معروف شاعر مکرم پروفیسر مبارک عابد صاحب جرمنی میں

نامہ نگار خصوصی کے قلم سے

’’ميري پيدائش ضلع سيالکوٹ کے ايک گاؤں ’کلاس والہ‘ ميں 1944ء ميں ہوئي۔ ابھي چھ سال کا تھا کہ ميرے والد محترم کا سايہ سر سے اُٹھ گيا اور ميں اپنے تايا ابا مکرم محمد صديق صاحب اور پھر بڑے بھائي مکرم منظور احمد صاحب کي کفالت ميں آگيا۔ جنہوں نے پدرانہ شفقت سے ميري پرورش کي۔ 1955ء ميں ہم نقل مکاني کرکے ربوہ آگئے تو پہلے تعليم الاسلام سکول ميرا تعليمي گہوارا بنا پھر 1962 تا 1966ء تعليم الاسلام کالج کا طالب علم رہا۔ اس دوران تين سال تک حضرت مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تھے اور ايک سال حضرت قاضي محمد اسلم صاحب۔ 1969ء ميں پنجاب يونيورسٹي سے ايم اے اردو کرنے کے بعد چند سال لاہور کے ايک نجي کالج ميں ملازمت کي۔ پھر1971ء سے تعليم الاسلام کالج ربوہ ميں تدريس شروع کي اور پھر ريٹائرمنٹ (2004ء)تک اسي عظيم ادارہ سے منسلک رہتے ہوئےقومي تعمير کا فريضہ انجام دينے کي توفيق و سعادت ملي، الحمدللہ‘‘۔

يہ وہ گفتگو ہے جو ربوہ کے ادبي حلقوں کے روح رواں، نہايت درجہ سادہ ومنکسرالمزاج محترم پروفيسر مبارک احمد عابد صاحب نے اپنے حالات زندگي بيان کرتے ہوئے اخبار احمديہ جرمني کے نمائندہ کے ساتھ کي۔ آپ نے مزيد بتايا کہ ‘‘پہلي غزل صرف 15 سال کي عمر ميں لکھي تھي اور پھرحضرت مصلح موعودؓ کي وفات کا سانحہ ساري جماعت کے لئے غير معمولي رنج و الم کا باعث تھا، اس کيفيت سے بہت سے احباب کے جذبات الفاظ ميں ڈھلے، ان ميں ايک ميں بھي تھا۔ ميرے درد و غم نے جن الفاظ کا لبادہ اوڑھا، وہ ميري نظم ؎

اے فضلِ عمر تيرے اوصاف کريمانہ

بتلا ہي نہيں سکتا ميرا فکرِ سخندانہ

کي صورت ميں ڈھلا‘‘۔

عابد صاحب کي يہ مشہور نظم حضرت مصلح موعودؓ کے چند ماہ بعد فروري 1966ء ميں مسجد مبارک ربوہ ميں منعقد ہونے والے جلسہ يوم مصلح موعودؓ کے موقع پرکلام شاعر بزبان شاعر پڑھي گئي، حضرت مصلح موعودؓ کے حسين ذکر پر مشتمل يہ نظم اتني پياري اور عمدہ تھي اور ايسے درد اور پُر سوز لحن ميں پڑھي گئي کہ حاضرين کے دل ميں اُتر گئي اور ہر آنکھ کو اشکبار کر گئي اور اس قدر مقبول ہوئي کہ چند دنوں ميں ہي زباں زدِ عام ہوگئي اور ربوہ کے گلي محلوں ميں اس کي بازگشت سنائي دينے لگي۔ اس مشہور نظم اور اسي طرح کي مزيد بےشمار عمدہ اور معروف نظموں کے خالق معروف شاعر مکرم پروفيسر مبارک احمد عابد صاحب گزشتہ دنوں جرمني تشريف لائے تو ان کے مداحوں نے ان کے ساتھ متعدد شعري نشستيں منعقد کيں اور ان کے کلام سے محظوظ ہوئے اور پراني يادوں کو تازہ کيا۔مکرم پروفيسر مبارک عابد صاحب نے 15سال کي عمر ميں پہلي غزل کہہ کر اردو شاعري کے ميدان ميں قدم رکھا تھا اور پھر اس ميں اپنا ايک مقام پيدا کيا۔ اب تک آپ کےتين مجموعہ ہائے کلام ‘‘درد کے شہر ميں’’، ‘‘پلکوں سے دستک’’ اور ‘‘برگ برگ چاندني’’ شائع ہوکر قبول عام کي سند پاچکے ہيں۔

پروفيسرصاحب کي جرمني آمد پر سب سےپہلے تعليم الاسلام کالج ربوہ کي اولڈ بوائے ايسوسي ايشن نے 30 اپريل 2023ء کو بيت السبوح فرانکفرٹ ميں ان کے اعزاز ميں ايک محفل بَرپا کي پھرجرمن اردو کلچرل سوسائٹي کي طرف سے 20 مئي کو Nordwestzentrum کے ايک عوامي ہال ميں، 28 مئي کوتيسري نشست ‘‘بيت الباقي’’ Dietzenbach ميں ہوئي اور 24 جون کو جرمني کے انتہائي شمال ميں جماعت کے مرکز مہدي آباد (Nahe) ميں بھي ايسي ہي ايک محفل کا انعقاد کيا گيا۔ ان تمام ادبي نشستوں ميں صاحب ذوق دوستوں نے کثرت کے ساتھ شرکت کي۔ اس دوران مکرم شاہد تاثير صاحب کے گھر واقع لانگن اور مکرم خواجہ مظفر احمدصاحب کے ہاں Bad Marienberg ميں بھي نجي نوعيت کي خوبصورت تقاريب ہوئيں۔ اس کے علاوہ جناب عبدالشکور بھٹي،جناب مبشراحمد لاہوري، جناب وسيم ملک اور جناب شرافت اللہ خان نے بھي اپنے ہاں مدعو کيا جہاں مختصر محافلِ شعر وسخن بھي منعقد ہوئيں۔

جرمن اردو کلچرل سوسائيٹي کي طرف سے ہونے والي شعرو سخن کي نشست سوسائٹي کے مدارالمہام جناب عرفان احمد خان صاحب نے بہت عمدہ طور پر ترتيب دي تھي۔ اس ميں جناب مبشر احمد کاہلوں کي طرف سے حاضرين کي خدمت ميں پُرتکلّف کھانا بھي پيش کيا گيا۔

اس نشست کے آغاز ميں ماہر علم عروض جناب راجہ محمديوسف خان صاحب نے مکرم عابد صاحب کي شاعري پر ايک خصوصي مقالہ پيش کيا۔ اس مقالہ ميں محترم عابد صاحب کے منظوم کلام کے بارہ ميں سير حاصل تبصرہ شامل تھا۔ مکرم راجہ صاحب نے شاعر موصوف کے منظوم کلام کا علم عروض کي روشني ميں فني تجزيہ سامعين کي نذر کيا اور بتايا کہ آپ کا تمام کلام علم عروض ميں بيان کي گئي بحروں ميں ہے۔ اس ميں حيرت انگيز يہ امر تھا کہ شاعر موصوف کا کہنا تھا کہ انہيں علمِ عروض سے کوئي بھي مَس نہيں ہے يہ سب فطرتي طور پر ہے۔ بعدہٗ کلام شاعر بزبان شاعر سے محظوظ ہوئے۔ اس دوران مقامي شعراء کو بھي اپنا کلام سنانے کا موقع ديا جاتا رہا۔

ان مجالس ميں مہمان شاعر کے علاوہ جرمني کے پرانےخادم دين اور بزرگ شاعر مکرم چودھري محمد شريف خالد صاحب اور بعض ديگر شعراء نے بھي اپنا کلام پيش کيا۔ بيت الباقي ميں منعقدہ تقريب ميں جاپان سے مکرم عصمت اللہ صاحب نے بھي آن لائن شرکت کرکے حاضرين کو اپنے لحنِ داؤدي سے مستفيض کيا۔ جبکہ شاعر موصوف نے ان تمام مجالس ميں سامعين کو اپنے ولولہ انگيز اور وجد آفرين کلام سے نوازا اور ان مجالس کو خوب گرمايا اور اُن سےداد و تحسين وصول کي۔ بہت سي نظموں اور غزلوں کي فرمائش بھي کي گئي جو آپ نے عطا فرمائيں۔ آپ کا ترنم بھي ماشاءاللہ بہت دلربا اور جاندار ہے جس سے مزہ دو آتشہ ہو جاتا ہے۔چنانچہ آپ نے متعدد مواقع پر اپني سدا بہار نظميں اور غزليں سنائيں، خصوصاًحضرت مصلح موعودؓ کي ياد ميں آپ کي ترنّم سے پڑھي گئي نظم جتني بار اور جب بھي پڑھي جائے نيا لطف اور مزا عطا کرتي ہے ؏

اے فضل عمر تيرے اوصافِ کريمانہ

آپ نے ہر نشست ميں موقع ومحل کے مطابق اپنا کلام سنايا۔ لانگن ميں مکرم تاثير صاحب کے ہاں آپ نے نعت ‘‘کچھ اور چاہيے وسعت ميري زباں کے ليے’’سے آغاز کيا اور اس کے بعد سيّدنا حضرت مسيح موعودؑ کے بارے ميں کلام سنايا جس ميں حضورؑ کي صداقت کا بڑے عارفانہ رنگ ميں بيان ہوا ہے۔ علاوہ ازيں کم و بيش ہر محفل ميں آپ کي اس غزل کي فرمائش ہوتي رہي ؏

ميرے پيش نظر اے ميرے ہمسفر ہے يہي ايک غم، ہم بچھڑ جائيں گے

اور جب آپ اسے اپنے مخصوص لہجہ اور ترنّم کے ساتھ سناتے تو ہر جگہ اور ہر موقع پر لطف دينے کے ساتھ ساتھ سننے والے ہر شخص کو گہري اداسي ميں مبتلا کر جاتي رہي۔ اس کے بارہ ميں خاکسار نے موصوف سے ازراہِ تفنّن عرض کيا کہ يہ نظم سوائے رخصتانہ کي تقريب کے ہر مجلس ميں پڑھي جا سکتي ہے اور ہر مجلس کے حسبِ حال ہوتي ہے۔ کيونکہ ہرمحفل اور ہر صحبت ہي’’صحبت برہم‘‘ ہوتي ہے۔ جب تک وہ محفل جمي رہتي ہے ہماہمي رہتي ہے اور ہر ’گوشہ نشاط‘ پر ’دامانِ و باغبان و کف گل فروش‘ کا گمان ہوتا ہے۔ اور محفل کے برخاست ہونے پر ’نے وہ سرود و سوز نہ جوش و خروش ہے‘ والي کيفيت ہوتي ہے۔

آپ کے پرانےجاننے والے دوستوں اور شاگردوں کي طرف سے آپ کي خاص نظم سننے کے لئے خاص فرمائش ہوتي رہي ؏

اک اداسي ليے روح پياسي ليے لُٹ گئي زندگي اور مَيں چپ رہا

الغرض زندہ دلان ِجرمني نے حتي الوسع ان کے قيام جرمني کے دوران ان کي صحبت سے خوب خوب فائدہ اٹھايا اور بہت سي محفلوں کي شمعيں روشن کيں اورمحترم عابد صاحب کے کلام کے ساتھ ساتھ آپ کي باغ و بہار شخصيت اور آپ کي حسِ مزاح اور بذلہ سنجي سے بھي لطف اندوز ہوئے۔ ہم اہل جرمني کي طرف سے آپ سے آپ کے ہي الفاظ ميں يہي عرض کريں گے ؏

جب بھي چاہيں آپ آئيں جب ہو دل جايا کريں

بلکہ اس سے بھي بڑھ کر ؏

پيار ہے تو اس گلي ميں مستقل جايا کريں

 

متعلقہ مضمون

  • جماعتی سرگرمیاں

  • مجلس انصاراللہ جرمنی کا 43واں سالانہ اجتماع

  • نیشنل وصیت سیمینار 2024ء

  • اسلام و قرآن نمائش