تسبیح و مغفرت

سیدنا حضرت مسیحِ موعودؑ فرماتے ہیں

قرآنِ شریف میں ہے۔ اُذۡکُرُوۡنِیۡۤ اَذۡکُرۡکُمۡ وَاشۡکُرُوۡا لِیۡ وَلَا تَکۡفُرُوۡنِ (سورۃالبقرہ:153)۔ یعنی اے میرے بندو تم مجھے یاد کیا کرو اور میری یاد میں مصروف رہا کرو مَیں بھی تم کو نہ بھولوں گا تمہارا خیال رکھوں گا اور میرا شکر کیا کرو اور میرے انعامات کی قدرکیا کرو اور کفر نہ کیا کرو۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ذکر الٰہی کے ترک اور اس سے غفلت کا نام کفر ہے پس جو دَم غافل وہ دَم کا فر والی بات صاف ہے یہ پانچ وقت تو خداتعالیٰ نے بطور نمونہ کے مقرر فرمائے ہیں۔ ورنہ خدا کی یاد میں تو ہر وقت دل کو لگا رہنا چاہیے اور کبھی کسی وقت بھی غافل نہ ہونا چاہیے۔ اُٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے ہر وقت اسی کی یاد میں غرق ہونا بھی ایک ایسی صفت ہے کہ انسان اس سے انسان کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے اور خداتعالیٰ پر کسی طرح کی امید اور بھروسہ کا حق رکھ سکتا ہے۔ (ملفوظات جلد 3 صفحہ 189۔ ایڈیشن 1988ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں

’’اُمت محمدیہ کا وہ حصہ جو اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اور اس کے حکم سے استغفار کرتا اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے اور وہ اُسے بار بار رحمت کرنے والا اور مغفرت کرنے والا پاتا ہے۔ کب ایسا ہوا کہ محمدﷺ کی اُمّت نے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا ہو اور اُس نے اپنی رحمت سے اُسے نہ نوازا ہو۔ ہماری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے اور جیسا کہ خداتعالیٰ نے فرمایا ہے ہر زمانہ میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے اور دُنیا کا ہر ملک اور ہر قوم اس پر شاہد ہے‘‘۔ (انوارالقرآن جلد سوم صفحہ 694)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں

’’مومن کو چاہیے کہ خدا کی حمد اور تسبیح کرتا رہے اور اس کی حفاظت طلب کرتا رہے جیسے ایمان ہر نیکی کے مجموعہ کا نام ہے۔ اسی طرح بُرائی کا مجموعہ کفر کہلاتا ہے۔ ان کے ادنیٰ اور وسط اور اعلیٰ تین درجے ہیں۔ پس اُمید، بیم، رنج و راحت، عسر و یُسر میں قدم آگے بڑھاؤ اور اس سے حفاظت طلب کرو۔ غور کرو۔ حفاظت طلب کرنے کا حکم اس عظیم الشان کو ہوتا ہے جو خاتم الانبیاء، اصفیٰ الاصفیاء سیّد ولدِ آدم ہےﷺ۔ تو پھر اور کون ہے جو طلبِ حفاظت سے غنی ہوسکتا ہے مایوس اور نا اُمید مَت ہو۔ ہر کمزوری، غلطی، بغاوت کے لیے دعا سے کام لو۔ دعا سے مَت تھکو‘‘۔ (حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ 535-536)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث فرماتے ہیں

’’قرآنِ کریم میں آیا ہے ہٰذَا مِنۡ فَضۡلِ رَبِّیۡ لِیَبۡلُوَنِیۡۤ ءَاَشۡکُرُ اَمۡ اَکۡفُرُ (النّمل:41) تو جہاں بھی فضل نازل ہو وہاں یہ آزمائش ہوتی ہے کہ جس فرد پر یا جس جماعت پر اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوا وہ فرد اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہے یا وہ جماعت خدا کا شکر ادا کرتی ہے یا ناشکری کی راہوں کو اختیار کرتی ہے۔ جہاں تک جماعتِ احمدیہ کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کے بےشمار ایسے فضل نازل ہو رہے ہیں جو اُس کی قائم کردہ جماعتوں پر ہی نازل ہوتے ہیں اور دُنیا میں کہیں اور اس کی مثال ہمیں نہیں ملتی‘‘۔ (خطبات ناصر جلد 5 صفحہ 435، خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍فروری1974ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع فرماتے ہیں

’’اظہار تشکر ایک نہ مَرنے والا خزانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔ یہ انسانی خوبی کو بہتر سے بہتر کرتا چلا جاتا ہے اور یہ لا زوال خوبی ہے یہ کبھی بھی ختم نہیں ہوسکتی۔ دَر اصل یہ وہ حقیقت ہے جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ (ابراہیم:8) اگر تم میرا شکر ادا کرو تو مَیں تم پر مزید افضال نازل کروں گا اور اگر اللہ آپ پر مزید فضل نازل کرے تو کیا ہوتا ہے۔ اگر آپ شکرگزار ہوں گے تو اللہ کہتا ہے کہ ٹھیک ہے میرے بندے میرے شکرگزار ہوتے ہیں تو مَیں کیوں نہ اس کی قدر کروں اور پھر آپ سب اس کی رحمت تلے آجاتے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ ہمیں لازماً اللہ کا زیادہ شکر ادا کرنا چاہئے اور پھر اللہ کہتا ہے کہ اگر میرے بندے زیادہ شکرگزار ہیں تو میں کیوں ان پر زیادہ مہربان نہ ہوں۔ تو وہ اپنی رحمتیں اور فضل ان پر جاری رکھتا ہے‘‘۔ (خطبات طاہر جلد 7 صفحہ 102۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 19 فروری 1988ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

’’جو الٰہی جماعتیں ہوتی ہیں ان کا ایک اور خاصہ بھی ہوتا ہے ان کو اپنی ترقیات اپنی کسی قابلیت یا اپنی کسی محنت یا اپنی کسی خوبی کی وجہ سے نظر نہیں آ رہی ہوتی بلکہ ان کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ کے فضلوں کی وجہ سے ہے نہ کہ ہماری کسی خوبی کی وجہ سے اور پھر جب جماعت بحیثیت جماعت بھی اور ہر فرد جماعت انفرادی طور پر بھی ان فضلوں کو دیکھتے ہوئے خداتعالیٰ کا شکرادا کرتا ہے اس کے آگے جھکتا ہے اس کے آگے گڑگڑاتا ہے کہ اے خدا! تو نے اس قدر فضل ہم پر کئے جو بارش کے قطروں کی طرح برستے جا رہے ہیں ہماری کسی غلطی، ہماری کسی نالائقی، ہماری کسی نااہلی کی وجہ سے بند نہ ہو جائیں۔ اس لئے ہمیں توفیق دے، ہمیں طاقت دے اور ہم پر مزید فضل فرما کہ ہم تیرے ان فضلوں کا شکر ادا کر سکیں‘‘۔ (خطبات مسرور جلد دوم صفحہ 550-551۔ خطبہ جمعہ 6؍ اگست 2004ء)