(بخاري،کتاب الايمان)

سب سے بہتر عمل کھانا کھلانا اور ہر اس شخص کو جس کو تو جانتا ہے اور جس کو تو نہيں جانتا السلام عليکم کہنا ہے۔

اس حديث ميں مسلمانوں کو بتايا گيا ہے کہ بغير تعارف کے کسي کو السلام عليکم کہنا بھي اسلامي طريق ہي ہے۔ اور پھر فرمايا

 اِنَّ اَوْلَي النَّاسِ بِاللہِ مَنْ بَدَءَ بِالسَّلَامِ (ترمذي ابوداؤد)

کہ لوگوں ميں خدا کے نزديک وہ شخص سب سے زيادہ بہتر ہے اور قريب ہے جو السلام عليکم کہنے ميں سبقت لے جائے اور پھر فرمايا کہ

السَّلَامُ قَبْلَ الْکلامِ

کہ جب دو مومن کلام کرنے لگيں تو السلام عليکم ان کا پہلا فقرہ ہونا چاہيے۔

پھر صحابہ کرام رضوان عليہم کا طريق عمل ملاحظہ فرمائيے کہ وہ لوگ رسول کريمﷺ کے اس قيمتي ارشاد پر عمل کرنے کے ليے مختلف طريقے تجويز فرماتے تھے اور بعض تو صرف اس ليے بازار ميں جاتے تھے کہ السلام عليکم کے ارشاد پر عمل کرنے کا موقع مل جائے۔

پس ضرورت ہے اس بات کي کہ آج پھر صحابہ کے اس شوق کو دوبارہ زندہ کيا جاوئے تا وہ حديث بھي پوري ہوجائے جس ميں رسول کريمﷺ نے خبر دي تھي کہ مہدي کي جماعت آپس ميں محبّت رکھے گي اور محبّت بغير تعارف کے پيدا نہيں ہو سکتي اور تعارف بغير افشاء سلام کے پيدا ہونا مشکل ہے۔

3۔ حضرت رسول کريمﷺ نے باہمي اجتماعوں کے مواقع پر صفائي رکھنے پر بہت زور ديا ہے۔ اورا س چيز کي وقعت اور ذمہ داري اجتماع کي عظمت اور وسعت کي نسبت سے اہم ہوتي چلي جاتي ہے۔ قرآنِ مجيد کي آيت

 فِيۡہِ رِجَالٌ يُّحِبُّوۡنَ اَنۡ يَّتَطَہَّرُوۡاؕ وَاللہُ يُحِبُّ الۡمُطَّہِّرِيۡنَ۔ (التوبہ:108)

بھي صفائي کي اہميت کو واضح کر رہي ہے۔

(ا) حضرت رسول کريمﷺ نے جمعہ اور عيدين کے اجتماع کے ليے مسلمانوں کو صفائي کے بارے ميں خاص ہدايات دي ہيں۔ مثلاً ہر مومن غسل کرے، مسواک کرے، صاف کپڑے پہنے، حتي الوسع خوشبو استعمال کرےاور بدبو دار چيزيں کھا کر مسجد ميں نہ آئے۔ پس جلسہ سالانہ کے عظيم الشان اجتماع کي وسعت کے مدّنظر جس قدر صفائي کي ضرورت ہوگي وہ ظاہر ہي ہے پس ہميں انتہائي کوشش کرني چاہيے کہ ہم خاص طور پر اس موقع پر زيادہ سے زيادہ پاک صاف رہيں تاکہ ہماري وجہ سے کسي دوسرے کو کوئي تکليف نہ پہنچے۔

(ب) دوسري حديث ميں آتا ہے

 اتَّقُوا الْمَلَاعِنَ الثَّلَاثَةَ الْبَرَازَ فِي الْمَوَارِدِ، وَقَارِعَةِ الطَّرِيقِ وَالظِّلِّ (ابوداؤد)

فرمايا کہ لعنت کي تين چيزوں سے بچو: مسافروں کے اُترنے کي جگہ ميں، عام راستے ميں، اور سائے ميں پاخانہ پيشاب کرنے سے۔ پس اس سے بچو۔ اس ميں بھي اصل مقصد يہي ہے کہ ايک شخص کي وجہ سے عوام کو کوئي تکليف نہ پہنچے۔ مثلاً اگر وہ پاني پينے کي جگہ پر غلاظت پھينکے گا تو اس کي وجہ سے لوگوں کو حصول پاني کي دِقّت دَرپيش آئے گي۔ اسي طرح راستے اور سايہ کا حال ہے کہ اس سے بھي عوام النّاس کو تکليف پہنچتي ہے۔ بدبو پھيل جاتي ہے۔ راستہ قابل گزر نہيں رہتا۔ سايہ ميں آرام نہيں کرسکتا۔ پس جس چيز سے رسول کريمﷺ نے اتني سختي سے منع فرمايا ہے اس سے انتہائي گريز کرنا لازمي ہے اور يہي حفاظت صحت کا بہترين ذريعہ ہے۔ نيز رسول کريمﷺ کا يہ ارشاد بھي ہے کہ راستہ سے تکليف دہ چيز کو ہٹانا بھي نيکي اور کار ثواب ہے۔ پس اگر کہيں کوئي گندگي يا غلاظت ہو جو عوام النّاس کے ليے تکليف دہ ہو تو اسے دور کرنا بھي نہايت ضروري ہے۔

علاوہ ازيں ہمارے رسول مقبولﷺ کا يہ طريق ہوا کرتا تھا کہ جب آپؐ رفع حاجت کے ليے باہر تشريف لے جاتے تھے تو آبادي سے بہت دور نکل جايا کرتےتھے يہاں تک کہ لوگوں کي نظروں سے اوجھل ہوجايا کرتے تھے اور اس چيز کي بھي احتياط فرماتے تھے کہ کوئي شخص قضائے حاجت کے وقت قبلہ رُخ ہو کر يا قبلہ کي طرف پشت کرکے نہ بيٹھے۔ حديث ميں

 اذَا اَتَي اَحَدُکُمُ الْغَائِطَ فَلَا يَتَقَبَّلِ الْقِبْلَةَ وَلَا يُوَلِّھَا ظَھْرَہٗ

جب تم ميں کسي کو قضائے حاجت کي خاطر باہر جانا پڑے تو وہ اس وقت نہ قبلہ کي طرف مُنہ کرے اور نہ ہي اس کي طرف پيٹھ پھيرے۔ پس ہميں حضرت رسول کريمﷺ کے اس واضح ارشاد کو بوقت ضرورت مدّنظر رکھنا چاہيے۔

(د) حضرت رسول کريمﷺ نے حضرت عمر بن الخطابؓ کو مخاطب کرکے فرمايا:

يا عمر لَاتَبْلِ قَائِماً فَمَا بَلْتُ قَائِماً (ترمذي)

کہ اے عمر تو کھڑا ہونے کي حالت ميں پيشاب نہ کر۔ مَيں نے کبھي بھي کھڑے ہونے کي حالت ميں پيشاب نہيں کيا۔ اس واضح حديث سے صحيح اسلامي طريق ظاہر ہے اس پر عمل کرنا ہي نيکي ہے۔

4۔ مجلس کے آداب کے متعلق ہمارے آقا فداہ امي و ابي نے جس وضاحت سے احکام بيان فرمائے ہيں وہ آج تک کسي مہذب ترين قوم نے بھي پيش نہيں کيے۔ قرآنِ مجيد ميں آيا ہے۔

 اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللہِ وَرَسُوۡلِہٖ وَاِذَا کَانُوۡا مَعَہٗ عَلٰۤي اَمۡرٍ جَامِعٍ لَّمۡ يَذۡہَبُوۡا حَتّٰي يَسۡتَاۡذِنُوۡہُ (نور:63)

فرمايا کہ وہ مومن لوگ جو اللہ اور اس کے رسول پر ايمان لاتے ہيں۔ جب رسول کے ہمراہ کسي امر کے ليے اکٹھے ہوں تو جب تک وہ رسول انہيں اجازت نہيں ديتا وہ اس مجلس سےا ُٹھ کر نہيں جاتے۔ اس ميں حقيقي مومنوں کے طرز عمل کي تشريح فرما دي ہے کہ ان کا شعار يہي ہوتا ہے اور يہي ہونا چاہيے کہ جب وہ کسي مجلس ميں حاضر ہوں تو جب تک وہ مجلس برخواست نہ ہو اس مجلس سے اُٹھ کر نہ جائيں۔ ليکن استثنائي صورتوں ميں صدر سے اجازت لے لے۔ اور آج کل حوائج ضروريہ کي خاطر باہر جانے کي اجازت ہوتي ہي ہے۔ پس اس اجازت سے مزيد فائدہ اٹھانے کي کوشش نہيں کرني چاہيے۔ تا منافقوں کي علامت

يَتَسَلَّلُوۡنَ مِنۡکُمۡ لِوَاذًا

کے تحت ان ميں شمار نہ ہوجائيں۔

نيز حضرت رسول کريمﷺ کا ارشاد ہے

 مَنْ قَامَ مِنْ مَجْلِسِہٖ ثُمَّ رَجَعَ اِليہ فَھُوَ اَحَقُّ لَھَا (مسلم)

کہ جب کوئي شخص مجلس ميں سے کسي ضرورت حقہ کي بناء پر مجبوراً باہر جائے تو جب وہ فارغ ہو کر واپس آئے تو اپني پہلي جگہ کا حق دار ہے۔ اوّل تو دوسرے لوگوں کو اس کي جگہ بيٹھنا ہي نہيں چاہيے اور اگر اس کي جگہ کوئي بيٹھ گيا ہو تو وہ اس کي جگہ خالي کردے۔

نيز رسول کريمﷺ نے يہ بھي فرمايا

 لَايُقِيْمُ الرَّجُلُ الرَّجُلَ مِن مَجْلِسِہٖ ثُمَّ يَجْلِسُ بِہٖ(بخاري،مسلم)

اگر کوئي شخص باہر سے آئے تو وہ کسي شخص کو اس کي جگہ سےاُٹھا کر اس کي جگہ بيٹھنے کي کوشش نہ کرے۔ نيز فرمايا

 لَا يجْلِسْ بَيْنَ رَجُلَيْن اِلَّا بِاذْنھِمَا (ابوداؤد)

کہ جب دو شخص کسي مجلس ميں ارادتاً اکٹھے بيٹھے ہوں تو کسي تيسرے کو ان کے درميان نہيں بيٹھنا چاہيے۔ علاوہ ازيں اس قسم کے اجتماعوں ميں شور و شرّ کو بند کرنے کے ليے کيا ہي عمدہ طريق حضور نے تحرير فرمايا ہے: فرمايا کہ جمعہ کے خطبہ کے وقت اگر کوئي شخص بولے تو اس کو دوسرا شخص اشارہ کے ذريعہ سے خاموش کرائے۔

ايک اور ضروري امر کے متعلق حضرت رسول کريمﷺ کا واضح ارشاد موجود ہے فرمايا:

لَا تَقُوْمُوْاکَمَا يَقُوْمُ الْاَ عَاجِمُ يُعْظِمُ بَعْضُھَا بَعْضاً (ابوداؤد)

جب رسول کريمﷺ صحابہ ميں تشريف لاتے تو صحابہ تعظيم کي خاطر کھڑے ہوجاتے تھے۔ رسول کريمﷺ نے اس سےمنع فرمايا اور فرمايا کہ يہ تعظيم اور توقير کي خاطر کھڑا ہونے کي رسم عجميوں ميں پائي جاتي ہے۔

پس ہم سب کو چاہيے کہ ہم خصوصاً اس جلسہ سالانہ کے اجتماع کے موقع پر رسول کريمﷺ کے بتائے ہوئے لائحہ عمل پر عمل پيرا ہوں۔ جو حقيقي صراطِ مستقيم ہے۔

5۔ حضرت رسول کريمﷺ نے مسلمان کي تعريف يوں بيان فرمائي ہے۔

 اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِن لِّسَانِہٖ وَيَدِہٖ کہ

حقيقي مسلمان وہي ہے جو اپنے دوسرے مسلمان بھائيوں کو کسي قسم کي ايذا نہيں پہنچاتا خواہ وہ مُنہ کے ذريعہ سے ہو يا وہ ہاتھ کے ذريعہ سے ہو۔ اس کي تشريح حديث ذيل خوب واضح کرتي ہے۔

سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ وَقِتَالُہٗ کُفْرٌ (متفق عليہ)

کہ مسلمان کا گالي دينا فسق ہے اور اس کا قتل و غارت کرنا کفر ہے۔

اسي طرح دوسري حديث ميں ہے

 مَنْ کَانَ فِيْ حَاجَةِ اَخِيْہِ فَکَانَ اللہُ فِيْ حَاجَتِہٖ

کہ جب کوئي شخص اپنے بھائي کي ضروريات کو پورا کرتا ہے تو خداتعاليٰ اس کي ضروريات کو پورا کر ديتا ہے خواہ کسي رنگ ميں ہو۔

اسي چيز کو دوسرے پيرائے ميں يوں بيان فرمايا:

لَا يُؤمِنُ اَحَدُکُمْ حَتَّي يُحِبَّ لِاخِيْہِ مَايُحِبُّ لِنَفْسِہٖ

کہ حقيقي مومن تو کبھي بھي يہ نہيں چاہتا کہ اس کے بھائي تو تنگي اور مصيبت ميں ہوں اور وہ خود آرام اور آسائش ميں ہو۔ يہ وہ احاديث الرسولؐ اور گرا نما يہ ارشادات ہيں جن پر عمل کرنے کا موزوں موقع اجتماعات کے موقع پر ملتا ہے۔ پس سب دوستوں کو ان قيمتي اور پُر حکمت باتوں پر زيادہ سے زيادہ عمل پيرا ہونے کي کوشش کرني چاہيے۔ تاہم اس اجتماع ميں حقيقت ميں

 اِنَّمَا الْمُؤمِنُوْنَ اِخْوَةٌ

کا صحيح منظر پيش کرسکيں۔

4۔ آخري پيغام جو احباب کي خدمت ميں پہنچانا ضروري ہے يہ ہے کہ خداتعاليٰ اجتماعي دعاؤں کو بکثرت جامہ قبوليت پہناتا ہے اور اَقِيْمُوالصَّلوٰةَ ميں نماز باجماعت فرض کرنے کي حکمت بھي يہي تھي کہ تا کمزور ايمان والوں کي نمازيں اور دعائيں بھي پايہ قبوليت کو پہنچ جائيں۔

ان ايام جلسہ ميں خصوصاً ہمارے ليے ضروري ہے کہ ہم پانچ نمازوں کو بالتزام باجماعت ادا کرنے کے علاوہ نماز تہجّد کو پوري تن دہي سے ادا کرنے کي عادت ڈاليں اور دعاؤں پر پورا زور ديں۔ کيونکہ ہمارے پاس صرف دعا کا ہي آسماني حربہ ہےجس کا ہمارے دشمن کے پاس کوئي جواب نہيں اور ہميں چاہيے کہ ہم اس موقع پر عبادالرحمٰن کي صفت

 وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّ قِيَامًا

کا نظارہ پيش کريں جس ميں فرمايا کہ خدا کے حقيقي بندوں کي بہت سي صفات ميں سے ايک صفت يہ ہے کہ وہ ساري ساري رات اپنے رب کي عبادت ميں گزار ديتے ہيں اور عبادت ميں کبھي کھڑے ہوتے ہيں اور کبھي سجدے ميں پڑے ہوتے ہيں۔

آخر ميں دعا ہے کہ اے خدا تو ہي ہم سب کو ان چيزوں پر عمل کرنے کي توفيق عطا فرما، آمين۔

(بشکريہ روزنامہ الفضل لاہور 24 دسمبر 1949ء)

 

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • فیصلہ جات مجلس شوریٰ جماعت احمدیہ جرمنی 2024

  • تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے

  • خلافت اور جماعت کے باہمی پیار کا تعلّق