جنگ عظیم دوئم (1939-1945) میں پہلی مرتبہ ایٹم میں چھپی طاقت کو جنگ کے لئے استعمال کیا گیا۔ امریکہ نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی میں بالترتیب 6 اور 9 اگست 1945ء کو تاریخ انسانیت کے سب سے بھیانک اور جان لیوا تجربات کئے۔ الَّتِيۡ تَطَّلِعُ عَلَي الۡاَفۡـِٕدَةِ (ترجمہ، جو دلوں پر لپکے گی، الھمزہ:8) میں بیان فرمودوہ دلوں پر لپکنے والی ایٹمی آگ نے لاکھوں دھڑکتے دل آن واحد میں روک دیئے۔ جو انسان بچ گئے ان پر ایٹمی تابکاری یوں اثر انداز ہوئی کہ ان کی آئندہ نسلوں میں اپاہج بچے جنم لیتے رہے۔ یوں پہلی مرتبہ دنیا نے ایٹم میں چھپی طاقت کا منفی استعمال دیکھا اور طاقتور ممالک میں ایٹمی ہتھیاروں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ شروع ہوگئی۔

قارئین کرام! جس طرح ڈائنامائیٹ کے موجد الفریڈنوبل نے اپنے ایجاد کے غلط استعمال کو دیکھ کر خدمتِ انسانیت کے لئے نوبل انعام کا اجرا کیا بعینٖہ دوسری جنگ عظیم کی تباہیوں کو دیکھ کر یورپ اور امریکہ کے چند سائنسدانوں نے ایسی تجربہ گاہ بنانے کا فیصلہ کیا جس میں ایسی نیوکلیئر ریسرچ ہو جو بنی نوع انسان کے لئے فائدہ مند ہو۔ اور جو جنگ عظیم دوئم کے دوران یورپ کے سائنسدانوں کی امریکہ نقل مکانی کے باعث پیدا ہونے والے خلا کو بھی پُر کرسکے اور یورپ میں سائنسی تحقیق کی ساکھ کو بحال کرسکے۔

چنانچہ 1949ء میں اٹلی کے شہر فلورنس میں منعقدہ UNESCO (United Nations Educational, Scientific and Cultural Organization) کانفرنس میں پہلی مرتبہ نیوکلیئر ریسرچ کے لئے یورپی لیبارٹری کا تصور پیش کیا گیا جسے بعدازاں ہونے والی میٹنگز اور کانفرنسز میں عملی جامہ پہنایاگیا۔ بالآخر یہ کوششیں 29 ستمبر 1957ء کو بارآور ہوئیں اور CERN کےمعاہدہ پر درج ذیل 12 یورپی ممالک نے دستخط کردئے۔

جرمنی، بیلجیئم، ہالینڈ، فرانس، اٹلی، یونان، ڈنمارک، ناروے، سویڈن، سوئٹزرلینڈ، برطانیہ، یوگوسلاویہ

CERN فرنچ زبان میں Conseil Européen pour la Recherche Nucléaire (The European Organization for Nuclear Research) کا مخفف ہے اور یہ تحقیقاتی مرکز سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں قائم کیا گیا۔ آغاز میں سرن نے اپنی توجہ نیوکلیئر ریسرچ پر مرکوز رکھی جو بعدازاں پارٹیکل فزکس یعنی کائنات کی تخلیق میں حصہ لینے والے بنیادی ذرّات کے مطالعہ میں بدل گئی۔ فرانس اور سوئٹزرلینڈ کی حدود میں قائم پارٹیکل فزکس کی دنیا بھر میں سب سے بڑی لیب ہے۔ اس ریسرچ لیب نے یکے بعد دیگرے سائنسی نظریات کو تجربات کی روشنی میں ثابت کرنا شروع کیا، کائنات کے رازوں سے ایک کے بعد دوسرا پردہ اٹھایا اور جلد ہی سائنس کی دنیا میں منفرد مقام بنا لیا۔ بگ بینگ کےمعاً بعد ایٹمز نے کیسے وزن حاصل کیا، ایٹمز کے اندر پارٹیکلز کو کن قوتوں نے باہم جوڑے رکھا اور اس طرح کے بہت سے علوم جان کر گویا زمین و آسمان کے پیدائش کے اندھیروں سے پردہ اٹھا دیا اور وَاِذَا السَّمَآءُ کُشِطَت۔(التکویر:12) یعنی اور جب آسمان کی کھال ادھیڑ دی جائے گی کا نظارہ دنیا کو دکھا دیا۔

قارئین کرام! آئیں سرن سے متعلق چند حقائق کو عام فہم انداز میں سمجھنے کی کوشش کریں۔

کوئی چیز کیسے کام کرتی ہےیہ جاننے کے لئے جن اجزا سے وہ ترتیب دی گئی ہے ان کا علم ہونا ضروری ہے، وہ کیا ہیں، باہم کیسے ملے ہوئے ہیں وغیرہ۔ اجزا کے علم کے لئے ظاہر ہے اس مرکب کو توڑکر انہیں علیحدہ کرنا ہوگا۔ مثلاً ایک کار کیسے کام کرتی ہے اسے جاننے کے لئے اگر ہم اس کے پہیے، انجن اور دیگر پرزے وغیرہ علیحدہ کر دیں تو سمجھنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ اسے سائنسی اصطلاح میں Reverse Engineering کہتے ہیں۔ ایک کار یا ہوائی جہاز وغیرہ کی ریورس انجینئرنگ آسان ہے۔ اس کے پُرزوں کو کن قوتوں نے باہم جوڑ کر رکھا ہے، کون سی گوند استعمال ہوئی ہے وغیرہ۔ مگر ایٹمز کا کیا کریں۔ ایٹم جو مادہ کی بنیادی اینٹ ہے اور بذات خود Subatomic Particles پر مشتمل ہے۔ کار کے پیچ تو کھولے جا سکتے ہیں۔ مگر ایٹمز یا ایٹم کے ذرّات کو کھولنے کا سائنسدانوں نے یہ حل نکالا کہ انہیں روشنی کی رفتار سے مخالف سمت دوڑا کر باہم ٹکڑا دیا جائے۔ یوں وہ اپنے بنیادی ذرّات میں بکھر جائیں اور جدید Detectors کی مدد سے انہیں شناخت کرکے کائنات کے پوشیدہ رازوں سے پردہ اٹھایا جائے۔

پارٹیکل ایکسیلریٹر، سنکروسائیکلوٹران

آپ میں سے اکثر نے بچپن میں مشاہدہ کیا ہوگا کہ کہ مضبوط دھاگہ سےپتھر باندھ کر اسے دو تین دفعہ چکر دلا کر پھینکا جائے تو پتھر زیادہ رفتار سے اور دور تک سفر کرتا ہے۔ خلا میں بھیجے جانے والےراکٹس بھی اسی اصول کے تحت زمین کے گرد چکر لگاتے ہوئے اپنی رفتار میں اضافہ کرتےہوئے کشش ثقل سے آزاد ہو کر دور دراز خلا میں پہنچ جاتے ہیں۔ گو اس مثال کا اطلاق پوری طرح سنکروسائیکلوٹران (Synchrocyclotron) پر تو نہیں ہوتا مگر ایٹمی ذرّات کی سنکروسائیکلوٹران میں رفتار دینے کےعمل کو اس مثال کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے۔

ایٹمی ذرّات بشمول الیکٹران، پروٹان وغیرہ کو مصنوعی خلا Vaccum میں روشنی کی رفتار پر دوڑانے کے لئے سائنسدانوں نے گول دائروں کی شکل میں Accelerator بنائے جنہیں سنکروسائیکلوٹران کہتے ہیں۔ سرن میں سب سے پہلا سنکروسائیکلوٹران 1957ء میں نصب کیا گیا جس کے بعد ایک سے بڑھ کر ایک اور پہلے سے طاقتور کئی سنکروسائیکلوٹرانز سرن کی زینت بنتے چلے گئے جو بالآخر 10 ستمبر 2008ء کو دنیا کے سب سے بڑے اور طاقتور ایکسیلریٹر Large Hadron Collider پر منتج ہوئے۔

لارج ہیڈرون کولائیڈر

لارج ہیڈرون کولائیڈر Large Hadron Collider ستائیس کلومیٹر پر محیط گول دائرے میں لگی ہزاروں مشینوں، مقناطیسوں اور برقی آلات کا تسلسل ہے جو پروٹانز کو روشنی کی رفتار کے قریب قریب دھکیل کر آپس میں ٹکرا دیتی ہیں۔ روشنی کی رفتار دو لاکھ ننانوے ہزار کلومیٹر فی سیکنڈ ہے۔ کوئی مادی چیز اس رفتار کی کنہ کو بھی نہیں پہنچ سکتی۔ یہ اس قدر زیادہ رفتار ہے کہ بفرضِ محال اگر اس رفتار سے سفر کریں تو ایک سیکنڈ میں ہم زمین کے گرد ساڑھے سات چکر لگا سکتے ہیں، ایک سیکنڈ میں چاند پر جبکہ آٹھ منٹ سترہ سیکنڈ میں سورج پر پہنچ سکتے ہیں۔ یہاں یہ ذکر بےجا نہ ہوگا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی کائنات اس قدر وسیع ہے کہ روشنی پر بیٹھ کر سفر کیا جائے تب بھی ہمیں اب تک کی معلوم کائنات کے ورلے کنارے پہنچنے کے لئے ساڑھے چھیالس ارب سال چاہئیں۔

پروٹانز ایٹمی ذرّات کے جس گروپ سے تعلق رکھتے ہیں اسے ہیڈرون کہتے ہیں۔ اسی وجہ سے اسے لارج ہیڈرون کولائیڈر کا نام دیا گیا ہے۔ یہ زمین کے اندر 100میٹر کی گہرائی میں نصب ہے۔ زیر زمین گہرائی میں یہ سائنسی آلات نصب کرنے کی کئی وجوہات ہے ہیں۔ ظاہر ہے ان تجربات سے تابکاری شعاعیں بھی پیدا ہوتی ہیں جو حیاتیات بشمول نباتات، جانور، انسان سب کے لئے مہلک ہیں۔ زمین کی تہیں اس تابکاری کو جذب کرلیتی ہیں اور سطح زمین پر نہیں آنے دیتیں۔ اسی طرح سطح زمین پر موجود شور اور برقی آلات کی مداخلت سے بچنے کے لئے بھی یہ گہرائی ممد ثابت ہوتی ہے۔

قارئین کرام! سرن ایکسیلریٹر کمپلیکس میں موجود مشینوں کو باہم یوں ربط دیا گیا ہے کہ ہر مشین توانائی کے اعتبار سے پہلے کی نسبت زیادہ قوی ہے۔ ہرمشین ذرّات کو ایک مخصوص رفتار پر لا کر اگلی مشین کے سپرد کر دیتی ہے۔ یہ مشین انہیں مزید رفتار مہیا کرکے اگلی کے حوالے کرتی ہے اور یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہتا ہے یہاں تک کہ یہ ذرّات اس کمپلیکس کے سب سے آخری حصہ یعنی لارج ہیڈرون کولائیڈر میں پہنچ کر روشنی کی رفتار سے سفر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ لارج ہیڈرون کولائیڈر کے اندر ذرّات دو مختلف ٹیوبز میں سفر کرتے ہیں جن میں ان ذرّات کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا یعنی Ultra high vacuum، جہاں ہوا یا دوسری کسی اور شئے کا شائبہ تک نہ ہو مبادا ان سے ٹکرا کر یہ ذرّات اپنی منزل تک ہی نہ پہنچ سکیں۔

ذرّات کو ٹریک پر رکھنےکا چیلنج

ایکسیلریٹرز الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ کی مدد سے ذرّات کو رفتار دیتے اور انہیں گائیڈ کرتے ہیں۔ الیکٹرک فیلڈ کا کام ذرّات کو رفتار دینا جبکہ میگنیٹک فیلڈ کا کام انہیں گائیڈ کرنا ہے۔ جس قدر ذرّات کی رفتار زیادہ ہوتی ہے اتنا ہی انہیں گائیڈ کرنا مشکل ہے۔ اس لئے لارج ہیڈرون کولائیڈر میں جس میں ذرّات روشنی کی رفتار سے حرکت کر رہے ہوتے ہیں انہیں قابو میں رکھنے کے لئے ساڑھے نو ہزار نہایت طاقتور سپر کنڈکٹنگ مقناطیس ہیں جو ان ٹیوبز کے اردگرد نصب ہیں جن میں سے ذرّات نے گزرنا ہے۔ اگر یہ نہ ہوں تو ذرّات راستے ہی میں ٹیوبز کی دیواروں سے ٹکرا جائیں۔ یہ مقناطیس سپر کنڈکٹرز ہیں، جس کے لئے انہیں ہیلیم کی مدد سے منفی 271.3 ڈگری سیلسیس کے انتہائی کم درجہ حرارت پر رکھا جاتا ہے۔ سائنسدان کمپیوٹرز کی مدد سے ان ہزاروں مختلف سائز اور نوعیت کے برقی مقناطیسوں کی طاقت میں معمولی ردّ و بدل کرکے ان ذرّات کو ان کی منزل تک گائیڈ کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ مقناطیس ذرّات کو موڑنے کا کام کرتے ہیں، کچھ کا کام ذرّات کو فوکس کرنا ہے۔ اور تصادم سے قبل ایک اور قسم کے مقناطیس ہیں جو ذرّات کو Squeeze کرکے باہم بہت قریب لے آتے ہیں تاکہ مخالف سمت سے آتے ذرّات کے ساتھ تصادم کے امکانات کو بڑھایا جاسکے۔ اس قدر چھوٹے ہونے کے باعث ان کے باہم ٹکراؤ کا امکان ایسا ہی ہے کہ دس کلومیٹرز کے فاصلے سے دو سوئیوں کو اس مہارت سے پھینکا جائے کہ وہ باہم ٹکرا جائیں۔ LHC میں ذرّات کے مابین یہ تصادم چار مختلف مقامات پر ہوتا ہے۔ اس تصادم سےوہ وزنی ذرّات بھی پیدا ہوتے ہیں جو تخلیق کائنات کی ابتدامیں پیدا ہوئے تھے اور جن کی زندگی اس قدر کم ہے کہ یہ پیدا ہوتے ساتھ ہی ٹوٹ (decay) کر دوسرے ذرّات میں بدل جاتے ہیں۔ اس لئے انہیں Detect کرنے کے لئے ان چار مقامات پر نہایت حسّاس ڈیٹکٹرز موجود ہیں۔

یہاں یہ ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ کائنات کے معرض وجود میں آنے سے متعلق سب سے زیادہ مستند نظریہ Big Bang ہے۔ جس کے مطابق کائنات ایک غیرمعمولی طور پر چھوٹے سے ذرّے میں بند تھی، جو ایک بڑے دھماکے سے پھٹا جسے بگ بینگ کہتے ہیں۔ دنیا کے تمام ساحلوں اور ریگستانوں پر موجود ریت کے ذرّات سے زیادہ ستارے اسی چھوٹے سے ذرّے کے پھٹنے سے وجود میں آئے۔ اس دھماکے سے پیدا ہونے والی آواز کی باقیات کو سائنسدانوں نے detect کرلیا ہے اور اس شور کا کچھ مشاہدہ آپ نے بھی پرانے ٹیلی ویژن پر کیا ہوگا۔ آج سے پچیس تیس سال قبل انٹینا کو ادھر اُدھر گھما کر چینل تلاش کیے جانے کے دوران پرانے ٹیلی ویژن کی سکرین پر جو شور (Static) سُنا جاتا تھا اس کا ایک فیصد اسی دھماکے کی باقیات (Cosmic Microwave Background Radiation) ہیں جو 13.8 ارب سال پہلے وقوع پذیر بگ بینگ کی بچی کھچی Electromagnetic Radiations ہیں۔ قرآن کریم واحد الہامی کتاب ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے بڑی وضاحت سے اس بگ بینگ کا ذکر فرما دیا۔ اَوَلَمۡ یَرَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ کَانَتَا رَتۡقًا فَفَتَقۡنٰہُمَا۔ یعنی کیا انہوں نے دیکھا نہیں جنہوں نے کفر کیا کہ آسمان اور زمین دونوں مضبوطی سے بند تھے پھر ہم نے ان کو پھاڑ کر الگ کر دیا۔ (الانبیاء:31)

حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے اس آیت کے حوالہ سے ایک نہایت دلچسپ نکتہ بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں جو کفار کو مخاطب کیا ہے اس ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کائنات کی پیدائش سے متعلق یہ دریافتیں کفار کے ہاتھوں ہونا تھیں۔ اہلِ مغرب کا گو قرآن کریم پر ایمان تو نہیں مگر سائنسی تحقیقات کے حوالہ سے عملی طور پر قرآن مجید کی تعلیم ہی کی پیروی کرتے ہوئے مذکورہ بالا رازوں سے پردہ اُٹھا رہے ہیں۔

چند بڑے کارنامے

قارئین کرام! کائنات میں چار بنیادی قوتوں میں سے دو یعنی الیکٹرومیگنیٹک فورس اور ویک نیوکلیئر فورس کو ایک ثابت کرنے پر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو دیگر دو سائنسدانوں کے ساتھ 1979ء میں فزکس کا نوبل انعام دیا گیا۔ یہ اس قدر عظیم کارنامہ تھا کہ اس نے بوزون کی دریافت کی راہ ہموار کی۔

روشنی ایلیکٹرومیگنیٹک فورس جبکہ بوزون ویک نیوکلئیر فورس کے حامل ہیں۔ سائنسدانوں کے نزدیک یہ سوال حل طلب تھا کہ کیا وجہ ہے کہ روشنی کے ذرّات فوٹانز کا کچھ وزن نہیں جبکہ بوزون بہت وزنی ہیں۔ اس ضمن میں Peter Higgs نے نظریہ پیش کیا کہ دراصل بوزون کے Higgs Field کے ساتھ تعلق کی وجہ سے انہیں وزن ملتا ہے۔ کائنات کے معرض وجود میں آنے کے چند سیکنڈ کے اندر پارٹیکلز نے وزن حاصل کیا۔ اس سے قبل کائنات کا ہر ذرہ بغیر وزن کے تھا اور روشنی کی رفتار سے سفر کر رہا تھا۔ دس سے بارہ سیکنڈ کے بعد جب کائنات پھیل گئی اور کچھ ٹھنڈی ہوئی تو پارٹیکلز نے وزن حاصل کیا۔ Higgs Mechanism کے مطابق جتنا کوئی پارٹیکل ہگز فیلڈ سے زیادہ تعلق رکھے گا اتنا اس کا وزن زیادہ ہوگا۔ روحانی دنیا میں اس کی مثال یوں ہے کہ جس قدر انسان خداتعالیٰ سے زیادہ تعلق پکڑے اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنی اس کی اہمیت، عزّت اور وزن زیادہ ہوتا ہے۔

اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللہِ اَتۡقٰکُمۡؕ

(ترجمہ: بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متّقی ہے، الحجرات:13)

جولائی 2012ء میں سرن میں دریافت ہونے والے Higgs Boson کو بعض سائنسدان اس صدی کی سب سے بڑی دریافت قرار دیتے ہیں۔ یہ ستارے، کہکشائیں اور ہماری زمین تبھی وجود میں آئی جب پارٹیکلز کو وزن ملا۔ اس کے بغیر تو سب روشنی ہی تھے۔ اصل میں ہگز بوزون پارٹیکل فزکس کے اسٹینڈرڈ ماڈل کی آخری گتھی تھی جسے سرن نے سلجھا دیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس میگا ریسرچ پراجیکٹ میں جن سائنسدانوں نے تحقیق میں حصہ لیا ان میں سے ایک ہماری احمدی سائنسدان بہن ڈاکٹر منصورہ شمیم صاحبہ بھی ہیں جو تا دمِ تحریر سرن میں تحقیق کر رہی ہیں۔

بہت سے مزید سائنسی کارناموں کے علاوہ میڈیکل امیجنگ میں استعمال ہونے والی CT Scan کے آغاز کا سہرہ بھی سرن کے سر پر ہے۔ اسی طرح سرن کے ایک سائنسدان Tim Berners-Lee نے 1989ء میں دنیا بھر کے سائنسدانوں کے مابین معلومات کے تبادلہ کو آسان بنانے کے لئے ورلڈ وائیڈ ویب ایجاد کی۔ 1990ء اس کا پہلا ورژن تیار کرلیا جس نے کمیونیکیشن کی دنیا میں حیرت انگیز انقلاب برپا کردیا۔

اختتامیہ

اب سرن کی انتظامیہ اور سائنسدان LHC سے بھی بڑا اور طاقت میں تیس گنہ زیادہ کولائیڈر بنانے کافیصلہ کرچکے ہیں۔ اسے فیوچر سرکلر کولائیڈر Future Circular Collider کا نام دیا گیا ہے۔ اس کا محیط (Circumference) 90.7 کلومیٹر ہوگا اور یہ فرانس اور سوئٹزرلینڈ کے علاقے میں جنیوا جھیل کے نیچے بنے گی۔ اس کی گہرائی ایک سو سے چارسو میٹر متوقع ہے۔ اس کی تعمیر کا آغاز 2035ء میں ہوگا اور قریباً 2045ء میں یہ کام کرنا شروع کردے گا۔

قارئین کرام! ضرورت اس امر کی ہے کہ احمدی والدین شروع ہی سے اپنے بچوں میں حصول علم اور تحقیق کا شعور پیدا کریں تاکہ آئندہ ہونے والی سائنسی ترقیات میں احمدی سائنسدان ہوں جو علم و معرفت میں کمال حاصل کرکے خدمت انسانیت کے ہر شعبہ میں پیش پیش ہوں۔

حوالہ جات: مضمون کی تیاری میں درج ذیل ویب سائٹس سے استفادہ کیا گیا ہے۔

home.cern/resources/faqs/facts-and-figures-about-lhc

www.iop.org/higgs-boson-and-history-universe

(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ جولائی 2024ء صفحہ 13)

متعلقہ مضمون

  • محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

  • قرآنِ کریم اور کائنات

  • عظیم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب اور سرن

  • سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے