پندرہویں اور سولہویں صدی عیسوی کے احوال کا تذکرہ جاری ہے۔ دَر اصل ان دو صدیوں میں اتنے بڑے واقعات جرمنی بلکہ یورپ بھر میں پیش آئے کہ لاکھ اختصار سے کام لینے کے باوجود انہیں ایک دو قسطوں میں نپٹانا ممکن نہیں ہے۔ بارہویں قسط میں ہم نےضمناً اس بات کا ذکر کیا تھا کہ کلیسا بلکہ Catholic Church سے متعلق عوام میں غصے اور نا خوشگواری کے جذبات پائے جاتے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ کلیسا کا سیاسی کردار اور حد سے بڑھے ہوئے اخراجات تھے۔ جگہ جگہ بڑے بڑے اور بےحد مہنگے کلیسا بنوائے جا رہے تھے جن کی تعمیر اور دیکھ بھال میں بہت زیادہ پیسہ خرچ ہوتا تھا۔ اسی طرح سارے عملہ کے اخراجات بھی اٹھانا تھے۔ اور ان سب اخراجات کا بوجھ عوام کے کاندھوں پر لاد دیا جاتا تھا۔ اب عوام سے مختلف طریقوں پر رقوم جمع کی جاتی تھیں۔ ان میں سب سے قابلِ ذکر ذریعہ آمدن معافی ناموں کا جاری کرنا تھا۔
چرچ کی تعلیم یوں تھی کہ انسان اپنے کردہ گناہوں کی سزا یعنی دوزخ کی آگ کا مستحق ہے۔ ہر وہ انسان جو نجات چاہتا ہے اسے توبہ کے ساتھ ساتھ کلیسا کو چندہ دے کر اپنی نجات اور گناہوں کی معافی حاصل کرنا ہے۔ کیونکہ کلیسا حضرت عیسیٰؑ کی اس دنیا میں نمائندہ ہے۔ جب کلیسا کی مالی ضروریات بڑھتی گئیں تو معافی ناموں میں بھی وسعت پیدا ہوتی گئی۔ اب انسان نہ صرف اپنے گناہوں کے لیے معافی نامے حاصل کر سکتا تھا بلکہ اپنے مرحوم اعزاء کے لیے بھی۔ اَور تو اَور اب اسے یہ بھی تاکید تھی کہ وہ اپنے ان گناہوں کی بھی معافی حاصل کرلے جو وہ مستقبل میں کرے گا، کیونکہ کیامعلوم کل ان گناہوں کی تلافی کے لیے معافی نامے کا خرچہ اٹھانے کی سکت اس میں ہونہ ہو۔ یعنی غالبؔ جن ناکردہ گناہوں کی حسرت کے لیے خدا سے دادطلب تھے، کلیسا ان نا کردہ گناہوں پر معاوضے کا خواست گار۔ نیز کلیسا کے مختلف عہدیداروں کی طرف سے مالی بدعنوانیاں بھی عوام کے سامنے آتی جا رہی تھیں۔ مثال کے طور پر 1517ء میں Brandenburg میں جو رقوم جمع کی گئیں انہیں St. Peter’s Basilica پر خرچ کرنا تھا۔ لیکن چونکہ Bishop Albrecht نے سیاسی عہدوں کی خاطر اتنی رشوتیں دی تھیں کہ اب وہ قرض میں ڈوب چکا تھا۔ اس لیے چندے کی رقم کا بہت سا حصہ Bishop کے ہاتھوں میں آگیا اور یہ بات عوام میں پھیل گئی۔
القصہ عوام میں کلیسا کے خلاف شدید غم و غصّہ تھا، لیکن مذہب سے ناواقفیت کے باعث ان کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ انہیں مذہب کا وہی علم تھا جو انہیں سکھایا جاتا تھا۔ ابھی تک بائبل کا عوامی زبان میں ترجمہ بھی موجود نہ تھا۔ سو خدا کے غضب کے خوف سے وہ اپنے آپ کو مجبور پاتے تھے۔
عوام کے جذبات اور خیالات کو گاہے بگاہے آواز بھی ملی۔ جرمنی کےشہر Frankfurt میں 1456ء میں کئی ایسے تنقیدی نکات جن کا ذکر اوپر آیا ہے، پہلی مرتبہ پڑھ کر سنائے گئے۔ اور ہر سال پوپ کے لیے کلیسا کے عہدیداروں کو پیش کیے جاتے رہے۔ لیکن اس کا کوئی نتیجہ سامنے نہ آ سکا۔ اس تحریک میں خود دوسرے دینی علماء شامل تھے جو کلیسا کےرویوں سے سخت ناخوش تھے۔ ان دینی علماء کا مقصد اس تنقید سے کلیسا کی اصلاح تھی نہ کہ بغاوت۔
اس سارے پس منظر کا ذکر اس لیے ضروری تھا کہ Martin Luther کی تحریر و تقریر سے جو Reformation کی تحریک پیدا ہوئی، اس کی تیاری ان واقعات سے ہو رہی تھی۔ Humanism کا فلسفہ، سائنسی ترقیات، طباعت کے ذرائع، کلیسا کے خلاف عوامی جذبات، کلیسا کا سیاسی کردار اور کلیسا کے اصلاح کی مختلف تحریکیں (ایک تحریک کا ذکر بارہویں قسط میں بھی ہوا تھا)، یہ سب گویا Reformation کا پیش خیمہ تھیں۔
اور خود Martin Luther نے بھی اپنی تنقید میں پہلے سے موجود اصلاح کی کوششوں کا حوالہ دیا ہے۔ Reformation جرمنی کی تاریخ کے لیے بالخصوص اہمیت کی حامل ہے۔ کیونکہ یہ تحریک جرمنی سے اُٹھی۔ لیکن شاید اس کی کامیابی کے لیے اس کا جرمنی میں اُٹھنا ہی ضروری تھا کیونکہ جرمنی پر جو اثر و تسلط کلیسا کا تھا وہ یورپ کے بقیہ مغربی حصے میں نہیں تھا۔ اگلی قسط میں اب ہم باقاعدہ Martin Luther کی شخصیت اور Reformation کے آغاز کا تذکرہ کریں گے، ان شاءاللہ۔ (جاری ہے)
حوالہ جات:
Die kürzeste Geschichte Dutschlands, James Hawes, Ullstein 2019, Berlin
Deutsche Geschichte, Dudenverlag 2020, Berlin
Schlaglichter der deutschen Geschichte, Helmut M. Müller, bpb, Brockhaus 2002

متعلقہ مضمون

  • ایک احمدی خاتون صحافی کی عدالتی کامیابی

  • تاریخ جرمنی (چھبیسویں قسط)

  • تاریخ جرمنی

  • تاریخ جرمنی (چوبیسویں قسط)