مرتبّہ: مدبّر احمد خان

بات ہو رہی تھی نپولین کی۔ نپولین نے اپنی سیاسی چالیں بہت ذہانت سے چلیں۔ Rheinbund بنا کر ان چھوٹی چھوٹی سلطنتوں کے ساتھ ایسے معاہدے کیے، جن میں نپولین کو جنگوں کے لیے نفری میسر تھی اور اس کے بدلہ میں ان چھوٹی سلطنتوں کو فرانس کی حمایت اور حفاظت۔

Prussia اس دوران غیر جانب دار رہا اور فرانس کے ساتھ امن کے معاہدے پر قائم رہا۔ لیکن جب نپولین نے 1806ء میں برطانیہ کو Hannover شہر کی پیش کش کی، جسے وہ خود ایک سال پہلے Prussia کو دے چکا تھا، تو Prussia نے اس بات کو قبول نہ کیا۔ خزاں کی آمد بہت قریب تھی اور جنگ کا وقت اب گزر چکا تھا۔ کم از کم Prussia یہی سمجھا بیٹھا تھا۔ اور اس کے ساتھ اسے اپنی فوج پر ناز اور اعتماد بھی بہت تھا۔ اس لیے Prussia نے نپولین کو وارننگ دی، کہ Rheinbund کو توڑ دے ورنہ۔

لیکن نپولین وارننگ کو شاید دعوتِ جنگ مانتا تھا، سو اس نے Prussia پر حملہ کر دیا۔ Prussia اس حملے کے لیے تیار نہیں تھا۔ روس سے مدد اتنی تیزی سے پہنچ نہیں سکتی تھی۔ خزاں کی طوفانی ہوائیں ابھی چلنا باقی تھیں، کہ نپولین کے جھکّڑ اس سے پہلے چل گئے۔ 14 اکتوبر 1806ء کو نپولین کی فوج نے Prussia کو دونوں شہروں، Auerstedt اور Jena، میں شکست دی۔ Prussia جو پورے جرمنی اور مشرقی یورپ پر حکومت کے خواب دیکھ رہا تھا، آناً فاناً بہت مختصر سا رہ گیا۔

بلکہ خود روس نے بھی ایک محاذ پر نپولین سے شکست کھائی۔ اور یوں روس اور فرانس مفاہمت کے لیے بیٹھے۔ اسے Peace of Tilsit کہا جاتا ہے۔ طے یہ پایا کہ Prussia کی سلطنت تو قائم رہے، لیکن دریائے ایلب کے مغرب میں جتنے بھی حصے اس کے زیرِ فرمان ہیں، وہ اب فرانس کے ہوں گے، پولینڈ آزاد ہوگا اور کچھ مشرقی حصے Saxony کو جائیں گے۔ Prussia اپنی حیثیت اور طاقت بالکل کھو چکا تھا۔

جرمنی کے عوام کچھ عرصہ تو نپولین سے خوش اور متاثر رہے۔ لیکن جب اس کی طرزِ سیاست کے نقصانات کا مزہ چکھا تو وہ ساری خوشی اور جذبہ مدھم پڑنے لگا۔ برطانیہ اور فرانس کی جنگ تقریباً 10 سال سے جاری تھی۔ پہلے برطانیہ نے فرانس سے تجارت بند کی۔ جب 1805ء میں فرانس برطانیہ سے جنگ مکمل طور پر ہار گیا تو فرانس نے برطانیہ پر ہر قسم کے بحری راستوں سے تجارت بند کر دی۔ یعنی اب کسی جرمن بندر گاہ پر بھی برطانیہ سے تجارت کا سامان نہیں آ سکتا تھا۔ برطانیہ نے فرانس سے اس کا بدلہ لیا۔ برطانیہ نے تمام بیرونی بحری جہازوں سے فرانس اور جرمنی کو کاٹ دیا اور بائی کاٹ کروا لیا۔ جرمن اور فرانسیسی عوام بحری تجارت سے مکمل طور پر کٹ گئے۔ وسائل میں بہت کمی آ گئی اور اجناس کی قیمتیں بہت بڑھ گئیں۔ ہاں، برطانیہ سے اب مال smuggle ہو کر آنے لگا۔ یوں ان پابندیوں کا نقصان فرانس کو تو ہوا، برطانیہ کو نہ ہوا۔

چونکہ پورے جرمنی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا، لہٰذا حکام و رعایا میں فرانس کے خلاف بغاوت کے آثار پیدا ہو چکے تھے۔ Prussia اس سارے عرصے میں غیرجانب دار رہا۔ جبکہ آسٹریا کی طرف سے مزاحمت ہوئی اور ایک دو چھوٹے پیمانے پہ جنگیں بھی ہوئیں۔ لیکن کوئی بڑی بغاوت نے سر نہ اٹھایا۔

روس اور فرانس کے درمیان جو امن کا معاہدہ ہوا تھا، اس کی دونوں طرف سے خلاف ورزی ہو چکی تھی۔ اس لیے یہ معلوم تھا کہ جنگ ناگزیر ہے۔ 1812ء میں نپولین سات لاکھ کی فوج کے ساتھ روس کی حدود تک پہنچ گیا۔ روس نے یہ حکمتِ عملی اپنائی کہ خود پیچھے ہوتا چلا گیا اور نپولین کو ان کے پیچھے پیچھے ملک کے بہت اندر تک آنا پڑا۔ موسم کی سختی اور بارشوں سے زمین کے دلدل ہو جانے کے باعث نپولین کے بہت سے فوجی ہلاک ہوئے۔ لیکن چند ایک جھڑپوں کے بعد 14 ستمبر 1812ء کو نپولین نے ماسکو کو فتح کر لیا۔روس نے اسی دن ماسکو کو خالی کردیا۔ اسی رات شہر میں آگ لگی جس سے تھوڑا بہت نقصان ہوا۔ دو راتوں بعد شہر میں بہت بڑی آگ لگی جس سے شہر، فوجی اور جانوروں کو بہت نقصان پہنچا۔ نپولین نے اس آگ کی ذمہ داری ماسکو کے گورنر پر ڈالی۔ نپولین ماسکو ہی میں رہا اور انتظار کرتا رہا کہ زار کی طرف سے کوئی پیشکش آئے گی۔ جب ایسا نہ ہوا تو نپولین نے خود معاہدے کی پیش کش کی اور بار بار کی۔ لیکن زار کی طرف سے واضح الفاظ میں انکار ملا۔ آخر نپولین نے واپسی کا فیصلہ کر لیا۔ اس کی واپسی کو روسی افواج نے مختلف مقامات پر مشکل بنانے کی بھرپور کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب ہوئے۔ جب تقریباً دو ماہ میں ماسکو سے پیرس کا سفر طے کرکے نپولین واپس پہنچا تو اس کی فوج بہت مختصر سی رہ گئی تھی۔ اسے اپنی فوج نئے سرے سے کھڑی کرنا تھی۔ کچھ جاتے ہوئے، کچھ جنگ میں، کچھ واپسی میں، کچھ بھوک سے، کچھ آگ سے، کچھ دلدل میں، کچھ بیماریوں سے موت کے گھاٹ اتر گئے۔ (جاری ہے)

حوالہ جات:

Die kürzeste Geschichte Dutschlands, James Hawes, Ullstein 2019, Berlin

Schlaglichter der deutschen Geschichte, Helmut M. Müller, bpb, Brockhaus 2002

(اخبار احمدیہ جرمنی اپریل 2024ء صفحہ26)

متعلقہ مضمون

  • ایک احمدی خاتون صحافی کی عدالتی کامیابی

  • تاریخ جرمنی (چھبیسویں قسط)

  • تاریخ جرمنی

  • تاریخ جرمنی (چوبیسویں قسط)