مرتبّہ: مدبّر احمد خان

Reformation کی تحریک اور اس کے اثرات کے بعد، یعنی 1555ء کے بعد نصف صدی امن میں گزری۔ لیکن جیسا کہ اکثر ہوتا ہے، امن سطح پر تھا اور دَرپردہ چپقلشوں کا آغاز ہو چکا تھا۔
یورپ میں سیاسی کشمکش انتہا پر تھی۔ امریکا کی دریافت کے بعد سے معاشی بالادستی سمندروں پر طے پانے لگی تھی۔ جرمنی گو براہِ راست اس کا حصہ نہ تھا، لیکن یورپ کے وسط میں ہونے کے باعث جرمنی اور یورپ کا ایک دوسرے سے متأثر ہونا بالکل فطری تھا۔صورتِ حال یہ تھی کہ آدھا جرمنی کیتھولک تھا اور آدھا جرمنی پروٹیسٹنٹ۔ اسی طرح کچھ یورپی سلطنتوں میں پروٹیسٹنٹ ازم پھیل چکا تھا۔
آپ کو یاد ہوگا کہ Holy Roman Empire of the German Nation اپنا قیصر Electroral College کے ذریعے منتخب کرتی تھی جس میں سات prince-electors اپنے اپنے علاقوں کی نمائندگی میں رائے دیتے تھے۔ سات میں سے تین علاقے کیتھولک تھے اور تین علاقے پروٹیسٹنٹ۔ ایک علاقہ Bohemia کا تھا جو کم و بیش آج کا Czech Republic کا علاقہ ہے۔ Bohemia کی آبادی پروٹیسٹنٹ تھی۔ اس کے بالا دست طبقے اب کیتھولک کلیسا سے آزاد ہونا چاہتے تھے۔ جبکہ ان پر حکومت Habsburg خاندان کی تھی جو لمبے عرصے سے قیصریت پر بھی فائز تھا۔مذہبی آزادی کے معاہدے کے برخلاف Habsburger قیصر Ferdinand IIبوہیمیا کے پروٹیسٹنٹس کو دبا کر رکھنا چاہتا تھا۔ کیونکہ بوہیمیا اگر پروٹیسٹنٹس کے حق میں ووٹ دیتا تو اگلا قیصر پروٹیسٹنٹ ہوتا اور کیتھولک تسلط جرمنی پر بہت کمزور پڑ جاتا۔
کچھ سیاسی ناہمواریوں کی وجہ سے جرمن علاقے اندرونی طور پر بھی اور بیرونی طور پر بھی عسکری تعاون ڈھونڈ رہے تھے۔ اسی طرح یورپی طاقتیں بھی سیاسی اور معاشی کشمکش کے باعث جرمن علاقوں کے ساتھ اپنے اپنے مفاد کے مطابق جُڑ رہی تھیں۔ یعنی، کچھ پروٹیسٹنٹ علاقوں کے عسکری حمایتی تھے اور کچھ کیتھولک علاقوں کے۔
یہ نقشہ بتاتا ہے کہ حالات جنگ کے دہانے پر تھے۔ سنہ 1618ء میں اس کھولتی ہوئی دیگ کا ڈھکن آخر اُڑ گیا۔ بوہیمیا کے شہر پراگ میں ایک ملاقات کے دوران بوہیمیا کے نواب زادوں نے Habsburger قیصر Ferdinand II کے بھیجے ہوئے نمائندوں کو کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ ان نمائندوں کو تو صرف خراشیں آئیں لیکن اس تاریخی تضحیک نے جرمنی کو اس جنگ میں جھونک دیا جس کے دہانے پر وہ دیر سے کھڑا تھا۔ بوہیمیا کے نوابوں نے Pfalz کے پروٹیسٹنٹ Prince Elector کو اپنا حاکم بنا لیا تو باقی پروٹیسٹنٹ علاقے اس کی مدد کو نہ آئے۔ نہ صرف بوہیمیا اس کے ہاتھ سے نکل گیا بلکہ Pfalz میں بھی Habsburger قیصر قابض ہو گیا۔جب Ferdinand II شمال کی طرف آگے بڑھنے لگا تو Denmark اپنی حدود کو بچانے کی خاطر جنگ میں کود پڑا۔ لیکن اسے بھی شکست ہوئی۔ 1630ء تک آثار ایسے تھے کہ جلد ہی کیتھولک جرمنی مکمل مملکت پر اپنا تسلط قائم کر لے گا، لیکن جب یہ مزید شمال مشرق کی طرف بڑھنے لگے تو سویڈن لڑائی کے لیے نکل آیا۔ ساتھ ہی فرانس جو جرمنی کا دیرینہ دشمن تھا، سویڈن کا مدد گار بن گیا تاکہ Habsburg کی طاقت حد سے زیادہ مضبوط نہ ہو جائے۔ سویڈن کا بادشاہ پہلی مرتبہ بندوقوں سے مسلح افواج لے کر نکلا اور بویریا تک پہنچ گیا لیکن جنگ میں وہ خود مارا گیا۔ اس واقعے کے بعد 1634ء میں فرانس اس جنگ میں کود پڑا۔ اب یہ جنگ فرانس اور سویڈن کے گٹھ جوڑ اور Habsburger خاندان کے درمیان تھی۔ اور اس جنگ کا میدان جرمنی تھا۔ یہ جنگ مزید چودہ سال اور کل تیس سال تک جاری رہی، یعنی 1648ء تک۔ جب Habsburger اور سویڈن فرانس کے گٹھ جوڑ میں طویل جنگ کے بعد بھی کوئی فاتح نہ ہو سکا اور دونوں فریقین کی افواج تھک ہار چکی تھیں تو آخر کار امن کا معاہدہ طے پایا جسے Peace of Westphalia کہا جاتا ہے۔
جرمنی کے عوام پر یہ وقت کیسا ہول ناک تھا اس کا تصور بھی ممکن نہیں۔ جرمنی میں اب نہ تجارت تھی، نہ کاشت کاری۔ صرف بھوک، موت اور بیماری تھی۔ جرمنی کی آبادی کا ایک تہائی حصہ اس موجِ اجل کا شکار ہوا۔ اس تیس سالہ جنگ نے جرمنی کے شہروں کو ویران کر دیا۔ شہر Magdeburg کی آبادی تیس ہزار ہوا کرتی تھی، لیکن جنگ کے بعد اس کی آبادی صرف چار سو پچاس رہ گئی۔
(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

  • ایک احمدی خاتون صحافی کی عدالتی کامیابی

  • تاریخ جرمنی (چھبیسویں قسط)

  • تاریخ جرمنی

  • تاریخ جرمنی (چوبیسویں قسط)