عرفان احمد

جرمنی کا شمار ایک صنعتی ملک ہونے کے ناطے برآمدات میں دنیا کے اوّلین ممالک میں ہوتا ہے۔ متعلقہ اداروں کی طرف سے ہر ماہ صنعتی پیداوار کی رپورٹ جاری کی جاتی ہے۔ اس اعتبار سے 2018ء کا سال زیادہ خوش کن نہیں رہا۔گزشتہ سالوں کے دوران جرمنی میں پیداواری اوسط میں جو کمی کا رجحان شروع ہوا تھا وہ سنبھلنے کی بجائے مزید نیچے چلا گیا، جو حکومت، صنعتی مالکان اور ان سے وابستہ اداروں کے لئے پریشانی کا باعث بنا ہے۔ چنانچہ 2019ء کے دوسرے حصہ میں ہر طرف سے یہ آوازیں آنا شروع ہوگئی تھیں کہ اگر ہم نے اپنی صنعتی پیداواری صلاحیتوں کو نہ سنبھالا تو ملکی برآمدات کی سطح برقرار نہیں رکھی جا سکے گی۔ ان مسائل میں سب سے اہم مسئلہ معیاری افرادی قوت یعنی ہنرمند افراد کی کمی ہے، جس کی ایک بہت بڑی وجہ جرمنی میں شرح پیدائش کا تشویشناک حد تک کم ہوجانا ہے۔ اس صورت حال میںدرمیانی درجہ کی صنعتوں کے مالکان کی یونین نے حکومت کو نوٹس دے دیا تھا کہ اگر افرادی قوت کے حصول کے لئے یورپ کے علاوہ دیگر ممالک سے ہنر مند افراد کو لانے کی اجازت نہ دی گئی تو ہم اپنے صنعتی یونٹ قریبی ممالک میں منتقل کرنے پر مجبور ہوں گے۔
فکرمندی کے اس ماحول میں مسئلہ کے حل کے لئے دسمبر 2018ء میں حکومت نے غیر ملکی ہنر مند افراد کے لئے نئی امیگریشن پالیسی پر اتفاق کیا تھا اور 7جون 2019ء کو امیگریشن کے نئے قانون کا بل قومی اسمبلی سے پاس ہوا۔ اب حال ہی میں دسمبر 2019ء میں جرمن چانسلر ہاؤس میں ایک اہم اجلاس ہوا جس میں چانسلر کے علاوہ اہم حکومتی وزراء، صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، پارلیمانی پارٹیوں کے قائدین، صنعت کاروں کی یونین، ملازمتیں مہیا کرنے والے مرکزی ادارے، ٹریڈ یونین کے نمائندگان اور چیمبر آف کامرس کے نمائندگان نے شرکت کی۔ اس اجلاس کا مقصد گزشتہ جون میں قومی اسمبلی سے پاس ہونے والے قانون پر عملدرآمد کے لئے مشاورت اور حکمت عملی وضع کرنی تھی۔
اِس اجلاس میں ملازمتیں مہیا کرنے والے ادارے (Arbeitgeberverband) نے چانسلر سے شکوہ کیا کہ بغیر تکنیکی تعلیم کے صرف ہاتھ سے کام کرنے والے مزدوروںکی دو لاکھ پچاس ہزار اَسامیاں خالی پڑی ہیں لیکن جرمنی کا موجودہ امیگریشن کا قانون لوگوںکو جرمنی لانے میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ سفارت خانے انٹرویو کی لمبی لمبی تاریخیں دے دیتے ہیں۔ سینکڑوں درخواستیں ایک سال سے زائد عرصہ سے سفارت خانوںمیں پڑی ہیں۔ سفارت خانوں کے اعتراض ہی ختم نہیں ہوتے۔
صنعت اور کام مہیا کرنے والے اداروں کے گلے شکوےسننے کے بعد چانسلر اور متعلقہ محکموں کے وزراء نے میٹنگ میں موجود نمائندگان کو یقین دلایا کہ آج ہم اچھے فیصلے کرکے اُٹھیں گے۔ وزیر خزانہ OLAF SCHOLZ نے صنعت کاروں کو یقین دلایا کہ افرادی قوت کے حوالہ سے آج ہم مثبت، ٹھوس اور قابل عمل فیصلے کرنے جا رہے ہیں اوریہ طے کرنا ہے کہ یورپی یونین سے باہرکے ممالک سےہنرمند افرادی قوت تلاش کرنے کے لئے کیا طریقہ کار اپنایا جائے۔ چنانچہ اس اِجلاس میں جرمن چانسلر نے صنعتی اداروں کے ساتھ ایک دستاویز پر دستخط کئے جس میں قانون کے یکم مارچ 2020ء سے نافذالعمل ہونے کی یقین دہانی کرائی گئی۔ اِس قانون کو غیرملکی ہنرمندوں کے قانون
(Fachkraefteeinwanderungsgesetz2020)
کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے بعض اہم نکات حسبِ ذیل ہیں:
اب دنیا میں کہیں سے بھی ہنرمند افراد جرمنی میں آ کر کام کرسکیں گے۔
حکومت ہنر مند کی صلاحیت جانچنے اور منظور کرنے کے طریقہ کار کو آسان بنائے گی۔ چیمبر آف کامرس (IHK) سے بھی مدد لے گی۔
پروفیشنل ویزا کے حصول کو آسان بنانے کے لئے سفارت خانوں میں علیحدہ سے سٹاف رکھا جائےگا۔ چانسلر نے فوری طور پر ایک سو نو افسران سفارت خانوں میں متعین کرنے کی یقین دہانی کروائی۔
فوری طور پر ایک پائلٹ پروجیکٹ شروع کیا جائے گاجو بھارت، برازیل اور ویت نام کے لوگوں کے لئے ہوگا۔ وہ اپنی تعلیم ہنرمندی، تجربہ سے متعلق کاغذات چیمبر آف کامرس کو ارسال کریں گے۔ جن کے کاغذات IHK منظور کرے ان کو 6 ماہ کا ویزا جاری کیا جائے گا اور وہ جرمنی میں آکر اپنی ملازت تلاش کرسکیں گے۔
جرمنی کو فوری طور پر درج ذیل شعبہ جات کے لئے ماہرین اور افرادی قوت کی ضرورت ہے جن کو لمبی چھان بین کے بغیر ویزا جاری کیا جائے گا۔
انجینئرنگ کے مختلف شعبہ جات مثلاً مکینکل، الیکٹریکل اور سول انجینئرنگ، سٹیل ورکرز، باورچی، ہسپتالوں اور بوڑھوں کے نرسنگ ہومز کے لئے نرسیں، آئی ٹی اسپیشلسٹ، کمپیوٹر پروگرامر وغیرہ۔
مذکورہ شعبہ جات کے لئے ٹریننگ حاصل کرنے کے لئے آنے والوں کو بھی سہولتیں مہیا کی جائیںگی۔
اس سلسلہ میں حکومت نے جون 2019ء میں اس سے ملتا جلتا قانون بھی اُن غیرملکیوں کے لئے بنایا تھا جنہوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواست دی ہوئی ہے۔ اس قانون کا نام Asylbewerberleistungsgesetz 2019 ہے۔ اس کے تحت ایسے افراد جن کو جرمنی میں آئے 15ماہ ہوچکے ہیں اور وہ یونیورسٹی کی ڈگری یا پروفیشنل کالج سے ٹریننگ کا سرٹیفیکیٹ رکھتے ہیں وہ حکومتی خرچ پر مزید تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ اپنے پیشہ وارانہ علم کو مزید بڑھا کر جرمن اداروں میں کام تلاش کرکے اپنے ویزا کو پیشہ وارانہ ویزا میں تبدیل کروا سکتے ہیں۔
وفاقی ادارہ برائے روزگار (Bundesagentur für Arbeit) اور فیڈرل کمشنر آف انٹیگریشن کے درمیان معاہدہ پر بھی دستخط ہوئے ہیں۔ جس کے تحت خواتین کو تربیت حاصل کرنے کے زیادہ مواقع مہیا کئے جائیں گے اور انہیں ہنر سکھانے کے دوران معاوضہ بھی دیاجائے گا۔

متعلقہ مضمون

  • ایک احمدی خاتون صحافی کی عدالتی کامیابی

  • ملکی و عالمی خبریں

  • عیدالاضحی کے موقع پر پاکستان کے احمدیوں کی قربانیاں

  • ملکی و عالمی خبریں