مکرم مرزا نصیر احمد صاحب چٹھی مسیح
استاد جامعہ احمدیہ۔ یوکے

اس بات کو اب عرصہ دس پندرہ سال کا گزر چکا ہے۔ ہمارے خاندانی پرانے کاغذات میں سے ہمارے نانا حضرت مولوی غلام محمد صاحب افغانکی ایک ڈائری نما نوٹ بک خاکسار دیکھ رہا تھا جس میں ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے دو شعر نظر پڑے جس پر عنوان انہی کے ہاتھ سے ‘‘ابیاتِ جناب شہید مرحوم’’ لکھا ہوا تھا۔ جس سے معلوم یہی ہو رہا تھا کہ یہ اشعار حضرت صاحبزادہ محمد عبداللطیف صاحب شہید کے ارشاد فرمودہ ہیں۔

قبل ازیں اس نوٹ بک پر متعدد بار نظر پڑچکی تھی مگر اب کی بار مجھے خیال آیا کہ اغلباً یہ ابیات کسی جماعتی آرگن میں یا کسی قسم کے جماعتی لٹریچر میں کبھی نظر سے نہیں گزرے اس لئے بہت ممکن ہے کہ یہ اس نوٹ بک کے علاوہ کہیں اور محفوظ نہ ہوں۔ چنانچہ یہ خیال آتے ہی خاکسار نے یہ ابیات نقل کرکے سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس کی خدمتِ اقدس میں ارسال کر دئیے اور حضور نے ملاحظہ فرماکر کمال شفقت سے انہیں فریم کرانے کا ارشاد فرمایا اور پھر بیت الفتوح کی آفتاب خان لائبریری کے میوزیم والے حصہ میں رکھوا دیا۔ جہاں کافی سال یہ ابیات Display ہوتے رہے۔ یہ اشعار یوں ہیں:

گر نبودے ز توآن حرفِ وفائے ازلی

اگر تیری طرف سے اس ازلی وفا کی بات نہ ہوتی۔

کی بُرم بُوی زخاک وطن لم یزلی

مَیں اس وطن لم یزل کی خاک کی خوشبو کیسے محسوس کرتا۔

کی خبرے از عالم اوجِ کبریا کردی

معرفت کے بلند و بالا عالم کا راز جو شبنم کے موتی۔

اشک شبنم ہوس برگ آثار طللی

درخت کے پتوں کی آہٹ اور سرائے ویران کی قدیم بنیادوں نے بتایا، کون بتاتا۔

محترم حضرت مولوی غلام محمد صاحب افغانکی وفات قادیان میں 28 جولائی 1932ء کو ہوئی تھی۔ آپ کا مزار حضرت اقدس مسیح موعود کی چار دیواری سے ملحقہ قطعہ میں واقع ہے۔ آپ حضرت صاحبزادہ محمد عبداللطیف صاحب شہید کے شاگردوں میں شامل تھے اور ہماری والدہ مرحومہ کے بیان کے مطابق حضرت شہید مرحوم نے جتنے بھی وفود تحقیق اور بیعت کی غرض سے قادیان بھجوائے تھے ان سب میں آپ شامل تھے گوکہ کم عمری کے سبب سے آپ کا نام کبھی کسی بھی جگہ درج نہیں ہوا۔ اور پھر جب حضرت صاحبزادہ صاحب خود بھی قادیان تشریف لائے تو اس وقت بھی آپ ہمراہیوں میں شامل تھے۔ مذکورہ نوٹ بک میں ایک جگہ تاریخ 1919ء بھی لکھی نظر آتی ہے۔ اس لئے بہت ممکن ہے کہ آپ نے 1919 میں یہ ترتیب دینی شروع کی ہو گوکہ بعید نہیں کہ یہ اس سے پہلے بھی آپ کے پاس چلی آرہی ہو۔ بہرحال آج اس پر کم از کم ایک سو پانچ سال تو گزر چکے ہیں اللہ تعالیٰ جزا دے ہمارے والدین کو جنہوں نے اس امانت کو محفوظ رکھا اور ہمیں آج یہ دیکھنی نصیب ہوئی۔

حضرت شہید مرحومکے ان ابیات کے علاوہ حضرت مولوی صاحب یعنی ہمارے نانا صاحب نے اس میں فارسی کے مشہور و معروف شاعر مرزا عبدالقادر بیدل کے بھی دو ابیات درج کئے ہوئے ہیں اور وہ یوں ہیں:

باوج کبریا کز پہلوئ عجز است راہ آنجا

معرفت کی بلندی جس کے پانے کی راہ عجز ہے۔

سِریکمو گر اینجا خم شوی بشکن کلاہ آنجا

اگرتُو بال برابر ہی اس جگہ عجز دکھائے تو تیرا غرور ٹوٹ جائے۔

ادب گاہِ محبت بار شوخی برنمیدارد

وہ محبّت میں گندگی  کا بوجھ نہیں اُٹھاتا۔

چوشبنم سربمہر اشک میباید نگاہ آنجا

اس جگہ شبنم کے پاک صاف موتی کی طرح نگاہ ہونی چاہیے۔

فارسی زبان میں چونکہ خاکسار کو زیادہ درک نہیں اس لئے ان تمام ابیات پر زیادہ عمیق نظر ڈالنے کی طرف توجہ نہیں ہوئی۔ لیکن کچھ عرصہ ہوا کہ مرزا بیدل اور ان کی شاعری پر ایک کتاب نظر سے گذری جس میں مرزا بیدل کے کافی تفصیلی سوانح نیز ان کی شاعری اور بیدل شناسی کے تعلق میں کچھ مقالے نظر پڑے اور اس سے معلوم ہوا کہ مرزا بیدل مرزا غالب کی طرح ایک بہت بلند مقام رکھنے والے فارسی کے شاعر گذرے ہیں بلکہ بعض تو مرزا بیدل کو مرزا غالب سے بھی بہت زیادہ بلند مقام دیتے ہیں۔ بعض مرزا بیدل کو فارسی کا مرزا غالب اور بعض مرزا غالب کو اردو کا مرزا بیدل سمجھتے ہیں گو کہ دونوں میں کافی سالوں کا فاصلہ ہے۔ بہرحال مذکورہ نوٹ بک سے یہ بھی مترشح ہوا کہ حضرت شہید مرحوم مرزا بیدل کے قدر دان تھے اور آپ کے مذکورہ ابیات میں مرزا بیدل کے ابیات کی طرف اشارہ جھلک رہا ہے۔ تاہم حضرت شہید مرحومکو جو عالم کبریا کی معرفت حاصل ہوئی وہاں تک مرزا بیدل کی رسائی ممکن نہ تھی۔ پس اس خیال سے کہ ان ابیات کا صحیح مفہوم کسی طرح معلوم کیا جاسکے ہمارے یہاں جامعہ کے استادِ فارسی بزرگوارم سیّد عاشق حسین صاحب سے رجوع کیا گیا اسی طرح ہمارے فارسی کے نئے استاد مکرم ڈاکٹر کاشف علی صاحب سے بھی استفادہ کیا گیا اور ان تما م اشعار کے معنے دریافت کئے۔ مضمون سب میں تصوف کا ہی بیان ہوا ہے۔ مرزا بیدل کے جو اشعار یہاں درج ہیں ان کی قرأت قدرے مختلف ہے مکرم ڈاکٹر کاشف علی صاحب کے مطابق یہ اشعار یوں پڑھے جاتے ہیں:

باوج کبریا کز پہلوی عجز است راہ آنجا

سری موی گراینجا خم شوی لبشکن کلاہ آنجا

ادب گاہ محبت ناز شوخی برنمی تابد

چوشبنم سربمہر اشک می بالدنگاہ آنجا

خلاصہ مضمون ان ابیات کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا حقیقی عرفان صرف عاجزی اور انکساری کی راہ سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ اگر انسان اس عرفان کے حصول کے لیے ایک بال برابر بھی عجز و انکسار اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ اسے ایک لازوال عزت کا مالک بنا دیتا ہے۔ منازل عشق میں شوخی یعنی بےادبی کو کوئی دَخل نہیں ہوا کرتا اس جگہ شبنم کے پاک صاف موتی کی طرح نگاہ ہونی چاہئے۔

جہاں تک حضرت شہید مرحوم کے ابیات کا تعلق ہے آپ نے ان میں بیدل کے ان ابیات میں درج بعض الفاظ لاکر ان کے مضامین کی طرف اس طرح اشارہ فرمایا ہے کہ یہ عجز و انکسار بھی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہے جب تک اللہ تعالیٰ کےفضلِ خاص کی تجلی اس پر نہ ہو۔ چنانچہ آپ اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ اگر تیری طرف سے اس ازلی وفا کی تجلی نہ ہوتی تو میں اس وطن لم یزل کی خاک کی خوشبو کیسے محسوس کرتا۔ نیز

کی خبرے از عالمِ اوجِ کبریا کردی

اشکِ شبنم ہوس برگ آثار طللی

کہ معرفت کے بلند و بالا عالم کا راز جو شبنم کے موتی، درختوں کے پتوں کی سرسراہٹ اور سرائے ویران کی قدیم بنیادوں (یعنی کھنڈرات) نے بتایا، کون بتاتا۔ یہاں جو لفظ ’’طللی‘‘استعمال ہوا ہے اس کے معنے بارش کی خوشگوار سی پھوار بھی ہوسکتے ہیں جوسیاق و سباق سے مناسبت رکھتے ہیں۔

الغرض حضرت شہید مرحوم اللہ تعالیٰ کے فضل بےپایاں پر اس کے حضور شکرگزار ہیں اور اپنی ہر قسم کی کوشش یا ہنر وغیرہ سے مکمل طور پر دستکش ہیں۔ چنانچہ اسی مذکورہ نوٹ بک کے محوّلہ صفحہ پر حضرت مولوی غلام محمد صاحبرقمطراز ہیں کہ:

’’ حاصل اینکہ شکریہ میگوید کہ اگر احسانِ شما نبودے من بدرجۂ معرفتِ توکے میر سیدم کہ اشک شبنم و آواز برگ اشجار ونشاناتِ بیخ ہائے دیوار ہائے کہنہ ہمراہِ من راز میگو یندو ھمہ گے مظاہر انوارِ تو گشتہ اند۔ والسلام‘‘

یہاں حضرت مولوی صاحبؓ نے بروایت حضرت مولوی عبدالستار صاحب (المعروف بہ’’بزرگ صاحب‘‘) یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ:

’’مولانا صاحب یعنی بزرگ صاحب از جناب شہید مرحومما حکایۃً میگفت،گفت شہید مرحوم کہ در امرتسر بودم کہ خوشبوئی محمد رسول اللہﷺ از روضہ شریف بمشام میر سید۔ ومظہر صفاتِ الٰہی گردیدہ۔ ارادہ نمودم کہ کدام کاربکنم بیت 2 مذکور یاد آمد خاموش ماندم ایضاً بارہا یادہ آمدہ مثل استاذ من است یعنی ایں بیت ادبگاہ محبت الخ‘‘

ترجمہ: ’’حضرت شہید مرحومنے فرمایا کہ مَیں امرتسر میں تھا کہ خوشبوئے محمد رسول اللہﷺ روضۂ مبارک سے مجھے آرہی تھی اور مظہر صفات الٰہی ہو کر ارادہ کیا کہ کیا کروں! بیت دوم مذکور یاد آیا۔ خاموش رہا۔ دوبارہ یاد آیا استاد کی طرح ہے یعنی اس کا یہ بیت ادب گاہ محبّت۔الخ ‘‘۔

الغرض ان ابیات میں حضرت شہید مرحومنے اپنے بعض روحانی تجربات کا ذکر فرمایا ہے جن کی کنہ کو ہم جیسے لوگ نہیں پہنچ سکتے اور ان نکات معرفت کو خالصۃً اللہ تعالیٰ کا احسان شمار فرمایا جس کا توسّط آنحضرتﷺ کی ذات منبع البرکات تھی جن کی بعثت ثانی امام الزمان، مہدی دوران، مسیح جہان سیّدنا حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی کے وجود باجُود میں ہوئی اور جن کی زیارت اور ملاقات کے شوق میں حضرت شہیدِ مرحوم اپنے وطن سے کشاں کشاں قادیان کی طرف دیوانہ وار کھچے چلے آئے اور جن کی صداقت کا زندہ نشان بن کر آپ نے اپنا سب مال و متاع، اہل و عیال، عزت و جاہ حتّٰی کہ اپنی جان جانِ آفرین کے لیے قربان کردی۔ جن کے نقش قدم پر چلنے کی حضرت مسیح موعود نے اپنی ساری جماعت کوتاکید فرما دی اور فرمایا کہ اس شہید مرحومؓ کے سوانح یعنی ’’تذکرۃالشہادتین‘‘ کو بار بار پڑھتے رہو اور خدا سے دعائیں کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ ایسا ایمان تمہیں بھی نصیب فرمائے۔ خدا کرے کہ حضور کی نصیحت ہمارے دلوں میں اتر جائے اور ہمیں اس پرکاربند ہونا نصیب ہو اور حضرت اقدس کی توقعات پر ہم پورا اترنے والے بنیں، آمین یا ارحم الراحمین۔

(اخبار احمدیہ جرمنی، شمارہ مارچ 2024ء صفحہ 33)

متعلقہ مضمون

  • جرمنی میں رہتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں کام کے مواقع

  • تری کائنات کا راز تو نہ کسی پہ تیری قسم کھلا

  • محرم الحرام

  • سالانہ تقریب تقسیم انعامات جامعہ احمدیہ جرمنی