آجکل شرق اوسط دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ تقریباً دو ماہ سے جاری اسرائیل اور حماس کی جنگ اور اس ضمن میں جنگ زدہ علاقوں کی دل دہلا دینے والی خبروں اور تصویروں نے عام انسان کی قوتِ برداشت کو موقوف کر دیا ہے۔ مگر اس ساری جنگ کا پس منظر کیا ہے۔ اس مضمون میں اس جنگ کے تاریخی حقائق بیان کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

فلسطین کا قضیہ تقریباً 7 دہائیوں پر پھیلا ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کی شروعات انیسویں صدی کے آخر پر یورپی یہودیوں میں بننے والی ایک سیاسی تحریک سے ہوئی جوبعد میں صیہونیت کے نام سے مشہور ہوئی۔ صہیون اصل میں یروشلم یعنی بیت المقدس میں موجود ایک ٹیلے کا نام ہے اور استعارۃً بیت المقدس یا ایک یہودی وطن کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ گو کہ صیہونیت کا تصور مختلف یہودی دانشور مختلف اوقات میں دیتے آئے ہیں بلکہ صیہونیت کی اصطلاح Nathan Birnbaum نامی ایک آسٹریا کے یہودی دانشور نے پہلی دفعہ استعمال کی تھی۔ مگر صیہونیت کے اصل بانی کے طور پر یہودی سیاسی راہنما Theodor Herzel کو گنا جا سکتا ہے جس نے انیسویں صدی کے آخر میں اس خیال سے کہ یورپ میں یہودی آبادی کو کئی صدیوں سے ظلم کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور اس کا واحد حل ایک علیحدہ یہودی ریاست ہے۔ اپنے ان خیالات کا اظہار اس نے جرمن زبان میں تحریر اپنی مشہور کتاب Der Judenstaat یعنی یہودی ریاست میں کیا بلکہ اس کے قیام کے مختلف طریق تفصیل سے بیان کئے۔ شروع میں Herzel نے اس بات پر زور دیا کہ یہودی ریاست فلسطین میں یا ارجنٹینا میں قائم کی جا سکتی ہے بلکہ ایک وقت یوگنڈا میں بھی اس ریاست کے قیام سے متعلق سوچا گیا۔ کتاب لکھنے کے ایک سال بعد یعنی 1897ء میں Herzel نے سوئٹزرلینڈ کے شہر Basel میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جس کے شاملین نے یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ سے فلسطین میں یہودی آبادکاری کے لیے مختلف اقدامات کئے جائیں گے۔ یہاں یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ بعض یہودی سیاسی اور مذہبی حلقے صیہونی تحریک کی مخالفت بھی کر رہے تھے مثلاً بعض یہودی فرقوں کے عقائد کے مطابق مسیح کے نزول سے پہلے ایک یہودی ریاست قائم کرنا تورات کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ آج بھی ایسے یہودی فرقےموجود ہیں جو اس بنا پر اسرائیل کے قیام کی مخالفت کرتے ہیں۔ غرض Herzel اور صیہونی کانگرس نے مختلف طریق سے یہودی ریاست کے قیام کے لئے عملی اقدامات شروع کئے۔ 1904ء میں Herzel کی وفات تک صیہونیت ایک مضبوط تحریک بن چکی تھی۔ سلطنت عثمانیہ کے دَور میں صیہونی تحریک نے کوشش کی کہ عثمانی سلطان ان کے مطالبات پر زیادہ دھیان دے لیکن اس نے اس طرف توجہ نہ دی۔

اس دوران صیہونی تحریک کی طرف سے یہ کوشش بھی شروع ہوئی کہ فلسطین کے عربوں سے بڑے پیمانہ پر زمین خرید کر یہودی بستیاں آباد کی جائیں۔ بیسویں صدی کےبعد اس طرح فلسطین میں یہودی آبادی میں اضافہ شروع ہوا۔ 1914ء تک فلسطین میں چھ لاکھ عرب جبکہ 85 ہزار یہودی آباد تھے۔ جنگ عظیم اوّل کے اختتام اور سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد فلسطین کا علاقہ برطانوی استعمار کے زیرِ قبضہ چلا گیا۔ اس دَور میں صیہونی تحریک کی مسلسل کوششوں کے نتیجہ میں برطانیہ کے وزیر خارجہ Lord Balfour نے ایک بیان میں اس بات کی ضمانت دی کہ برطانیہ فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کی تائید کرے گا۔ اس کے بعد یورپ سے یہودی آبادکار زیادہ تعداد میں فلسطین آنا شروع ہوئے۔ 1931ء تک یہودی آبادی کی تعداد تقریباً دو لاکھ تک پہنچ چکی تھی جوفلسطین کی مجموعی آبادی کا 17فیصد بنتا ہے۔ جرمنی میں نازی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد اور ہولوکاسٹ کی وجہ سے یہ تعداد تیزی سے بڑھی اور 1939ء تک 460000 تک پہنچ چکی تھی۔ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے 1920ء کے بعد سے ہی فلسطینی عربوں کی طرف سےیہودی آبادکاری کے خلاف مزاحمت شروع ہو چکی تھی دونوں گروہوں کے درمیان مسلح جھڑپوں کے واقعات پیش آ رہے تھے۔ 1937ء تا 1939ء میں اس مزاحمت نے مزید شدّت اختیار کرلی کیونکہ برطانوی حکمران فلسطینیوں کی شکایات اور خدشات کی طرف خاص توجہ نہیں دے رہے تھے۔ مسلح مزاحمت پر برطانوی حکام نے فلسطینی آبادیوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ 1938ء میں جنین کی جنگ میں برطانوی فوج نے فلسطینی مسلح گروہوں کو فیصلہ کن شکست دی۔ اس تمام عرصہ کے دوران صیہونی تنظیمیں اور آبادکار اپنے آپ کو مضبوط کرتے رہے۔ جبکہ برطانوی حکمرانوں کا جھکاؤ یہودی آبادکاروں کی طرف زیادہ رہا۔ جنگ عظیم دوم کے اختتام کے بعد فلسطین کا مسئلہ پہلے سے بڑھ کر دنیا کے سامنے آیا۔ چنانچہ اقوامِ متحدہ میں فلسطین کے قضیہ کو حل کرنے کے لئے پیش کیا گیا۔ مختلف کمیشن قائم ہوئےاور آخرکار یہ فیصلہ ہواکہ فلسطین کو دوحصوں یعنی ایک یہودی اور ایک فلسطینی ریاست میں تقسیم کر دیا جائے جبکہ بیت المقدس کا شہر اقوامِ متحدہ کے زیرِ انتظام علاقہ میں رہے۔ کمیشن نے جو تقسیم پیش کی اس کے مطابق فلسطین کے کل رقبہ کا 56 فیصد حصہ یہودی ریاست جبکہ 43 فیصد حصہ فلسطینی ریاست کو دیا جانا تھا۔ یاد رہے کہ اس وقت فلسطین کی عرب آبادی بارہ لاکھ جبکہ یہودی آبادی تقریباً چھ لاکھ تھی۔ اقوامِ متحدہ میں اس بحث کے دوران خاص طور پر حضرت چودھری ظفراللہ خانؓ صاحب کی مدلل تقاریر مشہور ہیں جن میں ایسی تقسیم کو انصاف کے بنیادی اصولوں کے خلاف اور آئندہ مزید تنازعہ پیدا کرنے والا ثابت کیا گیا تھا۔ مگر خصوصاً امریکہ کے دباؤ پر کئی چھوٹے ممالک اس تقسیم کےحق میں ووٹ دینے پر مجبور کئے گئے۔ صیہونی لیڈر گو کہ اس تقسیم سے کلیۃً متفق نہیں تھے کیونکہ اقوامِ متحدہ کی مجوزہ یہودی ریاست میں 40فیصد عرب آبادی قائم رہنی تھی مگر پھر بھی اس خیال سے کہ اس طرح کم از کم ایک اپنی ریاست قائم ہو جائے گی، اقوامِ متحدہ کی تجویز پر راضی ہوگئے۔ چنانچہ اسرائیل کے پہلے وزیراعظم بن گوریون نے اس بات کا اظہار اپنے ایک خط میں اس طرح کیا کہ جب تک یہودی ریاست میں یہودی آبادی کا تناسب زیادہ نہ ہو اس وقت تک یہ خدشہ باقی رہے گا کہ غیر یہودی آبادی کسی وقت برسرِ اقتدار آ جائے۔ یاد رہے کہ اقوامِ متحدہ کے اعلان کے بعد فلسطین میں خانہ جنگی کی صورتِ حال پیدا ہو چکی تھی جس میں عرب اور یہودی گروہ ایک دوسرے پر حملے کر رہے تھے۔ خاص طور پر صیہونی مسلح گروہ اس بات کی بھی کوشش کر رہے تھے کہ مجوزہ اسرائیلی ریاست میں عرب آبادی کا تناسب ان پر حملے کرکے اپنے گاؤں اور شہر چھوڑنے پر مجبور کرکے کم کیا جائے۔ اس تمام عرصہ میں بعض یہودی مسلح تنظیمیں برطانوی فوج کے خلاف بھی کارروائیاں کر رہی تھیں کیونکہ ایک تو وہ برطانیہ کی طرف سے یہودی مہاجروں کی فلسطین آمد پر کچھ پابندیوں سے ناخوش تھے اور دوسری طرف وہ چاہتے تھے کہ اس صورتِ حال میں برطانیہ جلد فلسطین سے اپنا قبضہ ختم کرے۔ ان حالات میں برطانیہ نے فلسطین سے انخلاء اور اقوامِ متحدہ کے تقسیمی پلان پر عمل درآمد نہ کرنے کا اعلان کر دیا اور جلد بازی میں 14 مئی 1948ء کو فلسطین سے اپنی فوجیں نکال لیں جس سے طبعاً ایک خلا پیدا ہوا۔ اسی روز اسرائیلی لیڈر بن گوریون نے ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان تل ابیب میں کیا جس کےبعد اردن، مصر، شام اور عراق نے جنگ کا اعلان کرتے ہوئے فلسطین میں فوجیں بھیجیں۔ مختصر یہ کہ جنگ میں عرب فوجوں کو اکثر شکست ہوئی اور اسرائیل کی ریاست نے اپنا علاقہ کئی گنا بڑا کرلیا۔ اس کے ساتھ ان علاقوں سے فلسطینیوں کو زبردستی نکالا گیا۔ کل سات لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو اسرائیلی افواج کی طرف سے بےگھر کیا گیا۔ اس واقعہ کو فلسطینی نکبہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ فلسطین کے علاقےمغربی اردن اور غزہ اردن اور مصر کے زیرِانتظام آ گئے۔ 1967ء کے سال میں ایک بار پھر اسرائیل اور اس کے عرب پڑوسی ممالک میں جنگ چھڑ گئی جب اسرائیل نے جزیرہ نما سینا پر نہر سوئیز تک قبضہ کرلیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مغربی اردن بشمول بیت المقدس اور جولان کی پہاڑی پر بھی قابض ہوگئے۔ 6 روزہ جنگ کے اختتام پر اسرائیل اپنا رقبہ تین گنا بڑھا چکا تھا۔ ایک بار پھر فلسطینی بڑی تعداد میں مختلف عرب ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے جبکہ باقی فلسطینی آبادی پر قابض فوج کی طرف سے سخت فوجی قانون نافذکرکے ان کی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھی گئی۔ 1967ء کی جنگ کے بعد پہلی بار فلسطینی تنظیمیں اپنی آزادی کی کوشش میں زیادہ منظّم ہوئیں۔ 1970ء کی دہائی میں فلسطینی تنظیم پی ایل او کو زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی جس کے راہنما یاسر عرفات تھے۔ پی ایل او کا مرکز اُردن تھا جہاں سے وہ اسرائیل کے زیرِ قبضہ فلسطینی علاقوں پر فوجی کارروائیاں کرتے رہتے تھے۔ بین الاقوامی دباؤ اور کچھ اندرونی حالات کی وجہ سے اُردن نے جب فلسطینی تنظیموں کے خلاف فوجی کارروائی کی تو پی ایل او کومجبوراً اپنا مرکز لبنان منتقل کرنا پڑا۔

1973ء میں ایک بار پھر اسرائیل اور اس کے پڑوسی ممالک مصر اور شام میں جنگ چھڑ گئی جب مصر اور شام کی فوجوں نے بیک وقت اسرائیل پر حملہ کرکے اپنے علاقے سینا اور جولان کو اسرائیلی قبضہ سے چھڑانے کی کوشش کی۔ شروع کے دنوں میں بہت حد تک مصری سپاہی اسرائیلی فوج کو اپنے علاقے سے واپس دھکیلنے میں کامیاب ہوئے۔ مغربی ممالک نے 1967ء کی جنگ کی طرح اس مرتبہ بھی اسرائیل کی معاشی اور فوجی امداد کی جس سے کچھ عرصہ بعد حالات نے پلٹا کھایا اور اسرائیلی افواج نہر سوئیزکے مغربی کنارے اُترنے میں کامیاب ہوگئیں جس سے مصری فوج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ اس دوران عرب ممالک نے مغرب پر دباؤ ڈالنے کے لئے تیل کی ترسیلات پر پابندی لگا دی جس سے یورپ میں معاشی بحران پیدا ہوگیا۔ آخر کار بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے مصر اور اسرائیل نے جنگ بندی اور مزید مذاکرات کا فیصلہ کیا۔ اسی تسلسل میں 1977ء میں پہلی مرتبہ مصری صدر انور السادات نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ اگلے سال اسرائیل اور مصر کے درمیان پہلا امن معاہدہ طے پایا جس کے بعد مصر کو سینا کا علاقہ واپس ملا۔ مصر کے ان اقدامات سے نہ صرف فلسطینی بلکہ اکثر عرب ممالک نا خوش تھے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد انور السادات کو قتل کر دیا گیا۔

1982ء میں اسرائیل نے اپنے پڑوسی ملک لبنان پر فلسطینی تنظیم پی ایل او کو تباہ کرنے کے لئے حملہ کر دیا۔ اس جنگ میں ہمیشہ کی طرح عام شہری بڑی تعداد میں ہلاک ہوئے جبکہ بیروت میں اسرائیلی حملوں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ بالآخر پی ایل او اور یاسر عرفات لبنان چھوڑنے پر مجبورکئے گئے اور پی ایل او نے اپنا مرکز تیونس منتقل کرلیا۔ لبنان پر اسرائیلی قبضہ کے دوران فلسطینی پناہ گزین کیمپوں ’صبرا‘اور ’شاتیلا‘میں اسرائیلی افواج کی مدد سے عام شہریوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کا قتلِ عام ہوا۔

1967ء کے بعد سے فلسطینی مقبوضہ علاقے مغربی اُردن اور غزہ میں اسرائیلی افواج کی طرف سے عام فلسطینی شہریوں سے امتیازی سلوک، قید، قتل اور ان کے حقوق کی سلبی جاری تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہودی بستیاں قائم کرنا شروع کیں تاکہ فلسطینی علاقوں میں لاکھوں اسرائیلی شہری آباد ہوں۔ ان تمام حالات کی وجہ سے 1987ء میں ان علاقوں میں بسنے والے نوجوانوں نے عام احتجاج شروع کیا جسے انتفاضہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان مظاہروں کے دوران عموماً نوجوان اسرائیلی ٹینکوں یا جیپوں پر پتھراؤ کرتے تھے۔ مظاہروں کو کچلنے کے لئے اسرائیلی افواج کی طرف سے مظاہرین پر گولی چلائی جاتی یا پھر مظاہرین کے ہاتھ توڑ دیئے جاتے۔ اس کے علاوہ مقبوضہ فلسطین پر سینکڑوں چیک پوائنٹس بنائے گئے جہاں عام فلسطینی اسرائیلی فوجیوں کی طرف سے ذِلّت آمیز سلوک اور بے جا سختیاں برداشت کرتے۔ چھ سال کی انتفاضہ کے دوران اسرائیلی افواج نے ایک ہزار سے زائد فلسطینی قتل، کئی ہزار زخمی اور قید کئے مگر احتجاج میں کوئی کمی نہ آئی۔

آخرکار بین الاقوامی دباؤ اور معاشی نقصانات کی وجہ سے اسرائیل پہلی مرتبہ فلسطینیوں سے براہِ راست مذاکرات کرنے پر مجبور ہوگیا۔ 1991ء کے بعد یاسر عرفات اور اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابین کے مابین مذاکرات کا ایک دَور شروع ہوا جس کے بعد 1993ء میں اوسلو کا معاہدہ طے پایا جس میں اصولاً یہ طے پایا کہ مغربی اُردن اور غزہ میں ایک علیحدہ فلسطینی ریاست قائم کی جائے گی، جبکہ پی ایل او اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کرے گی۔ اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ پانچ سال تک فلسطینی مقبوضہ فلسطین کے کچھ علاقوں پر اپنی نیم خودمختار حکومت قائم کریں گے۔ جبکہ باقی علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ رہے گا اور اس دوران مزید مذاکرات کرکے ان علاقوں سے متعلق فیصلہ کیا جائے گا۔ اصولی طور پر تو اقوامِ متحدہ کے ایک واضح ریزولیشن میں یہ بات کہی گئی تھی کہ اسرائیل 1967ء میں مقبوضہ علاقوں سے اپنی فوج نکالے مگر فلسطینی قیادت اس کی تکمیل کے لیے اس معاہدہ کے لئے تیار ہوگئی۔ شروع میں مقبوضہ فلسطین کے 1967ء کی جنگ میں قبضہ کئے گئے علاقوں میں سے 3 فیصد فلسطینی عمل درآمد میں آ گئے۔ باقی تمام علاقے اور اسرائیلی آبادکار اسرائیل کے زیرِ انتظام رہے۔ اسرائیل میں دائیں بازو کی پارٹیوں نے اس امن معاہدہ کی سخت مخالفت کی۔ بلکہ ایک ایسی تنظیم کے ممبرنے اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابین کو فلسطینیوں سے امن معاہدہ کرنے کی وجہ سے 1997ء میں قتل کر دیا۔

1996ء میں دائیں بازو کی اسرائیلی حکومت اور نئے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے امن معاہدہ کی تکمیل کو عملاً روک دیا جس کے بعد ایک دفعہ پھردونوں جانب متشدّد خیالات کے حامل تنظیموں نے زور پکڑا۔ کئی فلسطینی تنظیمیں جیسے حماس وغیرہ نے اسرائیلی فوج اور شہریوں پر خودکش حملوں کا سلسلہ شروع کیا اور اسی طرح اسرائیلی افواج کی طرف سے فلسطینی شہریوں پر ظلم ڈھائے گئے۔ اسرائیلی حکومت نے بڑے پیمانے پر مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کی نئی تعمیر اور توسیع کا کام تیزی سے شروع کیا جس سے ان علاقوں میں یہودی آبادکاروں کی تعداد دو لاکھ سے بڑھ کر 750000 سے تجاوزکر گئی۔ اسی طرح اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ فلسطین کی حددود پر ایک دیوار کی تعمیر شروع کی گئی، جس سے فلسطینیوں کا اسرائیل میں داخلہ مزید مشکل ہوگیا۔ نیز یہودی آبادکاروں کے لیے علیحدہ سڑکوں کا جال بچھایا گیا جنہیں فلسطینی استعمال نہیں کرسکتے اور جس سے فلسطینی گاؤں اور شہر ایک دوسرے سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔ کئی دہائیوں سے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں پر سخت فوجی قوانین نافذ کیے جاتے ہیں جبکہ اسی علاقہ میں رہنے والے یہودی آبادکار اسرائیلی قانون کےزیرِانتظام زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس امتیازی سلوک کی وجہ سے عملاً فلسطینی ریاست کے قیام کو ناممکن بنانے کی کوشش کی گئی۔

سن 2000ء میں دوسری انتفاضہ کا دَور شروع ہوتا ہے جب اسرائیلی سیاستدان ایریل شارون نے محض اشتعال دلانے اور بیت المقدس پر یہودی حاکمیت جتانے کے لیے مسجد اقصیٰ کا زبردستی دَورہ کیا۔ پہلی انتفاضہ کے مقابل دوسری انتفاضہ میں فلسطینی جانب سے بھی ہتھیاروں کا زیادہ استعمال ہوا۔ اسرائیلی فوج کے جدید اور زیادہ طاقتور ہتھیاروں کے مقابل پر فلسطینی جنگجوؤں کی طرف سے نسبتاً ہلکے ہتھیار استعمال ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق دوسری انتفاضہ کےدوران 3000 فلسطینی اور تقریباً 1000 اسرائیلی مارے گئے۔ چار سال بعد ایک مرتبہ پھر فریقین کی طرف سے مسلح کاروائیاں ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ 2004ء میں یاسر عرفات کی موت کے ساتھ فلسطینی قیادت اس وقت کے فلسطینی صدر محمود عباس کی طرف منتقل ہوگئی۔ 2005ء میں اسرائیل نے غزہ سے اپنی فوجیں نکالنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہاں پر مزید قبضہ رکھنا وقت گزرنےکے ساتھ مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ مگر اس کے ساتھ ہی غزہ کی تمام ہوائی، سمندری اور بَری حدود پر اپنا کنٹرول برقرار رکھا۔ جس سے عملاً غزہ اسرائیل کے زیرِقبضہ ہی رہا۔ اس کے بعد متعدد بار مذاکرات ہوتے رہے مگر بے نتیجہ۔ اس ضمن میں فلسطینی جانب کے دو مطالبات خاص طور پر اسرائیل کی طرف سے رَدّ کیے جاتے رہے ہیں۔ ایک یہ کہ مشرقی بیت المقدس فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہوگا جبکہ اسرائیل پورے یروشلم کو اپنا دارالحکومت تصور کرتا ہے۔ دوسرا فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کا معاملہ جسے اسرائیلی راہنما اب تک رَدّ کرتے رہے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ اور اس کے بعد صدر بائیڈن کے دَور میں اسرائیل اور متعدد عرب ممالک میں سفارتی تعلقات قائم کرنے کی مہم شروع ہوئی جس سے فلسطین کا مسئلہ کافی حد تک بین الاقوامی سیاست میں نظرانداز ہونا شروع ہوا۔ جب سعودی عرب کی طرف سے یہ عندیہ دیا گیا کہ وہ بھی اسرائیل سے مذاکرات کرکے سفارتی تعلقات بحال کرنا چاہتے ہیں تو اکثر فلسطینی یہی سمجھے کہ اب عرب ممالک فلسطین کے مسئلہ میں دلچسپی لینا چھوڑ رہے ہیں۔ اسی دوران موجودہ جنگ کا آغاز ہوتا ہے جس سے فلسطین کا مسئلہ ایک دفعہ پھر دنیا میں مرکزی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اس جنگ کے پیچھے کون کون سے عوامل کارفرما ہیں اور اس میں کن کن ممالک کے مفادات وابستہ ہیں یہ ایک علیحدہ مضمون چاہتا ہے۔

مکرم محمد لقمان مجوکہ صاحب، ممبر تاریخ کمیٹی جرمنی

متعلقہ مضمون

  • ایک احمدی خاتون صحافی کی عدالتی کامیابی

  • جرمنی میں رہتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں کام کے مواقع

  • ملکی و عالمی خبریں

  • سالانہ تقریب تقسیم انعامات جامعہ احمدیہ جرمنی