جَرِیُّ اللّٰہِ فِی حُلَلِ الْاَنْبِیَاءِ

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو جو مختلف القاب عطا ہوئے ان میں سے ایک جَرِیُّ اللّٰہِ فِی حُلَلِ الْاَنْبِیَاءِ ہے۔ یہ لقب اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو الہاماً عطا فرمایا اور اس کی خوش خبری اپنے پاک کلام قرآن مجید کی سورۃ المرسلات میں یوں دی۔

  وَاِذَا الرُّسُلُ اُقِّتَت یعنی جب رسول مقرر وقت پر لائے جائیں گے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام  نےاس الہام کا ترجمہ اس طرح فرمایا ہے:
’’یہ رسول خدا ہے تمام نبیوں کے پیرایہ میں یعنی ہر ایک نبی کی ایک خاص صفت اس میں موجود ہے‘‘۔

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 82)

ہمارا ایمان ہے کہ سیّدنا حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ تمام اقوام عالم کے لیے خاتم النبیین ہیں۔ اسی طرح آپ کی غلامی میں آنے والے آخری زمانہ کے موعود کو آنحضرتﷺ کا پیغام تمام دنیا میں پہنچانے کی ذمہ داری سپرد کی گئی۔ مذکورہ بالا آیت کی وضاحت میں سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود فرماتے ہیں:’’اور جب رسول وقت مقرر پر لائے جائیں گے یہ اشارہ درحقیقت مسیح موعود کے آنے کی طر ف ہے اور اِس بات کا بیان مقصود ہے کہ وہ عین وقت پر آئے گا اور یاد رہے کہ کلام اللہ میں رسل کا لفظ واحدپر بھی اطلاق پاتا ہے اور غیر رسول پر بھی اطلاق پاتا ہے اور یہ مَیں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں کہ اکثر قرآنِ کریم کی آیات کئی وجوہ کی جامع ہیں جیسا کہ یہ احادیث سے ثابت ہے کہ قرآن کے لئے ظہر بھی ہے اور بطن بھی۔ پس اگر رسول قیامت کے میدان میں بھی شہادت کے لیے جمع ہوں تو اٰمنّا وصدّقنا لیکن اس مقام میں جو آخری زمانہ کی ابتر علامات بیان فرما کر پھر اخیر پر یہ بھی فرما دیا کہ اس وقت رسول وقت مقرر پر لائے جائیں گے۔ تو قرائن بینہ صاف طور پر شہادت دے رہے ہیں کہ اُس ظلمت کے کمال کے بعد خداتعالیٰ کسی اپنے مرسل کو بھیجے گا تا مختلف قوموں کا فیصلہ ہو‘‘۔

(شہادت القرآن۔ روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 319،320)

اسی طرح آپ علیہ السلام  فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ نے ہمارا نام آدمؑ بھی رکھا ہے۔ نوحؑ بھی رکھا ہے۔ موسیٰؑ بھی رکھا ہے۔ داؤدؑ۔ سلیمانؑ۔ عیسیٰؑ۔ محمدؐ غرض بہت سے انبیاء کے نام ہم کو دیئے ہیں اور پھر یہ بھی فرمایا ہے کہ جَرِیُّ اللہِ فِی حُلَلِ الْاَنْبِیَاءِ جس میں یہ اشارہ ہے کہ مسیح موعود تمام انبیاء گزشتہ کا مظہر ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ392-393 ایڈیشن 1984ء)

اس آیت کی وضاحت سیّدنا المصلح الموعود نے تفسیرصغیر میں یوں بیان فرمائی ہے کہ’’یعنی ایک ایسا مامور کھڑا ہوگا جسے سب نبیوں کے نام دئیے جائیں گے۔ یعنی اس کے متعلق موسیٰؑ، عیسیٰؑ، کرشنؑ، رام چندرؑ اور بدھؑ سب کی پیشگوئیاں ہوں گی۔ اسی طرح بعد کے ولیوں کی جیسے امام احمد سرہندیؒ اور نعمت اللہ ولیؒ وغیرہ کی پیشگوئیاں بھی ہوں گی‘‘۔

 (تفسیر صغیر صفحہ 791)

سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ زیرِنظر آیت کی وضاحت میں فرماتے ہیں: ’’جب بڑی بڑی پہاڑوں جیسی قوتیں جڑوں سے اکھیڑ دی جائیں گی اور تمام رسول مبعوث کئے جائیں گے۔ اس آیت کے متعلق علماء یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ قیامت کا نظارہ ہے۔ لیکن قیامت میں تو کوئی پہاڑ اکھیڑے نہیں جائیں گے اور رسول تو اس دنیا میں مبعوث کئے جاتے ہیں۔ قیامت کے دن تو مبعوث نہیں کئے جائیں گے۔ پس مراد لازماً یہی ہے کہ قرآن کریم کی پیشگوئی کے مطابق حضور اکرمﷺ کی کامل غلامی اور اطاعت کے نتیجہ میں ایک ایسا نبی برپا ہوگا جس کا آنا گزشتہ سب رسولوں کا آنا ہوگا۔ یعنی اس کی سعی سے ہر گزشتہ رسول کی امت رسول اللہﷺ کی اُمّت میں داخل ہوگی‘‘۔

(ترجمۃالقران از حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ۔ تعارف سورۃ المرسلات صفحہ 1111)

زیرنظر مضمون چونکہ بہت وسیع ہے اس لیے سرِ دست یہاں صرف حضرت مسیحؑ، آدمؑ اور سیّدنا حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کے بروز سے متعلق حضرت مسیح موعود کے الفاظ میں چند اقتباسات ہدیۂ قارئین ہیں۔1890ء میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے الہام میں فرمایا: ’’مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہوچکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تُو آیا ہے‘‘۔

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ 402)

اس خدائی راہنمائی کے مطابق آپ نے یہ اعلان فرمایا: ’’مسیح جو آنے والاتھا یہی ہے چاہو تو قبول کرو ‘‘۔

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ 10 حاشیہ)

 کیا شک ہے ماننے میں تمہیں اس مسیح کے

جس کی مماثلت کو خدا نے بتا دیا

سیّدنا حضرت مہدیٔ آخرالزماں حدیث عُلَمَاءُ اُمَّتی کَاَ نْبِیَآءِ بَنِیٓ اِسْرَاِئیْلَ کی نہایت لطیف تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’صوفیوں نے اس حدیث عُلَمَاءُ اُمَّتی کَاَ نْبِیَآءِ بَنِیٓ اِسْرَاِئیْلَ کو صحیح مانا ہے اور فی الحقیقت یہ صحیح ہے اور یہودیوں پر اسی سے مار پڑتی ہے کیونکہ خداتعالیٰ نے اس اُمّت کو ایسا شرف عطا فرمایا کہ علماء اُمّت کو انبیاء بنی اسرائیل کی مثل ٹھہرایا۔ علماء کے لفظ سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے۔ عالم وہ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے۔ اِنَّمَا یَخۡشَی اللہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمٰٓؤُا (فاطر:29)

یعنی بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اس کے بندوں میں سے وہی عالم ہیں۔ ان میں عبودیت تامہ اور خشیت اللہ اس حدتک پیدا ہوتی ہے کہ وہ خود اللہ تعالیٰ سے ایک علم اور معرفت سیکھتے ہیں اور اسی سے فیض پاتے ہیں اور یہ مقام اور درجہ آنحضرتﷺ کی کامل اتباع اور آپ سے پوری محبّت سے ملتا ہے یہاں تک کہ انسان بالکل آپؐ کے رنگ میں رنگین ہو جاوے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللہُ وَیَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ۔ (اٰلِ عمران:32)

یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبّت کرتے ہو تو میری اتباع کرو۔ اس اتباع کا نتیجہ یہ ہوگاکہ اللہ تعالیٰ تم سے محبّت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔ پس اب اس آیت سے صاف ثابت ہے کہ جب تک انسان کامل متبع آنحضرتﷺ کا نہیں ہوتا وہ اللہ تعالیٰ سے فیوض و برکات پا نہیں سکتا اور وہ معرفت اور بصیرت جو اس کی گناہ آلود زندگی اور نفسانی جذبات کی آگ کو ٹھنڈا کر دے عطا نہیں ہوتی۔ ایسے لوگ ہیں جو علماء اُمتی کے مفہوم کے اندر داخل ہیں‘‘۔

(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ 307-308)

گویا آپ اس حدیث کے حقیقی مصداق اور فِی حُلَلِ الْاَنْبِیَاء کی واضح تصویر ہیں۔ دَورِ آدم سے مماثلت بیان کرتے ہوئے حضور فرماتےہیں:

’’ قرآن شریف میں بلکہ اکثر پہلی کتابوں میں بھی یہ نوشتہ موجود ہے کہ وہ آخری مرسل جو آدم کی صورت پر آئےگا اور مسیح کے نام سے پکارا جائے گا ضرور ہے کہ وہ چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو جیسا کہ آدم چھٹے دن کے آخر میں پیدا ہوا۔ یہ تمام نشان ایسے ہیں کہ تدبّر کرنے والے کے لیے کافی ہیں‘‘۔

(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد20 صفحہ 185)

نیز فرماتے ہیں: ’’اسی طرح احادیث صحیحہ میں جو بعض ان کی صحیح بخاری میں پائی جاتی ہیں آنحضرتﷺ کے زمانہ کو عصر سے تشبیہ دی ہے۔ پس اس سے ماننا پڑتا ہے کہ ہمارا زمانہ قیامت کے قرب کا زمانہ ہے اور پھر دوسری حدیثوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عمر دُنیا کی سات ہزار سال ہے۔ اور قرآن شریف کی اِس آیت سے بھی یہی مفہوم ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

اِنَّ یَوۡمًا عِنۡدَ رَبِّکَ کَاَلۡفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ۔(الحج:48) یعنی ایک دن خدا کے نزدیک تمہارے ہزار سال کے برابر ہے۔ پس جبکہ خداتعالیٰ کی کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ دن سات ہیں۔ پس اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ انسانی نسل کی عمر سات ہزار سال ہے جیسا کہ خدا نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ سورۃ العصر کے عدد جس قدر حسابِ جمل کی رُو سے معلوم ہوتے ہیں اسی قدر زمانہ نسل انسان کا آنحضرتﷺ کے عہد مبارک تک بحساب قمری گذر چکا تھا کیونکہ خدا نے حساب قمری رکھا ہے اور اس حساب سے ہماری اس وقت تک نسل انسان کی عمر چھ ہزار برس تک ختم ہو چکی ہے اور اب ہم ساتویں ہزار میں ہیں اور یہ ضرور تھا کہ مثیل آدم جس کو دوسرے لفظوں میں مسیح موعود کہتے ہیں چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو جو جمعہ کے دن کے قائم مقام ہے جس میں آدم پیدا ہوا۔ اور ایسا ہی خدا نے مجھے پیدا کیا۔ پس اس کے مطابق چھٹے ہزار میں میری پیدائش ہوئی۔ اور یہ عجیب اتفاق ہوا کہ میں معمولی دنوں کی رو سے بھی جمعہ کے دن پیدا ہوا تھا۔ اور جیسا کہ آدم نَر اور مادہ پیدا ہوئے تھے میں بھی توام کی شکل پر پیدا ہوا تھا۔ ایک میرے ساتھ لڑکی تھی جوپہلے پیدا ہوئی اور بعد میں اس کے مَیں پیدا ہوا ‘‘۔

(حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 457-458)

سر کو پیٹو آسماں سے اب کوئی آتا نہیں

عُمرِ دنیا سے بھی اب ہے آ گیا ہفتم ہزار

اسی تسلسل میں مخالفین کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’تمہاری حدیثوں میں لکھا ہے کہ مہدی موعود خَلق اور خُلق میں ہمرنگ آنحضرتﷺ ہوگا اور اس کا اسم آنجناب کے اسم سے مطابق ہوگا یعنی اس کا نام بھی محمد اور احمد ہوگا اور اس کے اہلِ بیت میں سے ہوگا اور بعض حدیثوں میں ہے کہ مجھ میں سے ہوگا۔ یہ عمیق اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ وہ روحانیت کے رُو سے اسی نبی میں سے نکلا ہوا ہوگا اور اسی کی روح کا روپ ہوگا اس پر نہایت قوی قرینہ یہ ہے کہ جن الفاظ کے ساتھ آنحضرتﷺ نے تعلق بیان کیا یہاں تک کہ دونوں کے نام ایک کر دیئے ان الفاظ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ اس موعود کو اپنا بروز بیان فرمانا چاہتے ہیں جیسا کہ حضرت موسیٰ کا یشوعا بروز تھا اور بروز کے لئے یہ ضرور نہیں کہ بروزی انسان صاحب بروز کا بیٹا یا نواسہ ہو ہاں یہ ضرور ہے کہ روحانیت کے تعلقات کے لحاظ سے شخص مورد بروز صاحب بروز میں سے نکلا ہوا ہو اور ازل سے باہمی کشش اور باہمی تعلق درمیان ہو‘‘۔

(ایک غلطی کا ازالہ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 212-213)

بروز اور فنا فی الرسول ہونے کا مضمون بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:

اسی طرح آیت اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَر میں بروزی وجود کا ایک وعدہ دیا گیا جس کے زمانہ میں کوثر ظہور میں آئے گا یعنی دینی برکات کے چشمے بہہ نکلیں گے اور بکثرت دنیا میں سچے اہل اسلام ہو جائیں گے۔ اس آیت میں بھی ظاہر ی اولاد کی ضرورت کو نظرِ تحقیر سے دیکھا- اور بروزی اولاد کی پیشگوئی کی گئی- اور گو خدا نے مجھے یہ شرف بخشا ہے کہ مَیں اسرائیلی بھی ہوں اور فاطمی بھی، اور دونوں خُونوں سے حصّہ رکھتا ہوں۔ لیکن مَیں روحانیت کی نسبت کو مقدّم رکھتا ہوں جو بروزی نسبت ہے۔

اب اس تمام تحریر سے مطلب میرا یہ ہے کہ جاہل مخالف میری نسبت الزام لگاتے ہیں کہ یہ شخص نبی یا رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ مجھے ایسا کوئی دعویٰ نہیں۔ مَیں اُس طور سے جو وہ خیال کرتے ہیں نہ نبی ہوں نہ رسول۔ ہاں مَیں اس طور سے نبی اور رسُول ہوں جس طور سے ابھی مَیں نے بیان کیا ہے۔ پس جو شخص میرے پر شرارت سے یہ الزام لگاتا ہے جو دعویٰ نبوت اور رسالت کا کرتے ہیں وہ جھوٹا اور ناپاک خیال ہے۔ مجھے بروزی صورت نے نبی اور رسول بنایا ہے اور اسی بناء پر خدا نے بار بار میرا نام نبی اللہ اور رسول اللہ رکھا۔ مگر بروزی صورت میں۔ میرا نفس درمیان نہیں ہے۔ بلکہ محمدمصطفیٰﷺ ہے۔ اسی لحاظ سے میرا نام محمد اور احمد ہوا۔ پس نبوت اور رسالت کسی دوسرے کے پاس نہیں گئی۔ محمد کی چیز محمد کے پاس ہی رہی۔

(ایک غلطی کا ازالہ۔ روحانی خزائن جلد18 صفحہ 216)

پس جیسا کہ قرآن کریم سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ انبیاء کرام نے ایک ہی مشترکہ دعوت لوگوں کو دی کہ اللہ کی عبادت کرواور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور اپنے اپنے زمانہ میں پائی جانے والی خرابیوں اور برائیوں کو ترک کرنے کی نصیحت کی۔ اسی طرح اس آخری زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ تعلیمات لوگوں نے نہ صرف بھلا دیں بلکہ برائیوں میں بڑھتے چلے گئے۔ اس صورتِ حال میں واقعتًا ایک بطل جلیل اور جری اللہ کی شدید ضرورت تھی جو اپنے پیارے آقا سیّدنا حضرت اقدس محمدمصطفیٰﷺ کی قوتِ قدسی کا وافر حصہ پاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے فوق العادت طاقت دیا گیا ہو اور ان تمام برائیوں کو چاروں شانے چت کردے۔ پس آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے پیارے حبیب کی غلامی میں یہ جری اللہ دجالی طاقتوں سے نبرد آزما ہے اور وَاٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ کی بشارت کے تحت اس کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی جماعت عطا فرمائی جو اسی کے خلیفہ کی اقتداء میں چہار دانگِ عالم میں توحید الٰہی اور رسالتِ محمدی کا پرچار کرکے دنیا کو پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ ؎

آؤ لوگو! کہ یہیں نورِ خدا پاؤ گے

لو! تمہیں طور تسلّی کا بتایا ہم نے

اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام کے اس بطلِ جلیل کا مقام و مرتبہ سمجھنے اور اپنی زندگیوں کو اس کی خلافت کے ساتھ وابستہ رہتے ہوئے اخلاص و وفا سے گزارنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔

(اخبار احمدیہ جرمنی، شمارہ مارچ 2024ء صفحہ 25)

متعلقہ مضمون

  • عظیم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب اور سرن

  • تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے

  • چند یادیں

  • رنگم چوگندم است