حضرت خلیفۃالمسیح الثانی کے ساتھ ڈاکٹر عطاءاللہ صاحب کی یادگار ملاقات کا احوال

(10ستمبر 1922ء بعد نماز عصر)

يورپ ميں ڈاکٹري تعليم کا اعليٰ مرکز

ڈاکٹر عطاء اللہ صاحب اسسٹنٹ سرجن مسلم يونيورسٹي علي گڑھ جو اپنے چھوٹے بھائي سميت جرمن ميں بغرض تعليم جارہے ہيں۔ حضرت خليفة المسيح کي خدمت ميں ملاقات کے لئے حاضر ہوئے۔پہلے تو ان سے جرمني کي موجودہ مالي حالت کے متعلق گفتگو ہوتي رہي۔ پھر حضور نے ان سے پوچھا آپ کس جگہ تعليم حاصل کريں گے۔ برلن ميں يا کسي اور جگہ۔ ڈاکٹر صاحب نے عرض کيا کہ وہاں جا کر فيصلہ کروں گا۔ حضور نے فرمايا، وائنا[1] ڈاکٹري کي اعليٰ ترين تعليم کے لئے مشہور ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے عرض کيا کہ جرمني ميں دو سال کا کورس ختم کرکے پھر تين مہينہ کے لئے وہاں جاؤں گا۔

21 گھنٹے روزانہ کام

پھر ککروں کے متعلق گفتگو ہوتي رہي۔ حضور نے فرمايا۔ مفتي (محمد صادق) صاحب نے ايک نسخہ بھيجا تھا۔ اس کے استعمال سے مجھے فائدہ ہوا ہے۔ اور اس گرمي کے موسم ميں 21۔21 گھنٹے تک ميں نے پڑھنے لکھنے کا کام کيا ہے۔ مگر کوئي تکليف نہيں ہوئي۔ اسي سلسلہ ميں چودھري صاحب کے ککرے تو بہت ہي سخت قسم کے ہيں۔

دعا سے آنکھوں کي شفايابي

حضرت خليفة المسيح نے فرمايا: دعا کے اوقات ہوتے ہيں۔ جب چودھري صاحب ولايت سے آئے۔ تو ڈاکٹر مير محمد اسمٰعيل صاحب نے ان کي آنکھوں کو ديکھا۔ اور مجھ کو بتايا کہ چودھري صاحب کي ايک (بائيں) آنکھ کا بچنا تو قريباً ناممکن ہے۔ اور دوسري بھي بہت خراب ہورہي ہے۔ مجھے اس سے قلق پيدا ہوا۔ کہ چودھري صاحب کام کے آدمي ہيں۔ مگر ان کي آنکھوں کے متعلق ڈاکٹر صاحب ايسا خيال کرتے ہيں۔ ميں نے دعا کي۔ تو رات کو خواب ميں ايک شخص نے کہا کہ ان کي آنکھ تو اچھي ہے۔ صبح کو ميں نے ڈاکٹر صاحب کو يہ خواب بتايا۔ اور انہوں نے پھر آنکھ کو ديکھا اور کہا کہ اب مرض کا ايک بٹا تين حصہ باقي رہ گيا ہے۔

چودھري صاحب نے عرض کيا۔ اس وقت ميري آنکھ ميں چنے کے برابر زخم ہوگيا تھا اور چھ انچ کے برابر زخم ہوگيا تھا۔ اور چھ انچ کے فاصلہ تک (ہاتھ کو آنکھ کے سامنے کرکے عرض کيا) يہاں سے ہاتھ نظر نہيں آتا تھا۔ بلکہ پاني سا سامنے نظر آتا تھا۔ اور اس سے پہلے يہ حالت تھي کہ ہر ايک دوائي مضر پڑتي تھي۔ پھر ہر ايک دوائي مفيد ہونے لگي۔ اب ميري طرف سے ہي سستي ہے کہ ميں دوائي کا استعمال نہيں کرتا۔ اس آنکھ کي نظر دوسري سے تيز ہوگئي ہے۔

مفقود الخبر جس کو مردہ کہا گيا تھا

اس کي زندگي کے متعلق اعلان

فرمايا چودھري صاحب کي آنکھوں اور ڈاکٹر مطلوب خاں کے متعلق اسي طرح ہوا۔ چودھري صاحب کي آنکھوں کے لئے دعا کي۔ اللہ تعاليٰ نے قبل ازوقت بتاديا اور ان کي آنکھيں اچھي ہوگئيں۔ اور مطلوب خاں کي موت کي خبر سرکاري طور پر آگئي۔ اور ساتھيوں کے خطوط بھي آگئے۔ اس خبر سے چند روز پہلے ان کے والدين يہاں آئے تھے۔ جو بہت ضعيف تھے۔ اگرچہ ان کے اور بھي لڑکے تھے۔ مگر مجھ کو اس وقت يہي خيال تھا کہ وہي ايک ان کا لڑکا تھا۔ چونکہ موت کي خبر آچکي تھي دعا تو کيا ہوتي مجھے کرب ضرور ہوا رات کو خواب ميں مَيں نے ديکھا کہ وہ مَرا نہيں زندہ ہے۔ دوسرے دن ميں نے اس کا ذکر بعض اصحاب سے کيا۔ اس کے چند روز بعد ڈاکٹر مطلوب خاں کا خط آگيا۔ کہ ميرے متعلق غلط فہمي ہوگئي تھي۔ ميں مرا نہيں تھا۔ بلکہ دشمن مجھ کو پکڑ کرلے گئے تھے۔

خوابوں کے اقسام اور يورپ کي تحقيقات

فرمايا: ايسي ايسي صداقتيں خواب کي ظاہر ہوتي ہيں۔ مگر لوگ پھر بھي اس کو يونہي سمجھتے ہيں۔ فرمايا يورپ کے لوگوں نے اس کے متعلق بہت تحقيقات کي ہے اور انہوں نے مختلف اسباب دريافت کئے ہيں۔ جن کے باعث مختلف قسم کے خواب آجاتے ہيں۔ مثلاً اگر کسي سمندري علاقہ کے باشندے کے جسم پر جبکہ وہ سويا ہوا ہو پاني کي بوتليں ڈالي جائيں اور پاس ہي موم بتي روشن کردي جائے تو وہ خواب ديکھے گا کہ وہ کشتي ميں سوار تھا جو ٹوٹ گئي اور وہ ڈوب رہا ہے اور آفتاب کي دھوپ اس کے جسم پر پڑ رہي ہے۔ ليکن اگر اندرون ملک کا باشندہ ہو تو وہ يہ خواب ديکھتا ہے پاني برسا ہےاور وہ آگ سينکتا ہے۔ فرمايا: چونکہ ان کے سامنے اس قسم کي مثاليں ہيں۔ اس لئے وہ خواب کو بےحقيقت سمجھتے ہيں۔ مگر ان کو يہ معلوم نہيں کہ خوابيں اور الہام بھي کئي قسم کے ہوتے ہيں اور اس کے نہ سمجھنے کي وجہ سے لوگ غلطي کھاتے ہيں۔

مسلم يونيورسٹي اور نيشنل مسلم يونيورسٹي

حضورؓ نے ڈاکٹر صاحب سے دريافت فرمايا کہ آپ نيشنل اور مسلم يونيورسٹي ميں کيا فرق سمجھتے ہيں۔ ڈاکٹر صاحب نے عرض کيا کہ نيشنل يونيورسٹي ميں مذہبي تعليم کا عنصر زيادہ ہے۔ باقي تعليم اسي قسم کي ہے۔ اور پروفيسر پہلے اچھے جمع ہوگئے تھے۔ مگر اب وہ جا رہے ہيں۔ پہلے انہوں نے پروپيگنڈا کے لئے ايک جماعت بنائي تھي۔ مگر بعد ميں تعليم کو بھي شامل کيا گيا۔

آزاد يونيورسٹي کے افسروں کي عدم فرض شناسي

فرمايا ان کے ضمير کس طرح تسلي پاتے ہيں کہ پبلک ميں کچھ اعلان کرتے ہيں اور کرتے کچھ ہيں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا۔ اب طلباء زيادہ حصہ سياسيات ميں نہيں ليتے۔ اب کي دفعہ ڈاکٹر محمد عالم صاحب کچھ طلباء لے آئے ہيں۔

ڈاکٹر صاحب نے کہا۔ يہاں ہندوستان ميں لوگ ملازمت کے لئے پڑھتے ہيں۔ اسي لئے آزاد يونيورسٹياں قائم نہيں ہوتيں۔ فرمايا اصل بات يہ ہے کہ جو آزاد يونيورسٹياں ہيں۔ ان ميں لوگ ان ذمہ داريوں کو پورےطور پر ادا نہيں کرتے۔ جو ان پر عائد ہوتي ہيں۔ مثلاً تاجروں کے لڑکے جن کو ملازمت نہيں کرني وہ بھي سرکاري مدارس ہي ميں جاتے ہيں۔ ان کو حساب کتاب سيکھنا ہوتا ہے۔ ليکن چونکہ وہاں کام ہوتا ہے۔ اس لئے وہ وہاں داخل ہوجاتے ہيں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ يہ لوگ اپنے طور پر کام کرنے کے ناقابل ہيں۔ انکسار کا سوال نہيں۔ کيونکہ انکسار کي بھي کوئي حد ہوتي ہے جو لوگ کچھ جانتے ہيں وہ کہتے ہيں کہ ہاں ہم يہ جانتے ہيں۔

حکومت سے پہلے اخلاق کي ضرورت ہے

کام کي قابليت کے حصول کا طريق بھي يہ ہے کہ پہلے اخلاق فاضلہ حاصل کئے جائيں اور لڑائي بھي دوسري قوم سے اس وقت کرني چاہيئے جب اپنے اخلاق درست ہوجائيں۔ اگر اخلاق درست ہوتے تو چند ليڈروں اور والينٹروں کے پکڑے جانے سے موجودہ تحريک سرد نہيں ہوسکتي تھي۔ مگر جب ليڈروں اور والينٹروں کي گرفتاري عمل ميں آئي سب جوش ٹھنڈا ہوگيا۔ ليڈروں کو يہ سمجھنا چاہيئے کہ لوگوں پر اتنا بوجھ ڈالنا چاہيئے۔ جس کے اٹھانے کي ان ميں قابليت ہو۔ اور سب سے پہلے ان کے لئے ضروري ہے کہ اخلاق فاضلہ پيدا کريں۔ چونکہ ان ميں اخلاق نہيں ہيں۔ انگريز بھي ان کي دھمکيوں کو ڈراوے سے زيادہ وقعت نہيں ديتے۔ اگر انگريزوں کو يقين ہوجائے کہ يہ جو کہتے ہيں وہ کردکھائيں گے اور ان کي اخلاقي حالت سنور گئي ہے تو وہ خودبخود ہي يہاں سے چلے جائيں گے۔

ان لوگوں ميں ان اخلاق کي کمي ہے جو حکومت کے ليے ضروري ہيں۔ اخلاق سے يہ مراد نہيں کہ اگر کسي کو ملنے گئے تو اس نے آؤبھگت کر دي۔ بلکہ اخلاق سے مراد وہ اخلاق ہيں جن کا تعلق حکومت سے ہے۔ اور وہ اور ہيں۔ اگر ہندوستانيوں ميں وہ اخلاق پيدا ہو جائيں تو انگريز خود ان کے لئے جگہ خالي کر ديں۔ آپ نے جانوروں ميں ديکھا ہے کہ وہ ايک دوسرے سے کم لڑتے ہيں۔ اور آنکھوں ہي آنکھوں ميں ايک دوسرے کو ديکھ کر الگ ہوجاتے ہيں۔ اللہ تعاليٰ نے ان کو يہ طاقت دي ہے کہ وہ دوسرے کي طاقت کا اندازہ کرليتے ہيں۔ اگر ہندوستانيوں ميں اخلاقي طاقت ہو تو اس کو انگريز محسوس کرليں گےکيونکہ طاقت کا اثر دوسرے پر ضرور پڑا کرتا ہے۔

سچي برداشت کي ضرورت

حکومت کے لئے جس اخلاق کي ضرورت ہے ان ميں سے ايک سچي برداشت بھي ہے۔ جہاں تک ميں نے مطالعہ کيا ہے۔ مسٹر گاندھي ميں بھي سچي برداشت نہيں ہے۔ چنانچہ ايک وقت ميں انہوں نے تقرير کرتے ہوئے کہا کہ گئوکشي بند کرنے کے لئے ہندو تلوار سے کام ليں گے۔ اور خون بہاديں گے۔ اگر کہا جائے کہ بعد ميں انہوں نے کہا ہے کہ ہندوؤں کو چاہيئے کہ مسلمانوں سے آشتي کے ساتھ گئوکشي بند کرائيں تو اس کو رائے کا بدلنا نہيں کہا جائے گا۔ کيونکہ جس طرح وہ گورنمنٹ سے مطالبہ کيا کرتے ہيں۔ کہ وہ اعلان کرے کہ اس سے فلاں غلطي ہوئي اسي طرح چاہيئے کہ وہ خود بھي اعلان کريں کہ ميرا پہلا بيان ميري غلطي تھا۔ اب ميرا خيال اس بارے ميں بدل گيا ہے۔ ہم اسي وقت سے اس کے متعلق لکھ رہے ہيں۔ اور ہمارے آدمي بمبئي ميں ان سے ملے بھي تھے مگر وہ بات کو ٹلا گئے۔

مسلمانوں کو ملزم مشہور کرنے کي کوشش

پھر ديکھئے شہزادہ ويلز کے آنے پر بمبئي ميں لوگوں نے گورنمنٹ کے مقابلہ ميں فساد کيا اس ميں زيادہ ہندو مارے گئے۔ زيادہ ہندو ماخوذ ہوئے۔ مگر مسٹر گاندھي يہي فرماتے ہيں کہ فسادي مسلمان تھے۔ اور مسز سروجني نيڈو بھي يہي اعلان کرتي ہيں کہ فسادي مسلمان زيادہ تھے۔

اگر کہا جائے کہ ہر بدي اور برائي ميں مسلمان آگے آگے ہوتے ہيں اور ہندو ہميشہ مسلمانوں کو آگے کرکے خود پيچھے ہوجايا کرتے ہيں تو يہ بھي ٹھيک نہيں کيونکہ اگر مسلمان ہي آگے ہوتے ہيں اور ہندو بھاگ جاتے ہيں تو بمبئي کے فساد ميں چاہيئے تو يہ تھا مسلمان زيادہ اس فساد ميں مارے جاتے۔ اور زيادہ گرفتار ہوتے ليکن برخلاف اس کے مرے بھي زيادہ ہندو ہيں اور گرفتاربھي زيادہ ہندو ہوئے۔ کيا اس وقت مسلمانوں نے يہ انتظام کرليا تھا کہ جب گولي آتي تو ہندوؤں کوآگے کرديتے۔ پھر اگر ہندو بزدلي دکھاتے ہيں تب بھي ان ميں اخلاقي کمزوري ہے۔ پس جب ليڈروں کا يہ حال ہے تو دوسروں کا کيا حال ہوگا۔

ليڈر کا ماہر ہونا ضروري ہے

اگر کہا جائے کہ فلاں ہندو ليڈر ميں حکومت کي قابليت نہيں۔ مثلاً گاندھي صاحب ہي کو ليا جائے تو پھر وہ اس ايجي ٹيشن ميں ليڈر ہونے کے قابل نہيں۔ کيونکہ ہر شخص اس بات ميں ليڈر ہوسکتا ہے جس کا وہ اہل اور ماہر ہو۔

يہ لوگ پہلے ہي حکومت کے خيال ميں پڑ گئے مگر اس بات کي طرف توجہ بھي نہيں کرتے کہ حکومت کے لئے کس چيز کي ضرورت ہے۔ آپ ڈاکٹر ہيں جانتے ہيں کہ پھوڑا جہاں ہو وہيں نشتر لگايا جاتا ہے۔ ليکن اگر پھوڑا تو ہو مثلاً ہاتھ ميں اور نشتر لگايا جائے پير ميں تو اس سے کيا فائدہ ہوسکتا ہے۔ سب سے پہلے ليڈروں کو اخلاق کي درستي کي طرف توجہ کرني چاہيئے۔ اگر کچھ لوگوں کے اخلاق درست بھي ہوں تو اس سے کيا ہوتا ہے۔ جبکہ عموماً اکثر لوگوں کي اخلاقي حالت درست نہ ہوچکي ہو۔

اہل جرمن کي اخلاقي حالت

جرمن والوں کو ديکھئے شکست کھا چکے ہيں اور بري حالت ميں ہيں۔ مگر باوجود اس کے کہ وہ 6 کروڑ ہيں مگر اتحاديوں کو جرأت نہيں ہوئي کہ ان کے ملک پر قبضہ کرليتے۔ کيوں اسي لئے کہ ان کے متعلق جانتے ہيں ہم ان پر حکومت نہيں کرسکتے۔ کيونکہ ان کي حالتِ اخلاقي بحيثيت قوم کے درست ہے۔

پس جو طريق ہندوستان کے ليڈروں نے اختيار کيا ہے وہ غلط ہے اور غلط طريق پر چل کر کاميابي نہيں ہوا کرتي۔

اخلاقي نقائص کا اعلان

ڈاکٹر صاحب نے عرض کيا۔ يہ حالت تو پھر پيدا کرني چاہيئے۔ فرمايا حضرت مسيح موعودؑ کو اللہ تعاليٰ نے اسي لئے مبعوث فرمايا تھا۔ ہم احمديوں ميں يہ حالت پيدا کي گئي ہے۔

احمديوں کي اخلاقي حالت

اگر کہا جائے کہ احمديوں ميں بھي کمزور ہيں۔ اوّل تو ميں کہوں گا۔ اصلاح بتدريج ہوا کرتي ہے۔ دوسرے بات يہ ہے کہ لوگوں کے سامنے تو دو تين مثاليں ہوتي ہيں۔ مگر ميرے سامنے ساري جماعت ہے۔ کہنے کو تو ميں قاديان ميں بيٹھا ہوں ليکن ميرے کان ہر جگہ ہيں۔ رسول کريمؐ کے متعلق کہا گيا تھا ہُوَ اُذُن کہ جو بات کي جائے اس کو پہنچ جاتي ہے۔ يہي حال ہمارا ہے۔ ہر جگہ کے حالات ہميں معلوم ہوتے رہتے ہيں۔ اصل بات يہ ہے کہ جماعت کے افراد کو يہ ايک دھکا پيغاميوں کے فتنے سے لگا تھا کہ کمزور لوگوں نے سمجھ ليا۔ جب ہم ان کمزوريوں کے باوجود بھي احمدي رہ سکتے ہيں۔ تو انہوں نے کمزوريوں کے رَفع کرنے کي طرف توجہ نہ کي۔ اور جماعت سے کٹ کر ان ميں شامل ہوگئے۔ يا پھر جن لوگوں کے مرکز سے تعلقات مضبوط نہ رہے۔ ان ميں کمزوري آگئي۔ يہ کہنا کہ احمديوں ميں برداشت نہيں، صحيح نہيں۔

ہم لاہور جاتے ہيں۔ ہر طبقہ کے لوگ ملنے آتے ہيں۔ اور کسي وقت فرصت نہيں ملتي وہ لوگ زيادتي بھي کرتے ہيں اور پھر خود ہي اپني غلطي کو محسوس کرليتے ہيں۔

ڈاکٹر صاحب نے عرض کيا کہ آپ تو احمديت کا نمونہ ہيں۔ چاہيئے کہ سب لوگ ايسا ہي نمونہ بنيں۔

فرمايا يہ تو پھر ہر شخص کو اپنے نفس کو سمجھانا چاہيئے۔

(الفضل قاديان مؤرخہ 9؍اکتوبر 1922ء صفحہ5)

 

[1]– اغلباً ‘ويانا’

 

متعلقہ مضمون

  • جلسہ گاہ میں ایک تعارفی پروگرام

  • پہلا جلسہ سالانہ جرمنی

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم

  • جماعتی سرگرمیاں