آئے وہ دن کہ ہم جن کی چاہت میں گنتے تھے دن اَپنی تسکینِ جاں کے لئے
پھر وہ چہرے ہویدا ہوئے جن کی یادیں قیامت تھیں قلبِ تپاں کے لئے

پیار کے پھول دل میں سجائے ہوئے، نورِ ایماں کی شمعیں اٹھائے ہوئے
قافلے دُور دیسوں سے آئے ہوئے، غمزدہ اک بدیس آشیاں کے لئے

دیر کے بعد اے دُور کی راہ سے آنے والو! تمہارے قدم کیوں نہ لیں
میری ترسی نگاہیں کہ تھیں منتظر، اِک زمانے سے اِس کارواں کے لئے

پھول تم پر فرشتے نچھاور کریں، اور کشادہ ترقی کی راہیں کریں
آرزوئیں مِری جو دُعائیں کریں، رنگ لائیں مِرے میہماں کے لئے

میرے آنسو تمہیں دیں رَمِ زندگی، دور تم سے کریں ہر غمِ زندگی
میہماں کو ملے جو دمِ زندگی، وہی اَمرت بنے میزباں کے لئے

نور کی شاہراہوں پہ آگے بڑھو، سال کے فاصلے لمحوں میں طے کرو
خوں بڑھے میرا تم جو ترقی کرو، قرۃالعین ہو سارباں کے لئے

تم چلے آئے میں نے جو آواز دی، تم کو مولیٰ نے توفیق پرواز دی
پر کریں، پر شکستہ وہ کیا جو پڑے رہ گئے چشمک دشمناں کے لئے

اُن کی چاہت میرا مدعا بن گیا، میرا پیار اُن کی خاطر دُعا بن گیا
بالیقیں اُن کا ساتھی خدا بن گیا، وہ بنائے گئے آسماں کے لئے

حبس کیسا ہے میرے وطن میں جہاں، پا بہ زنجیر ہیں ساری آزادیاں
ہے فقط ایک رستہ جو آزاد ہے، یورشِ سیلِ اشکِ رواں کے لئے

بن کے تسکین خود اُن کے پہلو میں آ، لاڈ کر، دے اُنہیں لوریاں، دل بڑھا
دُور کر بَد بَلا یا بتا کتنے دن اور ہیں صبر کے امتحاں کے لئے؟

(کلام طاہرؔ)

(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ اگست 2024ء صفحہ 15)

متعلقہ مضمون

  • طائر کے بعد اُس کانشیمن اُداس ہے

  • وقت کم ہے، بہت ہیں کام، چلو

  • تم چلے آئے مَیں نے جو آواز دی

  • وفا کا امتحاں لینا تجھے کیا کیا نہ آتا ہے