مرتبّہ: مدبّر احمد خان

گزشتہ قسط میں Martin Luther اور Reformation کی تحریک کا قدرے تفصیل سے ذکرہوا۔ لوتھر کے انجیل کے ترجمے سے اب مسیحیت کا پیغام اس وقت کی موجودہ حالت میں گھر گھر پہنچ رہا تھا۔ ہر عاقل و بالغ انسان اس پیغام کو سمجھ سکتا تھا۔ اسی وجہ سے اب لوتھر کو ہم نوا ملتے جا رہے تھے اور عوام میں اس کے حامی بڑھتے چلے جا رہے تھے۔
لیکن جیسے ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے، کہ جس تحریک میں بھی مالی فائدہ اور عوامی حمایت یکجا ہو جاتے ہیں، وہ سیاسی رنگ اختیار کرلیتی ہے۔ چنانچہ یہاں بھی ایسا ہوا۔ جو اس تحریک کا مذہبی اور علمی پہلو ہے وہ اپنی جگہ، لیکن یہاں اس کا سیاسی پہلو پیش کرنا بھی ضروری ہے۔
1520ء کی دہائی کے آغاز سے جرمنی کے نوابوں نے دیکھا کہ اوّل لوتھر کی تحریک کو بہت مقبولیت حاصل ہورہی ہے، دوسری بات انہوں نے یہ دیکھی کہ اس فرقے میں علیحدہ کلیسا کا قیام ہو رہا ہے کیونکہ رومی کیتھولک کلیسا نے تو لوتھر کی تحریک اور اس کے مطالبات کو کلیۃً رَدّ کر دیا تھا۔ اس سے انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ جب کلیسا روم سے آزاد ہو جائے گا تو گویا ملک بھی روم سے آزاد ہو جائے گا اور یوں علاقوں میں برآمد ہونے والا مال روم نہیں جایا کرے گا، رومی کیتھولک چرچ کا سیاسی عمل دخل ختم ہو جائے گا، اور علاقائی پادریوں کے مالی اخراجات سے بھی چھٹکارا حاصل ہو جائے گا جو اب آسمان کو چھونے لگے تھے۔ سو دیکھتے ہی دیکھتے لوتھر کو بہت سے نوابوں کی بھی حمایت حاصل ہو گئی۔ اس تمام تر آزادی و خود مختاری کے باوجود لوتھر شدت سے اولوالامر کی اطاعت کا قائل تھا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عوام اور غُرَبا کے حقوق پامال کیے جا رہے تھے۔ اب چونکہ عوام میں طاقت اور آزادی کا شعور پیدا ہو چکا تھا، سو اس کے نتیجے میں تنازعات کا سر اٹھانا بالکل فطری عمل تھا۔
ان تنازعات میں سے سب سے اہم تنازعہ 1525ء کی کسانوں کی جنگ تھی۔ اس جنگ کو مذہبی کشیدگی اور معاشی شکایات کی وجہ سے ہوا ملی اور اس نے پورے جرمنی میں بغاوتوں کا ایک سلسلہ چھیڑ دیا۔ کسانوں نے، جو زیادہ تر پروٹسٹنٹ تھے، سیاسی نمائندگی کا اور جاگیردارانہ مراعات کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ تاہم، بغاوت کو بالآخر کیتھولک اشرافیہ نے کچل دیا، جنہیں اپنی طاقت اور مراعات کے ضائع ہونے کا خدشہ تھا۔ اس موقعے پر لوتھر اپنے موقف پر شدت کے ساتھ قائم رہا۔ یعنی یہ کہ بغاوت کی کسی صورت میں اجازت نہیں ہے اور حکومت جس کسی کی بھی ہو اسے چاہیے کہ ایسے فتنہ پروروں کی بیخ کنی کرے، سو ایسا ہی ہوا۔
کسانوں کی جنگ کی ناکامیوں کے باوجود، Protestantismجرمنی میں پھیلتا رہا۔ در اصل لوتھر کی تعلیم ایک نئے سیاسی نظام کا پیش خیمہ تھی۔ لوتھر کی نظر میں ایک عیسائی پر اپنے حاکم کی کامل فرمانبرداری لازم تھی۔ نتیجۃً Prussia کے ایک نواب نے اس موقعے کو تاڑ لیا۔ اور اس نے اعلان کیا کہ وہ اور اس کی ریاست رومی کیتھولک چرچ سے مکمل طور پر آزاد ہے۔ اب وہاں کلیسا اور حاکم کے مابین کوئی سیاسی چپقلش یا کشمکش کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا، کیونکہ اس کی ریاست رومی کیتھولک چرچ سے آزاد ہو چکی تھی۔ مزید اس کی رعایا اس بات پر ایمان رکھتی تھی کہ اسے ہر حال میں اپنے حاکم کی فرمانبرداری کرنی ہے۔ اس کی دیکھا دیکھی اور بھی ریاستوں نے آزادی کے مطالبے کیے۔ لہٰذا 1530ء میں شہر Augsburg میں (جو آج بویریا میں واقع ہے)، نوابوں نے قیصر Charles V کے سامنے یہ مطالبہ پیش کیا کہ رومی چرچ سے ریاست مکمل طور پر آزاد ہونی چاہیے۔ Charles V کو یہ مطالبات منظور نہیں تھے۔ لہٰذا 1531ء میں ایک خاص دفاعی union کا قیام عمل میں آیا جو خالصتاً Protestant ریاستوں پر مبنی تھی۔ لیکن یہ union بھی Charles V کی فوجی طاقت کی تاب نہ لا سکی اور اسے شکستِ فاش تسلیم کرنا پڑی۔ لیکن سیاسی اور معاشی آزادی کا خواب حکام کے لیے ایسا مسحور کن تھا کہ کچھ عرصے بعد یعنی 1552ء میں یہ ریاستیں پھرمتحد ہوئیں۔ اس بار Chales V اپنی مملکت کی حدود کی حفاظت میں بہت سی لڑائیاں لڑ چکا تھا۔ اور اس مرتبہ Protestants کو فرانس کے بادشاہ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ ان دو قوتوں کے آگے ایک نسبتاً کمزور فوج کے ساتھ Charles V نے اپنے آپ کو مجبور پایا۔ اور اس نے امن کے معاہدے کی پیش کش کردی۔ (جاری ہے)

حوالہ جات:

Die kürzeste Geschichte Dutschlands, James Hawes, Ullstein 2019, Berlin
Deutsche Geschichte, Dudenverlag 2020, Berlin
Schlaglichter der deutschen Geschichte, Helmut M. Müller, bpb, Brockhaus 2002
https://www.luther2017.de/wiki/stationen-der-reformation/1555-eroeffnung-des-augsburger-reichstages-augsburger-religionsfriede/index.html

متعلقہ مضمون

  • ایک احمدی خاتون صحافی کی عدالتی کامیابی

  • تاریخ جرمنی (چھبیسویں قسط)

  • تاریخ جرمنی

  • تاریخ جرمنی (چوبیسویں قسط)