58 واں جلسہ سالانہ برطانیہ 2024ء

ربوہ ميں ماہ اکتوبر کے دوران ہونے والے ذيلي تنظيموں کے اجتماعات کے بعد اہل ربوہ جلسہ سالانہ کي تياريوں ميں مصروف ہوجاتے تھے۔ اب جبکہ وطن عزيز ميں اجتماعات اور جلسوں پر پابندي ہے اور خدائي تقدير کے تحت خلافت احمديہ ہجرت کرکے مغربي دنيا ميں اسلام کي سربلندي کا پرچم تھامے ہوئے ہے تو مغرب بھي ربوہ اور قاديان کے روحاني ماحول سے روشناس ہو رہا ہے۔ اس کا عملي مظاہرہ ہم جلسہ سالانہ کي صورت ميں بھي ديکھتے ہيں جو اب دنیا بھر کے ۷۰ سے زائد ممالک میں منعقد ہونے لگا ہے۔

مَيں نے برطانيہ ميں پہلا جلسہ سالانہ 1973ء ميں ديکھا تھا اور خلافت کے ہجرت کرنے سے پہلے متعدد جلسہ ہائے سالانہ برطانيہ ميں شموليت کا موقع ملا۔ ہجرت کے بعد پہلا جلسہ سالانہ جو اپريل 1985ء کے سرد موسم ميں ہوا، اس ميں اور اس کے بعد تمام جلسہ ہائے سالانہ برطانيہ ميں شرکت کي خدا نے توفيق دي۔ گويا “اک قطرہ اس کے فضل نے دريا بنا ديا” کے شاہدين ميں خاکسار بھي شامل ہے، الحمدللہ

امسال 23 جولائي کي شام برطانيہ کے 58 ويں جلسہ سالانہ ميں شرکت کے ليے ہيتھرو ائيرپورٹ سے باہر آيا تو سامنے ڈيوٹي پر موجود ايک بچہ نے جلسہ سالانہ ربوہ کي ياد کو تازہ کر ديا۔ ميرے السلام عليکم کہنے پر وہ ميري طرف لپکا۔ ايسا انتظام ہيتھرو اور Gatwick ائيرپورٹس کے تمام ٹرمينلز پر موجود تھا اور جلسہ پر آنے والے مہمانوں کو حديقةالمہدي، جامعہ احمديہ اور بيت الفتوح پہنچانے کے ليے گاڑیاں روانہ کي جا رہي تھيں۔ بيت الفتوح جانے والي ایک ويگن ميں محترم امير صاحب گيمبيا اور ان کے ساتھ آنے والا وفدتھا، ایک سیٹ خالی پا کر مَيں بھي ان کا ہم رکاب ہوگيا۔

بيت الفتوح پہنچے تو ربوہ اور جلسہ سالانہ ربوہ کا ماحول ديکھنے کو ملا۔ نعرہ ہائے تکبير سے مہمانوں کا استقبال ہو رہا تھا۔ کچھ مہمان ويگنوں سے اُتر رہے تھےتو اسلام آباد اور حديقةالمہدي جانے والے ويگنوں ميں سوار ہو رہے تھے۔ ايک دوسرے کو پہچان کر گلے ملنے کے مناظر، شعبہ رہائش، دفتر معلومات، ٹرانسپورٹ، امانات کے شعبوں کے دفاتر کے سامنے مہمانوں کا ہجوم حضرت مختار احمد شاہ جہاں پوری صاحبؓ کا شعر ياد دلا رہا تھا۔

لگا ہے کوچۂ دلبر میں دیوانوں کا تانتا سا
کوئي ديوانہ آ پہنچا، کوئي ديوانہ آتا ہے

بيت الفتوح پہنچنے والے مہمانوں کو وہاں کے ناظم مکرم نفيس احمد صاحب ديالگڑھي خوش آمديد کہہ رہے تھے۔ ابھي سنبھلنے نہ پائے تھے کہ نعرےايک بار پھربلند ہوئے۔ معلوم ہوا کہ ڈنمارک سے دس سائيکل سواروں کا قافلہ آن پہنچا ہے۔ ان کے استقبال کے ليے محترم امير صاحب برطانيہ موجود تھے۔ جنہوں نے ان کے اعزاز ميں ايک استقباليہ تقريب کا اہتمام بھي کيا۔

بدھ کا سورج طلوع ہوا تو ہر کوئي اسلام آباد جانے کے ليے بيتاب تھا۔ انتظاميہ نے وقفہ وقفہ سےٹرانسپورٹ کا انتظام کيا تھا۔ ڈنمارک والے سائيکلوں پر اسلام آباد کے ليے روانہ ہوئےتو جرمني سے آنے والے سائيکل سواروں کا قافلہ مکرم عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب امير جماعت جرمني کي قيادت ميں بيت الفتوح ميں داخل ہوگیا، ایک مرتبہ پھرہر طرف سے نعروں کي آوازيں بلند ہونے لگيں۔ مکرم رفيق احمد حيات صاحب امير جماعت احمديہ برطانيہ نے اس قافلہ کو بھی خوش آمديد کہا اور ہر سائيکل سوار کو تمغہ پہنایا۔ محترم امير صاحب نے 14 سالہ سائيکلسٹ عزيزم سفير احمد محمد کے ساتھ خصوصی طور پرتصوير بنوائي۔ ياد رہے کہ 29 افراد پر مشتمل اس قافلہ میں شامل سات سائیکل سوار جماعت کينيڈا سے بذريعہ جہاز فرانکفرٹ پہنچ کر اس قافلہ کا حصّہ بنے تھے۔

جلسہ کے ان ایّام میں اسلام آباد کي رونق ميں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ بدھ کے روز جماعتي انتظام کے علاوہ لوگ اپني پرائيويٹ کاروں ميں بھي عازم اسلام آباد تھے۔یہاں آنے والے پہلے حضرت خليفةالمسيح الرابعؒ کے مزار پر دعا کرتے۔مسجد مبارک نمازيوں سے قبل از وقت ہی بھر جاتي۔پھر مسرور ہال، اس کے سامنے کي جگہ اور مسجد کے آنے والے راستے بھی نمازيوں سے پُرہو جاتے۔ جمعرات کے روز مہمانوں کي بڑي تعداد کو جامعہ احمديہ يوکے اور بيت الفتوح سے جلسہ سالانہ حديقةالمہدي روانہ ہونا تھا۔ بيت الفتوح کے مہمان سات بسوں ميں روانہ ہوئے۔ اس روز حديقةالمہدي ميں موسم اَبرآلود اور وقفہ وقفہ سے ہلکي بارش کي وجہ سے موسم ميں ٹھنڈک کا احساس نماياں تھا۔ اسی روز حضورانور حدیقۃالمہدی تشريف لائے اور لنگرخانہ میں روٹي پلانٹ اورکھانے کی دیگوں کا معائنہ فرمايا اور بعدازاں سٹيج پر رونق افروز ہو کر کارکنان سے خطاب کے بعد دعا کروائي۔

جمعہ26 جولائی کو حضورانور نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور میزبانوں کے ساتھ مہمانوں کو بھی ان کے فرائض کی طرف کمال عمدگی سے توجہ دلائی۔ جلسہ کی جان تو حضورانور کے خطابات ہوتے ہیں چنانچہ سہ پہر ساڑھے چار بجے لوائے احمدیت لہرانے کے بعد حضورانور کے افتتاحی خطاب کےدوران خلافت کے پروانوں سے نہ صرف مارکي پُر تھی بلکہ مارکي کے باہر بھي احباب کا ہجوم حضور کے ارشادات سے مستفيض ہو رہا ہوتا ہے۔ جمعرات کي شام کارکنان سے خطاب سے اختتامی خطاب تک یہی صورت رہی۔ افتتاحي خطاب میں جلسہ کے مقاصد بیان فرماکر شاملین جلسہ کو ان ایام سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی تلقین فرمائی۔ حضور انور نے زُہد کے معانی پیش کرکے مقاصد جلسہ کا مضمون بیان فرمایا اور سمجھایا کہ یہ دن ہیں اپنی حالتوں کو بہتر بنانے کے، یہاں تک کہ رات دیر تک جاگ کر ملاقاتیں اور باتیں کرنے والوں پر واضح فرمایا کہ صبح فجر کی نماز کسی صورت میں ضائع نہیں ہونی چاہیئے۔ دوسرے روز خواتين سے خطاب ميں حضورانور نے علاوہ ديگر باتوں کے اپني نمازوں کي حفاظت اور بچوں کے سامنے نيک نمونہ پيش کرنے کي ہدايت کي۔ اسي طرح دوسرے روز شام کے خطاب ميں جماعت احمديہ پر گزشتہ سال کے دوران ہونے والے افضال کي جھلک پيش کي اور بتايا کہ امسال دو لاکھ اڑتيس ہزار پانچ سو اکسٹھ افراد جماعت احمديہ ميں شامل ہوئے ہيں۔ جلسہ سالانہ کے اختتامي خطاب ميں حضرت اقدس مسيح موعود کے بےمثال عشقِ رسولﷺ کا پُرمعارف تذکرہ فرمایا اور غیرمعمولی جوش کے ساتھ مخالفین کو خوب جھنجوڑا۔ اس کے علاوہ اتوار کے روز عالمي بيعت کي مبارک تقريب منعقد ہوئي جس پر حضورانور نے حضرت مسيح موعود کا بادامي رنگ کا کوٹ زيب تن کيا ہوا تھا۔ عالمي بيعت کي تقريب کے دوران جلسہ سالانہ اور نواح ميں موجود احباب کا انساني زنجير کے ذريعہ خليفہ وقت سے جسماني رابطہ، وحدت کا بےنظیر روح پرور منظر پيش کر رہے تھے۔

دوران جلسہ اجلاسات بروقت شروع ہوتے رہے۔ ہفتہ کے روز امير جماعت سيراليون اور اتوار کو امير جماعت احمديہ امريکہ نے اجلاسات کي صدارت کي۔ مقررين ميں مکرم اياز محمود خان صاحب مربي سلسلہ، ڈاکٹر عزيز حفيظ صاحب، مکرم مولانا عبدالسميع خان صاحب استاد جامعہ احمديہ کينيڈا، مکرم فريد احمد نويد صاحب پرنسپل جامعہ احمديہ غانا، مکرم مولانا مبارک احمد تنوير صاحب مربي سلسلہ جرمني، امیر جماعت برطانیہ مکرم رفیق حیات صاحب اور صدر قضاء بورڈ برطانیہ مکرم زاہد احمد خان شامل تھے۔ مہمان مقررین میں جکارتہ اسلامک يونيورسٹي کے پروفيسر محترم Ismatu Ropi صاحب کي تقرير اس اعتبار سے اہم تھي کہ آئندہ سال انڈونيشيا ميں جماعت کے قيام پر سو سال پورے ہو رہے ہيں۔ انہوں نے کہا کہ مَيں گواہ ہوں کہ انڈونيشيا کے ايک خود مختار قوم بننے کے بعد سے جماعت احمديہ نے انڈونيشيا کے ثقافتي، تعليمي اور سماجي منظرنامہ کو تشکيل دينے ميں انتہائي اہم اور کليدي کردار ادا کيا۔ اب جبکہ جماعت احمديہ کے انڈونيشيا ميں قيام پر سو سال مکمل ہو رہے ہيں ہم پُراميد ہيں کہ حضرت خليفةالمسيح بنفس نفيس انڈونيشيا تشريف لائيں گے۔ تائيوان سے تشريف لانے والے مہمان Dr.Christie Chang نے بھي دیگر بہت سے مہمانوں کی طرح جلسہ سالانہ کے بارے ميں مثبت تاثرات کا اظہار کيا۔

اللہ کے فضل سےجلسہ کا انتظام ہر سال وسعت پذير ہو رہا ہے۔ انتظامي يونٹس ميں اضافہ کي وجہ سے ناظمين کي تعداد اب سينکڑوں ميں اور کارکنان کي تعداد ہزاروں تک جا پہنچي ہے۔ امسال بھي 430 خدام کينيڈا سے اور 50 ماريشس سے جلسہ پر ڈيوٹي دينے کے لئے آئے۔ پارکنگ کا شعبہ ہي اتنا وسيع ہو چکا ہے کہ اس کے کارکنان کي تعداد 1986ء کے جلسہ سالانہ کے کل کارکنان سے زيادہ ہوگي۔ 1986ء کے جلسہ سالانہ کے بعد مکرم چودھري حميداللہ صاحب نے افسر جلسہ سالانہ مکرم ہدايت اللہ بنگوي صاحب مرحوم اور نائب افسر مکرم عبدالباقي ارشد صاحب کو جلسہ سالانہ کي انتظامي کميٹي ربوہ کی طرز پر تشکیل دینے کی ہدایت فرمائی۔ چنانچہ چودھري صاحب نے جلسہ سالانہ ربوہ کي تمام نظامتيں ان کو نوٹ کروائيں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر سال نئے شعبہ جات قائم کئے جاتے ہیں تاکہ شاملين جلسہ کو ہر ممکن سہولت پہنچائی جا سکے۔ امسال حديقةالمہدي ميں داخلہ اور کاروں کے اخراج کے لئے نئے راستے بنائے گئے تھے جن پر Metal Roads بنائي گئي تھيں اور يہ تجربہ بہت کامياب رہا۔ لوگ ايک ساتھ کار پارکنگ سے نکلنے ميں انتظار کي زحمت سے بچے رہے۔ مين مارکي کے علاوہ ايک اور مارکي مردانہ جلسہ سالانہ ميں لگائي گئي تھي۔ اس کے علاوہ کھلے ميدان ميں بھی قالین بچھا ئے گئے تھے اور آواز کا بہترين انتظام کيا گيا تھا جس سے لوگوں نے استفادہ کيا۔

اس بار جلسہ ميں ايک نيا تجربہ سب نمائشوں کو ايک جگہ اکٹھا کر دينا تھا۔ مخزن تصاوير جنہوں نے 1700 تصاوير نمائش ميں پيش کيں نے اپنا تشخص برقرار رکھا۔ IAAAE، ہيومينٹي فرسٹ، الفضل انٹرنيشنل، تحريک وقفِ نَو، شعبہ تاريخ احمديت يوکے، ايم ٹي اے، ريويو آف ريليجنز، جامعہ احمديہ يوکے، شعبہ امور خارجيہ نے نمائش لگائي۔ جمعہ کي شام سات بجے اچانک حضور کے قافلہ کي موٹر کاريں رہائش گاہ سے جلسہ گاہ کي طرف روانہ ہوئيں تو لوگوں ميں تجسس پيدا ہوا اور لوگوں نے کاروں کے ساتھ ساتھ بھاگنا شروع کر ديا۔ کسي کو علم نہ تھا کہ قافلہ نے کہاں جا کر رکنا ہے۔ بالآخر حضورانور کا قافلہ نمائش کے پنڈال کے سامنے آ کر ٹھہر گيا۔ حضورانور نے کار سے نکل کر احباب جماعت کو ہاتھ ہلا کر سلام کیا اور مخزن تصاوير کي نمائش ديکھنے کے لئے تشريف لے گئے۔ حضور نے کم و بيش 45 منٹ تمام نمائشوں کا گہري نظر سے جائزہ ليا اور تفاصيل معلوم کيں۔

امسال وکالت تبشير نے دوسرے ممالک سے آنے والےمہمانان کي مہمان داري کے ليے خصوصي مارکي بھي لگائي تھي۔ ان مہمانوں ميں تائيوان سے آنے والا ايک جوڑا بھي تھا جو نمازوں کے اوقات ميں بھي جلسہ سالانہ مارکي ميں موجود رہتے اور نماز کے دوران وہ خاتون دونوں ہاتھ ملا کر اوپر ماتھے کي طرف لے جاتيں اور نمازکے وقت اپني اس حالت کو قائم رکھتيں۔ گويا وہ خود بھي کسي عبادت ميں مشغول تھيں۔ ان کي يہ ادا مجھے بہت بھائي۔

سوموار کو اسلام آباد ميں نماز ظہر و عصر پر نمازيوں کي اتني بڑي تعداد موجود تھي کہ اسلام آباد کے ميدانوں ميں بھي نماز ادا کي گئي۔ اس روز ہونے والے نکاح بھي گويا اب جلسہ کے پروگرام کا حصہ بن چکے ہيں۔ چنانچہ حضورانور کي منظوري سے مکرم مولانا عطاءالمجيب راشد صاحب نے 28 نکاحوں کا اعلان کيا جس کے بعد حضورانور نے دعا کروائي۔

نمازوں کے بعد مَیں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ اسلام آباد سے دوسرے ملکوں ميں گھروں کو جانے کے ليے سفر پر روانہ ہو رہے ہيں کیونکہ الوداعي معانقوں کا سلسلہ چل نکلا تھا اور چند روز ميں اسلام آباد اپني معمول کي زندگي کي طرف لَوٹ آئے گا۔

(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ اگست 2024ء صفحہ 35)

متعلقہ مضمون

  • پروگرام 48 واں جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ جرمنی 2024ء

  • جلسہ سالانہ کا ایک مقصد ’’زہد‘‘ اختیار کرنا ہے

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • ہدایات برائے جلسہ سالانہ جرمنی 2024ء