ادبی صفحہ
مرتبّہ: مدبّر احمد خان

ڈاکٹر رؤف پاریکھ

رؤف پاریکھ صاحب کی کتاب ’’صحتِ زباں‘‘ سے پیش لفظ کی چند سطروں کے بعد چند اصلاحات پیشِ خدمت ہیں۔

بعض اوقات کسي لفظ يا ترکيب کا غلط املا اتنا رائج ہو جاتا ہے کہ اخبارات اور جرائد ميں بھي ان کا غلط املا لکھا جاتا ہے۔ پھر اس کے درست املا کو بالعموم غلط قرار ديا جاتا ہے اور غلط کو صحيح مان ليا جاتا ہے، حتيٰ کہ بعض لغات ميں کبھي کسي لفظ کا غلط املا بھي درج ہو جاتا ہے۔ جس کے بعد بعض لوگ درست املا کو غلط کہتے ہيں بلکہ درست املا لکھنے پر جھگڑتے ہيں۔

رشيد حسن خاں کے بقول غلط نويسي دراصل خوش نويسي کي پيداوار ہے۔ راقم کا ذاتي تجربہ بھي يہي ہے۔ بعض کاتب يعني خوش نويس اصل ميں غلط نويس ہوتے ہيں اور بعض کاتب حضرات شوقِ اصلاح کے مارے ہوئے ہوتے ہيں۔ يہاں تک کہ بڑے معروف شعرا کو بھي بعض کاتب حضرات اصلاح دينے سے باز نہيں رہ سکے۔ اور ان کے کلام ميں تبديلياں بھي کر ديں۔ کاتبوں کي انہي چيرہ دستيوں سے تنگ آ کر فارسي کے کسي شاعر نے کاتبوں کو چنگيز خاں سے بھي زيادہ ستم گر قرار ديتے ہوئے کہا تھا

 

ہيچ از چنگيز خاں بر عالمِ صورت نرفت

آں ستم کز کاتباں بر عالمِ معني رود

دوا يا دوائي؟

بعض لوگوں کو ’’دوائي‘‘بولتے سنا تھا اب اس طرح کچھ لوگ لکھنے بھي لگے ہيں اور اس کي جمع ’’دوائياں‘‘ بھي بنا لي جاتي ہے، حالانکہ دوائي کوئي لفظ نہيں۔ صحيح لفظ دوا ہے۔ دوا عربي کا لفظ ہے۔ عربي ميں اس کي جمع ادويہ ہے اور جمع الجمع ادويات۔ اردو کے لحاظ سے اس کي جمع ’’دوائيں‘‘ بنے گي۔ ’’دوا‘‘ کہنا کافي ہے۔ اس کے آگے ’’ئي‘‘ لگانے کا کيا جواز ہے؟

عوام: مذکر يا مونث؟

اب ريڈيو اور ٹي وي کے تلفظ کا جو عالم ہے اسے ديکھ کر زيڈ اے بخاري صاحب کا خدا جانے کيا ردِّعمل ہوتا۔ اگر وہ حسبِ سابق کسي اعليٰ عہدے پر ہوتے تو شايد زيادہ تر پروگرام نشر ہي نہ ہو سکتے۔ مثال کے طور پر اب ٹي وي کے بيش تر چينل ’’عوام‘‘ کو مذکر اور جمع کي بجائے مونث اور واحد بولتے ہيں يعني ’’عوام سوچ رہے ہيں‘‘ کي بجائے ’’عوام سوچ رہي ہے‘‘۔ان کي ديکھا ديکھي اب اخبارات بھي اسي طرح لکھنے لگے ہيں۔ کوئي ان سے پوچھے کہ اس کي کيا سند ہے؟ اردو کي تمام لغات کے مطابق عوام جمع ہے اور مذکر ہے۔ گويا ’’عوام سوچ رہي ہے‘‘يا ’’کہہ رہي ہے‘‘ لکھنا يا بولنا غلط ہے۔ درست يوں ہوگا: ’’عوام سوچ رہے ہيں‘‘ يا ’’عوام کہہ رہے ہيں‘‘۔

’’کا شکريہ‘‘ يا ’’کے ليے شکريہ‘‘

ايک بدعت جو زبان کے معاملے ميں جائز تصوّر کرلي گئي ہے وہ انگريزي محاورے يا روزمرہ کا لفظي اردو ترجمہ ہے۔ مثلاً اردو ميں جب کسي چيز يا کام کا شکريہ ادا کرنا ہوتو کہا جاتا ہے ’’کا شکريہ‘‘۔ جيسے کتاب کا شکريہ، تشريف لانے کا شکريہ، انتظار کرنے کا شکريہ۔ ليکن اب ہم ٹي وي پر بھي اور عام گفتگو ميں بھي کچھ اس طرح کے جملے سنتے ہيں کہ ’’تاب کے ليے شکريہ‘‘ يا ’’انتظار کرنے کے ليے شکريہ‘‘۔ اردو روزمرہ کے لحاظ سے يہ بالکل غلط ہے۔ اور غالباً انگريزي کي ترکيب Thank you for کا لفظي ترجمہ ہے جو اردو ميں بہت بھونڈا معلوم ہوتا ہے۔ صحيح استعمال ہوگا ’’کا شکريہ‘‘۔ بہرحال، اس تحرير کو يہاں تک پڑھنے ’’کا‘‘ شکريہ۔

ناتا يا ناطہ؟

ناتا عربي کا لفظ ہر گز نہيں ہے۔ اور طوے (ط) عربي الفاظ ہي ميں آ سکتي ہے۔ ناتا خالصتاً ديسي لفظ ہے۔ اسے آپ ہندي يا اردو کا لفظ کہہ ليجيے۔ لہٰذا اس کے املا ميں ’’ط‘‘کا کوئي کام نہيں۔ اس کا درست املا ’’ناتا‘‘ہے۔ اس کے مرکبات مثلاً رشتہ ناتا، ناتا جوڑنا، ناتا توڑنا وغيرہ ميں بھي ’’ت‘‘ ہي لکھنا صحيح ہے۔

براہِ مہرباني يا برائے مہرباني؟

براہِ مہرباني کے لفظي معني ہيں’’ مہرباني کي راہ سے‘‘۔ اسي ليے اس کو’’از راہِ مہرباني‘‘ (يعني مہرباني کي راہ سے) بھي لکھا جاتا ہے۔ اسي طرح ’’ازراہِ کرم‘‘ (يعني کرم کي راہ سے) کي ترکيب بھي مستعمل ہے۔ گويا درست ترکيب ہے براہِ مہرباني۔ ليکن آج کل لوگ بالعموم ’’رائے مہرباني‘‘بولتے اور لکھتے ہيں۔ يہ درست نہيں ہے۔ براہِ مہرباني يا ’’مہرباني فرما کر‘‘ لکھنا چاہيے۔ اميد ہے کہ آپ براہِ مہرباني آئندہ ’’براہِ مہرباني‘‘ لکھا کريں گے نہ کہ برائے مہرباني۔

 

متعلقہ مضمون

  • قصہ داڑھ کے درد کا

  • ایک شہر پانچ ہنگامے

  • دِلّی جو ایک شہر تھا

  • دِلّی جو ایک شہر تھا