محمد لقمان مجوکہ، ممبر تاریخ کمیٹی جرمنی

محترم ڈاکٹر عطاءاللہ بٹ صاحب پسر حضرت ماسٹر عبدالعزيز بٹ صاحبؓ کے مختصر حالات زندگي

 

اس مضمون کی تیاری کے لئے تاریخ کمیٹی جرمنی مربیانِ سلسلہ مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب حال کینیڈا و مکرم محمد محمود طاہر صاحب کی ممنون ہے جن کی رہنمائی سے مکرم میجر شاہد عطاءاللہ صاحب چیئرمین فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ تک رسائی ہوئی۔ مکرم میجر صاحب موصوف مکرم ڈاکٹر عطاءاللہ بٹ صاحب کی ہمشیرہ کے نواسہ ہیں اور آپ نے بڑی محنت سے مکرم بٹ صاحب کے اقرباء سے معلومات حاصل کرکے ہمیں فراہم کی ہیں، فجزاہم اللہ احسن الجزاء۔

سيّدنا حضرت مسيح وموعود کے ساتھ عاشقانہ تعلق رکھنے والے صحابي حضرت ماسٹر عبدالعزيز بٹ صاحبؓ کے تين بيٹے تھے:

1۔ محترم ڈاکٹر عطاءاللہ بٹ صاحبPhD

2۔ محترم عبداللہ بٹ صاحب انجينئر

3۔ محترم رحمت اللہ بٹ صاحب (ايم ايس سي Zoology)

ان ميں سے اول الذّکر دو بيٹے اعليٰ تعليم کي خاطر اواخر 1922ء ميں جرمني کے دارالحکومت برلن چلے آئے اور اگلےسال برلن ميں ہونے والي مسجد احمديہ کي تقريب سنگِ بنياد ميں شرکت کي۔ آپ ان چار احمديوں ميں سے تھے جو اس تاريخي تقريب ميں شامل ہوئے[1]۔ اس اعتبار سے ان دونوں بھائيوں کي جماعت جرمني کي تاريخ ميں ايک خاص اہميت ہے۔ اِن ميں سے ڈاکٹر عطاءاللہ صاحب کو يہاں سے طِبّ ميں ڈاکٹريٹ کرنے اور ان کے بھائي کو انجينئر بننے کي توفيق ملي۔ جہاں تک جماعت جرمني کا تعلق ہے تو ڈاکٹر صاحب موصوف يہاں سے ڈاکٹريٹ کرنے والے پہلے فرد ہيں جبکہ ان کے بھائي يہاں سے انجينئر بننے والے اوّلين احمدي ہيں اس لحاظ سے ان ہر دو برادران کو اپنے اپنے تعليمي ميدان ميں اوّليت حاصل ہے۔

خانداني تعارف

آپ کا خاندان سيالکوٹ کے کشميري محلّہ (جسے کوچہ حکيم حسام الدّين بھي کہا جاتا تھا) کا رہنے والا تھا۔ اسي محلہ ميں کبوتراں والي مسجد بھي موجود ہے نيز علامہ اقبال کا آبائي گھر اسي محلہ ميں ہے۔ اسي محلہ ميں ملازمت کے سلسلہ ميں قيام سيالکوٹ کے دوران حضرت مسيح موعود کي رہائش بھي تھي۔

حضرت ماسٹر عبدالعزيز بٹ صاحبؓ نے 1893ء ميں حضرت مسيح موعودؑ کي بيعت کرنے کا شرف حاصل کيا تھا۔ اخبار الحکم اور بدر ميں متعدد مواقع پر مختلف مدّات ميں چندہ دينے کا ذکر ملتا ہے۔ 1903ء ميں آپ کي والدہ ماجدہ کي وفات ہوئي تو حضرت مسيح موعود نے قاديان ميں نماز جنازہ غائب پڑھائي۔ اسي طرح آپ کو ان بيس خوش قسمت مقتديوں ميں بھي شموليت کي سعادت حاصل تھي جنہوں نے گورداسپور ميں قيام کے دوران حضرت مسيح موعود کي امامت ميں نماز ظہر ادا کي تھي، آپ 1/6 حصّہ کے موصي تھے اور حج کرنے کي سعادت بھي پائي تھي۔ آپ کي وفات مؤرخہ 9 نومبر 1936ء کو ہوئي اور بہشتي مقبرہ قاديان ميں مدفون ہيں۔ آپ کي ياد ميں اخبار الفضل اور الحکم ميں متعدّد شذرات شائع ہوئے تھے[2]۔

آپ کي اہليہ محترمہ زينب بي بي صاحبہ بھي صحابيہ تھيں۔ آپ کے تين بيٹے محترم ڈاکٹر عطاءاللہ بٹ صاحب، مکرم عبداللہ بٹ صاحب اور مکرم رحمت اللہ بٹ صاحب اور دو بيٹياں مکرمہ فاطمہ صاحبہ اہليہ مکرم عطاءاللہ خان صاحب (ناني جان مکرم ميجر شاہد عطاءاللہ صاحب، چيئرمين فضل عمر فاؤنڈيشن ربوہ) اور محترمہ امةالحي صاحبہ اہليہ مکرم عبداللہ بٹ صاحب تھيں۔

کشميري محلہ ميں آپ کے گھر ميں ايک کمرہ تھا جس ميں روايات کے مطابق ايک مرتبہ اپنے سفر کے دوران سيّدنا حضرت مسيح موعودؑ نے قيام بھي فرمايا تھا۔ مکرم شاہد عطاءاللہ صاحب نے بتايا کہ ان کي والدہ (مکرم ڈاکٹر عطاءاللہ بٹ صاحب کي بھانجي) ماما جي (مکرم رحمت اللہ بٹ صاحب) سے کہا کرتي تھي کہ باقي سب کچھ آپ رکھ ليں ليکن خدا کے واسطے مجھے يہ کمرا دے ديں تاکہ ميں يہ کمرا جماعت کو دے دوں۔ (اس سارے گھر پر تيسرے بھائي مکرم رحمت اللہ بٹ صاحب نے قبضہ کرليا تھا اور کسي بہن بھائي کو حصہ نہيں ديا تھا)

حضرت ماسٹر عبدالعزيز بٹؓ صاحب ٹيلر ماسٹر تھے اور فوج کو وردياں سپلائي کرنے کے ٹھيکےليتے تھے، اس لئے خوشحال تھے۔ يہي وجہ تھي کہ آپ نے اپنے بيٹوں کو پہلے ہندوستان ميں اعليٰ تعليم دِلوائي پھر مزيد تعليم کے لئے جرمني بھجوايا۔

1۔ محترم ڈاکٹر عطاءاللہ بٹ صاحبPhD

محترم ڈاکٹر عطاءاللہ بٹ صاحب کي پيدائش اندازاً 1890 کي ہے۔ موصوف نے ابتدائي تعليم سيالکوٹ ميں حاصل کرنے کے بعد پنجاب يونيورسٹي لاہور سے ايم بي بي ايس کيا، پھر ميوہسپتال ميں ايک سال تک اسسٹنٹ سرجن کے طور پر کام کيا۔ اس کے بعد آٹھ سال تک علي گڑھ يونيورسٹي ميں ميڈيکل آفيسر رہے۔ 1922ء ميں ڈاکٹريٹ (PhD) کرنے کے لئے جرمني کے دار الحکومت برلن چلے آئے۔ يہاں آپ نے 1924ء ميںÜber die Tuberkulose der Tränendrüse کے عنوان سے پي ايچ ڈي کا مقالہ لکھا جو اس وقت بھي Matrikelbuch der Humboldt Universisity برلن ميں محفوظ ہے۔ (اس يونيورسٹي کا پرانا نام Friedrich-Wilhelms University تھا)

يہ يونيورسٹي 1810ء ميں قائم ہوئي ہے،اُس وقت اس کا شمار جرمني کي بڑي جامعات ميں تھا۔ يونيورسٹي کے دفتري ريکارڈ ميں ان کا رجسٹريشن نمبر 4790/113 اور داخلہ کي تاريخ 30 اپريل 1923ء درج ہے، آپ نےاپنا مقالہ2 مئي1924ء کو مکمل کرکے ڈاکٹريٹ کي ڈگري حاصل کي، اسي زمانہ ميں ڈاکٹر بٹ کے برادر نسبتي خليفہ عبدالحکيم نے بھي جرمني کي Heidelberg University سے فلسفہ ميں ڈاکٹريٹ کيا تھا۔ جرمني سے واپسي پر 1927ء ميں آپ کوعلي گڑھ مسلم يونيورسٹي کے طبّيہ کالج کا پرنسپل مقرر کيا گيا۔ آپ اس عہدے پر 1949ء تک فائز رہے۔

آپ کي شادي ايک کشميري خاتون محترمہ اميرالنساء بيگم صاحبہ کے ساتھ 1910ء ميں ہوئي تھي جن سے آپ کے چھ بچے ہوئے۔ ان ميں سے بيٹيوں کے نام معلوم ہوسکے ہيں اور وہ حسبِ ذيل ہيں:

محترمہ آمنہ بٹ صاحبہ اہليہ مکرم مجيد ملک صاحب (انفارميشن آفيسر بہ دَور انگريزي حکومت)

محترمہ نگين بٹ صاحبہ اہليہ انيس احمد دہلوي

محترمہ طاہرہ صاحبہ اہليہ جنرل شاہد حامد صاحب

محترم ڈاکٹر صاحب تقسيم ہند کے وقت طبّيہ کالج کے پرنسپل تھے اور ہندوستان ميں ہي رہ گئے جبکہ خاندان کے باقي افراد پاکستان ہجرت کر آئے اور راولپنڈي ميں آباد ہوئے۔ تاہم 1966ء کے لگ بھگ آپ بھي اپني بيٹي طاہرہ صاحبہ کے پاس راولپنڈي آگئے اور يہيں ستمبر 1969ء ميں آپ کي وفات ہوئي۔

آپ نے طبّيہ کالج ميں انتہائي يادگار اور اہم کارناموں کے ساتھ ساتھ بعض تصنيفي خدمات کي بھي توفيق پائي۔ ان کي خدمات کے اعتراف ميں مختلف اداروں کي طرف سے آپ کو متعدد اعزازات اور تمغوں سے بھي نوازا گيا۔ ڈاکٹر بٹ جرمني کي مجلس ماہرين امراضِ چشم کے ممبر بھي تھے، اس زمانہ ميں ہندوستان ميں پنجاب يونيورسٹي اور عالمي سطح پر سائنسي علوم کے ليے جرمني کي جامعات کو اعتبار کادرجہ حاصل تھا۔ علاوہ ازيں بہت سے علمي و تحقيقي مضامين رسالوں ميں شائع ہوتے رہے۔ آپ کي ايک کتاب “کتاب العين” کے عنوان سے شائع ہوئي۔ آپ کي خدمات کي تفصيل ريجنل ريسرچ انسٹي ٹيوٹ آف يوناني ميڈيسن، علي گڑھ کے سکالر جناب حکيم فخرعالم نے آن لائن تحقيقي ويب سائٹ “ترجيحات‘‘ کے شمارہ اپريل 2023ء ميں ’’ڈاکٹر عطاءاللہ بٹ، ايک خاموش کردار‘‘ کے عنوان سے ايک مضمون سپرد قلم کيا ہے۔ جس ميں موصوف نے لکھا ہے:

’’ڈاکٹر عطاءاللہ بٹ علي گڑھ مسلم يونيورسٹي کي تاريخ کا ايسا ہي ايک ستم رسيدہ نام ہے جو عصبيت کا شکار رہا ہے۔ ڈاکٹر عطاءاللہ بٹ اپني خدمات اور کارناموں کے لحاظ سے علي گڑھ مسلم يونيورسٹي کي تاريخ ساز شخصيتوں ميں سے تھے مگر الميہ ہے کہ نہ کہيں ذکر ہوتا ہے، نہ کوئي ان کا نام ليواہے‘‘۔

موصوف مزيد لکھتے ہيں:

’’عطاءاللہ بٹ کو تاريخ کے صفحات سے دور رکھنے کي بھلے سازش کي گئي ہو مگر کام بولتے ہيں،عطاءاللہ بٹ نے جو کام کيے ہيں وہ مرئي صورت ميں آج بھي موجود ہيں، انہيں ديکھ کر ان کي خدمات کا اندازہ کيا جا سکتا ہے۔ علي گڑھ مسلم يونيورسٹي اپنے جن شعبوں کے ليے ملکي سطح پر جاني جاتي ہے ان ميں اجمل خاں طبّيہ کالج بھي ہے، اس کالج کي تعمير و ترقي ميں جو لوگ شامل رہے ہيں ان ميں پہلا نام ڈاکٹرعطاءاللہ بٹ کا ہے، ان کا نام صرف اوّليت کے لحاظ سے اہم نہيں ہے بلکہ اس پہلو سے بھي قابلِ ذکر ہے کہ ادارہ کے سربراہ کے طور پران کي خدمات کا دورانيہ سب سے طويل رہاہے‘‘۔

اس مضمون ميں ڈاکٹر بٹ صاحب کے بحيثيت پرنسپل طبّيہ کالج تعميراتي، تعليمي و تربيتي اور تصنيفي کارناموں کا بہت تفصيل سے ذکر کيا گيا ہے۔ جہاں تک آپ کي خدمات اور کارناموں کو نظر انداز کرنے کي وجہ کا تعلق ہے تو فاضل مضمون نگار نے اسے احمديت دشمني قرار ديتے ہوئے لکھا ہے:

’’ڈاکٹر عطاءاللہ بٹ کو اپنے عقيدہ کي وجہ سے زندگي بھر علي گڑھ کے سماج ميں مطعون بھي رہنا پڑا‘‘۔

اس امر کا ذکرعلي گڑھ يونيورسٹي کے ’’آئينۂ طِبّ‘‘ کے شمارے 2003/2004ء ميں شائع ہونے والے حکيم محمد انجم سابق استاد طبّيہ کالج دہلي کے مضمون ميں بھي ہے۔ ليکن اوّل الذکر مضمون نگار نے اس کے ساتھ ہي يہ بھي لکھ ديا:

’’آخر عمر ميں اس عقيدے سے تائب ہوکر انہوں نے اہلِ سنت والجماعت کا مسلک اختيار کرليا تھا‘‘۔

جبکہ يہ ہر گز درست نہ ہے۔ مکرم عطاءاللہ بٹ صاحب بذاتِ خود بہت مخلص احمدي اور سلسلہ سے مضبوط وابستگي رکھنے والے تھے اور آخر وقت تک احمدي ہي رہے۔ آپ جب اعليٰ تعليم کے ليے جرمني جانے لگے تو ہر مخلص احمدي کي طرح آپ اپنے آقا کي خدمت ميں حاضر ہوئے اور ايک تفصيلي ملاقات ميں اپنے اس تعليمي سفر کے ليے دعا کي درخواست کے ساتھ حضرت خليفةالمسيح الثانيؓ سے رہنمائي بھي چاہي جس کي تفصيل غيرمعمولي طور پر الفضل ميں شائع ہوئي جسے اسي شمارہ ميں پڑھا جا سکتا ہے۔

اس سلسلہ ميں يہ امر پيشِ نظر رہنا چاہئے کہ احمدي ہونے کي وجہ سے محترم ڈاکٹر صاحب کوشديد مخالفت اور امتيازي سلوک کا سامنا دورانِ ملازمت رہا اور زيادہ امکان تو يہ تھا کہ اسي دوران آپ نے ترک احمديت کي ہوتي۔ مگر اس دور ميں تو الفضل قاديان ميں آپ کے والد ماجد کي وفات پر جو خبر شائع ہوئي، اس ميں لکھا تھا:

’’افسوس حاجي عبدالعزيز صاحب سيالکوٹي والد جناب ڈاکٹر عطاءاللہ صاحب بٹ پرنسپل طبّيہ کالج علي گڑھ جو حضرت مسيح موعود کے صحابي تھے، 9 نومبر علي گڑھ ميں بعمر 71 سال وفات پاگئے[3]۔

علاوہ ازيں مکرم ميجر شاہد عطاءاللہ صاحب نے مکرم ڈاکٹر بٹ صاحب مرحوم کے نواسے مکرم فريد ملک صاحب (ابن مکرمہ آمنہ ماجد ملک صاحبہ) کي گواہي ارسال کي ہے کہ ڈاکٹر صاحب آخري عمر ميں جب کبھي ان کے ہاں کراچي آتے تو وہ ڈاکٹر صاحب کو ان کي خواہش پر ہر جمعہ باقاعدگي سے نماز کے لئے احمديہ مسجد لے جايا کرتے تھے۔ تاہم يہ درست ہے کہ احمديت کا سلسلہ ان کي اولاد ميں جاري نہ رَہ سکا اور ڈاکٹر صاحب کي وفات بھي انہي رشتہ داروں کے ہاں ہوئي تھي جس پر ان کے غير از جماعت رشتہ داروں نے ان کي نماز جنازہ اور تدفين اپنے مسلک کے مطابق کي۔

2۔ محترم عبداللہ بٹ صاحب انجينئر

موصوف کي پيدائش 15 جنوري 1901ء ميں ہوئي۔ پہلے سيالکوٹ پھر لاہور سے تعليم حاصل کرنے کے بعد آپ بھي اپنے بھائي کے ساتھ جرمني آئے جہاں سے آپ نے انجينئرنگ کي تعليم حاصل کي۔ برلن ٹيکنيکل يونيورسٹي کے ريکارڈ کے مطابق آپ نے 1923ء ميں اليکٹرک انجينيرنگ کے شعبہ ميں تعليم شروع کي۔ آپ 1930ء تک جرمني ميں مقيم رہے (Hörer der TH Berlin, Bd. II, S. 278)۔ قيام برلن کے دوران آپ نے ايک جرمن خاتون محترمہ Pauline Charlotte کے ساتھ شادي کرلي۔ جن سے آپ کے دو بچے مکرم خالد عبداللہ بٹ صاحب اور ايک بيٹي محترمہ ناصرہ عبداللہ بٹ صاحبہ تھيں۔

جرمني سے واپس آکر آپ رياست رامپور ميں چيف انجينئر مقرر ہوئے۔ يہاں1939/40ء کے لگ بھگ آپ کو اپنڈکس کي تکليف ہوئي اور مناسب علاج ميسر نہ آنے کي وجہ سے بگڑگيا اور خون ميں شديد انفيکشن ہوجانے کے نتيجہ ميں موصوف کي وفات ہوگئي۔ آپ کي بيٹي کي پيدائش آپ کي وفات کے بعد ہوئي۔

[1]– الفضل قاديان مؤرخہ 5 اکتوبر 1923ء صفحہ اوّل

 

[2]– ماخوذ از مقالہ صحابہ سيالکوٹ مصنفہ مکرم مصباح بلوچ صاحب مربي سلسلہ کينيڈا

 

[3]– الفضل 12 نومبر 1936ء صفحہ اوّل

 

(تصاویر کے لئے اخبارِ احمدیہ ماہ ستمبر 2023ء کی PDF فائل دیکھیں)

 

متعلقہ مضمون

  • جلسہ گاہ میں ایک تعارفی پروگرام

  • پہلا جلسہ سالانہ جرمنی

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم

  • جماعتی سرگرمیاں