یہ رپورٹ مکرم کولمبس خان صاحب اور محترمہ ریحانہ اختر صاحبہ نے تیار کی جسے حتمی شکل مکرم سیّد افتخار احمد صاحب نے دی، فجزاہم اللہ۔(نوید منصور صدر وکلاء ایسوسی ایشن)

 

جرمنی میں تعلیم کی سہولتیں نوجوانوں کو اپنی صلاحیتیں اجاگر کرنے کے بہت سے مواقع فراہم کرتی ہیں۔ جماعت احمدیہ جرمنی میں ایک بڑی تعداد اب عمر کے اس حصہ میں پہنچ رہی ہے کہ وہ ان مواقع سے فائدہ اُٹھائے۔ نوّے کی دہائی میں پرائمری سکول سےنکلنے والے بچے مختلف مضامین کو اختیار کرتے چلے آ رہے ہیں اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ نوجوان اپنی تعلیم مکمل کرکے میدان عمل میں کام شروع کر چکے ہیں۔ اِن نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے قانون اور قانون سے متعلق مضامین کی تعلیم حاصل کی ہے اور اب بطور وکیل یا ماہر قانون مختلف شعبہ ہائے زندگی میں مصروف عمل ہیں۔ان وکلاء اور ماہرین قانون کو منظّم کرنے کے لئے سیّدنا خلیفۃالمسیح الخامس کے ارشاد پر دنیا کے دیگر ممالک کی طرح جرمنی میں بھی احمدیہ جیورسٹس ایسوسی ایشن (AMJV) قائم ہےجو 2012ءسے امیر صاحب جماعت جرمنی کی نگرانی میں کام کر رہی ہے۔
جماعت جرمنی میں اس وقت سو سے زائد احمدی احباب و خواتین کسی نہ کسی رنگ میں اس شعبہ سے منسلک ہیں جن کی بہت بڑی تعداد حضرت امیرالمومنین کے خصوصی ارشاد کے مطابق اس ایسوسی ایشن (AMJV) میں شامل ہے۔ ان میں سے بہت سے اگرچہ ابھی زیرِتعلیم ہیں تاہم وہ بھی اس کے رُکن ہیں۔ اس ایسوسی ایشن کے مختلف پروگرام منعقد ہوتے رہتے ہیں جن میں ایک سالانہ سمپوزیم بھی شامل ہے۔ اس سلسلہ میں چوتھا دو روزہ سمپوزیم مؤرخہ 9 اور 10 اکتوبر 2022ء کو مسجد خدیجہ برلن میں ہوا جس میں خواتین ممبرات بھی پردہ کی رعایت سے شامل ہوئیں۔ شعبہ سمعی و بصری جرمنی نے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ رابطے کا بہترین انتظام کر رکھا تھا تاکہ حاضر مرد و خواتین کے علاوہ وہ ممبران جو کسی وجہ سے اصالتاً شامل نہ ہوسکتے تھے وہ بھی محروم نہ رہیں چنانچہ انتظامیہ نے ایسے ممبران کے لیے آن لائن پلیٹ فارم Zoom کی سہولت مہیا کی تھی۔ یوں اس سمپوزیم میں شرکاء کی کل تعداد 59 رہی۔
نیشنل امیر صاحب جرمنی کی نمائندگی میں مکرم حسنات احمد صاحب نائب امیر جماعت جرمنی، لندن میں قائم سینٹرل لیگل ڈیپارٹمنٹ (C.L.D) سے مکرم آصف شکور صاحب اور صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ جرمنی نے بھی اس پروگرام میں شرکت کی، فجزاھم اللہ احسن الجزاء۔
پہلے روز نماز ظہر و عصر کی ادائیگی کے بعد حسبِ روایت سمپوزیم کا آغاز تلاوت قرآن کریم اور جرمن ترجمہ کے ساتھ ہوا۔ جس کی سعادت لائیرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری مکرم اظہار احمد صاحب بنگوی کے حصہ میں آئی۔ تلاوت کے بعد مکرم حسنات احمد صاحب نے افتتاحی کلمات کہے اور پروگرام کی غرض و غایت پر روشنی ڈالی۔

اس کے بعد صدر AMJV مکرم نوید منصور صاحب نے اس تنظیم اور سمپوزیم کے پروگرام پر روشنی ڈالی اور شرکاء کو تفصیلات سے آگاہ کیا۔ مرکزی نمائندہ کے لیے ترجمانی کے فرائض مکرم محمد کولمبس خان صاحب نے نہایت خوش اسلوبی سے ادا کئے، فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔
بین الاقوامی کریمنل کورٹ Den Haag میں بطور چیف پراسیکیوٹر کام کرنے والے مکرم کریم احمد خان صاحب بھی اس سمپوزیم میں ویڈیو چینل کے ذریعہ بطور مہمان خصوصی شامل ہوئے۔ موصوف سے درخواست کی گئی تھی کہ اپنے قانونی سفر اور بین الاقوامی کریمنل کورٹ کی بابت آگاہ کریں۔ انہوں نے چالیس منٹ تک نہایت عمدگی سے انگریزی زبان میں بزرگان سلسلہ سے متأثر ہونے اور اس پیشہ کی بابت تفصیلات بیان کیں۔ آپ نے بتایا کہ بچپن میں چودھری سر محمدظفراللہ خان صاحبؓ کے ساتھ باقاعدگی سے خط و کتابت کرتے رہے اور آپؓ سے ہی متأثر ہوکر قانون کا پیشہ اختیار کرنے کا ارادہ کیا۔ موصوف نے اپنی اس گفتگو کے بعدشرکاء کی جانب سے کئے گئے سوالات کے جوابات بھی دئیے۔ یہ سوالات روس اور یوکرائن کی حالیہ جنگ، ایران میں خواتین کے پردہ کے تعلق میں حالیہ بحران، احمدیوں کے لیے بین الاقوامی کریمنل لاء میں کیرئیر کے مواقع وغیرہ سے متعلقہ تھے۔
کافی کےمختصر سے وقفہ کے بعد لائیرز ایسوسی ایشن جرمنی کے صدر مکرم ڈاکٹر نوید منصور صاحب نے ایسوسی ایشن کے لیے حضورانور کی ہدایات نیز ایسوسی ایشن کی انتظامی تشکیل اور ذمہ داریوں کے متعلق آگاہ کیا۔ اس کے بعد مکرم وہّاج بن ساجد صاحب اور مکرم افتخار ملک صاحب نے انٹرایکٹو سیشن کروایا جس کا مقصد شرکائےسمپوزیم کو ہر موضوع پر گہرائی سے سوچنے کی طرف آمادہ کرنا تھا۔ اس پروگرام میں سب شرکاء نے دلچسپی سے حصہ لیا اور پسند کیا۔
بعدازاں مرکزی نمائندہ مکرم آصف شکور صاحب نے سنٹرل لیگل ڈیپارٹمنٹ کے کاموں پر روشنی ڈالی نیزواقفِ زندگی وکیل اور خلافت کی برکات کے موضوع پر اپنے تجربات اور واقعات بیان کرکے شرکائے سمپوزیم کو گرمایا۔ اس کےساتھ ہی موصوف نے جلسہ سالانہ یوکے 2022ء کے بعد اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں منعقدہ انٹرنیشنل لائیرز سیمینار کے بارہ میں تفصیل سے آگاہ کیا۔
پہلے دن کے آخری سیشن کے لیے مکرم مولانا شمشاد احمد قمرصاحب مربی سلسلہ و پرنسپل جامعہ احمدیہ جرمنی کو دعوت دی گئی تھی جس کے لیے موصوف خصوصی طور پر تشریف لائے تھے۔ مکرم شمشاد صاحب کو جامعہ احمدیہ ربوہ میں داخلہ سے قبل لاہور میں محترم حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کی خدمت میں چند ماہ رہنے کی توفیق ملی تھی اور اس عرصہ میں آپ نےمحترم چودھری صاحبؓ کی خدمت کے ساتھ ساتھ آپؓ سے تربیت بھی حاصل کی۔ چنانچہ اسی حوالہ سے چند ایمان افروز واقعات بیان کئے نیز آپؓ کے حالات زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ حضرت چودھری صاحبؓ باوجودیکہ دنیاوی ترقی میں انتہائی اعلیٰ مقام پر فائز تھے مگر دینی فرائض کے متعلق کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ مثلاً یورپ میں زندگی گزارنے کے باوجود کبھی فرض نمازیں تو درکنار تہجد کی نماز بھی نہیں چھوڑی حتیٰ کہ ملکہ برطانیہ سے ملاقات کے دوران جب نماز کا وقت ہوگیا تو آپ نے بلاتکلّف نماز کے وقت کا ذکر کیا تو ملکہ نے آپ کو اسی وقت نماز پڑھنے کی اجازت دےدی۔ پھر زندگی کے آخری لمحات میں بھی نماز کے متعلق بار بار استفسار کرتے تھے۔ غیرت دینی آپ میں اس قدر تھی کہ حضرت چودھری صاحبؓ کی بیماری کے دوران اُس وقت کا صدرِ پاکستان ضیاءالحق آپؓ کی عیادت کو آیا تو آپؓ نے ملنے سے انکار کردیا کیونکہ وہ جماعت کا شدید معاند تھا۔ مکرم شمشاد احمد قمرصاحب کی ایمان افروز اور ولولہ انگیز تقریر کے بعد نماز مغرب و عشاء ادا کی گئیں جس کے بعد جماعت برلن نے باربی کیو کا بہت ہی شاندار انتظام کر رکھا تھا جسے سب شرکاء نےبہت پسند کیا، فجزاھم اللہ احسن الجزاء۔
سمپوزیم کے دوسرے روز مؤرخہ 10 اکتوبر 2022ء کو وفاقی پارلیمنٹ ہاؤس میں جرمنی کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں SPD اور CDU کے دو ممبران پارلیمنٹ جناب Helge Lindh صاحب اور جناب Thomas Rachel صاحب کے استقبالیہ میں شرکت کی اور پیشہ وارانہ امور پر تبادلۂ خیال کیا۔
جناب Helge Lindh صاحب کو لائیرز ایسوسی ایشن جرمنی نے جلسہ سالانہ 2022ء کے موقع پر منعقد ہونے والے مباحثہ برموضوع ‘‘جرمنی میں انتہاپسندی’’ کے لیے دعوت دی تھی جس میں انہوں نے شرکت کی اور اسلام اور مسلمانوں کے متعلق حقائق پر مبنی خیالات کا اظہار کیا۔ موصوف کے ساتھ پارلیمنٹ ہاؤس میں ملاقات کے دوران جرمن معاشرے میں مسلمانوں اور اسلامی تنظیموں کے فعّال کردار کے موضوع پر گفتگو ہوئی جس میں جماعت احمدیہ کو ایک محبّ وطن تنظیم کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس کے علاوہ جرمن معاشرہ میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی کے موضوع پر بھی تفصیلاً گفتگو ہوئی۔

اگلی ملاقات CDU کے ممبر آف پارلیمنٹ جناب Thomas Rachel صاحب کے ساتھ ہوئی۔ موصوف CDU پارٹی کے مذہبی امور کے نئے نگران ہیں نیز گزشتہ دَورِ حکومت میں سولہ سال تک بحیثیت پارلیمنٹیری سیکرٹری آف سٹیٹ برائے تعلیم اور ریسرچ خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ ملاقات کے دوران اوّلاً جماعت احمدیہ اور لائیرز ایسوسی ایشن کا تعارف کروایا گیا۔ دورانِ تعارف جامعہ احمدیہ جرمنی کا بھی ذکر ہوا جس کے متعلق موصوف نے دلچسپی کا اظہار کیا جس پر آپ کو جامعہ احمدیہ تشریف لانے کی دعوت دی گئی۔ اس کے علاوہ آپ کو پاکستان میں احمدیوں پر مظالم اور جرمنی میں اسائلم کے مسائل سے آگاہ کیا۔
خواتین وکلاء اور طالبات کی طرف سے سرکاری عہدوں پر پردہ سے متعلق پابندی اور مشکلات پر سوال کیا گیا اور اس طرف بھی توجہ دلائی گئی کہ دوسرے ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں سرکاری عہدوں پر سکارف وغیرہ پہننے کی اجازت دی جاتی ہے جبکہ CDU اپنے آپ کو مذہب یعنی عیسائیت سے منسلک بھی کرتی ہے۔ اس کے باوجود یہاں ویسی صورت حال نہیں ہے۔ اس کے جواب میں موصوف نے حکومتی عمومی غیرجانبداری کا ذکرکیا۔
دوپہر کے کھانے کے بعد فیڈرل کمشنر برائے آزادی مذہب و عقیدہ جناب Frank Schwabe کی نمائندہ محترمہ Spriestersbach صاحبہ کے ساتھ وفاقی وزارت برائے اقتصادی تعاون اور ترقی کے دفتر میں اہم میٹنگ ہوئی جس میں مذکورہ شرکاء سمپوزیم کے علاوہ سیکرٹری امورِ خارجیہ جرمنی مکرم ڈاکٹر محمد داؤد مجوکہ صاحب بھی شامل ہوئے۔ اس میٹنگ میں درج ذیل امور پر بات چیت ہوئی۔
Spriestersbach صاحبہ سے بھی پردہ سے متعلق نئے قانون کے حوالہ سے سوال کیا گیا جس کے جواب میں موصوفہ نے کہا کہ دس سال پہلے کی نسبت اب ان کی رائے یہ ہے کہ ایسی پابندی سے واقعی مذہبی حقوق سلب ہوتے ہیں۔ اس پر ان کو جماعت کی طرف سے یہ تجویز دی گئی کہ حکومت کو حکومتی غیرجانبداری کی اصطلاح پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔ اس ملاقات کا ایک نہایت ضروری پہلو ‘‘پاکستان میں مذہبی انتہاپسندی اور احمدیوں پر مظالم’’ تھا۔
وزارت داخلہ اور وفاقی ادارہ برائے مہاجرین نے احمدی اسائیلم سیکرز کے بارہ میں جو پالیسی اپنائی ہوئی ہے اس کے بارہ میں بھی تفصیلی گفتگو ہوئی مثلاً پاکستان میں احمدیوں پر ریاستی قانونی مظالم کے باوجود اور بنیادی انسانی حقوق کے اتلاف کے کھلے ثبوتوں کی موجودگی میں بھی وزارت داخلہ بعض احمدیوں کے کیس نامنظور اور بعض کو جرمنی سے واپس پاکستان بھجوا دیتی ہے۔
جناب Frank Schwabeصاحب کو جو اگلے سال پاکستان کا دَورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ربوہ جانے کی بھی دعوت دی گئی خصوصاً اس تناظر میں کہ وہ اپنا اطمینان کرلیں کہ ربوہ بھی احمدیوں کے لیے کوئی محفوظ شہر نہیں رہا ہے کیونکہ بعض اسائلم کیسز اس بنا پر بھی نامنظور کر دئیے جاتے ہیں۔
اس تفصیلی گفتگو کے بعد محترمہ Spriestersbach نے جماعت کے بیان کردہ نکات کو تسلیم کیا اور وعدہ کیا کہ وہ جماعت احمدیہ کا یہ مؤقف فیڈرل کمشنر برائے آزادی مذہب و عقیدہ وزارت داخلہ جناب Frank Schwabe تک ضرور پہنچائیں گی اور انہیں احمدیوں کے متعلق اپنی پالیسی پر مثبت نظرِ ثانی کا مشورہ دیں گی۔
اس میٹنگ کے فوراً بعد دو روزہ سمپوزیم اجتماعی دعا کے ساتھ اختتام کو پہنچا،الحمدللہ۔ جماعت احمدیہ برلن نے بہترین مہمان نوازی اور اس پروگرام کو کامیاب بنانے میں بھرپور حصہ ڈالا،فجزاہم اللہ احسن الجزاء۔

متعلقہ مضمون

  • پروگرام 48 واں جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ جرمنی 2024ء

  • جلسہ سالانہ کا ایک مقصد ’’زہد‘‘ اختیار کرنا ہے

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • ہدایات برائے جلسہ سالانہ جرمنی 2024ء