کِیا لاکھ غور پہ مجھ پہ تو نہ یہ رازِ دَیر و حرم کھلا
نہ تضادِ دین و دَھرم کھلا نہ فسادِ عرب و عجم کھلا

یہ حیات کیا ہے ممات کیا یہ عدم ہے کیا یہ وجود کیا
تری کائنات کا راز تو نہ کسی پہ تیری قسم کھلا

ہے یہ لامکان و مکان کیا، ہیں رموز و سِرّ جہان کیا
کوئی کیسا ذہن رسا ہو اُس پہ بہت کھلا بھی تو کم کھلا

کٹے انقباض کے مرحلے، ہوئے جاری پھر وہی سلسلے
یہاں میری آہ مچل گئی، وہاں باب لطف و کرم کھلا

ہیں عجیب خول میں بند یہ کہ کبھی سمجھ میں نہ آ سکے
نہ تو دوستوں کے کرم کھلے نہ ستم کشوں کا ستم کھلا

اسے دوسروں سے گلہ ہو کیوں کہ گھُٹن ہو جس کے وجود میں
نہ خوشی ہی جس کی ہو بَرملا، نہ ہی جس کا جذبۂ غم کھُلا

یہ خلوص و پیار کے واسطے، یونہی خامشی ہی سے نبھ گئے
نہ مری اَنا نے طلب کیا، نہ تری وفا کا بھَرم کھلا

کرم اُس رحیم و کریم کا تو رہین دستِ دُعا نہیں
مری خامشی کا بھی مدّعا بحضور ربِّ کرم کھلا

ہوا رفتہ رفتہ یہی عیاں کہ بجا تھا غالبؔ نکتہ داں
رہی قید زندگی جب تلک نہ حصار فکر و الم کھلا

جو بپا کئے تھا قیامتیں، جو اُٹھائے رکھے تھا آفتیں
کیا چاک سینہ جو ایک دن اُسی فتنہ گر کا حجم کھلا

مَیں رہینِ منّت وقت ہوں کئی راز اُس نے عیاں کئے
مِرے دشمنوں کی نوازشیں، مِرے دوستوں کا بھرم کھلا

تھے جہاں کے درد میں مبتلا لگی آگ گھر میں تو چپ رہے
پڑا وقت ہم پہ جو دوستو، تو مزاج اہل قلم کھلا

(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ جولائی 2024ء صفحہ 17)

متعلقہ مضمون

  • محرم الحرام

  • محبوبِ جہاں

  • ابیاتِ شہیدِ مرحوم

  • افسردہ ہے، محزون ہے پھر ارضِ فلسطین