سیّدنا حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:

آنحضرتﷺ جس قوم میں آئے وہ تو کسی بات کے بھی قائل نہ تھے نہ ان میں کوئی شریعت تھی اور نہ وہ کسی کتاب کے قائل اور پابند بلکہ اکثر تو خداتعالیٰ کے بھی قائل نہ تھے۔ وہ کہتے تھے۔ مَا ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنۡیَا نَمُوۡتُ وَنَحۡیَا وَمَا یُہۡلِکُنَاۤ اِلَّا الدَّہۡرُ (الجاثیۃ:25) وہ جو کچھ سمجھتے تھے اسی دنیا کو سمجھتے تھے کہ آگے جاکر کسی نے کیا دیکھا ہے۔ یہی دنیا ہی دنیا ہے۔ اس آیت میں دہر کا لفظ اسی لیے بیان کیا ہے تاکہ ظاہر کیا جاوے کہ وہ دہریہ تھے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس وقت عرب میں قریباً تمام بیہودہ اور باطل مذاہب جمع ہوئے ہوئے تھے۔ وہ گویا ایک چھوٹا سا نقشہ تھا جو گندے اور افراط تفریط کے طریق تھے۔ وہ عملی طور پر اس میں دکھائے گئے تھے۔ جیسے کسی ملک کا نقشہ ہو۔ اس میں سب مقام موٹے موٹے دکھائےجاتے ہیں۔ اسی طرح وہاں کی حالت تھی۔ یہ کیسی بڑی روشن دلیل آپؐ کی سچائی کی ہے کہ ایسی قوم اور ایسے ملک میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث فرمایا جو انسانیت کے دائرہ سے نکل چکا تھا۔

 (الحکم جلد 11 نمبر 3 مؤرخہ 24 جنوری 1907ء صفحہ 5۔ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد 7 صفحہ 210)

(اخبار احمدیہ جرمنی، شمارہ جنوری 2024ء صفحہ 4)

متعلقہ مضمون

  • زیارت صالحین کے لئے سفر کرنا

  • سب اپنے مدار پر رواں دواں ہیں

  • جب میری مدد تمہیں پہنچے گی

  • قال المسیح الموعود علیہ السلام