فرانکفرٹ کي ایک علاقائي عدالت نے احمدی خاتون صحافی اور Hessen براڈکاسٹنگ کونسل کي رکن محترمہ خولہ مریم ہیوبش صاحبہ کی طرف سے دائرکردہ ’’سنگين ہتک عزت“ کے ایک مقدمہ کا فیصلہ سناتے ہوئے BILD اخبار اور Axel Springer Deutschland GmbH کے خلاف حکم امتناعي جاري کیا ہے۔

مؤرخہ 29 اپريل 2024ء کوایک ٹیلیویژن پروگرام ’’Hart Aber Fair“ ميں محترمہ خولہ صاحبہ نے نہایت جرأت و دلیری کے ساتھ شرق اوسط میں ہونے والے مظالم کی مذمت کی تو موصوفہ کو BILD اخبار میں شائع ہونے والے پانچ مختلف مضامين ميں بار بار ’’اسلامي شدّت پسند“ قرار ديا گيا اور آزاد جمہوري رياست کي مخالف کے طور پر پيش کيا گيا۔ ٹي وي پروگرام ميں محترمہ نے محض اس بات کي نشاندہي کي تھي کہ شريعت اور خلافت جیسی اسلامي اصطلاحات کو سياسي لڑائي کے لئےغلط رنگ ميں استعمال کرنا نامناسب ہے۔ وہ خود ايک اسلامي اصلاحي جماعت يعني احمديہ مسلم جماعت سے تعلق رکھتي ہيں جس کي قيادت ايک خليفہ، روحاني پيشوا کے طور پر کر رہے ہيں اور اسلامي رياستوں ميں اس جماعت پر سخت ظلم کيا جاتا ہے۔ مذکورہ نشريات ميں محترمہ خولہ صاحبہ نے شريعت کي وضاحت پيش کي اور بتايا کہ شريعت پُرامن معاشرہ کی ضامن ہےاور مسلمانوں کو جرمن دستور پر عمل کرنے کي تلقین کرتي ہے۔ لہٰذاجرمن دستور کے ساتھ کوئي تضاد نہيں رکھتی۔

BILD اخبار کے اس افسوسناک طرز عمل پر مکرمہ خولہ ہیوبش صاحبہ کو مجبوراً عدالت سے رجوع کرنا پڑا۔ فریقین کا موقف سننے کے بعد فرانکفرٹ کي علاقائي عدالت نے يہ فیصلہ ديا ہے کہ BILD کے غيرقانوني بيانات نے محترمہ Hübsch کے شخصي حقوق کو نقصان پہنچايا ہے اور اس ’’سنگين ہتک عزت“ کي وجہ سے درخواست ميں پيش کردہ تمام نکات پر Axel Springer Deutschland GmbH کے خلاف حکم امتناعي جاري کرتے ہوئے عدالت نے قرار دیا ہے کہ ’’مدعيہ ہرگز آزاد جمہوري رياست کے خاتمے کا مطالبہ نہيں کر رہي“۔ اس کے ساتھ ہی BILD کي طرف سے منسوب کردہ الفاظ کو عدالت نے ہتک آميزاور قابل مذمت قرار ديا ہے۔ تين ججوں پر مشتمل عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلہ میں لکھا ہے کہ” Bild اخبار کي متنازعہ رپورٹنگ شخصي حقوق کي سنگين خلاف ورزي ہے جس کا مدعيہ کي سماجي اور پيشہ ورانہ ترقي پر خاصا اثر پڑے گا“۔ عدالت نے يہ بھي قرار ديا کہ محترمہ ہيوبش کے بيانات کو ’’محض مختصر اور سياق و سباق سے ہٹ کر پيش کيا گيا“جبکہ محترمہ ہيوبش نے ’’Hart Aber Fair‘‘ کے پروگرام میں رياست اور مذہب کو عليحدہ رکھنے اور جرمني کے دستور اور قانون کي عملداري کي واضح طور پر حمايت کي ہے۔

مزید برآں عدالت نے لکھا کہ محتاط صحافت محترمہ ہيوبش صاحبہ کي غيرقانوني اور ہتک آميز تصويرکشي کي اجازت نہيں ديتي۔ موصوفہ کے خلاف مہم کا واضح طور پر مقصد صرف ان کے خيالات کو بدنام کرنا اور ان پر ناقابل قبول عقائد کا الزام لگا کر ان کے صحافتي کام کو نقصان پہنچانا تھا۔ ايسي کوششيں آزادي اظہار رائے کے تحت ہر گز نہيں آتيں۔

عدالتی فيصلے کے تعميل طلب حصے ميں مدعا عليہان [Axel Springer Deutschland GmbH] کو پابند کیا گیا ہے کہ محترمہ خولہ ہیوبش صاحبہ کےلئے استعمال کئے گئے ’’اسلامي شدّت پسند“ اور ”آزاد جمہوري بنيادي نظم رياست کے خاتمہ کي آرزو مند خاتون“ کے الفاظ واپس لے۔ خلاف ورزي کی صورت میں جرمانہ (زيادہ سے زيادہ دو لاکھ پچاس ہزار يورو ) عائد کیا جا سکتا ہے، عدم ادائیگی کی صورت میں چھ ماہ تک قيد کي سزا بھگتنی ہوگی۔

مکرمہ خولہ صاحبہ کی طرف سے جماعت احمدیہ جرمنی کے مشیر قانونی و صدر احمدیہ وکلاء ایسوسی ایشن جرمنی مکرم ڈاکٹر نویدمنصور صاحب نے مقدمہ دائر کیا تھا اور اس کی بہترین رنگ میں پیروی کی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو دشمن کے ہر شر سے محفوظ رکھے اور جرأت و دلیری کے ساتھ ہر محاذ پر اسلام کا دفاع کرنے کی توفیق عطافرمائے، آمین۔

(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ اگست 2024ء صفحہ 26)

متعلقہ مضمون

  • ملکی و عالمی خبریں

  • تاریخ جرمنی (چھبیسویں قسط)

  • عیدالاضحی کے موقع پر پاکستان کے احمدیوں کی قربانیاں

  • تاریخ جرمنی