مجھ کو مرے آقا کی جھلک ایک دکھا دے
پیاسا ہوں مری پیاس خدارا تُو بجھا دے
اے دوست تو دربارِ خلافت میں لیے چل
اُس ماہِ جہاں تاب سے تُو مجھ کو ملا دے
مَیں بھی ہوں اسی حُسن وفا کیش کا عاشق
‘‘دیوانوں کی فہرست میں اک نام بڑھا دے’’
یہ ایک حقیقت ہے دعا ہے وہ سراپا
میری بھی تمنا ہے کہ وہ مجھ کو دعا دے
جتنے بھی ہیں سب کام سنور جائیں گے میرے
اک نگہِ کرم وہ جو مری سمت اٹھا دے
جاتا ہی نہیں خالی کوئی بزم سے اُس کی
ہر ایک کو وہ تحفۂ صد مہر و وفا دے
اس مہ کا دل و سینہ ہے چاہت کا خزینہ
آدابِ محبّت وہ جہاں بھر کو سکھا دے
وہ بولے تو عرفان کے بہنے لگیں جھرنے
لکھے تو جواہرات وہ کاغذ پہ سجا دے
اس شجر خلافت کے گھنے سائے میں جو ہو
ہر اِک کو یہ اثمارِ گُلِ صِدق و صفا دے
سرسبز اسے تا بہ ابد رکھ مرے مولا
سیراب اسے کرنے کو تو آبِ بقا دے

متعلقہ مضمون

  • تری کائنات کا راز تو نہ کسی پہ تیری قسم کھلا

  • محرم الحرام

  • محبوبِ جہاں

  • ابیاتِ شہیدِ مرحوم