ایک محنتی، دیانتدار تاجر اور مخلص خادمِ دین
مکرم محمود احمد صاحب

مکرم داؤد احمدصاحب، کارکن شعبہ وقف نوجرمنی

خاکسار کے والد محترم محمود احمد صاحب المعروف محمود کریانہ سٹور گولبازار ربوہ مؤرخہ 14؍اپریل 2021کوجرمنی میں 87 سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔ وفات کے وقت آپ جرمنی کے شہر Oberursel میں رہائش پذیر تھے۔ مورخہ 20 اپریل 2021کو اِسی شہر کے قبرستان میں آپ کو سپرد خاک کیا گیا۔ نمازِ جنازہ محترم حسنات احمد صاحب نائب امیر جماعت احمدیہ جرمنی نے پڑھائی۔

اس عارضی زندگی سے مستقل ٹھکانے کی طرف منتقلی تک کے سفر میں انسان کو کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس سفر زندگی میں کامیابی کے لئے مومن کو بہت سے امتحانات بھی درپیش ہوتے ہیں۔ جب خاکسار اپنے والد صاحب کی زندگی پر نظر دوڑاتا ہے تو اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ خدا کے فضل سے آپ ا پنے دائرہ استعداد میں ایک کامیاب انسان تھے۔ آپ اپنے عزیزوں اور دوستوں کے لئے ہمدردی اور خیر خواہی کا ایک عملی نمونہ تھے۔

ہمارے پردادا محترم دسوندی کھوکھر صاحب آف گرجاکھ (GARJAKH) ضلع گوجرانوالہ کےایک متدیّن بزرگ تھے جو دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی حقانیت کا عرفان عطا فرمایا اور سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثانیکے ہاتھ پر بیعت کرکے آپ نے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شمولیت کی توفیق پائی۔ مخالفت اس حد تک ہوئی کہ آپ کو فیملی سمیت گرجاکھ چھوڑکر گھنو کے ججہ ضلع سیالکوٹ منتقل ہونا پڑا۔ میرے دادا کا نام محمد رمضان تھا۔ میرے والد صاحب کی پیدائش یہیں پر ہوئی اور اُنہوں نے یہاں ہی اپنابچپن گزارا اور تعلیم الاسلام ہائی سکول گھٹیالیاں سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔

قیام پاکستان کے بعد دارالہجرت ربوہ الٰہی نوشتوں کے مطابق آباد ہونے لگا اور جماعت احمدیہ کا جلسہ سالانہ بھی یہاں منعقد ہونے لگا تو والد صاحب محترم بھی 23 سال کی عمر میں 1957ء میں گھنوکے ججہ سے ربوہ نقل مکانی کرگئے۔ یہاں آکرآپ نے محمود کریانہ سٹور کے نام سے دُکان بنالی۔ ‘‘محمود کریانہ سٹور گولبازار’’ ربوہ کی با اعتماد دُکانداری کی ایک پہچان تھی۔ ربوہ میں قیام کےدوران قرآنِ مجید کے اس حکم الٰہی:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُلۡہِکُمۡ اَمۡوَالُکُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُکُمۡ عَنۡ ذِکۡرِ اللہِۚ وَمَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ۔

(سورةالمنافقون:10)

ترجمہ: ‘‘اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمہیں تمہارے اموال اور تمہاری اولاد اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں اور جو ایسا کریں تو یہی ہیں جو گھاٹا کھانے والے ہیں’’پر سختی سے کاربند رہے اور تجارت کے کام کی وجہ سے آپ ذکر اللہ سے کبھی غافل نہیں ہوئے اور دین کو دنیا پر مقدم کئے رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اُن کی تجارت میں برکت ڈالی اور آپ کی اولاد کو بھی اپنے فضلوں سے نوازا،الحمدللہ۔

حضرت مسیح موعود کے ارشاد؏ ‘‘ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج’’ کے مطابق ربوہ کے اردگرد لوگوں کو پیغامِ حق پہنچانے کے لئے کثرت سے پروگرام بنائے جاتے تھے۔ والد صاحب اس خدمت میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔ خدام کبھی پیدل اور کبھی سائیکلوں پر جاتے تھے،الحمدللہ۔ اس کے نیک نتائج بھی نکلتے تھے۔ ربوہ کے اردگرد دیہات میں کافی تعداد میں سعید روحیں سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہوئیں،فالحمدللہ علیٰ ذالک۔ چونتیس سال ربوہ میں رہائش کے دوران محترم والد صاحب کو ایک خادم، ناصر اور ایک عام ممبر جماعت کی حیثیت سے کئی شعبوں میں خدمت کی توفیق ملی اور تبلیغ کے کام میں تو آپ گویا جتے رہتے تھے۔

خلافتِ احمدیہ کے سایہ میں جماعت احمدیہ کا نظام جاری ہے جس کے تحت آپ کو خدمت کی توفیق ملتی رہی اور تا دمِ آخر آپ مختلف شعبوں میں کام کرتے رہے۔ گولبازار کی مجلس خدام الاحمدیہ کو ان کے دورِ زعامت میں عَلمِ انعامی حاصل کرنے کی توفیق ملی۔

حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی پاکستان سے ہجرت نے جماعت کی جو سرگرمیاں پاکستان میں ناممکن بنا دی گئی تھیں ان کو بیرون پاکستان فروغ ملا جو اکثر احمدیوں کی پاکستان سے ہجرت کا باعث بنا اور آپ بھی 34 سال ربوہ میں برکتیں سمیٹنے کے بعد 1991ء میں جرمنی آگئے اور یہاں بھی آخر دَم تک جماعت کے مختلف شعبوں میں خدمتِ دین کرنے کی توفیق پاتے رہے۔

آپ نمازیں ہمیشہ باجماعت پڑھتے اور اہل و عیال کو پڑھاتے تھے۔ سب بچوں کی دینی و دنیاوی تعلیم کا خیال رکھتے تھے۔ خاص طور پر قرآن مجید کی محبّت کو ان کے دلوں میں بٹھایا،فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔

آپ ایک مخلص خادم سلسلہ اور مشفق والد تو تھے ہی اپنے دوست احباب کے ساتھ بھی آپ کی میل ملاقات رہتی تھی جو آپ سے تعلق رکھنے والوں کے دلوں میں آپ کے لئے ایک چاہت کا جذبہ پیدا کر دیتی تھی۔ آپ کی وفات پر بہت سے عزیز دوستوں نے دنیا بھر سے تعزیّت کا اظہار کیا اور آپ کے لئے بلندیٔ درجات کی دعائیں کیں،فجزاھم اللہ احسن الجزاء۔

آپ نے پسماندگان میں 6 بیٹے، 2 بیٹیاں، 18 پوتے پوتیاں اور 6نواسےنواسیاں چھوڑی ہیں۔ ایک محسن باپ کی جدائی یقیناً بہت بڑ اصدمہ ہے لیکن ہمیں یہی سکھایا گیا ہے کہ؎

بلانے والا ہے سب سے پیارا

اُسی پہ اے دِل تُو جاں فدا کر

ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر صدق دِل سے راضی اور دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے والد محترم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ علیّین میں جگہ عطا فرمائے اور آپ کے درجات بلند فرماتا چلا جائے اور ہمیں اُن کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اُن کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔

متعلقہ مضمون

  • مکرم صلاح الدین قمر صاحب کاذکرِ خیر

  • مکرم کنور ادریس صاحب مرحوم کا ذکر خیر

  • محترم ڈاکٹر میاں ظہیر الدین منصور احمد صاحب

  • میرے پیارے والدین