انتظار حسین کی کتاب ’’دِلّی تھا جس کا نام ‘‘ سے چند اقتباسات

غالبؔ نے دِلّی کی ہستی پانچ ہنگاموں پر منحصر بتائی تھی۔ ”قلعہ، چاندنی چوک، ہر روز مجمع جامع مسجد کا، ہر ہفتے سیر جمنا کے پل کی، ہر سال میلہ پھول والوں کا “۔

قلعے کی گہماگہمی تو دیکھ لی۔ چاندنی چوک کی چہل پہل بھی ایک نظر دیکھی۔ رَہ گئی سیر جمنا کے پل کی تو اس ندی کا احوال کیا پوچھتے ہو۔ اس کی لہروں کو دیکھ کر تو شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی جیسے ثقہ بزرگ بھی لہلوٹ ہوگئے تھے۔ کیا خوب خراجِ تحسین پیش کیا ؎

وَمَا ھُو جُؤن جدی من تحتھا فحکی

انھار خلد جلت فی اسفل الغرف

جمنا کا پانی اس (شہر) تلے بہتا ہوا ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے جنّت کی کھڑکیوں کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔

کب سے، کتنے جُگوں سے یہ ندی اپنی چاندی ایسی لہروں کے ساتھ بَہہ رہی ہے۔ کوئی تو اس میں جادو ہے کہ اس کے کنارے آباد ہونے والا یہ نگر کتنی مرتبہ خون میں نہایا اور اُجڑ گیا۔ مگر خلقت نے ہر پھر کر یہیں پھر ڈیرے ڈالے اور نئے سرے سے پھر نگر بسا لیا۔ اس کے پانی کو پوِتر جانا، گھاٹ بنائے اور پوجا پاٹ شروع کر دی۔ گھاٹ ایک سے بڑھ کر ایک۔سب سے بڑھ کر نگمبود گھاٹ، سب سے پرانا گھاٹ تو یہی ہے۔ اس کے ڈانڈے تو مہا بھارت سے ملتے ہیں۔ نہیں اس سے بھی پہلے ہندوؤں کے عقیدے کے حساب سے دواپر جگ کی ابتدا میں برہما جی پر ایسی بپتا پڑی کہ وہ سب بیدوں کو بھول گئے۔ بس اسی عالم میں وہ یہاں براجے۔ یہاں براجنا ایسا مبارک ہوا کہ انہیں سب بید یاد آ گئے۔ اسی سے نگمبود اس کا نام پڑا۔ نگم کا مطلب ہے بیدیں۔ بود یعنی بدھی یعنی عقل اور سمجھ……

اصل میں دِلّی کا ہندو اب وہ ہندو نہیں رہا تھا جو رائے پتھورا کے زمانے میں تھا۔ مسلمان بھی وہ مسلمان نہیں رہا تھا جو شہاب الدین غوری کے لشکر کے ساتھ آیا تھا۔ تب سے اب تک پلوں کے نیچے سے پانی بہت بہہ گیا تھا۔ تلوار جتنی چلنی تھی اس وقت چل چکی۔ اس کے بعد تو تاریخ کی نہج ہی بدل گئی۔ قصہ مختصر دبی دبی آویزش۔ ساتھ میں بہت سی آمیزش۔ ارادتاً کم، غیر ارادی طور پر زیادہ۔ دونوں مذہب اپنی اپنی جگہ پر، مگر تہذیبی سطح پر فاصلہ کم ہوتا چلا گیا، قرب پیدا ہوتا چلا گیا۔ مگر مذہبی سطح پر بھی وہ پہلی والی غیریت کہاں رہی۔ مسلمانوں کے تہذیبی تیوہاروں میں دیسی رنگ کتنا آگیا تھا۔ بلکہ پورا ہجری کیلنڈر ہی دیسی رنگ میں رنگا گیا۔ ربیع الاوّل، ربیع الثانی اب کون کہتا تھا۔ مولوی مُلّا ہی کہتے ہوں گے۔ دِلّی کی عام خلقت کے حساب سے ماہِ صفر اب تیرہ تیزی کا مہینہ تھا۔ ربیع الاوّل اب بارہ وفات کا مہینہ کہلایا۔ ربیع الثانی میراں جی کا مہینہ۔ جمادی الاوّل مدار کا مہینہ۔ ذیقعد خالی کا مہینہ، شعبان شبرات کا مہینہ۔

تو اس رنگ سے اس فضا میں رنگ گھل مل رہے تھے۔ اور مختلف تہذیبی طور ایک نئی وحدت میں ڈھل رہے تھے۔ موسمی تیوہاروں اور میلوں ٹھیلوں کے متعلق تو پتہ ہی نہ چلتا تھا کہ یہ ہندوؤں کے ہیں یا مسلمانوں کے۔ باقی رہ گئے عید، بقر عید، اور ہولی دیوالی تو وہاں بھی اب یہ صورت تھی کہ ایک کی خوشی میں دوسرا شامل۔ اگر شامل نہ بھی ہو سکے تو ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا احترام بہرحال کیا جائے گا۔سو مسجد کے آگے باجا نہیں بجے گا اور بقر عید پر قربانی اس انداز سے نہیں کی جائے گی کہ دوسروں کے جذبات مجروح ہوں اور فساد کی صورت پیدا ہو۔ ہولی کا رنگ مسلمان پر پھینکا جائے گا تو بھڑکے گا نہیں، خوشی سے کھل جائے گا۔……

ہر مہینہ کسی نہ کسی تیوہار کی خبر لے کر آتا تھا۔ ہر تیوہار کی اپنی رسمیں تھیں۔ اور ہر ایسے مبارک موقع پر بادشاہ کی شرکت بھی لازمی تھی۔ اور صرف مسلمانوں کے تیوہاروں کی تقاریب میں نہیں، ہندوؤں کے تیوہاروں میں بھی… دسہرہ کی دھوم دھام میں باقی مسلمان تو تماشائی کی حیثیت سے شامل ہوتے تھے۔ مگر قلعہ میں تو دسہرہ کی تقریب کا بطور خاص اہتمام ہوتا۔ خاص دربار منعقد ہوتا۔ بادشاہ سلامت نیل کنٹھ اڑانے کی رسم بجا لاتے۔ پھر باز اور لشکر ان کے سامنے پیش ہوتے۔ دن ڈھلے ہاتھیوں اور گھوڑوں کی قطاریں لگ جاتیں۔ بادشاہ ان کا معائنہ کرتے۔

دیوالی کی شب سارا شہر دیوں کی روشنی میں جگمگ جگمگ کرتا۔ قلعہ میں بھی چراغاں ہوتا، نوبت بجتی اور بادشاہ سلامت سونےچاندی میں تُلتے۔

اور ہولی کا کیا پوچھتے ہو۔ عبیر اور گلال اتنا اُڑتا کہ فضا ساری لال ہو جاتی۔ مٹکوں میں ڈھاک اور ٹیسو کے پھول پڑے ہیں۔ رنگین پانی سے پچکاریاں بھری ہیں۔ جو سامنے آیا اسے شرابور کر دیا۔ سارنگی، دَف، مجیرے اور چنگ کی تال پر تانیں اڑ رہی ہیں۔ ہولیاں گائی جا رہی ہیں۔ (دلی تھا جس کا نام، انتظار حسین، سنگ میل پبلیکیشنز، 2003 لاہور، صفحہ 72 تا 79)

(مرتبّہ: مدبّر احمد خان)

(اخبار احمدیہ جرمنی، شمارہ مارچ 2024ء صفحہ 45)

متعلقہ مضمون

  • قصہ داڑھ کے درد کا

  • دِلّی جو ایک شہر تھا

  • دِلّی جو ایک شہر تھا

  • رسالہ ’’ساقی‘‘کا پہلا اداریہ