سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس نے مؤرخہ 19 نومبر 2023ء کو واقفاتِ نَو جماعت احمدیہ بیلجیئم سے آن لائن ملاقات کے دوران ارضِ مقدّسہ اور اس کے متعلق خدائی وعدہ جات کے متعلق سورۃ الانبیاء اور سورۃ بنی اسرائیل کے پہلے رکوع کی منتخب آیات کی تفسیر کا مطالعہ تفسیر کبیر بیان فرمودہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی سے کرنے کا ارشاد فرمایا۔ اس ضمن میں سورۃ الانبیاء آیت نمبر 106کی تفسیر ہدیہ قارئین کی جاتی ہے۔

وَلَقَدۡ کَتَبۡنَا فِی الزَّبُوۡرِ مِنۡۢ بَعۡدِ الذِّکۡرِ اَنَّ الۡاَرۡضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ

(الانبیاء:106)

(اللہ تعالیٰ) فرماتا ہے ہم نے زبور میں کچھ شرائط بیان کرنے کے بعد یہ بات لکھ چھوڑی ہے کہ ارضِ مقدّس کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے اس میں عبادت گذار بندوں کے لئے ایک پیغام ہے اور ہم نے تجھ کو ساری دنیا کی طرف رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بائبل میں جو یہ پیشگوئی تھی کہ صرف خدا کے نیک بندے ارضِ مقدّس میں رہیں گے اس سے کوئی اس وقت دھوکا نہ کھائے جبکہ بنی اسرائیل اس ملک پر غالب آجائیں گے۔ کیونکہ اس پیشگوئی میں اس طرف بھی اشارہ تھاکہ اگر کوئی وقفہ پڑا تو پھر خدا کے بندے اس ملک پر غالب آ جائیں گے اس لئے فرماتاہے کہ عبادت گذار بندوں کے لئے اس میں ایک پیغام ہے یعنی مسلمانوں کو تو ہوشیار کر دے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ پھر بنی اسرائیل اس پر قابض ہو جائیں گے اس لئے یہاں عابدین کا لفظ دائودؑ کی پیشگوئی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال کیا اور بتایا کہ میرے بندوں کو کہہ دے کہ ہوشیار ہوجائو۔ اگر کسی وقت تم نے میرے عباد بننے میں کمزوری دکھائی تو پھر اللہ تعالیٰ یہودیوں کو اس ملک میں واپس لے آئے گا لیکن مسلمانوں کو چاہئے کہ پھر عبادت گذار بن جائیں۔ اس کے نتیجہ میں وہ پھر غالب آ جائیں گے اور ان کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ رسول کریمﷺ سب زمانوں کے لئے رحمت ہیں اور رسول کریمﷺ کا زمانہ اس وقت ختم نہیں ہوجاتا جب بنی اسرائیل فلسطین پر قابض ہوں۔ بلکہ اس کے بعد بھی وہ زمانہ ہے جس کے لئے رسول اللہﷺ رحمت ہیں۔ پس مایوس نہیں ہونا چاہئے جب دوبارہ رحمتِ الٰہی جوش میں آ جائے گی مسلمان دوبارہ فلسطین میں غالب آ جائیں گے۔

اس آیت میں زبور کی جس پیشگوئی کی طرف اشارہ کیاگیا ہے اس کاذکر زبور باب 37 میں آتا ہے اس میں لکھا ہے۔

’’ تو بد کردارں کے سبب سے بے زار نہ ہو۔ اور بدی کرنے والوں پر رشک نہ کر کیونکہ وہ گھاس کی طرح جلد کاٹ ڈالے جائیں گے۔ اور سبزہ کی طرح مرجھا جائیں گے۔ خداوند پر توکل کر اور نیکی کر ملک میں آباد رَہ اس کی وفاداری سے پرورش پا، خداوند میں مسرور رہ۔ اور وہ تیرے دل کی مرادیں پوری کرے گا۔ اپنی راہ خداوند پر چھوڑ دے اور اس پر توکل کر وہی سب کچھ کرے گا۔ وہ تیری راست بازی کو نور کی طر ح اورتیرے حق کو دوپہر کی طرح روشن کرے گا۔ خداوند میں مطمئن رہ اور صبر سے اس کی آس رکھ اس آدمی کے سبب سے جو اپنی راہ میں کامیاب ہوتا اور بُرے منصوبوں کو انجام دیتاہے۔ بے زار نہ ہو۔ قہر سے باز آاور غضب کو چھوڑ دے۔ بے زار نہ ہو۔ اس سے برائی ہی نکلتی ہے کیونکہ بد کردار کاٹ ڈالے جائیں گے۔ لیکن جن کو خداوند کی آس ہے ملک کے وارث ہوں گے۔ کیونکہ تھوڑی دیر میں شریر نابود ہوجائے گا۔ تو اس کی جگہ کو غور سے دیکھے گا۔ پر وہ نہ ہوگا لیکن حلیم ملک کے وارث ہوں گے۔ اور سلامتی کی فراوانی سے شادمان رہیں گے‘‘۔ (زبور باب37 آیت 1-11)

اسی طرح زبور باب 37 آیت 29 میں لکھا ہے۔

’’صادق زمین کے وارث ہوں گے اور اس میں ہمیشہ بسے رہیں گے‘‘۔

مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ وعدہ ارضِ مقدّس کے متعلق بنی اسرائیل سے کیا گیا تھا۔ یہ کوئی غیر مشروط وعدہ نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ نیکی اور تقویٰ اور صلاحیت کی شرط لگائی گئی تھی اور انہیں کھلے طور پر بتا دیا گیا تھا کہ اگر تم نے شرارتوں پر کمر باندھ لی اور بدکرداریوں کو اپنا شیوہ بنا لیا تو یہ ملک تم سے چھین لیا جائے گا۔ چنانچہ حضرت موسیٰؑ نے انہیں انتباہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم میں سرکشی پیدا ہوگئی تو۔

’’جیسے تمہارے ساتھ بھلائی کرنے اور تم کو بڑھانے سے خداوند خوشنود ہوا ایسے ہی تم کو فنا کرانے اور ہلاک کر ڈالنے سے خداوند خوشنود ہوگا۔ اور تم اس ملک سے اکھاڑ دیے جائو گے۔ جہاں تو اس پر قبضہ کرنے کو جا رہا ہے۔ اور خداوند تجھ کو زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک تمام قوموں میں پراگندہ کرے گا۔ وہاں تو لکڑی اور پتھر کے اور معبودوں کی جن کو تو یا تیرے باپ دادے جانتے بھی نہیں پرستش کرے گا‘‘۔

(استثناء باب 28آیت 63-64)

مگر اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کو یہ بھی خبر دے دی کہ ا س عذاب کے بعد بنی اسرائیل نے اپنے اندر تبدیلی پیدا کی تو ان پر پھر رحم کیاجائے گا۔ چنانچہ فرمایا۔

’’خداوند تیرا خداتیری اسیری کو پلٹ کر تجھ پر رحم کرے گا اور پھر کر تجھ کو سب قوموں میں سے جن میں خداوند تیرے خدانے تجھ کو پراگندہ کیا ہو جمع کرے گا اگر تیرے آوارہ گروہ دنیا کے انتہائی حصوں میں بھی ہوں تو وہاں سے بھی خداوند تیر اخدا تجھ کو جمع کرکے لے آئے گا ‘‘۔ (استثناء باب 3 آیت 3-4)

گویا حضرت موسیٰؑ کے ذریعہ بنی اسرائیل کو یہ خبر دی گئی تھی کہ جب تمہاری شرارتیں بڑھ گئیں تو یہ ملک تم سے چھین لیا جائے گا مگر اس کے کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے گا اور یہ زمین پھر تمہارے سپرد کر دی جائے گی۔ مگر اس کے بعد پھر دوبارہ ایک تباہی کی خبر دی گئی اور بتایا گیا کہ یہود پھرسرکش ہوجائیں گے اور پھر ان پر الٰہی عذاب نازل ہوگا اور وہ اس ملک سے نکال دیئے جائیں گے۔ چنانچہ حضرت موسیٰؑ نے اس کی بھی پیشگوئی کی اور فرمایا کہ۔

’’انہوں نے اجنبی معبودوں کے باعث غیرت اور مکروہات سے اسے غصہ دلایا…… خداوند نے یہ دیکھ کر ان سے نفر ت کی کیونکہ اس کے بیٹوں اور بیٹیوں نے اسے غصہ دلایا (اس جگہ تمام یہودی مردوں اور عورتوں کو خداتعالیٰ کے بیٹے اور بیٹیاں قرار دیا گیا ہے) تب اس نے کہا۔ میں اپنا منہ ان سے چھپا لوں گا۔ اور دیکھوں گا کہ ان کا انجام کیسا ہوگا کیونکہ وہ گردن کش نسل اور بےوفا اولاد ہیں…… مَیں ان پرآفتوں کا ڈھیر لگائوں گا اور اپنے تیروں کو ان پر ختم کروں گا وہ بھوک کے مارے گھل جائیں گے اور شدید حرارت اور سخت ہلاکت کا لقمہ ہوجائیں گے اور میں ان پر درندوں کے دانت اور زمین پر سرکنے والے کیڑوں کا زہر چھوڑ دوں گا باہر وہ تلوار سے مَریں گے اور کوٹھڑیوں کے اندر خوف سے جواں مرد اور کنواریاں دودھ پیتے بچے اور پکے بال والے سب یوں ہی ہلاک ہوں گے ‘‘۔

(استثناء باب 32 آیت 16 تا 25)

غرض حضرت موسیٰؑ کے ذریعہ بنی اسرائیل کو دوتباہیوں کی خبر دی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ اس ملک پرتمہارا قبضہ دائمی نہیں ہوگا۔ بلکہ پہلے تمہارا قبضہ ہوگا اور پھر تم نکالے جائو گے۔ پھر تمہارا قبضہ ہوگا اور پھر تم نکالے جائو گے۔ اللہ تعالیٰ کایہ کلام کس شان اور عظمت سے پورا ہوا۔ اس کی تفصیل سورئہ بنی اسرائیل کے مطالعہ سے معلوم ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس میں فرماتاہے:

وَقَضَیۡنَاۤ اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ فِی الۡکِتٰبِ لَتُفۡسِدُنَّ فِی الۡاَرۡضِ مَرَّتَیۡنِ وَلَتَعۡلُنَّ عُلُوًّا کَبِیۡرًا۞ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ اُوۡلٰہُمَا بَعَثۡنَا عَلَیۡکُمۡ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ فَجَاسُوۡا خِلٰلَ الدِّیَارِؕ وَکَانَ وَعۡدًا مَّفۡعُوۡلًا۞ ثُمَّ رَدَدۡنَا لَکُمُ الۡکَرَّۃَ عَلَیۡہِمۡ وَاَمۡدَدۡنٰکُمۡ بِاَمۡوَالٍ وَّبَنِیۡنَ وَجَعَلۡنٰکُمۡ اَکۡثَرَ نَفِیۡرًا۞ (بنی اسرائیل 5-7)

یعنی ہم نے تورات میں بنی اسرائیل کویہ بات کھول کر پہنچا دی تھی کہ تم یقینا اس ملک میں دو دفعہ فساد کروگے۔ اور یقینا تم بڑی سرکشی اختیار کرو گے چنانچہ جب ان دو دفعہ کے فسادات میں سے پہلی دفعہ کاوعدہ پورا ہونے کاوقت آیا تو ہم نے اپنے بعض بندوں کو تمہاری سرکوبی کے لیے تم پرکھڑاکردیا۔ جو سخت جنگجو تھے اور وہ تمہارے گھروں کے اندر جا گھسے اور یہ وعدہ بہرحال پورا ہو کر رہنے والا تھا۔ پھر ہم نے تمہاری طرف دوبارہ دشمن پرحملہ کرنے کی طاقت کو لَوٹا دیا۔ اور ہم نے مالوں اور بیٹوں کے ذریعہ سے تمہاری مدد کی اور ہم نے تمہیں جتھے کے لحاظ سے پہلے سے بھی زیادہ مضبوط کردیا۔

پھرفرماتاہے: فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ لِیَسُوۡٓءٗا وُجُوۡہَکُمۡ وَلِیَدۡخُلُوا الۡمَسۡجِدَ کَمَا دَخَلُوۡہُ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّلِیُتَبِّرُوۡا مَا عَلَوۡا تَتۡبِیۡرًا۞ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یَّرۡحَمَکُمۡ وَ اِنۡ عُدۡتُّمۡ عُدۡنَا وَجَعَلۡنَا جَہَنَّمَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ حَصِیۡرًا۞ جب دوسری بار والا وعدہ پورا ہونے کا وقت آگیا۔ تاکہ وہ دشمن تمہارے منہ خوب کالے کریں۔ اور تمہارے معزز لوگوں سے ناپسندیدہ معاملہ کریں اور اسی طرح، مسجد میں داخل ہوں جس طرح وہ اس مسجد میں پہلی بار داخل ہوئے تھے اور جس چیز پر غلبہ پائیں اسے بالکل تباہ و برباد کردیں تو ہم نے اپنی اس پیشگوئی کو بھی پورا کر دیا مگر اب بھی کچھ بعید نہیں کہ تمہارا رَبّ تم پر رحم کردے۔ لیکن اگر تم پھر اپنے ا س رویہ کی طرف لوٹے تو ہم بھی اپنے عذاب کی طرف لَوٹیں گے۔ اور یقیناً ہم نے کافروں کے لئے قید خانہ بنایا ہے۔

ان آیات سے ظاہر ہے کہ خداتعالیٰ کا یہ وعدہ تھا کہ فلسطین کا ملک خداتعالیٰ کے نیک بندوں کو ملے گا۔ اور چونکہ پہلے یہود سے یہ وعدہ کیا گیا تھا۔ اس لئے ان کو یہ ملک ملا۔ مگر ملک دیتے وقت خداتعالیٰ نے کچھ شرائط بھی عائد کردیں۔ اور فرمایا کہ کچھ عرصے کے بعد تمہاری شرارتوں کی وجہ سے ہم یہ ملک تم سے چھین لیں گے۔ چنانچہ فرمایا فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ اُوۡلٰہُمَا بَعَثۡنَا عَلَیۡکُمۡ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ فَجَاسُوۡا خِلٰلَ الدِّیَارِؕ جب ان دو بار کے فسادوں میں سے پہلی بار کا وعدہ پورا ہونے کا وقت آئے گا تو ہم اپنے حکم کے ساتھ ایک قوم کو مقرر کریں گے۔ جو بڑی فوجی طاقت رکھتی ہوگی۔ اور وہ فلسطین کے تمام شہروں میں گھس جائے گی۔ اور تمہاری حکومت کوتباہ کردے گی مگر ثُمَّ رَدَدۡنَا لَکُمُ الۡکَرَّۃَ عَلَیۡہِمۡ کچھ مدت کے بعد یہ ملک ہم تم کو واپس دے دیں گے۔ اور تمہاری طاقت اور قوت کو بحال کردیں گے۔ وَاَمۡدَدۡنٰکُمۡ بِاَمۡوَالٍ وَّبَنِیۡنَ وَجَعَلۡنٰکُمۡ اَکۡثَرَ نَفِیۡرًا اور ہم تم کو مال بھی دیں گے اور بیٹے بھی دیں گے اور تمہیں تعداد میں بھی بہت بڑھا دیں گے لیکن پھر ایک وقت کے بعد ہم دوبارہ یہ ملک تم سے چھین لیں گے چنانچہ فرمایا فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ لِیَسُوۡٓءٗا وُجُوۡہَکُمۡ وَلِیَدۡخُلُوا الۡمَسۡجِدَ کَمَا دَخَلُوۡہُ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّلِیُتَبِّرُوۡا مَا عَلَوۡا تَتۡبِیۡرًا جب دوسراوعدہ پوراہونے کا وقت آئے گا تو اس لئے کہ وہ لوگ جن کو عارضی طور ہم یہ ملک دینے والے ہیں وہ تمہارے منہ خوب کالے کریں اور جس طرح پہلی دفعہ انہوں نے تمہاری عبادت گاہ کی بےحرمتی کی تھی اسی طرح اس دفعہ بھی اس کو ذلیل کریں۔ یہ دشمن پھر تمہارے ملک میں جاگھسے گا۔ اور تمہاری عبادت گاہ کو ذلیل کرے گا۔ اور جس جس علاقے میں جائے گا تباہی مچاتا چلا جائے گا۔ مگر فرمایا عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یَّرۡحَمَکُمۡ کچھ بعید نہیں کہ اب بھی تمہارا رب تم پر رحم کردے یعنی اس کے بعد پھرہم یہ فیصلہ کریں گے۔ کہ یہ ملک واپس دے دیا جائے مگر یہاں یہ نہیں فرمایا کہ وہ یہودیوں کو دیاجائے گا بلکہ فرمایا۔ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یَّرۡحَمَکُمۡ خدا تم پر رحم کرے گا یعنی اس بدنامی کو دور کردے گا جو تمہاری دنیا میں ہوئی۔ وَاِنۡ عُدۡتُّمۡ عُدۡنَا اور اگر تم اپنی شرارتوں سے پھر بھی باز نہ آئے تو ہم بھی اپنی اسی سنت کی طر ف لوٹیں گے۔ اور پھریہ ملک تم سے چھین لیں گے۔ وَجَعَلۡنَا جَہَنَّمَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ حَصِیۡرًا اور جہنم کو ہم تمہارے لئے قیدخانہ بنا دیں گے یعنی پھر تم اس ملک میں واپس نہیں آسکو گے۔

چنانچہ دیکھ لو خداتعالیٰ نے کہاتھا کہ یہ ملک کچھ عرصہ تمہارے پاس رہے گا مگر اس کے بعد چھینا جائے گا چنانچہ بابلی فوجیں آئیں اور انہوں نے عبادت گاہیں بھی تباہ کیں، شہر بھی تباہ کئے اور سارے ملک پر قبضہ کرلیا اور تقریباً ڈیڑھ سوسال تک حکومت کی۔ (2سلاطین باب 24 آیت 10 تا 17، 2 تواریخ باب 36 آیت 20،21، جیوش انسائیکلوپیڈیا زیر لفظ Nebuchadnezzar) اس کے بعد وہ حکومت بدل گئی اور پھر یہودی اپنے ملک پر قابض ہوگئے۔

پھر مسیحؑ کے بعد رومی لوگوں نے اس ملک پر حملہ کیا اور اس کو تباہ و برباد کیا۔ اسی طرح مسجد کو تباہ کیا اور اس کے اندر سؤر کی قربانی کی اور اس پر ان کا لمبے عرصہ تک قبضہ رہا۔ لیکن آخر رومی بادشاہ عیسائی ہوگیا۔

اس لئے یہاں یہ نہیں فرمایا تھا کہ یہودیوں کو یہ ملک واپس دیا جائے گا بلکہ فرمایا تھا۔ پھرہم تم پر رحم کریں گے۔ یعنی تمہاری وہ بےعزّتی دور ہوجائے گی چنانچہ جب رومی بادشاہ عیسائی ہوگیا تو پھر موسیٰ کو بھی ماننے لگ گیا۔ دائودؑ کو بھی ماننے لگ گیا۔ اسی طرح باقی جس قدر انبیاء تھے ان کو بھی ماننے لگ گیا تھا۔ وہ عیسیٰ کو ماننے والا لیکن حضرت عیسیٰؑ بھی چونکہ موسوی سلسلے سے تعلق رکھتے تھے۔ عیسائی بادشاہت یہودی نبیوں کا ادب کرتی تھی۔ تورات کا ادب کرتی تھی۔ بلکہ تورات کو بھی اپنی مقدّس کتاب سمجھتی تھی گویا خداکا رحم ہوگیا۔ مگر فرماتاہے۔ وَاِنۡ عُدۡتُّمۡ عُدۡنَا اگر اس کے بعد تم لوگ پھر بگڑے اور شرارتیں کیں تو پھر ہم تمہارے ہاتھ سے یہ بادشاہت نکال دیں گے۔ یعنی پھرمسلمان آجائیں گے اور ان کے قبضہ میں یہ ملک چلا جائے گا اور وہ عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ بنیں گے اور تمہارے لئےپھر جہنم پیدا ہوجائے گا۔ جس میں تم ہمیشہ جلتے رہوگے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوسکتا ہے اس جگہ مندرجہ ذیل امور بیان کئے گئے ہیں۔

1۔ یہ ملک یہود سے چھین کر ایک اور قوم کو دے دیاجائے گا۔

2۔ کچھ عرصہ کے بعد پھر یہ ملک یہود کوواپس مل جائے گا۔

3۔ کچھ عرصہ کے بعد یہ پھر ان سے چھین لیا جائے گا۔

4۔ اس کے بعد یہ ملک پھر واپس کیا جائے گا۔ مگر یہود کے ہاتھ نہیں آئے گا۔ بلکہ موسوی سلسلہ کے ماننے والوں یعنی عیسائیوں کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔

5۔ اگر پھر شرارت کی گئی (اب اس میں عیسائی بھی شامل ہوگئے کیونکہ وہ بھی یہودیوں کا ایک گروہ تھے) تو پھریہ زمین ان سے چھین لی جائے گی اور ایک اور قوم کو دے دی جائے گی یعنی مسلمانوں کو مگر اس جگہ یہ نہیں فرمایا کہ وہ مسجد میں داخل ہوکر اس کی ہتک کریں گے۔ اس لئے کہ مسلمانوں کے نزدیک بھی حضرت موسیٰؑ اور ان کے تمام ماتحت انبیاء مقدّس تھے۔ مگر ان کی جگہیں بھی مقدّس تھیں۔ اس لئے مسلمان ان کی مسجدوں میں وہ خرابیاں نہیں کرسکتے تھے جو بابلیوں اور رومیوں نے کیں۔

یہ عجیب لطیفہ اور قوموں کی ناشکری کی مثال ہے کہ بابلیوں نے یہودیوں کے ملک کو تباہ کیا اور ان کی مسجد کو ذلیل کیا۔ یوروپین مصنف کتابیں لکھتے ہیں تو بابلیوں کو کوئی گالی نہیں دیتا کوئی ان کو بُرا بھلا نہیں کہتا۔ کوئی ان پر الزام نہیں لگاتا۔ رومیوں نے اس ملک کو لیا اور اس مسجد میں خنزیر کی قربانیاں کیں عیسائی رومی تاریخ پر کتابیں لکھتے ہیں۔ گبن نے بھی ‘‘دی ڈیکلائن اینڈ فال آف دی رومن ایمپائر۔ HISTORY OF THE DECLINE AND FALL OF THE ROMAN EMPIRE لکھی ہے مگر سب کتابوں کو دیکھ لو وہ کہتے ہیں رومن ایمپائر جیسی اچھی ایمپائر کوئی نہیں۔ (انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا زیر لفظ ROMAN EMPIRE) حالانکہ انہوں نے ان کی مسجد کو گندہ کیا مگر وہ قوم جس نے ان کی مسجد کو گندہ نہیں کیا اس کو گالیاں دی جاتی ہیں۔

حضرت عمرؓ کے زمانہ میں فلسطین فتح ہوا اور جس وقت آپ یروشلم گئے تو یروشلم کے پادریوں نے باہر نکل کر شہر کی کنجیاں آپ کے حوالے کیں اور کہا کہ آپ اب ہمارے بادشاہ ہیں۔ آپ مسجد میں آکر دو نفل پڑھ لیں تاکہ آپ کوتسلّی ہوجائے کہ آپ نے ہماری مقدّس جگہ میں جو آپ کی بھی مقدّس جگہ ہے نماز پڑھ لی ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا میں تمہاری مسجد میں اس لئے نماز نہیں پڑھتا کہ میں ان کا خلیفہ ہوں۔ کل کویہ مسلمان اس مسجد کو چھین لیں گے اور کہیں گے کہ یہ ہماری مقدّس جگہ ہے۔ اس لئے باہر ہی نماز پڑھوں گا تاکہ تمہاری مسجد نہ چھینی جائے۔

پس ایک وہ تھے جنہوں نے وہاں خنزیر کی قربانی کی اور یورپ کامنہ اس کی تعریف کرتے ہوئے خشک ہوتا ہے اور ایک وہ تھا جس نے ان کی مسجد میں دونفل پڑھنے سے بھی انکار کیا۔ کہ کہیں مسلمان کسی وقت یہ مسجد نہ چھین لیں۔ اور اس کو رات دن گالیاں دی جاتی ہیں۔ کتنی ناشکر گذار اور بےحیا قوم ہے۔

اب مسلمانوں کے پاس فلسطین آجانے کے بعد سوال ہوسکتا ہے کہ یہ ملک یہودیوں کے ہاتھ بھی نہ رہا۔ اور عیسوی سلسلہ کے پاس بھی نہ رہا۔ یہ کیا معمہ ہے؟ لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ اعتراض نہیں پڑتا اس لئے کہ بعض دفعہ جب کسی بات پر جھگڑا ہوتا ہے اور وراثت کے کئی دعوے دار بن جاتے ہیں تو سچے وارث کہتے ہیں کہ ہم ان کے وارث ہیں۔ اور ان کے حق میں فیصلہ کر دیا جاتا ہے یہی صورت اس جگہ واقعہ ہوئی ہے۔ خدا ملک دینے والا تھا۔ خدا کے سامنے مقدمہ پیش ہوا کہ موسیٰ اور دائود کے وارث یہ مسلمان ہیں۔ یا موسیٰ اور دائود کے وارث یہ یہودی اور عیسائی ہیں۔ توکورٹ نے ڈگری دی کہ اب موسیٰ اور دائود کے وارث مسلمان ہیں۔ چنانچہ ڈگری سے ان کو ورثہ مل گیا۔

پھر آگے چل کر فرماتاہے کہ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ جِئۡنَا بِکُمۡ لَفِیۡفًا (بنی اسرائیل:105) پھر اس کے بعد ایک اور وقت آئے گا۔ کہ یہودیوں کو دنیا کے اطراف سے اکٹھا کرکے فلسطین میں لاکر بسا دیا جائے گا چنانچہ وہ وقت اب آیا ہے۔ جب کہ یہودی اس جگہ پر قبضہ کئے ہوئے ہیں۔

کراچی اور لاہور میں مَیں جب بھی گیا ہوں مسلمان مجھ سے پوچھتے رہے ہیں کہ یہ تو خدائی وعدہ تھا کہ یہ سرزمین مسلمانوں کے ہاتھ میں رہے گی۔ پھر یہودیوں کو کیسے مل گئی۔ مَیں نے کہا۔ کہاں وعدہ تھا۔ قرآن میں تو لکھاہے کہ پھریہودی بسائے جائیں گے۔ کہنے لگے۔ اچھاجی یہ تو ہم نے کبھی نہیں سنا۔ مَیں نے کہا تمہیں قرآن پڑھانے والا کوئی ہے ہی نہیں تم نے سننا کہاں سے ہے۔ میری تفسیر پڑھو تو اس میں لکھا ہوا موجود ہے۔

تو یہ جو وعدہ تھاکہ پھریہودی ارضِ کنعان میں آجائیں گے قرآن میں لکھا ہوا موجود ہے۔ سورئہ بنی اسرائیل رکوع 12 میں یہ لکھا ہوا ہے۔ کہ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ جِئۡنَا بِکُمۡ لَفِیۡفًا جب وہ آخر ی زمانہ کا وعدہ آئے گا۔ توپھر ہم تم کواکٹھا کرکے اس جگہ پرلے آئیں گے۔

اس جگہ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ سے مراد مسلمانوں کے دوسرے عذاب کا وعدہ ہے اور بتایا ہے کہ مسلمانوں پر جب یہ عذاب آئے گا اور دوسری دفعہ ارضِ مقدّس ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی اس وقت اللہ تعالیٰ پھر یہود کو اس ملک میں واپس لے آئے گا۔ اس جگہ بعض لوگ اعتراض کرتے ہوئے کہا کرتے ہیں کہ یہود کے آنے کی وجہ سے اسلام منسوخ ہوگیا۔ گویا ان کے نزدیک اسلام کے منسوخ ہونے کی یہ علامت ہے کہ عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ نے اس پر قبضہ کرنا تھا۔ جب مسلمان وہاں سے نکال دیئے گئے تو معلوم ہو اکہ مسلمان عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ نہیں رہے۔ یہ اعتراض زیادہ تر بہائی قوم کرتی ہے لیکن عجیب بات ہے کہ یہی پیشگوئی تورات میں موجود ہے یہی پیشگوئی قرآن میں موجود ہے اور اس پیشگوئی کے ہوتے ہوئے اس ملک کو بابلیوں نے سوسال رکھا مگر اس وقت یہودی مذہب بہائیوں کے نزدیک منسوخ نہیں ہوا۔ ٹائٹس کے زمانہ سے لے کر سو دو سو بلکہ تین سوسال تک فلسطین روم کے مشرکوں کے ماتحت رہا وہ عیسائیوں کے قبضہ میں نہیں تھا۔ یہودیوں کے قبضہ میں نہیں تھا مسجد میں سؤر کی قربانی کی جاتی تھی۔ اور پھر بھی یہودیت کو سچا سمجھا جاتا تھالیکن یہودیوں کے آنے پر نوسال کے اندر اندر اسلام منسوخ ہوگیا کیسی پاگل پن والی اور دشمنی کی بات ہے اگر واقعہ میں کسی غیرقوم کے اندر آجانے سے کوئی پیشگوئی باطل ہوجاتی ہے اور عارضی قبضہ بھی مستقل قبضہ کہلاتا ہے تو تم نے سو سال پیچھے ایک دفعہ قبضہ دیکھا ہے تین سو سال دوسری دفعہ کافروں کا قبضہ دیکھا ہے اس وقت یہودیت کو تم منسوخ نہیں کہتے اس وقت کی عیسائیت کو تم منسوخ نہیں کہتے لیکن اسلام کے ساتھ تمہاری عداوت اتنی ہے کہ اسلام میں نو سال کے بعد ہی تم اس قبضہ کو منسوخی کی علامت قرار دیتے ہو جب اتنا قبضہ ہو جائے جتنا یہودیت اور عیسائیت کے زمانہ میں رہا تب تو کسی کا حق بھی ہوسکتا ہے کہ کہے لو جی اسلام کے ہاتھ سے یہ ملک نکل گیا لیکن جب تک اتنا قبضہ چھوڑ اس کا دسواں حصہ بھی نہیں ہوا تو اس پراعتراض کرنا محض عداوت نہیں تو اور کیا ہے۔

پھر عجیب بات یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے بہائی ہیں جن کا اپنا وہی حال ہے جیسے ہمارے ہاں مثل مشہور ہے کہ نہ آگا نہ پیچھا وہ اسلام پر اعتراض کرتے ہیں۔ حالانکہ مکہ مسلمانوں کے پاس ہے مدینہ مسلمانوں کے پاس ہے اور یہ دو اہم اسلامی مراکز ہیں۔ ہم ان سے کہتے ہیں ’’چھاج بولے تو بولے چھلنی کیا بولے جس میں نو سو سوراخ‘‘۔ تمہارا کیا حق ہے کہ تم اسلام پر اعتراض کرو تمہارے پاس تو ایک چپہ زمین بھی نہیں جس کو تم اپنا مرکز قرار دے سکو۔ اسلام کا مکہ بھی موجود ہے اور اسلام کا مدینہ بھی موجود ہے۔ وہ تو ایک زائد انعام تھا۔ وہ ملک اگر عارضی طور پر چلا گیا تو کیا اعترض ہے؟

بہائیت 1844ء سے شروع ہے اور اب 1958ء ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کے مذہب کو قائم ہوئے ایک سو چودہ سال ہوگئے اور ایک سوچودہ سال میں ایک گائوں بھی تو انہوں نے مقدّس نہیں بنایا۔ وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں حکومت حاصل نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس بھی تو حکومت نہیں ہم نے تو چندسال میں ربوہ بنا لیا پہلے قادیان بنا ہوا تھا۔ اب ربوہ بنا ہوا ہے یہاں ہم آتے ہیں۔ نمازیں پڑھتے ہیں۔ اکٹھے رہتے ہیں پر فلسطین میں بھی کرمل پہاڑ کی چوٹی پر ایک پورا گائوں احمدیوں کا ہے جس کا نام کبابیر ہے بہائی بھی تو بتائیں کہ دنیا میں ان کا کوئی مکان ہے یا دنیا میں کسی جگہ پر وہ اکٹھے ہوتے ہیں؟ لیکن اسلام پر صرف نوسال کے قبضے کی وجہ سے ان کے بغض نکلتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ اسلام ختم ہوگیا۔ اور اپنی حالت یہ ہے کہ عکہ کو مرکز قرار دیا ہوا ہے اور کہتے ہیں حدیثوں میں بھی پیشگوئیاں تھیں کہ عکہ ان کے پاس ہوگا اور تورات میں بھی پیشگوئیاں تھیں مگر اب عکہ میں بہائیوں کانام و نشان بھی نہیں ہے اور ان کے لیڈر شوقی افندی جو عکہ کی بجائے سال کا اکثر حصہ سوئٹزرلینڈ میں گزارا کئے وہ بھی وفات پاچکے ہیں اور ان کے بعد ابھی تک بہائیوں کا کوئی قائم مقام لیڈر بھی تجویز نہیں ہوا۔ پھر اعتراض کرتے چلے جاتے ہیں اور کئی جاہل ان کے اعتراضوں سے مرعوب ہوجاتے ہیں۔

غرض بابلیوں کے آنے اور رومیوں کے عارضی طورپر وہاں آجانے کو جس کا عرصہ ایک دفعہ ایک سوسال دوسری دفعہ قریباً تین سو سال کا تھا۔ اگر موسیٰ اور دائود کے پیغام کے منسوخ ہونے کی علامت نہیں قرار دیا گیا تو اس وقت یہود کا عارضی طورپر قبضہ جس میں صرف چند سال گذرے ہیں اسلام کے منسوخ ہونے کی علامت کس طرح قرار دیا جاسکتا ہے بلکہ یہ تو اس کے صادق ہونے کی علامت ہے۔ جب اس نے خود یہ پیشگوئی کی ہوئی تھی کہ ایک دفعہ مسلمانوں کو نکالا جائے گا اور یہودی واپس آئیں گے تو یہودیوں کا واپس آنا اسلام کے منسوخ ہونے کی علامت نہیں اسلام کے سچا ہونے کی علامت ہے۔ کیونکہ جو کچھ قرآن نے کہا تھا وہ پورا ہوگیا۔ باقی رہا یہ کہ پھر عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ کے ہاتھ میں کس طرح رہا؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ عارضی طورپر قبضہ پہلے بھی دو دفعہ نکل چکا ہے۔ اور عارضی طور پر اب بھی نکلا ہے۔ اور جب ہم کہتے ہیں کہ ‘‘عارضی طورپر’’ تو لازماً اس کے معانی یہ ہیں کہ پھر مسلمان فلسطین میں جائیں گے اور بادشاہ ہوں گے اور لازماً اس کے یہ معنے ہیں کہ پھر یہود ی وہاں سے نکالے جائیں گے اور لازماً اس کے یہ معنے ہیں کہ یہ سارا نظام جس کو یو۔این۔او کی مدد سے اور امریکہ کی مدد سے قائم کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو توفیق دے گا کہ وہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔ اور پھر اس جگہ پر لا کر مسلمانوں کو بسائیں۔

دیکھو حدیثو ں میں بھی یہ پیشگوئی آتی ہے۔ حدیثوں میں یہ ذکر ہے کہ فلسطین کے علاقے میں اسلامی لشکر آئے گا اور یہودی اس سے بھاگ کر پتھروں کے پیچھے چھپ جائیں گے۔ اور جب کوئی مسلمان سپاہی اس پتھر کے پاس سے گذرے گا تو وہ پتھر کہے گا کہ اے مسلمان خدا کے سپاہی میرے پیچھے ایک یہودی کافر چھپا ہوا ہے اس کو مار۔ (بخاری کتاب الجہاد والسیر باب قتال الیہود)

جب رسول کریمﷺ نے یہ بات فرمائی تھی اس وقت کسی یہودی کا فلسطین میں نام و نشان بھی نہیں تھا۔ پس اس حدیث سے صاف پتہ لگتا ہے کہ رسول کریمﷺ پیشگوئی فرماتے ہیں کہ ایک وقت میں یہودی اس ملک پر قابض ہوں گے مگر پھر خدا مسلمانوں کو غلبہ دے گا اور اسلامی لشکر اس ملک میں داخل ہوں گے اور یہودیوں کو چن چن کے چٹانوں کے پیچھے ماریں گے۔ پس عارضی میں اس لئے کہتا ہوں کہ اَنَّ الۡاَرۡضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ کا حکم موجود ہے مستقل طورپر تو فلسطین عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ کے ہاتھ میں رہنی ہے۔ سو خداتعالیٰ کے عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ محمدﷺ کی امت کے لوگ لازماً اس ملک میں جائیں گے۔ نہ امریکہ کے ایٹم بم کچھ کرسکتے ہیں نہ ایچ بم کچھ کرسکتے ہیں۔ نہ روس کی مدد کچھ کر سکتی ہے۔ یہ خدا کی تقدیر ہے یہ تو ہوکر رہنی ہے چاہے دنیا کتنا زور لگا لے۔

اس جگہ پرایک اعتراض کیا جاسکتا ہے اور وہ اعتراض یہ ہے کہ یہاں وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ فرمایا ہے۔ اور تم کہتے ہو کہ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ سے مراد آخری زمانہ ہے۔ مگر سورئہ بنی اسرائیل کی پہلی آیات میں بھی تو ایک وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ کا ذکر ہے جس میں رومیوں کے حملے کا ذکر ہے تو کیوں نہ یہ سمجھا جائے کہ یہ جِئۡنَا بِکُمۡ لَفِیۡفًا رومیوں کے حملے کے متعلق ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ وہ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ نہیں ہوسکتا اس لئے کہ اس صورت میں وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ کو عذاب کا قائم مقام قرار دیا ہے اور اس صورت میں وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ کو انعام کا قائم مقام قرار دیا ہے۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ عذاب کی پیشگوئی کو انعام سمجھ لیا جائے۔ اس جگہ تو فرمایا ہے کہ جب دوسری دفعہ والا وعدہ پورا ہونے کا وقت آئے گا تو تم کو تباہ کر دیا جائے گا اور اس آیت میں ذکر ہے کہ جب وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ آئے گا تو پھر تم کو لا کے اس ملک میں بسا دیا جائے گا اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ اور ہے اور وہ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ اور ہے۔ وہاں وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ سے مراد ہے موسوی سلسلہ کی پیشگوئی کی آخری کڑی اور یہاں وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ سے مراد یہ ہے کہ آخری زمانہ یا محمدرسول اللہﷺ کے زمانہ کی پیشگوئی۔ پس یہ الفاظ گو ملتے ہیں لیکن دونوں کی عبارت صاف بتا رہی ہے کہ یہ اور وعدہ ہے اور وہ اور وعدہ ہے۔ وہ وعدہ عذاب کا ہے اور یہ وعدہ انعام کاہے۔ اور انعام کا قائم مقام عذاب کا وعدہ نہیں ہوسکتا۔

(تفسیر کبیر جلد8 صفحہ 105-115 ایڈیشن 2023ء)

از افاضات حضرت مصلح موعود

متعلقہ مضمون

  • ایک احمدی خاتون صحافی کی عدالتی کامیابی

  • ملکی و عالمی خبریں

  • اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

  • عیدالاضحی کے موقع پر پاکستان کے احمدیوں کی قربانیاں