مسجد بشارت اوسنابرک

(يہ تفصيلي مضمون موجودہ و سابق صدران جماعت اوسنابرک کي طرف سے مہيا کي جانے والي معلومات اور مختلف اخبار و رسائل شائع شدہ رپورٹس کي مدد سے مکرم عرفان احمد خان صاحب ممبرتاریخ کمیٹی جرمنی نے مرتب کيا ہے۔ اگر کسي دوست کے علم ميں مزيد معلومات ہوں تو ان سے درخواست ہے کہ تاريخ کميٹي جرمني کو مطلع فرمائيں، جزاکم اللہ احسن الجزاء۔

(صدر تاريخ احمديت کميٹي جرمني)

جرمنی کے ایک وسیع صوبے نیڈرزاکسن کا سرحدی شہر اوسنا برک جماعتی ریجنز کے اعتبار سے ویسٹ فالن میں شامل ہےجس کی آبادی ایک لاکھ چونسٹھ ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں جماعت کا قیام 1978ء میں ہوا۔ جس کے چند سال بعد سومساجد سکیم کے آغاز پر ہی مقامی جماعت نے مسجد کی تعمیر میں دلچسپی دکھائی اور اس کے لیے مالی قربانی پیش کرنے کی توفیق پائی۔ جس کے نتیجہ میں 2002ء میں مسجد تعمیر کی گئی۔ اس سے پہلے وٹلش میں مسجد تعمیر ہوئی تھی جبکہ مسجد بشارت اس سکیم کے تحت ہونے والی دوسری مسجد ہے۔ 1997ء میں زمین کے حصول اور مسجد کی تعمیر کے لئے باقاعدہ کمیٹی بنائی گئی۔ جس میں صدر جماعت رانا محمد افضل صاحب مرحوم، مکرم رانا وسیم احمد صاحب اور مکرم مشتاق احمد بیگ صاحب (حال مقیم برطانیہ) شامل تھے۔ متعددپلاٹس وغیرہ دیکھے گئے لیکن خریداری کے دوران کوئی نہ کوئی رکاوٹ سامنے آجاتی۔ ممبر تعمیر کمیٹی مکرم مشتاق احمد صاحب بیگ نے ایک درخواست مقامی شہری انتظامیہ کو لکھ کر دی کہ ہمیں مسجد کی تعمیر کے لیے جگہ درکار ہے۔ چنانچہ مقامی انتظامیہ کے ایک اہلکارمسٹر Mayer نے انتظامیہ ممبران کو مسجد کے لیے پلاٹ کی مخالفت نہ کرنے پر راضی کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔تھوڑے ہی عرصہ بعد شہر کے مقامی حکّام نے تین ہزار مربع میٹر پر مشتمل قطعہ زمین مسجد کی تعمیرکے لیے فروخت کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کی اطلاع مکرم مشتاق بیگ صاحب کو دی۔ جس پر جماعت نے دو ہزار چار سو مربع میٹر پلاٹ خریدنے پر رضامندی ظاہر کی۔ 1998ء میں مسجد کے لیے ایک قطعہ زمین فائنل کیا گیا تو منظوری کے تمام مراحل خدا کے فضل سے بغیر کسی رکاوٹ کے طے پاتے رہے۔

ان تمام مراحل کے دوران میں مقامی اخبار Osnabrück Nachrichten سے منسلک ایک دوست Harlad Preuin نے بھی مقامی جماعت کے ساتھ تعاون کیا۔

مسجد کے نقشہ کی منظوری سے قبل قواعد کے مطابق شہر کی انتظامیہ نے مقامی اخبار میں اشتہار شائع کروایا کہ اگر کسی شہری کو اعتراض ہے تو انتظامیہ سے رابطہ کرے۔ اس وقت کسی نے بھی اعتراض نہیں اٹھایا لیکن جونہی مسجد کی تعمیر کا آغاز ہوا تو متعلقہ علاقہ کے بعض لوگوں نے اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ چنانچہ شہر کی انتظامیہ نے معترض لوگوں اور جماعت کے درمیان ایک نشست کا انتظام کیا۔ جس میں جرمن شہریوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے خدشات کے جوابات سو مساجد کے مرکزی نگران مکرم سعید گیسلر صاحب نے دئیے۔ جس پر تمام حاضرین نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مسجد کی تعمیر پر رضامندی ظاہر کر دی۔ اس موقع پر شہریوں کے درمیان جورائے شماری کروائی گئی اس میں مقامی سیاسی پارٹیوں CDU,SPD,اور Grüne پارٹی نے بھی مسجد کی تعمیر کے حق میں ووٹ دیا۔

(رپورٹ صدر جماعت و تحریر مکرم مشتاق احمد بیگ صاحب، حال یوکے)

تقریب سنگِ بنیاد

1998ء میں تعمیرِ مسجد کی اجازت ملنے کے بعد نقشہ جات کی تیاری اور منظوری کے مراحل میں تقریباً ایک سال کا عرصہ لگا۔ اس منظوری کے بعد ستمبر 1999ء میں تہہ خانہ کی کھدائی کا کام شروع کیا گیا جو تین ماہ تک جاری رہا۔ اس کے بعد مسجد بشارت کا سنگِ بنیاد رکھنے کے لئے 16 دسمبر 1999ء کا دن مقرر کیا گیا۔ چنانچہ اس روز ایک سادہ تقریب منعقد کی گئی جس میں مقامی احباب کے علاوہ قریبی جماعتوں کے افراد بھی شریک ہوئے۔ تلاوت قرآنِ کریم مکرم مشتاق احمد بیگ صاحب نے کی جس کے بعد ریجنل مبلغ سلسلہ مکرم ڈاکٹر محمد جلال شمس صاحب (حال یوکے)نے ابراہیمیؑ دعاؤں کے ساتھ مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا۔ آپ کے ساتھ اُس وقت کے ریجنل امیر ویسٹ فالن مکرم عبدالمنان ناصر صاحب اور مکرم رانا محمد افضل آزاد صاحب صدر جماعت اوسنا برک کو بھی بنیاد میں اینٹ رکھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

(احمدیہ بلیٹن جرمنی نومبر،دسمبر 2002ء)

وقار عمل

سنگ بنیاد کے فوری بعد مسجد کی تعمیر کا کام شروع کر دیا گیا جس میں اوسنابرک کی مقامی جماعت کے علاوہ قریب کی جماعتوں Bocholt Meschede, Herford, Ahaus, Bielefeld, Datteln, Borken, اور Münster کے احباب جماعت نے بھی حصہ لیا۔ احباب جماعت کی انتھک محنت کے نتیجہ میں مسجد کی تعمیر کے مراحل بہت تیزی سے طے پانے لگے اور چھ ماہ سے بھی کم عرصہ مئی 2002ء میں مسجد چھت تک تعمیر ہوگئی۔ اس دوران مکرم فضل احمد صاحب شاکر۔ مکرم خالد جاوید انجم صاحب، مکرم عبدالعزیز صاحب، مکرم فضل محمود صاحب اور مکرم محمداحسن صاحب کو مثالی خدمت کی توفیق ملی۔

مسجد کے تعمیری منصوبہ کے نگران(Bauleiter) مکرم سعید گیسلر صاحب تھے جبکہ عمومی نگرانی کی توفیق مکرم ملک فاروق احمد صاحب (کارکن شعبہ سومساجد) کو ملی۔یہ مسجد مکمل طور پر وقار عمل سے تعمیر ہوئی تھی تاہم اس میں سے تہ خانہ کی کھدائی اور اس کی تعمیر ایک کمپنی کے ذریعہ ہوئی۔

(احمدیہ بلیٹن جرمنی نومبر،دسمبر 2002ء)

دوران تعمیر پیش آنے والا غیرمعمولی واقعہ

مساجد کی تعمیر میں بہت سا کام احمدی احباب اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں اور بعض اوقات تکنیکی کاموں کی انجام دہی کے دوران ایسی مشکلات پیش آتی ہیں کہ انسان اپنے آپ کو بےبس محسوس کرتا ہے اور دعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ مشکلات حل کر دیتا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ مسجد بشارت کی تعمیر کے دوران بھی پیش آیا۔ نقشہ کے مطابق مسجد کی سیڑھیاں بنانے اور اس پر حفاظتی جنگلہ کرنے میں بعض تکنیکی مشکلات کا سامنا تھا۔ مکرم ملک فاروق احمد صاحب کے بیان کے مطابق تعمیر کے اس مشکل مرحلہ پر خصوصی دعا کے ذریعہ خداتعالیٰ سے مدد مانگی تو دعا ختم ہونے کے بعد وہاں ایک اجنبی نوجوان آیا جس نے غیرمتوقع طور پر ہم سے پوچھا کہ آپ کو کوئی مسئلہ درپیش ہے؟ جب ہم نے اپنی مشکل بتائی تو اس نے کہا کہ مَیں یہ کام کرسکتا ہوں اور ساتھ ہی کام شروع کر دیا۔ آدھ گھنٹہ میں درپیش تکنیکی مشکل حل کر دی۔ ہم نے اس کی خاطر مدارت کرنا چاہی لیکن وہ راضی نہ ہوا بلکہ جیب سے دس مارک نکال کر مسجد کے لیے دئیے۔ وہ شخص دوبارہ کبھی نظر نہ آیا۔ ہم اس کو قبولیت دعا کا معجزہ اور خدائی مدد تصور کرتے ہیں۔ اس واقعہ کی تصدیق مسجد کی تعمیر میں مسلسل خدمت کی توفیق پانے والے محترم فضل احمد شاکر صاحب نے بھی کی ۔ (غیر مطبوعہ ریکارڈ)

حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی آمد

جماعت اوسنابرک کی خوش قسمتی ہے کہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 31 ؍اگست 2000ء کو زیر تعمیر مسجد بشارت کا معائنہ فرمایا اور نماز ظہر و عصر کی امامت کروائی۔ اس مقصد کے لئےحضور رحمہ اللہ میونسٹر میں مسجد بیت المومن کا سنگِ بنیاد رکھنے کے بعد ہمبرگ تشریف لے جاتے ہوئےیہاں کچھ دیر کے لئے قیام فرما ہوئے تھے۔ حضورؒ یہاں ورود فرما ہوئے تو مقامی احباب نے اپنے آقا کا والہانہ استقبال کیا۔ حضور نے ہاتھ ہلا کر سب احباب کو السلام علیکم کہا اور مسجد کی طرف جاتے ہوئے حضور تھوڑی دیر کے لئے خواتین کے پاس رُکے اور پھر نمازوں کی ادائیگی کے لئے مسجد میں تشریف لے گئے۔ محترم ڈاکٹر محمد جلال شمس صاحب مبلغ سلسلہ نے اذان دی۔ جس کے بعد حضور کی اقتداء میں نماز ظہر و عصر ادا کی گئیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورؒ نے زیرِتعمیر منصوبہ میں مسجد، لائبریری اور دفاتر کا معائنہ فرمایا۔ اس کے بعد ہمبرگ کے لئے اپنا سفر جاری رکھا۔ روانگی سے قبل حضورانورؒ نے تمام موجوداحباب کو شرفِ مصافحہ بخشا اور خواتین کو ہاتھ ہلا کر السلام علیکم کہا۔

اس بابرکت موقع پر مثالی وقارِعمل کرنے والے احباب کرام مکرم فضل احمد شاکر صاحب، مکرم خالد جاوید انجم صاحب، مکرم عبدالعزیز صاحب، مکرم فضل محمود صاحب اور مکرم محمداحسن صاحب کو حضورؒ سے متعارف کرواتے ہوئے صدر صاحب جماعت نے اپنے خدام کے لئے خصوصی دعا کی درخواست کی گئی۔

(الفضل انٹرنیشنل لندن 8 دسمبر 2000ء)

مسجدبشارت کا افتتاح

مسجد بشارت اوسنا برک جس کی کل زمین 2004 مربع میٹر ہے اور اس میں سے 373 مربع میٹر پر مسجد تعمیر کی گئی ہے۔ مردوں کے نماز پڑھنے کی جگہ 71 مربع میٹر اور عورتوں کے لئے 60 مربع میٹر جگہ مخصوص ہے۔ دیگر جگہ پر دو چھوٹے چھوٹے کمروں پر مشتمل رہائش گاہ اور دفاتر تعمیر کئے گئے ہیں۔ اس کے دو مینار اور ان کے درمیان گنبد مسجد کا نہایت خوبصورت منظر پیش کرتےہیں۔

مسجد کی تعمیر اور مشن ہاؤس کی تزئین و آرائش کا کام ہر طرح سے مکمل ہونے اور متعلقہ حکومتی محکمہ سے تعمیرشدہ عمارت کے استعمال کی اجازت ملنے پر مسجد بشارت کی رَسمی افتتاحی تقریب مکرم عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب امیرجماعت احمدیہ جرمنی کی زیرصدارت 25 اکتوبر 2002ء کو سات بجے شام عمل میں آئی۔ تقریب سے پہلے مکرم حیدر علی ظفر صاحب مبلغ انچارج جرمنی کی امامت میں نماز مغرب و عشاء باجماعت ادا کی گئیں۔ مہمانوں کے تشریف لانے اور مقررہ نشستوں پر رونق افروز ہونے کے بعد سب سے پہلے مکرم محمد لقمان مجوکہ صاحب نے تلاوت قرآنِ کریم اور جرمن ترجمہ پیش کیا۔ چھ ناصرات نے جرمن زبان میں ترانہ پیش کیا۔ اس کے بعد مکرم عبدالمنان ناصر صاحب ریجنل امیر ویسٹ فالن نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ شہر کے میئر کے نمائندہ جناب Franz Josef Schwak نے اپنی تقریر میں اس شہرمیں مسجد کی تعمیر پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ اس شہر میں بیسیوں ممالک کے لوگ رہتے ہیں اور ہمارے ملٹی کلچرل آفس میں آج کل اسلام کے بارہ میں بحث ہو رہی ہے۔ یہ شہر عرصہ دراز آزادی کا شہر کہلاتا ہے۔ جیسا کہ ابھی کہا گیا ہے کہ اسلام رواداری کا مذہب ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ یہ رواداری اوسنا برک میں آباد بیسیوں ممالک کے باشندوں میں باہمی تعلقات کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گی۔ اس مسجد کے دروازے خدا کی عبادت کرنے والوں کے لئے کھلے ہیں۔ یہ ایک اچھی اور مثبت روایت ہے۔ ایسی روایات سے عقیدہ کے اختلاف کے باوجود انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملتا ہے۔ اس موقع پر مکرم سعید گیسلر صاحب نے اپنی مختصر تقریر میں مسجد کی تعمیر کے مختلف مراحل اور احباب جماعت کے جذبہ خدمت اور وقارعمل کی تفاصیل سے حاضرین کو آگاہ کیا اور تین ماہ سے زائد عرصہ تک مثالی وقارِعمل کرنے والے احباب مکرم فضل محمود باجوہ صاحب، مکرم فضل احمد شاکر صاحب، مکرم خالد جاوید انجم صاحب اور مکرم عبدالعزیز صاحب میں مکرم امیر صاحب جرمنی نے تعریفی اسناد تقسیم کیں۔

اس کے بعد مکرم عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب امیر جماعت احمدیہ جرمنی نے تقریب کی اختتامی تقریر کرتے ہوئے کہا:

اس مسجد کا نام بشارت ہے اور بشارت کے معنی Gute Nachricht یعنی خوشخبری کے ہیں۔ آپ کے لئے خوشخبری یہ ہے کہ اس مسجد کے دروازے ہر اس انسان کے لئے کھلے ہیں جو خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کرنا چاہتا ہے۔ آنحضرتﷺ نے بھی مدینہ کی مسجد میں عیسائیوں کو عبادت کی اجازت دی تھی۔ یہ مسجد ممبران جماعت نے اپنے مال، وقت اور جسمانی قربانی کے نتیجہ میں محض اس جذبہ کے تحت تعمیر کی ہے کہ آپ کو خداتعالیٰ کی طرف متوجہ کیا جائے اور اب اس مسجد کے مینار آپ کو خدا کی عبادت کی یقین دہانی کرواتے رہیں گے۔ خدا ہر پکارنے والے کی مدد کرتا ہے۔ ہم حضرت مرزا غلام احمد کو مہدی معہود مانتے ہیں وہ خدا کی طرف بلانے والے اور محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں کا پیغام لے کر آئے تھے۔ آپ نے فرمایا یہ مسجد بظاہر آپ کو سادہ نظر آئے گی۔ یہ ہمارے موجودہ امام حضرت مرزا طاہر احمدصاحبؒ کی ہمیں نصیحت ہے کہ مساجد ایسی بناؤ جس کے محض نقش و نگار کو دیکھنے لوگ نہ آئیں بلکہ مساجد کی سادگی میں ایسی کشش ہو جو لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف کھینچے، لوگوں کے دل ان مساجد کو دیکھ کر نرم پڑ جائیں اور خدا کی محبت اپنے دلوں میں محسوس کرنے لگیں۔ اس خطاب کے بعد محترم امیرصاحب نے دعا کرائی۔

تقریب کے آخر پر جماعت Osnabrück کےصدر مکرم نصیر احمد خان صاحب نے تمام مہمان حاضرین جن کی تعداد 80 سے زائد تھی، کا شکریہ ادا کرتے ہوئے شام کے کھانے کی دعوت دی۔ جس پر تمام مہمانوں نے ایک ساتھ کھانا تناول کیا۔ اس موقع پر170 مختلف جماعتوں سے تشریف لائے ہوئے احباب ِجماعت شامل تھے۔ جماعت Osnabrückکے ممبران نے بہت محنت سے تمام انتظامات کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ تقریب میں مقامی جماعت کے علاوہ دیگر قریبی جماعت ہائے احمدیہ کے صدرصاحبان ودیگر عہدیداران نے بھی اس بابرکت تقریب میں شرکت کی۔

مسجد کے افتتاح کا اخبارات میں تذکرہ

مسجد کے افتتاح کے روز علاقہ کے سرکاری ریڈیو NDR نے افتتاح کی خبر کو بار بار نشرکیا۔ اس کے علاوہ دو اہم مقامی اخبارات میں تصاویر کے ساتھ تفصیلی خبر شائع ہوئی جس کا خلاصہ قارئین کی معلومات کے لئے پیش ہے۔

Osnabrücker Nachrichten نے 27 اکتوبر 2002ء کو خبر شائع کرتے ہوئے لکھا:

‘‘مسجد آپس میں مل بیٹھنے اور امن کی جگہ ہے، اسلام کا مطلب امن ہے۔ یہ اعلان امیر جماعت احمدیہ جرمنی نے مسجد بشارت کے افتتاح کے موقع پر کیا۔ بشارت عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب خوشخبری ہے۔ تین سال میں مسجد مکمل ہوئی جس کا زیادہ تر کام احمدی ممبران نے خود کیا۔ 80 مربع میٹر کا ہال ہے جس میں خوبصورت قالین بچھا ہوا ہے۔ جس کے لئے 8 ماہ انتظار کرنا پڑا’’۔ مسجد کا افتتاح ایک سماجی تقریب بن گیا تھا جس میں سیاسی، دیگر مذاہب کے لوگ اور مختلف اداروں کے نمائندگان شامل تھے۔ جناب Franz Josef نے شہر کے میئر کا پیغام پڑھ کر سنایا۔ صدر جماعت نصیر احمد خان صاحب نے کہا ‘‘جماعت احمدیہ ایک ایسی معروف تنظیم ہے جس کی مساجد کے دروازے ایک خدا کی عبادت کرنے والے ہر انسان کے لئے کھلے ہیں۔ یہاں پر خوشی سے ہر ایک کا استقبال کیا جاتا ہے۔ مسجد عبادت کے علاوہ آپس میں مل بیٹھنے کی جگہ بھی ہے’’۔

Osnabrücker Zeitung نے 28 اکتوبر 2002ء کی اشاعت میں لکھا:

130 ممبران پر مشتمل جماعت کے لئے مسجد کا افتتاح دُہری خوشی کا حامل ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کو بتایا گیا ہے کہ جو اللہ کے لئے مسجد بناتا ہے اللہ جنّت میں اس کے لئے گھر بنائے گا۔ اس مسجد کو بنانے میں بہت سارے لوگوں نے حصہ لیا۔ محبّت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں کے الفاظ پر مشتمل بینر تقریب کے موقع پر آویزاں کیا گیا تھا۔ امیر صاحب جماعت جرمنی نے بتایا کہ مسجد اللہ کی عبادت کے لئے تعمیر کی جاتی ہے۔ لیکن دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے اچھے تعلقات اُستوار کرنا مسجد کی تعمیر کے مقاصد میں شامل ہے۔ مسجد سماجی ضروریات کو بھی پوراکرنے کا ذریعہ ہے۔ پریس سیکرٹری جہاں زیب شاکر نے کہا کہ اسلام میں جماعت احمدیہ ایک اصلاحی تحریک ہے جس کو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ مل کر خوشی ہوتی ہے۔ مئیر کے نمائندہ Franz Josef Schwak نے کہا کہ اس شہر میں بیسیوں قومیتوں کے لوگ رہتے ہیں اور ہم نے سب قومیتوں کو رواداری کی یاددہانی کروانے کے لئے Tag des Westfälischen Friedens رکھا ہوا ہے۔ عبداللہ واگس ہاؤز امیر جماعت نے کہا کہ مسجد جتنی زیادہ سادہ ہوگی اتنا ہی اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھے گا۔

(بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 17 جنوری 2003ء)

مالی قربانی

یوں تو پوری جماعت نے مالی قربانی کرکے مسجد کی تعمیر میں بھرپور حصہ لیا۔ تاہم 10 افراد نےپانچ پانچ ہزار مارک سے زائد کی مالی قربانی پیش کرنے کی بھی توفیق پائی۔ مسجد کی تزئین و آرائش کے وقت مسجد کا قالین چودھری ظفر اقبال صاحب نے خرید کر پیش کیا۔ لائبریری کے لئے الماری مکرم عبدالعزیز صاحب نے خود تیار کرکے پیش کی۔ مسجد کے کچن کے اخراجات مکرم نصرت پرویز بٹ صاحب آف Bocholt نے ادا کئے۔ مسجد میں آویزاں کی جانے والی مقدس تحریروں پر مشتمل تختیوں کے اخراجات مکرم فضل محمود صاحب نے ادا کئے۔

جن احباب نے پانچ ہزار یا اس سے زائد کی ادائیگی کی ان میں مکرم رانا حفیظ احمد صاحب، مکرم رانا وسیم احمد صاحب، مکرم مشتاق احمد بیگ صاحب، مکرم چودھری ظفر اقبال صاحب، مکرم مظفر احمد صاحب، مکرم نصیر احمد خان صاحب، مکرم شفیق احمد خان صاحب، مکرم خالد محمود صاحب، مکرم افضال احمد ناصر صاحب اور مکرم فضل احمد شاکر صاحب شامل ہیں۔

خواتین میں سے محترمہ امروزیہ ناہید صاحبہ، محترمہ سکینہ بی بی صاحبہ، محترمہ خالدہ ظفر صاحبہ کو مثالی قربانی پیش کرنے کی توفیق ملی۔ (سومساجد کے مجاہدین مرتبہ شعبہ جائیداد جرمنی)

(رپورٹ صدر جماعت اوسنا برک)

خلفائے سلسلہ کی مسجد بشارت تشریف آوری

مسجد بشارت اور جماعت اوسنابرک کی خوش قسمتی ہے کہ دو خلفائے سلسلہ کا یہاں ورودِ مسعود ہوا۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ تو دورانِ تعمیر یہاں تشریف لائے اور نمازیں پڑھائیں جبکہ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس متعدد بار یہاں ورود فرما ہوئے اور کئی بار حضورِانور نے یہاں رات کا قیام بھی فرمایا۔ جس کی تفصیل جماعتی اخبارات و رسائل میں شائع ہوچکی ہے۔ ریکارڈ کی غرض سے خلفائے سلسلہ کے ورود کی تاریخوں کا یہاں بھی ذکر کیا جا رہا ہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ 31 اگست 2000ء معائنہ زیرِ تعمیر مسجد اور نماز ظہر و عصر پڑھائی۔

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ 18 مئی 2004ء، 26 ستمبر 2005ء، 11؍اکتوبر 2011ء، 4 دسمبر 2012ء، 9 جون 2015ء اور 26 اکتوبر 2019ءکو یہاں رونق افروز ہوئے۔

قطعہ زمین کی خرید

ابتداء میں مسجد بشارت اوسنابرک کے لئے دو ہزار چار(2004) مربع میٹر جگہ خریدی گئی تھی اور اس سے ملحق ایک قطعہ زمین بعض وجوہات کی بناء پر سات سو مربع میٹر جگہ چھوڑ دیا گیا تھا۔ جس کے لیے ستمبر 2019ء میں مقامی جماعت نے فیصلہ کیا کہ یہ ٹکڑا زمین بھی خرید کر اس مسجد میں شامل کر دیا جائے۔ اس پلاٹ کے حصول کے لیے مکرم ڈاکٹر ملک وسیم احمد صاحب، مکرم عمر عزیز صاحب کی ڈیوٹی لگائی گئی۔ شہر کی انتظامیہ اس پلاٹ کے 98000(اٹھانوےہزار) یورو مانگ رہی تھی۔ اس قیمت کو کم کروانے کے لیے شہر کی انتظامیہ سے ابھی گفت و شنید جاری تھی کہ 26 اکتوبر 2019ء کو حضرت خلیفۃالمسیح الخامسنے لندن جاتے ہوئے مسجد بشارت میں ایک رات قیام فرمایا۔ اس موقع پر حضورانور کی خدمت میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے دعا کی درخواست کی گئی۔ اس پر حضورانور نے فرمایا ایک لاکھ ہی تو ہے کوئی ملین تو نہیں۔ خرید لیں۔ چنانچہ حضورانور کے اس ارشاد پر 6 مئی 2021ء کو یہ قطعہ زمین بھی خرید کر مسجد بشارت کے پلاٹ میں شامل کر دیا گیا۔(رپورٹ صدر جماعت مکرم ملک نوید احمد صاحب)

متعلقہ مضمون

  • مسجد مبارک Florstadt

  • مسجد مبارک فلورشٹڈ کی افتتاحی تقریب

  • تاریخ جماعت احمدیہ اوسنابرک Osnabrück

  • تاریخ جماعت احمدیہ فلڈا Fulda