مکرم جسٹس ظفر احمد صاحب

جلسہ سالانہ جرمنی 2023ء کے موقع پر

جماعت احمدیہ جرمنی کا 47 واں جلسہ سالانہ جماعت کے جرمنی میں قیام کی پہلی اور دوسری صدی کے سنگم پر منعقد ہوا۔ سو سال قبل بنگال کے رہنے والے حضرت مولوی مبارک علی صاحبؒ اعلائےکلمۃاللہ کی غرض سے جرمنی بھجوائے گئے تھے۔ اس نسبت سے اس جلسہ کے موقع پر جماعت احمدیہ جرمنی نے بعض غیرمعمولی پروگرام ترتیب دئیے تھے تاکہ جشنِ تشکر شایان شان طور پر منایا جاسکے۔ ان صد سالہ تقریبات اور جلسہ سالانہ کا علم حضرت مولوی مبارک علی صاحبؒ کے ایک نواسہ مکرم جسٹس ظفراحمد صاحب کو ہوا تو انہوں نے فوری طور پر اس جلسہ میں شرکت کا پروگرام بنا لیا۔ ہمارے لئے یہ اَمر باعثِ فخر ہوا کہ جس بزرگ نے جرمنی میں جماعت کی بنیاد رکھی تھی، سو سال گزرنے پر ان کی نسل میں سے ایک فرد جماعت کی ترقیات کے ایمان افروز نظارے دیکھنے کے لئے یہاں موجود تھا، الحمدللہ۔

محترم جسٹس ظفر صاحب 1968ء میں محترم نذیر احمد صاحب اور محترمہ رقیہ بیگم صاحبہ بنت حضرت مولوی مبارک علی صاحبؒ کے ہاں پیدا ہوئے، آپ کے والد محترم نے آپ کو مقامی سکول و کالج میں ابتدائی تعلیم دلوائی پھر آپ کو قانون کی اعلیٰ تعلیم کے لئے لندن بھجوایا۔ جہاں سے آپ نے قانون کے مشہور ادارہ Lincoln’s Inn سے 2006ء میں بار ایٹ لاء کی ڈگری حاصل کی۔ وطن بنگلہ دیش واپس جاکر عدلیہ کے ساتھ منسلک ہوگئے۔ سیشن جج سے ترقی کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے جج بنے۔ اِن دنوں سپریم کورٹ کے تحت ہائی کورٹ کے ایک خصوصی بنچ میں فرائض انجام دے رہے ہیں اور قوم و ملک کی خدمت بجالا رہے ہیں۔

(بائیں سے دائیں دوسری کرسی پر بیٹھے ہوئے) مکرم جسٹس ظفر احمد صاحب بیت السبوح میں حضورانو سے ملاقات کی سعادت پا رہے ہیں

آپ کو ابتداء سے ہی کسی نہ کسی رنگ میں جماعتی خدمت کی بھی توفیق ملتی رہی ہے۔ آپ ڈھاکہ میں نائب قائد مجلس خدام الاحمدیہ رہے ہیں۔ اسی طرح نیشنل مجلس عاملہ میں مہتمم اشاعت کے طور پر بھی خدمت کی توفیق پائی۔ جب لندن میں زیرِتعلیم تھے تب بھی بنگلہ ڈیسک سے منسلک رہے اور لندن سے واپسی سے قبل 1999ء میں آپ کے اعزاز میں ایک الوداعی تقریب ہوئی جس میں ازراہِ شفقت و احسان حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ نے بھی شرکت فرمائی تھی۔

جلسہ سالانہ جرمنی کے دوران موصوف کا ایک انٹرویو ایم ٹی اے پر براہِ راست بھی نشر ہوا، علاوہ ازیں تاریخ کمیٹی جرمنی کی طرف سے لگائی گئی صد سالہ نمائش پر جب جسٹس صاحب تشریف لائے تو یہاں بھی آپ کے ساتھ آپ کے نانا کی خدمات کی نسبت سے ایک گفتگو کی گئی۔ اس گفتگو میں آپ نے بتایا کہ میرے نانا حضرت مولوی مبارک علی خان صاحب کی پرورش اور تربیت ان کے ماموں نے کی تھی۔ انہوں نے ہی ان کی تعلیم اور بعدازاں ملازمت کا بھی انتظام کیا۔ ان کی شادی 1913ء یا 1914ء میں اپنی ماموں زاد سے ہوئی۔ شادی کے اس انتخاب کے لئے آپ نے دینی پہلو، اعلیٰ کردار اور نیک سیرت کو ترجیح دی، جو محترم مولوی صاحب کی نیکی اور تقویٰ کا گواہ ہے۔

’’محترم مبارک احمدبنگالی صاحب جرمنی کے پہلے مبلغ تھے اور اب جرمنی جماعت کے قیام پر 100 سال پورے ہو رہے ہیں، آپ کے کیا جذبات ہیں؟“ کا جواب دیتے ہوئے جسٹس صاحب نے بتایا کہ جماعت کے ابتدائی مبلّغین مثلاً حضرت مفتی محمد صادقؓ صاحب، مولوی عبدالرّحیم نیّر صاحب، مولوی رحمت علی صاحب، کرم الٰہی ظفر صاحب نے بیرونی ممالک میں جماعت کے قیام کے سلسلہ میں بہت قربانیاں دی ہیں اور اب ان کی نسلیں ان قربانیوں کا پھل کھا رہی ہیں۔ ایک ابتدائی مبلغ کی نسل میں سے ہونے کے ناطہ مَیں بھی ان کی قربانیوں کا پھل کھا رہا ہوں۔ اس سلسلہ میں ہمارے کیا فرائض ہیں۔ اس کے بارے میں جب مَیں سوچتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ ان ابتدائی مبلغین نے کس صبر و حوصلہ، بلند ہمت، عزم اور ذہانت سے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے اسلام کا پیغام دنیا کے کونوں میں پھیلانے کی غرض سے قربانیاں کیں۔ ہمیں اپنی تاریخ سے واقف ہونا چاہئے تا ہمیں علم ہوکہ ہمارے آباء و اجداد کون تھے، ہمارےبزرگوں نے کیا قربانی دی اور اب ہم کس مقام پر کھڑے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لئے کیا چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ کیا صرف دنیاوی کامیابیوں کا حصول ہی ہمارے مدِّنظر ہے یا اسلام احمدیت کی دولت بھی ان کے لئے چھوڑ رہے ہیں؟ ابھی کچھ دیر پہلے ہی لنچ کے دوران مولانا فیروز عالم صاحب اس وقت موجود احباب کی طرف اشارہ کرکے مجھےفرما رہے تھے کہ اس وقت یہاں ہر رنگ و نسل کے احباب موجود ہیں۔ کیا یہ عالمی امن کا ایک مظاہرہ نہیں۔ یہ میرے جذبات ہیں اس موقع پر۔ علاوہ ازیں آپ نے جلسہ سالانہ جرمنی 2023ء کے بارے میں اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس موقع پر جماعت جرمنی کے احباب مکمل طور پر مختلف نظر آئے، سب لوگ نہایت درجہ عاجزی اور لگن کے ساتھ اپنے سپرد خدمات بجالا رہے تھے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ جو پیشہ کے اعتبار سے بہت اونچے عہدوں پر تھے لیکن یہاں اطاعت کے جذبہ سے سرشار پوری تندہی سے ڈیوٹیاں کرتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے اور اس طرح اپنے فرائض انجام دے رہے تھے جیسے اپنے کام پر پوری ذمہ داری کے ساتھ فرائض ادا کرتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ میں بہت جلد جلسہ سالانہ جرمنی میں دوبارہ شریک ہوں۔

(اخبار احمدیہ جرمنی، شمارہ جنوری 2024ء صفحہ 33)

متعلقہ مضمون

  • پروگرام 48 واں جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ جرمنی 2024ء

  • جلسہ سالانہ کا ایک مقصد ’’زہد‘‘ اختیار کرنا ہے

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • ہدایات برائے جلسہ سالانہ جرمنی 2024ء