اپنا ہر ذرّہ تِری راہ میں اُڑایا ہم نے

محترم قاری محمد عاشق صاحب مرحوم کا ذکرِ خیر

ایک شجر سایہ دار، فیض رساں شفقت بھرا وجود، فن تجوید کا ماہر، سلسلہ کا فدائی خادم، خلافت کا جاں نثار اور ان تمام خوبیوں اور مناقب کو لئے ہوئے درویش صفت، انتہائی سادہ طبیعت اور منکسرالمزاج ہزاروں بچوں اور نوجوانوں کے محترم استاد مکرم قاری محمد عاشق صاحب نصف صدی سے زائد عرصہ تک خدمت قرآنِ کریم بجا لانے کے بعد مؤرخہ 13 جون 2023ء بروز منگل بعمر 85 سال اپنے مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہوگئے،
انا للہ وانا الیہ راجعون
محترم قاری محمد عاشق صاحب مؤرخہ 10 جون 1938ء کو حیدر آباد تھل، تحصیل بھکر ضلع میانوالی (حال ضلع بھکر) میں پیدا ہوئے۔ آپ کا بچپن اپنے آبائی گاؤں چاہ ببلیانوالہ (نزد حیدرآباد تھل) میں گزرا۔ چھ ماہ کے تھے کہ آپ کے والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ جس کے بعد آپ نے متعدد مدارس میں قرآنِ کریم کی تعلیم حاصل کی اور اسے حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ فنِ تجوید پر بھی عبور حاصل کیا اورعربی گرائمر یعنی قواعد صرف و نحو بھی پڑھے، اس مقصد کے لئے آپ کو کتنی ہی مرتبہ میلوں کا سفر پیدل طے کرنا پڑا۔ آپ نے یہ تعلیمی سفر اپنے قریبی قصبہ حیدرآباد تھل کے مدرسہ سے شروع کیا تھا اور پھر ضلع بھکر و خوشاب و ڈیرہ اسماعیل خان کے دور دراز دیہات اور قصبوں میں قائم مدرسوں کی خاک چھانتے ہوئے ملتان کے شہر عبدالحکیم میں ایک نابینا استاد قاری تاج محمد صاحب کے پاس پہنچے اور علمِ تجوید نیز سبعہ قراءت سیکھیں۔ آپ کی حصولِ علم کی پیاس نہ بجھی تو آپ نے مزید تعلیم کے حصول کے لیے جھنگ، اٹک، راولپنڈی، لاہور اور سرگودھا کے سفر بھی کئے اور آخر کار قاری تاج محمد صاحب کے مدرسہ(لاہور) میں تجوید کا کورس مکمل کرکے قاری کی سند حاصل کی۔ قرآنِ کریم حفظ کرنے اور تجوید سیکھنے کے بعد آپ نے پنجاب اور سندھ کے متعدد شہروں کے مدارس و مساجد میں تدریس بھی کی۔
آپ لمبے عرصہ تک تحقیق اور احمدی احباب سے مباحثوں اور گفتگو نیز خوابوں کے ذریعے ہدایت اور حق کے راستے کی طرف الٰہی راہنمائی کے بعد مجلس انصاراللہ مرکزیہ کےسالانہ اجتماع 1964ء میں شامل ہوئے اور اجتماع کے پروگرام دیکھ کر دل یقین سے بھر گیا کہ حق یہیں ہے چنانچہ اجتماع کے تیسرے دن بیعت کرکے نورِ احمدیت سے منوّر ہوگئے۔ آپ اپنے خاندان، علاقے اور اپنی قوم میں پہلے احمدی تھے جس وجہ سے احمدیت قبول کرنے کے بعد مشکلات کا ایک باب کھل گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو ثابت قدم رکھااور ایمان کا ایسا رنگ چڑھا کہ کوئی لالچ اورکوئی مخالفت آپ کو راہِ حق سے ہٹا نہ سکی۔
احمدی ہوجانے کے جلد بعد حضرت مرزا طاہر احمد صاحب نے وقفِ جدید میں تیار ہونے والے معلّمین کو قرآنِ کریم تجوید کے ساتھ پڑھانے کی ڈیوٹی آپ کو سونپی۔ جہاں آپ کا باقاعدہ تقرر یکم جنوری 1965ء سے ہوا۔ اسی دوران جامعہ احمدیہ کی شاہد کلاس کے طلباء اور نصرت گرلز کالج کی طالبات کو بھی قرآنِ کریم پڑھانے کا موقع ملتا رہا۔ جنوری 1969ء میں حافظ کلاس ربوہ کے انچارج مکرم حافظ شفیق احمد صاحب کی وفات کے بعد آپ کی ڈیوٹی میں حافظ کلاس کا بھی اضافہ ہوگیا اور 11 جون 1969ء کو آپ کا تقرر بطور انچارج حافظ کلاس ہوگیا۔ جس کے بعد آپ نے اسے “مدرسۃالحفظ’’ کے نام سےایک ادارہ کے طور پر منظّم کیا اور اِس چمن کی انتھک محنت، خلوص اور غیرمعمولی محبّت سے آبیاری کی۔ آپ کا سب سے قیمتی سرمایہ وہ سینکڑوں پاکستانی و غیر ملکی شاگرد ہیں جو آپ سے شرف تلمّذ حاصل کرکے قرآن کریم کے نور کو اپنے سینوں میں محفوظ کیے زمین کے کناروں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ جامعہ احمدیہ ربوہ کی پہلی اور آخری کلاس کو بھی ناظرہ قرآن کریم تجوید کے ساتھ پڑھاتے رہے۔
قرآن سکھانے اور پڑھانے کا جو طریقہ آپ نے اپنے اساتذہ اور ملک کے مانے ہوئے قاری حضرات سے حاصل کیا تھا، اسے احمدی ہونے کے بعد خلفائے احمدیت کی تربیت کے زیرِ سایہ مزید صیقل کیا اور اپنے شاگردوں تک پہنچایا، یہی وجہ ہے کہ آپ کے فیض سے کئی نسلوں تک کے احمدی احباب و خواتین نے فائدہ اٹھایا۔ آپ دفتری طور پر تو جون 1998ء میں ریٹائر ہوگئے تھے تاہم خدمت کا سلسلہ رُکا نہیں بلکہ مکرر تعیناتی ہونے کی صورت میں خدمت جاری رکھی اور 2019ء تک باقاعدہ مدرسۃالحفظ تشریف لے جاکر کلاسز لیتے رہے یہاں تک کہ عمر کے تقاضے اور کمزور ئ صحت کے باعث مجبوراً آپ گھر تک محدود ہوگئے لیکن آپ کا دل مدرسہ میں ہی موجود رہتا تھا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ سے مؤرخہ 20 فروری 1965ء کو شرفِ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس تاریخی ملاقات کا احوال اس طرح بتایا کرتے تھے کہ جب مَیں نے شرف مصافحہ حاصل کیا تو وہ لمحہ میرے لیے اپنی زندگی بدلنے کا موجب بنا۔ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے حضورؓ کی خدمت اقدس میں میرا تعارف کرایا کہ یہ قاری محمد عاشق صاحب ہیں جو نَومبائع ہیں۔ جب وہ میرا تعارف کرا رہے تھے تو حضورؓ ازراہِ شفقت نظر بھر کر مجھے دیکھتے رہےاور مَیں بھی حضورؓ کا بابرکت ہاتھ تھامے آپ کی زیارت سے مشرف ہوتا رہا۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو حفظ قرآن کا ملکہ، تجوید کے رموز کا علم، خوبصورت آواز میں قرأت کا منفرد انداز اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا گیا تھا، جس پر آپ شکرگزاری کی کیفیت میں جھکے ہوئے ہی نظر آئے۔ ہمیشہ انکساری، عاجزی اور متانت کے ساتھ گفتگو کرتے، اگر آپ کے سامنے کوئی آپ کی خوبیوں کا ذکر کرتا تو حکمت کے ساتھ مسکرا کر بات کا رُخ بدل دیتے۔ آپ نے ہر جماعتی ذمہ داری اور فرض کو دیانتداری، خلوص اور حسنِ انتظام کے ساتھ سرانجام دیا۔ آپ کے اندر قرآنِ کریم سے محبّت موجزن تھی، حفظ قرآن کو پختہ اور قائم رکھنے کے لیے روزانہ ایک پارے سے زیادہ حصہ کا دَور کرتے۔ یہی وجہ تھی کہ نماز تروایح میں آ پ بغیر رُکے ایسی روانی سے تلاوت کرتے جیسے کسی دریا اور ندی کا پانی ایک رفتار سے بغیر رکاوٹ سے بہتا چلا جاتا ہے۔ آپ کے پیچھے نماز پڑھنے والے مقتدی آپ کے خوش لحن اور مسحور کن آواز کے جادو میں مگن ہوجاتے۔ رمضان المبارک کے دوران مسجد مبارک میں 15 سال تک نمازِ تراویح پڑھانے کی ڈیوٹی لگتی رہی۔ بعد میں ربوہ کے کئی محلّہ جات اور ربوہ سے باہر جماعت کی متعدد بڑی بڑی مساجد میں بھی نماز تراویح پڑھانے کی توفیق ملتی رہی۔
قبول احمدیت کے پہلے سال ہی جلسہ سالانہ 1964ء کے بابرکت موقع پر آپ کوپہلی مرتبہ تلاوت قرآنِ کریم کی سعادت حاصل ہوئی پھر یہ سعادت 1983ء تک حاصل رہی۔ بعد ازاں جلسہ سالانہ قادیان اور برطانیہ کے مواقع پر بھی آپ کو تلاوت کرنے کی توفیق ملتی رہی۔
آپ کی رہتی دنیا تک جاری رہنے والی خدمات میں 1990ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے ارشاد پر لندن میں قاعدہ یسرناالقرآن اور پہلے پارہ کی کرائی جانے والی ریکارڈنگ بھی شامل ہے۔ بعد میں آپ نے ایم ٹی اے اسٹوڈیو میں مکمل قرآنِ کریم کی بھی ریکارڈنگ کرائی۔ اِس ریکارڈنگ سے ایم ٹی اے اور جماعت کی مرکزی ویب سائٹ کے ذریعہ دنیا بھر کے احمدی اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
مؤرخہ 14؍جون کو بعد نماز عصر بوقت چھ بجے احاطہ کوارٹرز صدرانجمن میں آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی، بعدازاں بہشتی مقبرہ دارالفضل میں سپردِ خاک کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ اس خادمِ قرآن وجود کی مغفرت فرماتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبرجمیل کی توفیق دے،آمین ثم آمین۔

متعلقہ مضمون

  • بلانےوالا ہے سب سے پیارا

  • بلانےوالا ہے سب سے پیارا

  • بلانےوالا ہے سب سے پیارا

  • بلانےوالا ہے سب سے پیارا