20 فروری 1886ء کی عظیم الشان پیشگوئی جماعت احمدیہ مسلمہ میں کسی معجزہ سے کم نہیں جس نے مردے زندہ کیے اور اسلام جو بظاہر ایک مردہ مذہب نظر آتا تھا اور دنیا سمجھتی تھی کہ اب یہ مٹنے کے قریب ہے۔ خدا نے اپنا مسیح اور پھر اس کی نظیر مصلح موعودؓ کی صورت بھیج کر اس کو دوبارہ زندہ کر دیا۔ اب یہ شجر چہار دانگ عالم میں اپنی بہار دکھا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مصلح موعود ہونے کا انکشاف حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدصاحبؓ پر پانچ اور چھ جنوری 1944ء کی درمیانی شب مکرم شیخ بشیر احمد صاحب کی کوٹھی پر لاہور میں ہوا۔ 28 جنوری کو مسجد اقصیٰ قادیان میں خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفةالمسیح الثانیؓ نے پہلی مرتبہ اس کا اعلان فرمایا۔ اس سلسلہ میں پہلا جلسہ 20 فروری 1944ء کو ہوشیارپور میں، دوسرا جلسہ 12 مارچ 1944ء کو لاہور میں، تیسرا 23 مارچ کو لدھیانہ میں اور 16 اپریل کو دہلی میں چوتھا جلسہ منعقد ہوا۔

اُسی سال جلسہ سالانہ قادیان کے آخری روز 28 دسمبر 1944ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے اس عظیم الشان پیشگوئی کے ہر حصہ کی تفصیل سے وضاحت فرمائی اور ساتھ ہی اس پر اُٹھنے والے اعتراضات کے مدلل جواب دئیے جو ‘الموعود’ کے نام سے شائع شدہ ہے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ مخالفت اور دشمن کی توجہ ہی صحیح حقیقت کا اظہار کیا کرتی ہے۔ اور جس بات کی جس قدر شدید مخالفت ہو تو سمجھنا چاہیے کہ کوئی اہم بات ہے جو دشمن اس کی مخالفت میں اس قدر جوش و خروش دکھا رہا ہے۔ آپؓ نے حضرت مسیح موعود کی کتاب براہین احمدیہ کی مخالفت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

’’پس مخالفین اسلام کا گھبرانا، ان کا شور مچانا، ان کا گند اچھالنا اور ان کا براہین احمدیہ کی اشاعت پر اس کی تردید کے لیے کمربستہ ہوجانا خود اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ اس کتاب کو اپنے لیے ایک زبردست خطرہ سمجھنے لگ گئے اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر اسلام کی حفاظت کا یہ سلسلہ اسی رنگ میں جاری رہا تو اسلام غالب آجائے گا اور ہم مغلوب ہوجائیں گے۔ مگر مسلمانوں نے اس نکتہ کو نہ سمجھا اور انہوں نے خود بھی حضرت مسیح موعود پر حملے شروع کر دئیے اور اس طرح عیسائیت اور آریہ سماج کا ہاتھ مضبوط کرنے لگ گئے‘‘۔

(الموعود۔ انوار العلوم جلد 17 صفحہ 523)

حضرت مصلح موعودؓ نے پیشگوئی میں بیان فرمودہ 52 علامات اور ان کی تفصیل بیان فرمائی اور ثابت کیا کہ یہ نشانیاں حضورؓ کی ذات اقدس میں پوری ہوچکی ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے خلاف اٹھنے والی ہر سازش اور تحریک کے ختم بلکہ تباہ ہوجانے اور جماعت کے حق میں ظاہر ہونے والی خدا کی تائید و نصرت کا بھی تفصیل سے ذکر فرمایا۔

حضورؓ نے اپنی متعدد رؤیا و کشوف کا بھی ذکر فرمایا کہ وہ کس شان سے پورے ہوئے۔ سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کو خداتعالیٰ کی طرف سے جو یقین و توکل عطا کیا گیا تھا اس پر بڑی تحدی سے خداتعالیٰ کی قسم کھا کر آپ نے فرمایا:

’’مَیں کہتا ہوں اور خداتعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مَیں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں اور مجھے ہی اللہ تعالیٰ نے ان پیشگوئیوں کا مورد بنایا ہے جو ایک آنے والے موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود نے فرمائیں۔ جو شخص سمجھتا ہے کہ مَیں نے افتراء سے کام لیا ہے یا اس بارے میں جھوٹ اور کذب بیانی کا ارتکاب کیا ہے وہ آئے اور اس معاملے میں میرے ساتھ مباہلہ کرلے اور یا پھر اللہ تعالیٰ کی مؤکّد بعذاب قسم کھا کر اعلان کر دے کہ اسے خدا نے کہا ہے کہ میں جھوٹ سے کام لے رہا ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ خود بخود اپنے آسمانی نشانات سے فیصلہ فرما دے گا کہ کون کاذب ہے اور کون صادق ‘‘۔

(الموعود۔ انوارالعلوم جلد17 صفحہ612)

حضور نے اس خطاب کے آخر پر احباب جماعت کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:

’’ آپ لوگ جو میرے اس اعلان کے مصدق ہیں آپ کا اولین فرض یہ ہے کہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں اور اپنے خون کا آخری قطرہ تک اسلام اور احمدیت کی فتح اور کامیابی کے لئے بہانے کو تیار ہو جائیں… اگر تم ترقی کرنا چاہتے ہو، اگر تم اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر سمجھتے ہو تو قدم بقدم اور شانہ بشانہ میرے ساتھ بڑھتے چلے آؤ تاکہ ہم کفر کے قلب میں محمد رسول اللہﷺ کا جھنڈا گاڑ دیں اور باطل کو ہمیشہ کے لئے صفحہ عالم سے نیست و نابود کر دیں اور ان شاءاللہ ایسا ہی ہوگا۔ زمین اور آسمان ٹل سکتے ہیں مگر خداتعالیٰ کی باتیں کبھی ٹل نہیں سکتیں‘‘۔

(الموعود۔ انوارالعلوم جلد 17 صفحہ 615،616)

(مرتبّہ: محمد انیس دیالگڑھی)

(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ فروری 2024ء صفحہ 14)

متعلقہ مضمون

  • اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

  • روئداد جلسہ دعا

  • کتاب البریہ

  • ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے