سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس نے جلسہ سالانہ برطانیہ2024ء کے افتتاحی خطاب میں جلسہ سالانہ کے مقاصدبیان کرتے ہوئے فرمایا:
حضرت مسیح موعودؑ نے جلسے کے جو مقاصد بیان فرمائے ہیں ان میں زُہد ہے، تقویٰ ہے،اسی طرح خدا ترسی، نرم دلی،محبّت و مؤاخات، عاجزی، سچائی اور راست بازی اور دینی مہمات کے لیے سرگرمی دکھانا شامل ہیں۔
ان مقاصد میں پہلی چیز زہد ہے یعنی ہر قسم کے جذبات کو قربان کرنا، اپنی دلی خواہش اور دعویٰ سے دست بردار ہونا، مستقل مزاجی سے کسی بھی بری چیز سے بچتے چلے جانا اور اسے سختی سے ردّ کرنا، دنیا کی خواہش نہ کرنا۔ دنیا کمانے سے اللہ تعالیٰ نے منع نہیں فرمایا لیکن دنیا کو دین پر مقدم کرنے سے خدا منع فرماتا ہےاور اس چیز کا ہم عہد بھی کرتے ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔ زہد کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر بعض باتوں سے بچنا اور اپنے معاملے اللہ تعالیٰ پر چھوڑنا، خدا کی رضا کو اپنا مقصود بنانا اور نفسانی خواہشات سے مکمل طور پر بچنے کی کوشش کرنا۔ پس ہمیں اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم یہ حالت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ایک لفظ میں حضرت مسیح موعودؑ نے ہمارے لیے اصلاح کے تمام پہلو بیان کردیے ہیں۔ آنحضرتﷺ نے زہد کی وضاحت یوں فرمائی ہےکہ اسلام میں رہبانیت کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ حلال کو اپنے اوپر حرام کرلینا اور اپنے مال کو ضائع کردینے کا کوئی تعلق زہد سے نہیں ہے۔ اگر کوئی دنیاوی جھمیلوں سے فرار حاصل کرکے جنگل میں چلا جاتا ہے اور رشتوں کے حقوق سے بچتا ہے تو یہ زہد کے خلاف ہے۔ فرمایا دنیا میں رہتے ہوئے خداتعالیٰ کی خاطر جذبات کی قربانی کی جائے تو یہ زہد ہے۔اگر کوئی حق چھوڑنا ہے تو خداتعالیٰ کی رضا کی خاطر چھوڑا جائے۔دنیاوی خواہشات کو اللہ تعالیٰ کی رضا کی راہ میں روک نہ بننے دیا جائے۔دولت کو دین کی سربلندی کے لئے خرچ کرنا اور حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے خرچ کرنا زہد ہے۔پس دولت کمانے سے منع نہیں کیا گیالیکن اس میں ہر ایک کا حق رکھنا اور اسے ادا کرنا مومن کے لئے شرط رکھی گئی ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ دین اور دنیا ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے سوائے اس حالت میں کہ جب خداچاہے تو کسی شخص کی فطرت کو ایسا سعید بنائے کہ وہ دنیا کے کاروبار میں پڑ کر بھی اپنے دین کو مقدم رکھے۔ ایسے شخص بھی دنیا میں ہوتے ہیں۔ تذکرۃ الاولیاء میں ایک شخص کا ذکر ملتا ہے جو ہزارہا روپیہ کا لین دین کرنے میں مصروف تھا، ایک ولی اللہ نے اس کو دیکھا اور کشفی نگاہ اس پر ڈالی تو اسے معلوم ہوا کہ باوجود ہزارہا روپیہ کے لین دین کے اس شخص کا دل خدا سے ہرگز غافل نہ تھا۔ ایسے ہی لوگوں کی نسبت خداتعالیٰ فرماتا ہے رِجَالٌ لَّا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللہِ یعنی کوئی تجارت یا خرید وفروخت انہیں خداسے غافل نہیں کرتی۔ اور انسان کا بھی یہی کمال ہے کہ دنیاوی کاروبار میں بھی مصروفیت رکھے اور خدا سے بھی غافل نہ ہو۔ پس زُہد کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنا ضروری ہے۔ لغویات کو ردّ کرنا ضروری ہے۔ بداخلاقی سے رکنا اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنا یہ زہد ہے۔ رنجشوں کو دُور کرکے صلح کی بنیاد ڈالنا یہ زہد ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر محبّت اور بھائی چارے کو فروغ دینا یہ زہد ہے۔

(ماخوذ ضمیمہ الفضل انٹرنیشںل لندن 26جولائی 2024ء صفحہ 4)

(اخبار احمدیہ جرمنی اگست 2024ء)

متعلقہ مضمون

  • پروگرام 48 واں جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ جرمنی 2024ء

  • جلسہ سالانہ کےمیزبانوں اور مہمانوں کے لیے زرّیں نصائح

  • جلسہ روحانی پیاس بجھانے کا موقع

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت