(تحقیق: مکرم شیخ عبدالحنّان صاحب، ممبر تاریخ کمیٹی جرمنی)

جرمن زبان میں قرآنِ کریم کا ترجمہ 1954ء میں شائع ہو کر منظر عام پر آیا تو فوراً ہی قبولیتِ عام کی سند پاگیا۔ چنانچہ اپنی اشاعت کے پہلے سال ہی جہاں عام مارکیٹ میں بکثرت خرید کیا جانے لگا وہاں جرمنی کی سربرآوردہ شخصیّات کو بھی پیش کیا گیا تو ان کی طرف سے تحسین آمیز اظہار خیال کیا گیا۔ ان مواقع پر ان شخصیّات کے سامنے اسلامی تعلیم بھی اختصار کے ساتھ پیش کی گئی، اس طرح سے تبلیغ کے بھی مواقع میسّر آئے۔ زیرِ نظر مضمون میں جن مختلف جرمن شخصیّات کی خدمت میں قرآنِ کریم کے نسخے پیش کئے گئے، ان کا ذکر الفضل ربوہ میں انچارج تاليف و تصنيف تحريک جديد ربوہ کی طرف سے شائع کی جانے والی رپورٹس کے حوالے سے کیا جا رہا ہے۔

 

صدران جمہوريہ جرمني

12 مئي 1954ء بروز بدھ بوقت ايک بجے بعد دوپہر مبلغ سلسلہ محترم چودھري عبداللطيف صاحب نے جرمني کے دارالحکومت ’’بون‘‘جا کر صدر جمہوريہ جرمني جناب Prof. Dr. Theodor Heuss سے ملاقات کي اور قرآنِ مجيد کے جرمن ترجمہ کا ايک نسخہ پيش کيا۔ ان سے نصف گھنٹہ تک گفتگو کے دوران ميں اسلامي تعليمات اور جماعت کے بارہ ميں بھي مختصر تعارف پيش کرنے کا موقع ملا۔ بالخصوص اسلام کي رواداري کي تعليم کو واضح کيا گيا۔چنانچہ جنابِ صدر کے ليے يہ امر خاص طور پر دلچسپي کا موجب ہؤا کہ ہم حضرت مسيح موعود کو اللہ تعاليٰ کا مامور سمجھتے ہيں اور اسلام تمام مامورين پر ايمان لانے کو ضروري قرار ديتا ہے۔ پريذيڈنٹ موصوف نے اس مبارک ہديہ کو قبول کرتے ہوئے شکريہ ادا کيا اوربتايا کہ جنگ سے قبل ان کے پاس جرمن قرآنِ کريم کا نسخہ موجود تھا اور وہ اس کا مطالعہ کرتے رہتے تھے ليکن جنگ کے دوران يہ نسخہ نذرِ آتش ہو گيا اور يہ امر ان کے لئے بےحد خوشي کا باعث ہے کہ اب آپ نے مجھے دوبارہ ايک ديدہ زيب نسخہ پيش کر ديا وہ اس کا پہلے کي طرح شوق سے مطالعہ کرتے رہيں گے۔

(روزنامہ الفضل لاہور 10 جون 1954ءصفحہ2 وہفت روزہ بدر قاديان 14جولائي 1954ء صفحہ6۔ رپورٹ از مکرم چوہدري عبداللطيف صاحب فائل 1954ء صفحہ41 ريکارڈ وکالت تبشير ربوہ)

اسي طرح Dr. Gustav Heinemenn جب 1969ء ميں صدر منتخب ہوئے تو احمديہ مشن کي طرف سے مبلغ سلسلہ جرمني مکرم مسعود احمد جہلمي صاحب مرحوم نے موصوف کو صدر مملکت بننے پر مبارکباد کا خط لکھا اور انہيں قرآنِ کريم کا تحفہ پيش کرنے کي خواہش کا اظہار کيا۔ صدر موصوف نے اس نيک خواہش کا احترام کرتے ہوئے مشن کے ممبران کو 5؍اگست 1969ء کو ملاقات کا وقت ديا۔ مقررہ دن مکرم چوہدري عبداللطيف صاحب مشن انچارج کي قيادت ميں ايک وفد بون روانہ ہوا۔ اس وفد ميں آپ کے ہمراہ مکرم مسعود احمد جہلمي صاحب، مکرم قاضي نعيم الدين صاحب (مبلغين سلسلہ)، مکرم محمد شريف خالد صاحب اور مکرم عبدالکبير صاحب (ابن مکرم چودھري عبداللطيف صاحب) شامل تھے۔ دوران ملاقات صدر محترم کو جرمن اور اسپرانٹو[1] زبانوں کے تراجم قرآنِ کريم پيش کئے گئے۔ پروٹسٹنٹ خيالات کے حامل صدر موصوف سے بيس منٹ تک وفد نے ملاقات کي اور انہيں اسلام و احمديت کا پيغام پہنچايا۔اس ملاقات کي تفصيل محترم چودھري عبداللطيف صاحب نے اپني رپورٹ ميں اس طرح سے محفوظ کي ہے:

’’مختصر تعارف اور مصافحے کے بعد گفتگو شروع ہوئي۔ صدر کو ان کے اس عہدے پر فائز ہونے کي مبارکباد دي گئي اور انہيں بتايا کہ چونکہ آپ ساري دنيا ميں امن قائم رکھنے کے ليے خاص طور پر کوشاں ہيں اور قرآنِ کريم بھي دنيا ميں امن اور سلامتي کا پيغام لے کر آيا ہے اور اس الہامي کتاب ميں اللہ تعاليٰ نے ايسے اصول بتائے ہيں کہ جن پر عمل پيرا ہو کر دنيا ميں امن قائم ہو سکتا ہے اس ليے يہ ضروري معلوم ہوا کہ آپ کو قرآنِ کريم کا تحفہ پيش کيا جائے۔ اس پر صدر صاحب نے ہمارے مشن کے کام سے متعلق دريافت کيا۔ ان کو مشن کي کارکردگي اور جماعت احمديہ کا تعارف کرايا گيا۔ صدر نےا س امر پر بہت خوشي کا اظہار کيا کہ ہماري جماعت نے جرمني ميں دو مساجد تعمير کي ہيں۔

اس مختصر مگر بےتکلفانہ گفتگو کے بعد ان کو قرآنِ کريم کا جرمن اور اسپرانٹو ترجمہ پيش کيا گيا۔ قرآنِ کريم کے اَوراق کو اُلٹتے ہوئے صدر نے کہاکہ مَيں نے اپني مذہبي تعليم کے دوران تين ماہ تک قرآنِ کريم کے ليکچرز ميں شموليت اختيار کي تھي اور اب ميں قرآنِ کريم کا جرمن ترجمہ پا کر بہت ہي خوشي محسوس کرتا ہوں۔

وفاقي جمہوريہ کے صدر بہت ہي مذہبي آدمي ہيں۔ آپ پروٹسٹنٹ فرقہ سے تعلق رکھتے ہيں اور جرمني ميں پروٹسٹنٹ فرقہ ميں ان کا بہت بلند مقام ہے۔ انہوں نے جرمني کي مذہبي دنيا ميں بہت کام کيا ہے اور اس ليے بڑي قدر کي نگاہ سے ديکھے جاتے ہيں‘‘۔

(روزنامہ الفضل ربوہ 21؍اگست 1969ء صفحہ4)

وائس چانسلر

جرمني کے نائب وزيراعظم Franz Blücher (1896-1959) سے بھي مکرم چوہدري عبداللطيف صاحب نے ملک کے دارالحکومت بون جا کر 09 دسمبر 1954ء کو ملاقات کي اور انہيں قرآنِ کريم کے جرمن ترجمہ کا سنہري نسخہ بطور تحفہ پيش کيا گيا۔(رپورٹ از مکرم چوہدري عبداللطيف صاحب فائل 1954ء صفحہ145 ريکارڈ وکالت تبشير ربوہ و خودنوشت مولوي عبد اللطيف صاحب)

شہنشاہ ايران

شاہ ايران محمد رضا شاہ پہلوي 1955ء ميں جب جرمني کےپہلے دورہ پر آئے تو ان کي خدمت ميں بھي جرمن ترجمۂ قرآنِ کريم پيش کيا گيا، اس کي خبر اس طرح سے شائع شدہ ہے:

ہيمبرگ (بذريعہ تار) مؤرخہ 26 فروري 1955ء کو مبلغ جرمني مکرم جناب عبداللطيف صاحب نےشہنشاہ ايران کي خدمت ميں جرمن ترجمةالقرآن کا ايک نسخہ جو حال ہي ميں جماعت احمديہ کي طرف سے شائع کيا گيا ہے، تحفے کے طور پر پيش کيا۔ شہنشاہ موصوف نے يہ تحفہ قبول کرتے ہوئےتبليغ اسلام کے سلسلے ميں جماعت احمديہ کي شاندار خدمات کو سراہا اور اس بارہ ميں گہري دلچسپي کا اظہار فرمايا۔

(روزنامہ الفضل ربوہ يکم مارچ 1955ء صفحہ8)

اس کے بارے ميں محترم چودھري عبدا للطيف صاحب نے اپني خودنوشت ميں لکھا ہے:

ايراني سفارت خانہ سے اس عاجز نے رابطہ کيا اور شاہ موصوف کو ملنے کي درخواست پيش کي انہوں نے معذرت کي کہ ان کے پاس وقت نہ ہوگا انہوں نے ميرے اصرار پر وعدہ کيا کہ وہ شاہ موصوف سے ميرا ذکر کر ديں گے اگر انہوں نے اجازت دے دي تو آپ کو اطلاع کر دي جائے گي شاہ موصوف نے خوشي سے وقت دينے کا وعدہ کيا اور خاکسار نے ان کي خدمت ميں ATLANTIC ہوٹل ميں ان کے کمرہ ميں ملاقات کي اور جرمن قرآنِ کريم کا تحفہ پيش کيا۔ جماعت کي اسلامي خدمات کے بارہ ميں ان سے نصف گھنٹہ تک گفتگو کي ان کي طبيعت پر خدا کے فضل سے خوشگوار اثر پڑا۔

(رپورٹ از مکرم چوہدري عبداللطيف صاحب محررہ 7؍مارچ 1955ء فائل 1955صفحہ44۔ ريکارڈ وکالت تبشير ربوہ وخود نوشت مولوي عبد اللطيف صاحب، غيرمطبوعہ ريکارڈ تاريخ کميٹي جرمني)

علاوہ ازيں شہنشاہ موصوف 1967ء ميں دوسري بارجرمني تشريف لائے تو بھي ان کي خدمت ميں قرآنِ کريم کا جرمن ترجمہ پيش کيا گيا،اس ضمن مبلغ سلسلہ محترم فضل الٰہي انوري صاحب نے اپني رپورٹ محررہ 17مئي 1967ءميں لکھا:

شہنشاہ ايران کي طرف سے قرآنِ مجيد کا تحفہ ملنے پر اس کے متعلق اطلاع حکومت کے ايک عربي رسالہ ميں بھجوائي گئي جو 12 مئي ميں شائع ہونے والے مجلہ ’’الرسالہ‘‘ ميں شائع ہوئي۔

(فائل يورپ مشنز رپورٹس 1967 صفحہ 113)

چيف ميئر ہمبرگ

5 مئي 1954ء کوہمبرگ کے چيف ميئر جو صوبہ ہمبرگ کے وزير اعليٰ بھي ہيں، کي خدمت ميں بھي قرآنِ مجيد کے جرمن ترجمہ کا ايک نسخہ پيش کيا گيا۔اس ضمن ميں انچارج صاحب تاليف و تصنيف تحريک جديد ربوہ کي طرف سے حسبِ ذيل خبر شائع ہوئي:

’’مبرگ 5 مئي 1954ء: چودھري عبداللطيف صاحب مبلغ انچارج جرمني مشن نے ڈاکٹر کانٹ سوہنگ (Dr. Kant SIEVEHING1) چيف ميئر ہمبرگ کي خدمت ميں قرآنِ مجيد مع اس کے جرمن ترجمہ کے پيش کيا۔پندرہ منٹ کي دلچسپ ملاقات ميں مئير موصوف نے اسلام اور احمديت کے متعلق متعدد سوالات کئے جن کے جواب ان کي خدمت ميں پيش کئے گئے۔نيز چيف مئيرنے تمام دنيا ميں جماعت احمديہ کے پھيلے ہوئے مشنوں کے کام کي اہميت کو جو وہ اسلام کي خدمت کے سلسلے ميں کر رہے ہيں، بڑي توجہ سے سنا‘‘۔

(روزنامہ الفضل لاہور 11 جون 1954ءصفحہ2)

وفاقي چانسلر آسٹريا

مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکيل التبشير تحريک جديد پاکستان ربوہ مؤرخہ 29 جولائي کو اپنے دورہ يورپ کے دوران مبلّغ سلسلہ سوئٹزرلينڈمکرم شيخ ناصر احمد صاحب کے ہمراہ جمہوريہ آسٹريا کے وفاقي چانسلر کو جرمن ترجمہ قرآنِ کريم پيش کرنے کي غرض سے ويآنا تشريف لے گئے۔ چانسلر موصوف کےويآناسے باہر ہونے کي وجہ سے ملاقات تو نہ ہوسکي تاہم قرآنِ کريم کا نسخہ ان کے خاص نمائندے نے وصول کيا۔بعد ميں چانسلر موصوف جناب ڈاکٹر جوليس راب Julius Raab (ÖVP) نے احمديہ مسلم مشن سوئٹزرلينڈ کے انچارج مکرم شيخ ناصر احمد صاحب کے نام اپنے ايک خط ميں جماعت احمديہ کي طرف سے قرآنِ کريم کے جرمن ترجمہ کے ہديہ پر دلي شکريہ ادا کيا ہے۔ موصوف کے خط کا ترجمہ حسبِ ذيل ہے:

بخدمت شيخ ناصر احمد صاحب، انچارج مسلم مشن زيورک

مکرم و محترم!

مجھے اس امر کا حد درجہ قلق ہے کہ آپ مؤرخہ 29 جولائي 1957ء کو فيڈرل چانسلري کے دفتر ميں تشريف لائے تو ميں بوجہ ويانا سے باہر ہونے کے آپ سے ذاتي طور پر نہ مل سکا۔ اميد ہے کہ آپ اب اس خط کے ذريعہ ميرا پُرخلوص شکريہ قبول کريں گے۔ کہ آپ بذات خود تشريف لائے اور ميرے ليے قرآنِ کريم کے پہلے ثقہ اور مستند عربي جرمن ايڈيشن کا ايک نسخہ پيش کيا۔ مَيں نے دنيائے اسلام کي اس حد درجہ اہم اور مقدّس کتاب پر بڑے شوق سے نظر ڈالي ہے۔ اور مَيں دِلي مسرت کے ساتھ اسے اپني لائبريري کا ايک قيمتي جزو بناؤں گا۔

مرزا مبارک احمد صاحب کے نام بھي ميں اس مضمون کا ايک خط عليحدہ بھجوا رہا ہوں۔ جو انہيں آسٹريا کي حکومت کے سفارتي نمائندہ کي معرفت پہنچا ديا جائے گا۔ پُر خلوص جذبات کے ساتھ آپ کا۔ (دستخط) جوليس راب

(روزنامہ الفضل ربوہ 14 ستمبر 1957ء)

لائبيريا کے صدر ٹب مين

لائبيريا کے صدر جناب Tubmanکو بھي مشن کي طرف مکرم سيد داؤد احمد صاحب نے قرآنِ کريم کا جرمن ترجمہ پيش کيا۔ (رپورٹ از مکرم چوہدري عبداللطيف صاحب23؍اکتوبر 1956و جنرل فائل 1956ء صفحہ43ريکارڈ وکاتل تبشير ربوہ)

پاکستان کے سفير سے ملاقات

پاکستان کے سفير مقيم جرمني جناب جلال الدين عبدالرحيم کو 13 مارچ 1956ء کو ايک ملاقات کے دوران جرمن قرآنِ کريم بطور تحفہ پيش کيا گيا۔

(رپورٹ از مکرم چوہدري عبداللطيف صاحب26مارچ1956ء و جنرل فائل 1956ء صفحہ25ريکارڈ وکاتل تبشير ربوہ)

برلن يونيورسٹي کے طلباء لاہور ميں

برلن يونيورسٹي کے تين طلباء اور دو اساتذہ پر مشتمل ايک وفد ماہ اپريل1959ء ميں پاکستان گياتو احمديہ انٹرکالجيئٹ ايسوسي ايشن لاہور کے ايک وفد نے ايسوسي ايشن کے صدر پرويز پروازي صاحب کي قيادت ميں ’’يڈوز ہوٹل‘‘ ميں وفد کے اراکين سے دو مرتبہ ملاقات کي۔اس کي خبر سيکرٹري احمديہ انٹر کالجيئٹ ايسوسي ايشن لاہورمکرم ناصر احمد خالدؔ صاحب کي طرف سے شائع ہوئي جس ميں انہوں نے لکھا کہ ان ملاقاتوں ميں اسلام احمديت اور ديگر مذاہب عالم کے متعلق گفتگو کي۔دورانِ گفتگو طلباء نے اسلام اور احمديت کے متعلق مختلف سوالات کئے جن کے جوابات دئيے گئے۔وفد کے اراکين کي خدمت ميں

Why I believe in Islam

Jesus in Kashmir

Our foreign Missions

Islam and Communism

اور

What is Ahmadiyyat?

کا ايک ايک سيٹ پيش کيا گيا جسے انہوں نے بڑي خندہ پيشاني سے قبول کيا اور پڑھنے کا وعدہ کيا اور يہ بھي کہا کہ جب وہ جرمني واپس جائيں گے تو ہمارے مشن ہاؤس آکر مبلغ سے ضرور مليں گے۔ وفد کے ايک رُکن نے يہ بھي کہا کہ ان کے دورہ پاکستان ميں يہ پہلا موقع ہے کہ ’’م کو طلباء کي کسي تنظيم کے وفد سے يوں تبادلۂ خيالات کا موقع ملا۔ ہم لوگ آپ کے خلوص اور جذبہ تبليغ سے بہت متاثر ہوئے ہيں‘‘۔

وفد کے قائد ڈاکٹر ہيس (Dr. Hans-Egon Hass) اور ان کے ساتھي ڈاکٹر جيئر جيراڈ کي خدمت ميں بھي 9 کتب کا ايک ايک سيٹ پيش کيا گيا۔ ڈاکٹر ہيس نے دوران گفتگو ميں فرمايا کہ وہ جرمني کے احمديہ مشن سے واقف ہيں اور ان کے ايک مسلمان عربي دوست نے ان کو مشن کے بارے ميں کافي معلومات بہم پہنچائي ہيں۔ جرمن زبان ميں جماعت احمديہ کي طرف سے جو ترجمہ قرآن پاک شائع کيا گيا ہے۔ اس کے متعلق آپ نے فرمايا کہ:

’’جماعت احمديہ نے قرآنِ کريم کا جرمن ميں ترجمہ شائع کرکے ايک عظيم کارنامہ سرانجام ديا ہے۔ اس سے پہلے بھي جرمن زبان ميں قرآن پاک کا ترجمہ موجود تھا ليکن وہ ترجمہ واضح، مستند اور مؤثر نہيں ہے‘‘۔

ڈاکٹر موصوف نے کتابوں کے پيش کرنے پر ايسوسي ايشن کا دلي شکريہ ادا کيا اور فرمايا کہ جب وہ واپس جرمني جائيں گے تو ہيمبرگ ميں مسجد و مشن ہاؤس ميں ضرور جائيں گے۔

جب فرانکفرٹ کي نئي مسجد کے متعلق آپ کو بتايا گيا تو آپ نے فرمايا: ’’مساجد کي تعمير کا کام بہت اہميت کا حامل ہےاور مجھے خوشي ہے کہ جماعت احمديہ کے ذريعہ يہ کام ہو رہا ہے‘‘۔

ايسوسي ايشن کے وفد نے ملاقات کے دوران جماعت احمديہ کي تبليغي مساعي، قرآن پاک کے ديگر زبانوں ميں تراجم کي اشاعت اور مساجد کي تعمير کے متعلق امور پر مختصر الفاظ ميں روشني ڈالي۔ جس سے وفد کے اراکين بہت متاثر ہوئے۔ ڈاکٹر ہيس ڈچ فلالوجي کے ماہر ہيں اور دوسرے پروفيسر ڈاکٹر جيراڈ فلسفہ کے استاد ہيں۔

(روزنامہ الفضل ربوہ 25 اپريل 1959ء)

 

[1]– قرآن کريم کا اسپرانٹو ميں ترجمہ مکرم عبدالہادي کيوسي صاحب نے کيا تھا۔

 

متعلقہ مضمون

  • قرآنِ کریم اور کائنات

  • نُورِ ہدایت

  • ارضِ مقدّس کے حقیقی وارث

  • ارضِ مقدّس کے حقیقی وارث