حضرت خلیفۃالمسیح الخامسکی زبان مبارک سے

سیّدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس کے خطبہ جمعہ 21؍ فروری 2014ء کا متن

تشہّد و تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:

کل یعنی گزشتہ کل 20؍فروری کا دن گزرا ہے۔ یہ دن جماعت میں مصلح موعود کی پیشگوئی کے حوالے سے خاص اہمیت کا حامل ہے جس میں حضرت مسیح موعود نے اپنے ایک بیٹے کے پیدا ہونے کی خبر دی تھی جو نیک، صالح اور بہت سی صفات کا حامل ہونا تھا۔ گزشتہ جمعہ کو بھی میں نے حضرت مسیح موعود کے نشانات کے حوالے سے ذکر کیا تھا، آج بھی میں نے یہی مناسب سمجھا کہ 20؍فروری کے قریب کا جمعہ ہے اس وجہ سے اس پیشگوئی کا ذکر کروں جس کو حضرت مسیح موعود نے ایک عظیم الشان نشان قرار دیا ہے۔ معترضین کے جواب میں آپ نے یہ وضاحت فرمائی کہ تم اعتراض تو کرتے ہو لیکن یہ بشری طاقتوں سے بالا تر ہے کہ ایسی پیشگوئی کی جائے۔ اور صرف بیٹا ہونے کی پیشگوئی نہیں کی جا رہی بلکہ ایسی صفات کا حامل بیٹا ہونے کی (پیشگوئی کی جا رہی ہے) جو لمبی عمر پانے والا بھی ہوگا اور جو آپ کی زندگی میں پیدا ہو گا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر اس اعلان کو گہری اور انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو اس کے نشانِ الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں ہو سکتا۔ آپ نے معترضین کو فرمایا کہ اگر شک ہو تو اس قسم کی پیشگوئی جو ایسے ہی نشان پر مشتمل ہو، پیش کرو۔

فرمایا: اس جگہ آنکھیں کھول کر دیکھ لینا چاہئے کہ یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشانِ آسمانی ہے۔ اور جیسا کہ آپ کی بعثت کا مقصد ہی اسلام کی حقانیت اور آنحضرتﷺ کی عظمت سب پر ثابت کرنا تھا۔ یہاں بھی آپ اس پیشگوئی اور نشان کو پیش فرما کر یہ نہیں فرما رہے کہ یہ میری صداقت کو ظاہر کرتا ہے بلکہ فرمایا کہ اس نشانِ آسمانی کو خدائے کریم جل شانہٗ نے ہمارے نبی کریم، رؤوف و رحیم محمد مصطفیﷺ کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا ہے۔ اور فرمایا اور درحقیقت یہ نشان ایک مردہ زندہ کرنے سے صدہا درجہ اعلیٰ اولیٰ و اکمل و افضل و اتم ہے۔ آپ نے وضاحت فرمائی کہ مردہ زندہ کرنا تو صرف اتنا ہی ہے کہ ایک روح تھوڑے عرصے کے لئے واپس منگوا لی، جیسا کہ بائبل میں حضرت عیسیٰ یا بعض انبیاء کے بارے میں لکھا گیا ہے۔ گو اس پر بھی اعتراض کرنے والوں کے اعتراض موجود ہیں۔ اور کسی مردہ کا زندہ ہونا اگر مان بھی لیا جائے تو اس سے دنیا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا۔ مگر یہاں بفضلہ تعالیٰ واحسانہٖ ببرکت حضرت خاتم الانبیاءﷺ خداوندکریم نے اس عاجز کی دعا قبول کرکے ایسی بابرکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا ہے جس کی ظاہری و باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی۔ (ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد 1صفحہ99اشتہار نمبر34مطبوعہ ربوہ)

آپ فرماتے ہیں کہ’’اے لوگو! میں کیا چیز ہوں اور کیا حقیقت؟ جو کوئی مجھ پر حملہ کرتا ہے وہ درحقیقت میرے پاک متبوع پر جو نبی کریمﷺ ہے، حملہ کرنا چاہتا ہے۔ مگر اُس کو یاد رکھناچاہئے، وہ آفتاب پر خاک نہیں ڈال سکتا بلکہ وہی خاک اُس کے سر پر، اُس کی آنکھوں پر، اُس کے منہ پر گر کر اُس کو ذلیل اور رسوا کرے گی۔ اور ہمارے نبی کریمﷺ کی شان و شوکت اُس کی عداوت اور اُس کے بُغض سے کم نہیں ہوگی بلکہ زیادہ سے زیادہ خداتعالیٰ ظاہر کرے گا۔ کیا تم فجر کے قریب آفتاب کو نکلنے سے روک سکتے ہو۔ ایسے ہی تم آنحضرتﷺ کے آفتابِ صداقت کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ خداتعالیٰ تمہارے کینوں اور بخلوں کو دور کرے‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد 1صفحہ100 اشتہار نمبر34مطبوعہ ربوہ)

ان اعتراض کرنے والوں میں غیر مسلموں کے ساتھ بعض مسلمان بھی شامل تھے جن کو آپ نے یہ چیلنج دیا اور تنبیہ بھی فرمائی۔

بہرحال اس پیشگوئی کے تحت جیسا کہ ہم جانتے ہیں 1889ء میں جنوری میں وہ موعود بیٹا پیدا ہوا جس نے اسلام کی برتری اور آنحضرتﷺ کی شان و شوکت کو قائم کرنے کے لئے وہ کارہائے نمایاں انجام دئیے جو رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے اور جن کا غیروں نے بھی اعتراف کیا۔

اس سے پہلے کہ مَیں حضرت مصلح موعودؓ کے بعض کارناموں کا ذکر کروں، پیشگوئی کے اصل الفاظ بھی آپ کے سامنے رکھنا ضروری سمجھتا ہوں تا کہ ان کے بار بار ہمارے سامنے آنے سے ہمیں اس کی عظمت و شوکت کا بھی پتا لگے اور اس کی حقیقت کا بھی پتا لگے۔

حضرت اقدس نے اپنے قلم سے 20؍فروری 1886ء کو ایک اشتہار’’ رسالہ سراجِ منیر مشتمل بر نشانہائے رب قدیر‘‘ کے نام سے تحریر فرمایا جو اخبار ریاض ہند امرتسرمیں یکم مارچ 1886ء کی اشاعت میں بطور ضمیمہ شائع ہوا۔ اس میں آپ نے لکھا کہ ’’ان ہر سہ قسموں کی پیشگوئیوں میں سے جو ان شاءاللہ رسالہ میں بہ بسط تمام درج ہوں گی ‘‘(یعنی تفصیلات کے ساتھ درج ہوں گی) ’’پہلی پیشگوئی جو خود اس احقر سے متعلق ہے۔ آج 20 ؍فروری86(عیسوی) میں جو مطابق پندرہ جمادی الاول ہے برعایت ایجاز و اختصار‘‘(یعنی مختصر مضمون بیان کرتے ہوئے) ‘‘کلمات الٰہیہ نمونہ کے طور پر لکھی جاتی ہے اور مفصل رسالہ میں درج ہوگی، ان شاءاللہ تعالیٰ۔

’’پہلی پیشگوئی بالہام اللہ تعالیٰ و اعلامہ عزوجل خدائے رحیم و بزرگ و برتر نے جو ہر یک چیز پر قادر ہے (جلّشانہٗ و عزّاسمہٗ) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کرکے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا۔ سو میں نے تیری تضرعات کو سنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بپایہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو (جو ہوشیارپور اور لدھیانہ کا سفر ہے) تیرے لئے مبارک کر دیا۔ سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے۔ فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے۔ اے مظفر! تجھ پر سلام۔ خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں، باہر آویں اور تا دینِ اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تاحق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیﷺ کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے۔ سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا۔ ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا۔ وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریّت و نسل ہوگا‘‘۔ (اللہ تعالیٰ نے یہاں ہر قسم کا ابہام ختم کر دیا کہ بعد کی نسل میں یا ذرّیت میں نہیں پیدا ہوگا بلکہ حضرت مسیح موعود کا اپنا بیٹا ہوگا) فرمایا’’خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اس کا نام عنموائیل‘‘(انجامِ آتھم میں جو پوری پیشگوئی ہے، عربی میں لکھی ہوئی ہے، وہاں عمانوایل لکھا گیا ہے تو اصل عمانوایل ہی ہے، بہر حال) پھر فرمایا ’’اور بشیر بھی ہے ‘‘۔ اُس کا نام عنموائیل اور بشیر بھی ہے یا عمانوایل اور بشیر بھی ہے۔ ‘‘اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رِجس سے پاک ہے اور وہ نور اللہ ہے۔ مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے۔ اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔ وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ وہ کلمۃاللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا۔ اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (…) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند مَظْہَرُ الْاَوَّلِ وَالْآخِرِ مَظْہَرُ الْحَقِّ وَ الْعَلَاءِ۔ کَاَنَّ اللہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآء۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا۔ وَکَانَ اَمْرًا مَقْضِیًّا ‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد1صفحہ95-96 اشتہار نمبر33مطبوعہ ربوہ)

پس جیسا کہ میں نے کہا، یہ وہ خصوصیات ہیں جن کا حامل وہ بیٹا ہونا تھا اور ایک دنیا نے دیکھا کہ وہ بیٹا پیدا ہوا اور 52 سال تک خلافت پر متمکن رہنے کے بعد اپنی خصوصیات کا لوہا دنیا سے منوا کر اس دنیا سے رخصت ہوا۔ اگر ان خصوصیات کی گہرائی میں جا کر دیکھیں اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانی حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد المصلح الموعودؓ کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو اس کے لئے کئی کتابیں لکھنے کی ضرورت ہے۔ کسی خطبہ میں یا کسی تقریر میں حضرت مصلح موعودؓ کی زندگی اور آپ کے کارناموں کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ جماعت میں اس حوالے سے ہر سال 20؍فروری کو جلسے منعقد کئے جاتے ہیں اور مقررین اور علماء اپنے اپنے ذوق اور علم کے مطابق اس مضمون کو بیان کرتے ہیں۔ مَیں بھی کئی مرتبہ اس مضمون کو بیان کر چکا ہوں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ بھی بیان کرچکے ہیں۔ لیکن ہم نہیں کہہ سکتے کہ حضرت مصلح موعودؓکی زندگی اور اس پیشگوئی کا مکمل احاطہ ہو گیا یا ہر ایک کو سمجھ آگئی۔ بہرحال آج بھی مَیں اس پیشگوئی کے حوالے سے اس کے ایک آدھ پہلو کو لے کر حضرت مصلح موعودؓ کی زندگی کی بعض باتیں پیش کروں گا۔ اور یہ بھی کہ اپنوں کو اور غیروں کو آپ کے علم و عرفان نے کس طرح متاثر کیا۔

اس سے پہلے میں حضرت مصلح موعودؓکی کتب اور لیکچرز اور تقاریر کا ایک جائزہ بھی پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اُس وقت ریکارڈنگ کا تو باقاعدہ انتظام نہیں تھا۔ اُن کے بعض لیکچر، تقاریر مکمل موجود ہیں، بعض نہیں۔ زُود نویس ساتھ ساتھ لکھتے جاتے تھے اور بعض دفعہ پوری طرح لکھا بھی نہیں جاتا تھا۔

بہرحال حضرت مصلح موعودکی کتب، لیکچرز اور تقاریر کا مجموعہ ’’انوارالعلوم‘‘کے نام سے فضل عمر فاؤنڈیشن شائع کر رہی ہے۔ اس وقت تک انوارالعلوم کی 24 جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔ اور ان جلدوں میں آپ کے کُل 633 لیکچر اور تقاریر اور کتب آ چکی ہیں۔ اور فضلِ عمر فاؤنڈیشن کی سکیم ہے، اُن کا اندازہ ہے کہ 32جلدیں شائع ہوں گی۔ اور اس طرح کُل تقاریر، لیکچر اور کتب وغیرہ تقریباً ساڑھے آٹھ سو کے قریب بن جائیں گے۔ 24 جلدوں میں مَیں نے کہا آ گئیں۔ 25 سے 29 جلدیں جو ہیں وہ تیار ہوگئی ہیں، ابھی چھپی نہیں ہیں۔ اُن میں 163 کتب، لیکچرز اور تقاریر شامل ہیں۔ پھر اُس کے بعد تین اور رہ جائیں گی۔ تو یہ تقریباً آٹھ سو سے اوپر چلی جائیں گی۔ اسی طرح خطباتِ جمعہ اور عیدین اور نکاح ہیں۔ ابھی تک جو لسٹ ملی ہے اس کے مطابق ان کی تعداد 2076 بنتی ہے۔ اور خطباتِ محمود کی اس وقت کُل 28 جلدیں شائع ہو چکی ہیں جن میں 1602 خطبات شامل ہیں۔ اور 1948ء سے 1959ء تک کے خطبات 29 سے 39 جلد میں شائع ہوں گے۔ ان میں بھی تقریباً 500 خطبات اور شامل ہو جائیں گے۔

تو یہ آپ کے علمی کاموں کا ایک ہلکا سا عمومی خاکہ ہے، اور اگر ہر خطبے اور ہر تقریر کو سنیں، ہر لیکچر کو دیکھیں تو علم و عرفان کے ایسے موتی پروئے ہوئے نظر آتے ہیں اور علم کی ایسی نہریں بہہ رہی ہوتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے بھی ایک دفعہ یہ تجزیہ پیش کیا تھا اور انہوں نے ایک پہلو ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا ‘‘کو لے کے فرمایا تھا کہ اس میں ہی اتنی وسعت ہے کہ اس کو بیان کرتے چلے جائیں تو ختم نہیں ہو سکتا۔

بہرحال اس سلسلہ میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے فرمایا تھا کہ ‘‘اس سلسلہ میں حضور کی ایک کتاب تو تفسیرِکبیر ہے جو خود اتنی عجیب تفسیر ہے کہ جس شخص نے بھی غور سے اُس کے کسی ایک حصہ کو پڑھا ہوگا یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہوگا کہ اگر دنیا میں کوئی خدا رسیدہ بزرگ پیدا ہوتا اور وہ صرف یہ حصہ قرآنِ کریم کا تفسیری نوٹوں کے ساتھ شائع کر دیتا تو یہ اُس کو دنیا کی نگاہ میں بزرگ ترین انسانوں میں سے ایک انسان بنانے کے لئے کافی تھا۔ لیکن اس پر ہی بس نہیں، قرآنِ کریم پر اور بہت سی کتب لکھیں۔ اور’’ خلیفہ ثالثؒ فرماتے ہیں کہ ‘‘میرا خیال ہے کہ حضور نے صرف قرآنِ کریم کی تفسیر پر ہی آٹھ، دس ہزار صفحات لکھے ہیں۔ اس وقت جو چھپی ہوئی صورت میں تفسیرِکبیرکی دس جلدیں ہیں وہ تقریباً چھ ہزار صفحات بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ سورتوں کے نوٹس ہیں اور مختلف تقریروں میں بہت ساری جگہوں پر تفاسیر بیان کی گئی ہیں جو اس میں شامل نہیں۔ پھر کلام کے اوپر حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے دس کتب اور رسائل لکھے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کا جو اُس وقت جائزہ تھایہ اُس کے مطابق ہیں۔ تفسیرِکبیر جو ہے دس جلدیں، اُس میں سورۃ فاتحہ اور سورۃ البقرۃ، پہلی دو سورتیں، پھر سورۃ یونس سے سورۃ عنکبوت تک، دسویں سورۃ سے لے کر انتیسویں سورۃ تک ہے۔ اُس کے بعد پھر بیچ میں لکھی نہیں گئیں، چھپی نہیں۔ پھر سورۃ النّبأ سے کر النَّاس تک ہے۔ گویا کہ تقریباً 59 سورتیں بنتی ہیں جن کی تفسیر لکھی۔ اور یہ جو تفسیر ہے تقریباً چھ ہزار صفحات پر مشتمل ہے اور اس کو بہت باریک لکھا ہوا ہے۔ اگر آج کل کے حساب سے لکھا جائے تو شاید دس بارہ ہزار صفحات بن جائیں۔ بہرحال یہ دوبارہ پرنٹ ہو رہی ہے ان شاءاللہ تعالیٰ منظرِعام پہ آجائے گی۔ قرآنِ کریم کی کُل 114 سورتیں ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ 55 سورتیں ابھی اس میں شامل نہیں۔ پھر کلام پر آپ کی دس کتب اور رسائل ہیں۔ آپ نے روحانیات، اسلامی اخلاق اور اسلامی عقائد پر 31 کتب اور رسائل تحریر فرمائے۔ سیرت و سوانح پر 13 کتب و رسائل لکھے۔ تاریخ پر چار کتب اور رسائل لکھے۔ فقہ پر تین کتب اور رسائل لکھے۔ سیاسیات قبل از تقسیمِ ہند 25 کتب اور رسائل۔ سیاسیات بعد از تقسیمِ ہند اور قیامِ پاکستان 9 کتب اور رسائل، سیاستِ کشمیر 15 کتب اور رسائل۔ پھر تحریکِ احمدیت کے مخصوص مسائل اور تحریکات پر تقریباً 100 کتب اور رسائل۔ اس کے علاوہ بےشمار اور مضامین ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے تفصیل بیان کی کہ یہ تعداد سینکڑوں میں چلی جاتی ہے۔ تقریباً 800 سے اوپر چلی جائے گی۔

تو خلیفہ ثالثؒ فرماتے ہیں کہ ‘‘جیسا کہ فرمایا تھا کہ وہ علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا۔ ان پر ایک نظر ڈال لیں تو ان میں علومِ ظاہری بھی نظر آتے ہیں اور علومِ باطنی بھی نظر آتے ہیں اور پھر لطف یہ کہ جب بھی آپ نے کوئی کتاب یا رسالہ لکھا، ہر شخص نے یہی کہا کہ اس سے بہتر نہیں لکھا جا سکتا۔ سیاست میں جب بھی آپ نے قیادت سنبھالی یا جب بھی آپ نے سیاست کے بارے میں قائدانہ مشورے دئیے، بڑے سے بڑا مخالف بھی آپ کی بےمثال قابلیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگیا۔ (ماخوذ از ماہنامہ انصاراللہ حضرت مصلح موعودؓ نمبر مئی، جون، جولائی 2009ء صفحہ 64-65)

غرض حضورؓ کے علومِ ظاہری و باطنی سے پُر ہونے کے متعلق ایک بڑی تفصیل ہے جس کے ہزارویں حصہ تک بھی ہم نہیں پہنچ سکتے۔ جیسا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے فرمایا تھاکہ صرف تفسیر ہی حضرت مصلح موعودؓ کے مقام کو منوانے کے لئے بہت کافی ہے۔ یقیناً ان تفاسیر نے قرآنِ کریم کو سمجھنے کا جو نیا انداز اور علوم و معارف کے گہرے راز کھولے ہیں، وہ ہمیشہ حضرت مصلح موعودکا حصہ رہیں گے۔

اس وقت مَیں آپ کی تفسیر پر بعض غیروں کے تبصرے پیش کرتا ہوں۔ علامہ نیاز فتح پوری صاحب حضرت مصلح موعودؓ کو اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ: ’’تفسیرِکبیر جلد سوم آج کل میرے سامنے ہے‘‘۔ (یہ احمدی نہیں تھے) ’’اور میں اسے بڑی نگاہ غائر سے دیکھ رہا ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ مطالعہ قرآن کا ایک بالکل نیا زاویہ فکر آپ نے پیدا کیا ہے اور یہ تفسیر اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل پہلی تفسیر ہے جس میں عقل و نقل کو بڑے حسن سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے۔ آپ کی تبحّر علمی، آپ کی وسعتِ نظر، آپ کی غیرمعمولی فکر و فراست، آپ کا حسن و استدلال اس کے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے۔ اور مجھے افسوس ہے کہ مَیں کیوں اس وقت تک بےخبر رہا۔ کاش کہ مَیں اس کی تمام جلدیں دیکھ سکتا۔ کل سورۃ ہود کی تفسیر میں حضرت لوطؑ پر آپ کے خیالات معلوم کرکے جی پھڑک گیا اور بےاختیار یہ لکھنے پر مجبور ہوگیا کہ آپ نے ’’ھٰؤلَآء بَنَاتِیْ‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے مفسّرین سے جدا بحث کا جو پہلو اختیار کیا ہے اس کی داد دینا میرے امکان میں نہیں۔ خدا آپ کو تادیر سلامت رکھے‘‘۔ (تاریخ احمدیت جلد8صفحہ157مطبوعہ ربوہ) یہ اُس وقت انہوں نے دعا دی۔

پھر علامہ نیاز فتح پوری صاحب ہی ایک دوسرے خط میں لکھتے ہیں:

’’ تفسیرِکبیر برابر پیشِ نظر رہی اور رات کو تو بالالتزام اُسے دیکھتا ہوں۔ مَیں نے اُسے کیسا پایا، یہ بڑی تفصیل طلب بات ہے۔ لیکن مختصر یوں سمجھ لیجئے کہ میرے نزدیک یہ اردو میں بالکل پہلی تفسیر ہے جو بڑی حد تک ذہنِ انسانی کو مطمئن کر سکتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ آپ کے ادارے نے اس تفسیر کے ذریعہ سے جو خدمت اسلام کی انجام دی ہے وہ اتنی بلند ہے کہ آپ کے مخالف بھی اس کا انکار نہیں کر سکتے‘‘۔

(تفسیر کبیر جلد7تعارفی نوٹ، مطبوعہ ربوہ)

جناب اختر اورینوی صاحب (ایم۔ اے صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی) تفسیر کے بارے میں، پروفیسر عبدالمنان بیدل صاحب(سابق صدر شعبہ فارسی پٹنہ کالج) کااپنا ایک چشم دید واقعہ بیان کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ: ’’مَیں نے یکے بعد دیگرے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؒ کی تفسیرِکبیر کی چند جلدیں پروفیسر عبدالمنان بیدل سابق صدر شعبہ فارسی پٹنہ کالج، پٹنہ و حال پرنسپل شبینہ کالج پٹنہ کی خدمت میں پیش کیں اور وہ ان تفسیروں کو پڑھ کر اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے مدرسہ عربیہ شمس الہدیٰ کے شیوخ کو بھی تفسیر کی بعض جلدیں پڑھنے کے لئے دیں اور ایک دن کئی شیوخ کو بلوا کر انہوں نے اِن کے خیالات دریافت کئے۔ ایک شیخ نے کہا کہ فارسی تفسیروں میں ایسی تفسیر نہیں ملتی۔ پروفیسر عبدالمنان صاحب نے پوچھا کہ عربی تفسیروں کے متعلق کیا خیال ہے؟ شیوخ خاموش رہے۔ کچھ دیر کے بعد ان میں سے ایک نے کہا پٹنہ میں ساری عربی تفسیریں ملتی نہیں ہیں۔ مصر و شام کی ساری تفاسیر کے مطالعہ کے بعد ہی صحیح رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ پروفیسر صاحب نے قدیم عربی تفسیروں کا تذکرہ شروع کیا اور فرمایا مرزا محمود کی تفسیر کے پائے کی ایک تفسیر بھی کسی زبان میں نہیں ملتی۔ آپ جدید تفسیریں بھی مصر و شام سے منگوا لیجئے اور چند ماہ بعد مجھ سے باتیں کیجئے۔ عربی و فارسی کے علماء مبہوت رہ گئے‘‘۔

(تاریخ احمدیت جلد8صفحہ157-158مطبوعہ ربوہ)

پھر سیّد جعفر حسین صاحب ایڈووکیٹ نے ایک مختصر مکتوب کے بعد ایک مفصل مضمون بھی اخبار صدقِ جدید کو بھجوایا جس میں وہ صدقِ جدید کے ایڈیٹر کو لکھتے ہیں کہ’’حصول دارالسلام کی جد و جہد میں مجھے جب جیل پہنچایا گیا تو تیسرے دن مجھے وجوہات نظربندی تحریری شکل میں مہیا کئے گئے۔ جن میں میری گزشتہ تین چار برسوں کی تقریروں کے اقتباسات تھے۔ اور الزام یہ تھا کہ میں ہندوستان کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتا ہوں۔ مَیں حیران تھا کہ مجھ جیسا چھوٹا آدمی اور یہ پہاڑ جیسا الزام۔ لیکن مجھے آہستہ آہستہ محسوس ہوا کہ میری تقریروں سے کچھ ایسا ہی مفہوم اخذ کیا جا سکتا ہے۔ مَیں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ میں بھٹکا ہوا مسافر تھا جس کی منزل تو متعین تھی لیکن راستے کا پتا نہ تھا۔ مسلمانوں کی انجمنِ اتحاد المسلمین ہو یا کوئی اور جماعت، ان سب کی حالت یہی ہے۔ (کہتے ہیں کہ) دوسرے دن میں نے تفسیرِکبیر کا مطالعہ شروع کیا (جو اُن کے ایک دوست نے اسی جیل میں ہی دی تھی) جو میں اپنے ساتھ لے کر گیا تھا۔ تو مجھے اس تفسیر میں زندگی سے معمور اسلام نظر آیا۔ (یہ احمدی نہیں تھے) اس میں وہ سب کچھ تھا جس کی مجھ کو تلاش تھی۔ تفسیرِکبیر پڑھ کر میں قرآنِ کریم سے پہلی دفعہ روشناس ہوا۔ جیسا کہ آپ نے ارشاد فرمایا (اُن کو لکھ رہے ہیں) اپنا مسلک چھوڑ کر احمدیہ جیسی جماعت میں داخل ہونا، جس کو تمام علمائے اسلام نے ایک ہوّا بنا رکھا، کچھ معمولی بات نہیں۔ لیکن حق کے کھل جانے کے بعد یہاں خطرات کی پرواہ بھی کسی کو نہ تھی۔ تاہم سجدے میں گر کر شب و روز میں نے دعائیں شروع کیں کہ یا اللہ! مجھے صراط المستقیم دکھا۔ کئی ماہ اسی حالت میں گزر گئے۔ مَیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میری سجدے کی زمین آنسوؤں سے تر ہو جاتی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ میری دعائیں قبول ہوئیں کیونکہ احمدیت کو سچا سمجھنے کے عقیدے میں مستحکم ہوگیا اور قادیان سے حضرت میاں وسیم احمد صاحب کی خدمت میں ایک خط کے ذریعہ سے میں نے درخواست کی کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ (پھر کہتے ہیں کہ) میری قید کا بڑا حصہ سکندرآباد جیل میں گزرا۔ وہاں کے جیلر ایک مسلمان اور علم دوست بھی تھے۔ قیدیوں کی پوری خط و کتابت اُن لوگوں کے علم میں رہتی ہے۔ کیونکہ اُن کے دستخط کے بعد ہی قیدیوں کے خطوط روانہ… ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ بات کچھ اچھی نہ تھی لیکن جرأت کی کمی کے باعث میری یہ کوشش رہتی تھی کہ قادیان کو لکھے ہوئے میرے خطوط حکامِ جیل کے علم میں نہ آنے پائیں۔ مجلس اتحاد المسلمین حیدرآباد ایک بڑی ہی ہردلعزیز جماعت ہے۔ (یہ انڈیا کا حیدرآباد ہے) جیل کا عملہ جمعیت حتی کہ جیل کے سارے ہی قیدی مجھ سے بڑی محبّت اور عقیدت سے پیش آتے تھے۔ (یہ جو تنظیم تھی اس کی وجہ سے، تو کہتے ہیں) اگرچہ پہرےداروں کے سوا مجھ سے کوئی نہ مل سکتا تھا، ان وجوہ سے حکام کے علم میں آئے بغیر میرے خطوط قادیان کو پوسٹ ہو جاتے تھے۔ لیکن جو خط قادیان سے آتا تھا وہ بہر صورت جیلر کے علم میں آنا ضروری تھا۔ جب قادیان سے بیعت کا فارم آیا تو جیل میں بڑی گڑ بڑ ہوئی۔ راز باقی نہ رہ سکا…۔ (کہتے ہیں) آخر جیلر میرے پاس آئے اور میرا خط مع بیعت فارم کے اُن کے پاس تھا۔ مجھ سے بڑی ہی ہمدردانہ گفتگو کی کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ قرآن کی اس تفسیر کو چھوڑئیے۔ میں آپ کو مولانا ابوالکلام آزاداور مولانا مودودی کی تفسیرِقرآن دیتا ہوں۔ آپ کے خیالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ چنانچہ انہوں نے وہ دونوں تفسیریں لا دیں جو اصل میں ترجمہ تھے اور کہیں کہیں تفسیر تھی۔ بیعت کا فارم تکمیل کرکے بھیجنے سے قبل مَیں نے ان دونوں تفاسیر کا مطالعہ کیا۔ تفسیرِکبیر کے طالب علم میں اتنی اہلیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ دیگر تمام تفاسیر پر تنقید کرسکے۔ چنانچہ مَیں نے جیلر صاحب کو بتلایا کہ ان دونوں تفاسیر میں کون کون سے مقامات مبہم ہیں۔ کہاں کہاں ترجمے کی غلطی ہے اور کہاں کہاں معنی محدود ہیں۔ مجھے ایسا کرنے میں آسانی اس لئے ہوئی کہ تفسیرِکبیر میں لغتِ قرآن بھی موجود ہے۔ لَا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ۔ صرف مطہّر لوگ ہی قرآنِ کریم کے مطالب کو سمجھ سکیں گے‘‘۔

تو کہتے ہیں ’’یہ تفصیل (میں نے) اس لئے لکھی ہے کہ مجھ پر سے یہ الزام دور ہو جائے کہ میں نے بیعت میں عجلت کی‘‘۔ مَیں نے غیروں کی تفسیریں بھی پڑھیں۔ پھر تفسیرِکبیر پڑھی، موازنہ کیا اور مجھے سمجھ آ گئی۔ اور پھر کہتے ہیں اس کے بعد ’’بیعت کا فارم بھیج کر مَیں دعاؤں میں لگ گیا ‘‘ (کہ کہیں میری بیعت قبول بھی ہوتی ہے کہ نہیں۔ اور پھر کہتے ہیں کہ) ‘‘اندیشہ غلط نہ نکلا۔ میری بیعت قبول کرنے سے پہلے حضور خلیفہ صاحب نے دریافت فرمایا کہ ایک احمدی مسلمان کا فرض ہے کہ وہ حکومتِ وقت کا بھی وفا دار رہے اور قانون کے اندر رہ کر کام کرے۔ مَیں نے جواب دیا کہ حضور کی تفسیر نے یہ ساری باتیں میرے دل پر نقش کر دی ہیں۔ کچھ دنوں کے بعد جب قادیان سے مجھے معلوم ہوا کہ میری بیعت قبول کرلی گئی تو میں سجدے میں گر گیا۔ (پھر کہتے ہیں کہ) تفسیرِکبیر میں ایک مقام پر مَیں نے پڑھا تھا کہ خلیفہ جو مصلح موعود ہوگا وہ اسیروں کی رہائی کا باعث ہوگا۔ میں نے حضور سے درخواست کی۔ (یہ ابھی تک جیل میں تھے) کہ وہ میری رہائی کے لئے دعا فرمائیں۔ حضور خلیفہ صاحب نے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ آپ کی رہائی کے سامان کرے۔ اس کے چند ہی دنوں بعد میں رہا ہوگیا۔ خلیفہ موعود کی نسبت یہ پیشینگوئی کہ’’وہ اسیروں کی رہائی کا باعث ہو گا’’ میں اس کا زندہ ثبوت ہوں‘‘۔

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد8صفحہ159تا162مطبوعہ ربوہ)

پھر مغربی مفکرین ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے مختلف مفکرین ہیں۔ اس وقت مَیں ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ اے۔جے آربری(A.J.Arberry) جو برطانوی مستشرق ہیں۔ عربی، فارسی، اسلامیات کے سکالر ہیں۔ کہتے ہیں ’’ قرآنِ شریف کا یہ نیا ترجمہ اور تفسیر ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ (یہ five volume کی بات کر رہے ہیں)۔ موجودہ جلد اس کارنامے کی گویا پہلی منزل ہے۔ کوئی پندرہ سال کا عرصہ ہوا جماعت احمدیہ قادیان کے محقق علماء نے یہ عظیم الشان کام شروع کیا اور کام حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد کی حوصلہ افزاء قیادت میں ہوتا رہا۔ کام بہت بلند قسم کا تھا۔ یعنی یہ کہ قرآنِ شریف کے متن کی ایک ایسی ایڈیشن شائع کی جائے جس کے ساتھ ساتھ اُس کا نہایت صحیح صحیح انگریزی ترجمہ ہو اور ترجمہ کے ساتھ آیت آیت کی تفسیر ہو۔ پہلی جلد جو اس وقت سامنے ہے، قرآنِ شریف کی پہلی نو سورتوں پر مشتمل ہے۔ شروع میں ایک طویل دیباچہ ہے جو خود حضرت مرزا بشیرالدین نے رقم فرمایا ہے۔ اس دیباچے میں حضرت نے لکھا ہے کہ جو کچھ اس تفسیر میں بیان ہوا ہے وہ اُن معارف کی ترجمانی ہے جو بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے اپنی کتابوں اور مواعظ میں بیان فرمائے یا پھر آپ کے خلیفہ اول یا خود حضرت ممدوح نے جو بانیٔ سلسلہ کے خلیفہ ثانی ہیں بیان فرمائے۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ترجمہ اور یہ تفسیر جماعت احمدیہ کے فہمِ قرآن کی صحیح ترجمانی کرنے والی ہے‘‘۔

(تاریخ احمدیت جلد9صفحہ862-863مطبوعہ ربوہ)

پھر صرف یہی نہیں بلکہ اور بھی، عربوں میں سے بھی ہیں۔ شام کے ایک ڈاکٹر انس صاحب ہیں، وہ کہتے ہیں: حق اور نور کی تلاش میں مختلف علماء کی کتب اور تفاسیر پڑھیں جن میں سلطان العارفین، محی الدین ابنِ عربی اور محمد بن علی الحاتمی الطائی وغیرہ کی تفاسیر شامل تھیں لیکن کسی تفسیر میں وہ خوبی اور چاشنی اور لذت نہ پائی جو حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد کی تفسیر میں ملی۔ مَیں اپنی روح اور جسم کے ساتھ پیش آنے والے کشوف وغیرہ کی تفسیر کا متلاشی تھا۔ پھر جب جماعت کی ویب سائٹ پر موجود تفسیرِکبیر کا مطالعہ کیا تو اس میں احمدی نور اور سچائی اور صداقت نظر آئی جس نے میرے دل کو موہ لیا۔

پھر مراکش کے جمال صاحب ہیں۔ ان کی طویل خط و کتابت حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ سے چلتی رہی تھی۔ کہتے ہیں اس عرصے میں جو خط و کتابت کا عرصہ تھا مجھے مرکز سے تفسیرِکبیر جلد اوّل کے ترجمہ کا تحفہ ارسال کیا گیا۔ مَیں نے جب اس تفسیر کو پڑھا اور اس کا دیگر تفاسیر سے موازنہ کیا تو زمین و آسمان کا فرق نکلا۔ یہاں الٰہی علوم اور حکمتوں کی کنہ کا بیان تھا اور شریعت کے مغز کا خلاصہ تھا جبکہ دیگر تفاسیر میں محض چھلکے پر اکتفا کیا گیا تھا۔ اس تفسیر کے مطالعہ نے میرے دل میں اسلام کی ایسی حسین تصویر پیش کی کہ جو روح تک اترتی چلی گئی۔

پھر حضرت مصلح موعودؓکے لیکچروں کا غیروں پر اثر آپ کے گہرے علم کا اعتراف ہے۔ اس کی چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔ سیّدنا حضرت مصلح موعودؓنے پنجاب لٹریری کی تحریک پر جس کے لیڈر جو تھے پنجاب یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے تھے، لاہور میں دو لیکچر دینے منظور فرمائے۔ اس کے مطابق حضور کا پہلا لیکچر ’’عربی زبان کا مقام السنۂ عالم میں‘‘کہ عربی زبان کا مقام دنیا کی زبانوں میں کیا تھا، کے موضوع پر 31؍ مئی 1934ء کو وائی ایم سی اے ہال میں جو مال روڈ پر لاہور میں تھا، شروع ہوا۔ اور اس کی صدارت جناب ڈاکٹر برکت علی صاحب قریشی ایم۔اے، پی ایچ ڈی پرنسپل اسلامیہ کالج نے کی۔ حضور کا لیکچر ڈیڑھ گھنٹے جاری رہا جسے سامعین نے ہمہ تن گوش ہو کر سنا۔ اختتام پر جنابِ صدر نے شکریہ ادا کرنے کے بعد حاضرین کو لیکچر سے فائدہ اُٹھانے کی طرف توجہ دلائی اور خواہش ظاہر کی کہ ایسے علمی مضامین پھر بھی سننے کا موقع ملے۔ سامعین میں علمی طبقہ کے ہر خیال کے اصحاب شامل تھے۔

لالہ کنور سین صاحب سابق چیف جسٹس کشمیر جو جناب لالہ بھیم سین صاحب کے فرزند ارجمند تھے وہ بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی تقریر اور صدر صاحب کی تقریر کے بعد اپنے شکرگزاری کے جذبات کا اظہار کیا، انگلش میں ایک تقریر کی۔ کہتے ہیں کہ آج قابل لیکچرر نے زبانِ عربی کی فضیلت پر جو دلچسپ اور معرکۃالآراء تقریر کی ہے اُسے سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ کہتے ہیں کہ جب میں لیکچر سننے کے لئے آیا اُس وقت میں نے خیال کیا تھا کہ مضمون اس رنگ میں بیان کیا جائے گا جس طرح پرانی طرز کے لوگ بیان کرتے ہیں۔ وہ کس طرح بیان کرتے ہیں؟ کہتے ہیں کہ مشہور ہے کہ کسی عرب سے ایک دفعہ زبانِ عربی کی فضیلت کی وجہ دریافت کی گئی تو اُس نے کہا کہ اُسے یعنی عربی زبان کو تین وجہ سے فضیلت حاصل ہے۔ پہلی وجہ: اس لئے کہ مَیں عرب کا رہنے والا ہوں۔ دوسرے اس لئے کہ یہ قرآنِ مجید کی زبان ہے۔ تیسرے اس لئے کہ جنّت میں عربی بولی جائے گی۔ کہتے ہیں مَیں سمجھتا تھا کہ شاید اس قسم کی باتیں زبانِ عربی کی فضیلت میں پیش کی جائیں گی۔ مگر جو لیکچر دیا گیا وہ نہایت ہی عالمانہ اور فلسفیانہ شان اپنے اندر رکھتا ہے۔ مَیں جناب مرزا صاحب کو یقین دلاتا ہوں کہ مَیں نے ان کے لیکچر کے ایک ایک حرف کو پوری توجہ اور کامل غور کے ساتھ سنا ہے اور میں نے اس سے بہت ہی حَظّ اُٹھایا اور فائدہ حاصل کیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس لیکچر کا اثر مدّتوں میرے دل پر قائم رہے گا۔

(ماخوذاز تاریخ احمدیت جلد6صفحہ180-181مطبوعہ ربوہ)

پھر سیّد عبدالقادر صاحب ایم۔اے وائس پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور کے تاثرات ہیں۔ یہ صدر شعبہ تاریخ تھے۔ اسلامیہ کالج نے اسلام اور اشتراکیت (Islam and Communism) کے عنوان پر اخبار ‘‘سن رائز لاہور’’ (24مارچ1945ء) میں ایک نوٹ دیا جس کا ایک حصہ درج کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’اسلام کا اقتصادی نظام’’ اور کمیونزم کے موضوع پر مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ کا لیکچر سننے کا مجھے بھی فخر حاصل ہوا۔ یہ لیکچر بھی آپ کے دوسرے لیکچروں کی طرح جو مجھے سننے کا اتفاق ہوا ہے، عالمانہ، خیالات میں جلاء پیدا کر دینے والا اور پُر از معلومات تھا۔ مرزا صاحب خدا داد قابلیت کے مالک ہیں اور اس موضوع کے ہر پہلو پر آپ کو پورا پورا عبور حاصل ہے۔ اس وجہ سے آپ کے خیالات اس بات کے مستحق ہیں کہ ہم اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ان پر توجہ کریں‘‘۔

(تاریخ احمدیت جلد9صفحہ626مطبوعہ ربوہ)

بیرونی دنیا میں بھی اس کتاب کی تقسیم کی ضرورت ہے۔ عموماً یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اسلام کا اقتصادی نظام کا نظریہ شاید مودودی صاحب نے پیش کیا تھا۔ حالانکہ اس سے بہت پہلے حضرت مصلح موعود نے یہ بڑی عالمانہ قسم کی تقریر فرمائی تھی جو کتابی صورت میں شائع ہوئی ہوئی ہے اور اب اس کا انگلش میں بھی ترجمہ ہوگیا ہے۔ جو انگریزی دان احمدی ہیں اُن کو بھی پڑھنا چاہئے اور جو لوگ معاشیات میں دلچسپی رکھتے ہیں اُن کو دینی بھی چاہئے۔

پھر لالہ رام چند مچندہ صاحب کی ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘پر صدارتی تقریر ہے کہتے ہیں کہ مَیں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے ایسی قیمتی تقریر سننے کا موقع ملا اور مجھے اس بات سے خوشی ہے کہ تحریکِ احمدیت ترقی کر رہی ہے اور نمایاں ترقی کر رہی ہے۔ جو تقریر اس وقت آپ لوگوں نے سنی ہے اس کے اندر نہایت قیمتی اور نئی نئی باتیں حضور نے بیان فرمائی ہیں۔ مجھے اس تقریر سے بہت فائدہ ہوا ہے‘‘۔ پھر کہتے ہیں کہ ’’یہ میری غلطی تھی کہ اسلام صرف اپنے قوانین میں مسلمانوں کا ہی خیال رکھتا ہے۔ غیر مسلم کا کوئی لحاظ نہیں رکھتا۔ مگر آج حضرت امام جماعت احمدیہ کی تقریر سے معلوم ہوا کہ اسلام تمام انسانوں میں مساوات کی تعلیم دیتا ہے اور مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہے۔ مَیں غیرمسلم دوستوں سے کہوں گا کہ اس قسم کے اسلام کی عزت و احترام کرنے میں آپ لوگوں کو کیا عذر ہے؟‘‘ پھر کہتے ہیں ’’حضرت امام جماعت احمدیہ کا بار بار اور لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنی نہایت قیمتی معلومات سے پُر تقریر سے ہمیں مستفید فرمایا‘‘۔(تاریخ احمدیت جلد9صفحہ622-623مطبوعہ ربوہ)

پس یہ صرف ایک پہلو کی جھلک ہے جو پیشگوئی میں علومِ ظاہری و باطنی سے پُر ہونے کے بارے میں درج ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے علم و عرفان کا جو خزانہ ہمیں دیا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو پڑھنے کی ہمیں توفیق بھی عطا فرمائے اور جیسا کہ آپ کے مضامین کے عنوانات کی عمومی فہرست میں مَیں نے بتایا ہے مختلف نوع کے جو مضامین ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں اُن سے بھی استفادہ کرنے کی توفیق دے اور ہم اپنا علم و عرفان بڑھانے والے ہوں۔

(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ فروری 2024ء صفحہ 7)

متعلقہ مضمون

  • جلسہ روحانی پیاس بجھانے کا موقع

  • خطبہ جمعہ فرمودہ 10 اپریل 2009ء کا متن

  • کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟

  • جِن کو نِشانِ حضرتِ باری ہوا نصیب