دسمبر 2023ء کے آخر میں جرمنی کے اخبارات اور ٹی وی چینلز پر یہ تہلکہ خیز خبر شائع اور نشر ہوئی کہ کسی دہشت گرد تنظیم نے کولون کےقدیم تاریخی ڈوم (کلیسا) پر حملہ کرنے کی دھمکی دی ہے۔ حسب معمول ذرائع ابلاغ نے اسے مسلمانوں کی طرف منسوب کرکے اسلام کو بدنام کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ یہ صورت حال ہر احمدی کے لئے انتہائی تشویشناک اور فوری ردِّعمل کی متقاضی تھی کیونکہ کوئی بھی حقیقی مسلمان ایسی مذموم حرکت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کےفضل سے جماعت کولون کے احباب جماعت کو ایک منظّم پروگرام کے تحت اسلام اور قرآن کے خلاف اس الزام کا عملاً جواب دینے کی توفیق ملی جسے حیرت انگیز طور پر ہر قسم کے ذرائع ابلاغ نے شائع اور نشر کیا جس سے تصویر کا رخ مکمل طورپر تبدیل ہوگیا اور ہر کس و ناکس پر یہ امرواضح ہوگیا کہ اسلام تو ایسی حرکات کی نہ صرف اجازت نہیں دیتا بلکہ ایسی مذموم باتوں کے سخت خلاف ہے، الحمدللہ۔

اس مقصد کے لئے خاکسار کی درخواست پر ایک خادم بھائی مکرم اطہر اقبال صاحب نےبعض اقتباسات اور ارشادات پر مشتمل بینرز تیار کردئیے جنہیں مکرم مسعود ارشد خان صاحب نے اپنے پرنٹنگ پریس میں راتوں رات طبع کر دیا اور 25 مقامی احباب جماعت مؤرخہ 30 دسمبر کی صبح ان بینرز کے ساتھ کولون کے اس کلیسا کے سامنے کھڑے ہوگئے جن پر جرمن اور انگریزی زبان میں اسلام کی تعلیم پیش کی گئی مثلاً: ”مَیں ایک مسلمان ہوں عبادت خانوں کا تحفظ میری ذمہ داری ہے‘‘،”اسلام کی تعلیم ہے کہ مسلمان تمام عبادت گاہوں کی حفاظت کریں“، ”مَیں مسلمان ہوں اور چرچ کی حفاظت کروں گا“،”مَیں ایک مسلمان ہوں اور میں اپنے وطن جرمنی سے وفا کا عہد کرتا ہوں“،حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں: ” زمین پر اَمن پھیلاؤ ‘‘۔

اس سلسلہ میں چرچ کی انتظامیہ سے پہلے ہی بات ہوچکی تھی چنانچہ ان کی طرف سے ہمیں پورا تعاون حاصل رہا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ساتھ خداتعالیٰ نے ہماری اس کوشش میں ایسی برکت ڈالی کہ یہی اسلام مخالف منفی خبر چند لمحوں میں اسلام کے حق میں ہو کر ذرائع ابلاغ پر چھا گئی اور اسلام کا حقیقی چہرہ دنیا کو نظر آنے لگا۔ چنانچہ جرمنی اور دیگر ممالک کے 22سے زائد مشہور اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی چینلز پرنٹ اور آن لائن ایڈیشنز میں اسلام کی خوبصورت تعلیم پر مشتمل یہ خبرکہ ”مسلمان کولون چرچ کی حفاظت کر رہے ہیں“ زینت بن چکی تھی۔ ان ذرائع ابلاغ کی کسی قدر تفصیل حسب ذیل ہے:

جرمنی کے مشہور اخبار Bild کے مختلف شہروں سے متعدد ایڈیشن شائع ہوتے ہیں جسے عوام کثرت سے خریدتے اور پڑھتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق جرمنی میں اسے روزانہ پڑھنے والوں کی تعداد 6.93 ملین ہے۔ عام طور پر یہ اخبار اسلام کے خلاف ہی خبریں شائع کرتا ہے لیکن اس موقع پر خداتعالیٰ نے ان لوگوں کو مجبور کر دیا کہ ہماری یہ خبر اس نمایاں سرخی کے ساتھ پہلے صفحہ پر شائع کریں:

’’مسلمان کولون چرچ کی حفاظت کر رہے ہیں ‘‘

اس خبر کی تفصیل میں ایک بہت طویل مضمون لکھا ہے اور ہماری تصویر کے نیچے یہ تعارفی جملہ لکھا:

’’جماعت احمدیہ کے افراد ڈھال بن کر کولون چرچ کے سامنے کھڑے ہیں“

https://m.bild.de/news/inland/koeln-aktuell/zeichen-gegen-hass-und-terror-muslime-schuetzen-koelner-dom-86593340.bildMobile.html?t_ref=https%3A%2F%2Fwww.bild.de%2Fnews%2Finland%2Fkoeln-aktuell%2Fzeichen-gegen-hass-und-terror-muslime-schuetzen-koelner-dom-86593340.bild.html

سیّدنا حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:

اگر خداتعالیٰ کی یہ عادت نہ ہوتی کہ بعض کو بعض کے ساتھ دفع کرتا تو ظلم کی نوبت یہاں تک پہنچتی کہ گوشہ گزینوں کے خلوت خانے ڈھائے جاتے اور عیسائیوں کے گرجے مسمار کئے جاتے اور یہودیوں کے معبد نابود کئے جاتے اور مسلمانوں کی مسجدیں جہاں کثرت سے ذکر خدا ہوتا ہے منہدم کی جاتیں۔ اس جگہ خداتعالیٰ یہ ظاہر فرماتا ہے کہ ان تمام عبادت خانوں کا میں ہی حامی ہوں اور اسلام کا فرض ہے کہ اگر مثلاً کسی عیسائی ملک پر قبضہ کرے تو اُن کے عبادت خانوں سے کچھ تعرض نہ کرے اور منع کر دے کہ اُن کے گرجے مسمار نہ کئے جائیں اور یہی ہدایت احادیث نبویہ سے مفہوم ہوتی ہے کیونکہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جبکہ کوئی اسلامی سپہ سالار کسی قوم کے مقابلہ کے لئے مامور ہوتا تھا تو اُس کو یہ حکم دیا جاتا تھا کہ وہ عیسائیوں اور یہودیوں کے عبادت خانوں اور فقراء کے خلوت خانوں سے تعرض نہ کرے۔ اس سے ظاہر ہے کہ اسلام کس قدر تعصّب کے طریقوں سے دور ہے کہ وہ عیسائیوں کے گرجاؤں اور یہودیوں کے معبدوں کا ایسا ہی حامی ہے جیسا کہ مساجد کا حامی ہے۔(چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 393-394)

اس ٹی وی چینل کے ناظرین کی تعداد 1.94 ملین روزانہ ہے۔ اس چینل پر بھی اس واقعہ کے بارہ میں ایک تفصیلی خبر نشر کی گئی جسے انہوں نے اپنے ویب سائٹ پر بھی اس عنوان کے ساتھ شائع کیا۔

Junge Muslime in

Schwarz-Rot-Gold

یعنی نوجوان مسلمان جرمنی کے قومی پرچم کے رنگوں میں۔ اس کے بعد لکھا:

سالِ نَو پر جماعت احمدیہ کولون کے افراد نے کیتھیڈرل کے اردگرد ایک حفاظتی حلقہ بنا کر گرجے کی علامتی طور پر حفاظت کی ڈیوٹی دی۔ 2015ء میں اسلامی ممالک سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے نیوائیر ڈے کے موقع پر خواتین کو جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا جس کی وجہ سے ماحول تارکین وطن کے خلاف ہو گیا تھا۔ مگر ٹھیک 8 سال بعد یہی جگہ بالکل مختلف منظر پیش کر رہی ہے۔ نوجوان مسلمان چرچ کی حفاظت کے لئے صف آرا ہیں اور حلقہ بنا کر نفرت اور دہشتگردی کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ یہ لوگ جماعت احمدیہ کے ممبران ہیں، انہوں نے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا ہوا تھا کہ ’’مَیں ایک مسلمان ہوں عبادت گاہوں کی حفاظت میری ذمہ داری ہے ‘‘۔

https://www.welt.de/debatte/kommentare/article249328312/Aktion-am-Koelner-Dom-Junge-Muslime-in-Schwarz-Rot-Gold.html?cid=socialmedia.whatsapp.shared.web

حضرت خلیفۃالمسیح الثانیفرماتے ہیں:

یہ حکم دنیا میں امن قائم رکھنے کے لیے ہے۔ اگر ہم یہ حکم دے کر ایک قوم کو انصاف قائم کرنے کے لیے کھڑا نہ کر دیتے تو عیسائیوں کے گرجے اور یہودیوں کی عبادت گاہیں اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں اللہ تعالیٰ کا نام بڑی کثرت سے لیا جاتا ہے سب گِرا دی جاتیں۔ پس جو مسلمان دین میں دخل اندازی کرنے والی جنگ کے مقابلہ کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے وہ دَرحقیقت اپنی مدد نہیں کرتا بلکہ اُن کی مدد کرتا ہے کیونکہ وہ صرف اپنے مذہب کا دفاع نہیں کرتا بلکہ سب مذاہب کا دفاع کرتا ہے… ایسی مظلوم قوم کا فرض ہوتا ہے کہ جب اُسے طاقت ملے تو وہ تمام مذاہب کی حفاظت کرے اور اُن کی مقدّس جگہوں کے ادب اور احترام کا خیال رکھے اور اس غلبہ کو اپنی طاقت اور قوت کا ذریعہ نہ بنائے بلکہ غریبوں کی خبرگیری، ملک کی حالت کی درستی اور فتنہ و شرارت کے مٹانے میں اپنی قوتیں صرف کرے۔ کیونکہ اسلام دنیا میں بطور شاہد اور محافظ کے آیا ہے نہ کہ بطور جابر اور ظالم کے۔ (تفسیرکبیر جلد 8 صفحہ 193-194ایڈیشن 2023ء)

جرمنی کے مشہور و مقبول ریڈیو DLF کے ویب سائٹ کی خبروں کو جرمنی میں روزانہ 2.26 ملین لوگ پڑھتے ہیں۔ اس ویب سائٹ نے اس واقعہ کی خبر دیتے ہوئے لکھا کہ انتہا پسندوں کی طرف سے حملے کی دھمکیوں کے بعد مسلمان کولون کے چرچ کی حفاظت کے لیے اس کے سامنے کھڑے ہوگئے اور ان کے بینرز پر یہ الفاظ درج تھے ’’مَیں ایک مسلمان ہوں اور چرچ کے تحفّظ کے لیے کھڑا ہوں ‘‘۔ کولون میں کافی تعداد میں مسلمان آباد ہیں۔ یہ آواز جماعت احمدیہ کی طرف سے اُٹھائی گئی۔ کولون چرچ کے ایک عہدے دار نے اسے ایک اہم کارروائی قرار دیا۔

https://www.deutschlandfunk.de/muslime-stellen-sich-nach-islamistischen-anschlagsdrohungen-schuetzend-vor-den-koelner-dom-100.html

حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:

(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) اگر ہم مظلوموں کو دفاع کی اجازت نہ دیں تو دنیا سے اَمن اٹھ جائے اور خصوصیت سے مذہبی اَمن اُٹھ جائے۔ لَہُدِّمَتۡ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ گرجے بھی بربادکر دئے جائیں اور راہب خانے بھی تباہ کر دیئے جائیں اوریہودیوں کی عبادت گاہیں بھی تباہ کر دی جائیں اور مسجدیں بھی تباہ کی جائیں۔ سب سے آخر پر مسجدوں کا ذکر فرمایا ہے اور سب سے پہلے ان قوموں کی عبادت گاہوں کا ذکر کیا ہے جن سے عظیم روحانی جہاد شروع ہوچکا ہے۔ کیسی پاکیزہ تعلیم ہے۔عبادت گاہوں کو کیسا تقدّس عطا فرمایا گیا ہے۔ اسی لئے میں ہمیشہ جماعت احمدیہ کو کہتا ہوں کہ اگر تم کوئی کسی گرجے پر حملہ ہوتےدیکھو۔ دیکھو کہ قوم اسے منہدم کر رہی ہے اگر اس کے دفاع میں تم مارے جاؤگے تو میرے نزدیک اس آیت کی رُو سے تمہارا مقام شہادت کا مقام ہوگا۔ (اختتامی خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ 1993ء)

Kölnische Rundschau

اس اخبار کو جرمنی میں ہر روز تقریباً ایک ملین لوگ پڑھتے ہیں۔ اس نے اپنی اشاعت مؤرخہ 2 جنوری 2024ء کے صفحہ 22 پر اس کی تفصیلی خبر شائع کرتے ہوئےلکھا:

شہر کومسلمان دہشت گردوں کی دھمکی کی وجہ سے شدید تشویش ہے، چرچ کے چاروں طرف کرسمس کے موقع پر سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے۔ انہی کے درمیان کیتھیڈرل کی سیڑھیوں پر کچھ لوگ اس مضمون کے بینرز اٹھائے کھڑے تھے ’’مَیں ایک مسلمان ہوں اوردنیا سے تشدد اور نفرت مٹانے کے لیے کوشاں ہوں ‘‘۔

یہ تمام لوگ جنہوں نے وردی پہنی ہوئی ہے اس ’’ امن سائیکلنگ کلب ‘‘کے ممبر ہیں جس کی جماعت احمدیہ کے مربی محمود احمد ملہی نے کولون میں بنیاد رکھی ہے، یہ سائیکلنگ کلب کم از کم ہفتے میں ایک مرتبہ مختلف چرچ کمیونٹیز کا دورہ کرتا ہے اور مذہبی رواداری کو فروغ دیتا ہے یہ سائیکلنگ کلب امن کو قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے محمود احمد ملہی کا کہنا ہے کہ ہمیں آپس میں مشترکہ اقدار کی تلاش کرنی چاہیے۔ مزید یہ کہ مسلمانوں کو قرآن مجید کا یہ حکم ہے کہ جب بھی کوئی عبادت گاہ خطرے میں ہو تو اس کا تحفظ مسلمان کی ذمہ داری ہے قطع نظر اس کے کہ وہ یہودی یا عیسائی عبادت گاہ ہے

اس مہم میں محمود احمد ملہی کے ساتھ 35 افراد نے شرکت کی۔ انہوں نے کہا:

’’ہمارا مقصدگفتگو کے ذریعے خوف کو کم کرنا ہے۔ ہم یہاں ایک مثال قائم کرنا اور یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں: جو کوئی بھی اس چرچ پر حملہ کرنا چاہے اسے پہلے ہمارا مقابلہ کرنا ہوگا‘‘۔

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس نے سورہ حج کی آیات 40 اور 41 کی تشریح میں فرمایا:

یہ آیات اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کو صرف اسلام کے تحفظ کے لیے لڑنے کا حکم نہیں دیا، بلکہ قرآن مجید گواہی دیتا ہے کہ مکہ والوں کا اصل مقصد تمام مذاہب کو ختم کرنا اور تمام عبادت گاہوں کو منہدم کرنا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو آزادی ضمیر اور عقیدے کی آزادی کے عالمگیر اصول قائم کرنے کے لیے لڑنے کا حکم دیا۔ دراصل، اسلام کی تعلیمات کے مطابق، اگر کبھی بھی دوسرے مذاہب کے پیروکاروں نے مذہبی آزادی کے تحفظ اور بقا کو یقینی بنانے کے لیے مسلمانوں کی مدد طلب کی تو مسلمانوں کو ان کی حمایت کرنی چاہیے۔

(الفضل انٹرنیشنل 28 ستمبر 2023ء صفحہ 8)

T-Online

اس ویب سائٹ کی خبروں کو جرمنی میں ہر مہینے47 ملین لوگ پڑھتے ہیں۔ اس کی خبر کا کچھ حصّہ پیش خدمت ہے۔

کولون کیتھیڈرل کے خلاف دہشت گردی کی دھمکی کے بعد، درجنوں احمدی مسلمان ہفتے کے روز کیتھیڈرل میں ایک ریلی کے لیے جمع ہوئے تاکہ مسیحی برادری اور گرجا گھروں کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کریں۔ ان میں کولون میں احمدیہ کمیونٹی کے امام اور کونسل آف ریلیجنز کولون کے رکن محمود احمد ملہی بھی تھے۔

www.t-online.de/region/koeln/id_100311458/nach-anschlagsplaenen-domdekan-dankt-muslimen.html

Kِlner Express نے لکھا: مسلمانوں نے دہشتگردی کی مذمت کی اور چرچ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ ان کی قمیضوں پر ’’مسلمان امن کے خواہاں‘‘کا پیغام لکھا تھا جبکہ ان کے ہاتھوں میں پلے کارڈز تھے جن پر’’مَیں ایک مسلمان ہوں اور چرچ کی حفاظت کے لیے کھڑا ہوں‘‘ کے الفاظ لکھے تھے۔ چرچ کے عہدیدارجناب Robert Kleine نے Facebook پر اپنے پیغام میں اس ردِّعمل اور اظہار یکجہتی پر شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ محمود احمد ملہی سے میرا تعارف بین المذاہب کانفرنس میں ہوا تھا۔ ملہی صاحب نے دہشتگردوں کی ان دھمکیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب سے میں نے یہ خبر سنی ہے میرا دل غمگین ہے، افسوس کی بات ہے کہ یہ انتہا پسند لوگ اسلام کے نام پر ایسی کارروائیاں کرنا چاہتے ہیں اورا سلام کی تعلیم کو غلط رنگ میں پیش کر رہے ہیں۔ محمود احمد ملہی نے کہا، مَیں اپنی جماعت کی جانب سے، تمام مسیحی برادریوں اور گرجا گھروں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ ہم مسلمان آپ کی حفاظت اور عبادت گاہوں کی حفاظت کے لیے حاضر ہیں۔ ہم احمدی مسلمان اسلام کی حقیقی اور خوبصورت تعلیم کے عین مطابق عبادت گاہ کی حفاظت کرتے ہیں۔

www.express.de/koeln/nach-terror-alarm-muslime-setzen-zeichen-vor-dem-koelner-dom-710983

نمونہ کے ان تراشوں کے علاوہ جن ذرائع ابلاغ میں اس واقعہ کے ذریعہ قرآن کریم کی حقیقی تعلیم کروڑوں لوگوں تک پہنچی ، ان کے نام اور انٹرنیٹ لنک حسب ذیل ہیں:

ویب سائٹ Lomazoma پر شائع ہوئی۔

Siegener Zeitung جسے تقریباً 40.000 لوگ پڑھتے ہیں۔

Koelnistkool نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر اس خبر کو نشر کیا جس کے ناظرین کی تعداد روزانہ 330000 افراد ہے۔

DeinUpdate: اس App کو 28000 لوگ استعمال کرتے اور پڑھتے ہیں۔ انہوں نے بھی یہی خبر نشر کی ہے۔

WDR چینل کی ویب س??? ائٹ پر بھی خبر نشر کی گئی جس کی خبروں کو روزانہ 147000 لوگ پڑھتے ہیں۔

جرمنی کے علاوہ یہ خبر پولینڈ کے قومی اخبار Wirtualna Polska میں شائع ہوئی۔ اس اخبار کو 9,2 Million لوگ روزانہ پڑھتے ہیں۔

اسی طرح ترکی کے اخبار ARTI+49 اور ہالینڈ کے ایک اخبار کی زینت بن چکی ہے۔

سوشل میڈیا میں سےصرف (X)Twitter پر ہی پہلے دو دنوں میں 922.087 لوگوں تک پہنچ چکا تھا ۔ پھر دوسری سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اگر شامل کیا جائے تو یہ پیغام کئی ملین لوگوں تک پہنچ چکا ہے۔

ZDF HEUTE کے سوشل میڈیا چینل پر اللہ کے فضل سے 3.6 ملین لوگ دیکھ چکے ہیں۔

اِن ذرائع ابلاغ سے استفادہ کرنے والے لوگوں کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو ایک محتاط اندازہ کے مطابق یہ پیغام 71.858.000 (یعنی تقریباً 72 ملین) لوگوں تک پہنچا،الحمدللہ۔

اس نیک کام میں کولون کے گرد و نواح کی ان جماعتوں کے احباب جذبہ خدمت کے ساتھ شامل رہے:

Köln, Leverkusen, Bergisch Gladbach, Betzdorf, Olpe, Neuss, Bonn, Brühl, Gummersbach

ان احباب میں سے مکرم اطہر اقبال صاحب، مکرم ناصر احمد صاحب، مکرم مسعود ارشد خان صاحب، مکرم احمد مقصود صاحب کو غیرمعمولی خدمت کی توفیق ملی۔

فجزاھم اللہ احسن الجزاء

(مکرم محمود احمد ملہی صاحب، مربی سلسلہ کولون جرمنی)

(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ فروری 2024ء صفحہ 33)

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • جلسہ گاہ میں ایک تعارفی پروگرام

  • پہلا جلسہ سالانہ جرمنی

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم