بن رہا ہے سارا عالَم آئینہ اَبْصار کا کس قدر ظاہر ہے نور اُس مبدء الانوار کا
کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اُس میں جمالِ یار کا چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کَل ہو گیا
مت کرو کچھ ذکر ہم سے تُرک یا تاتار کا اُس بہارِ حُسن کا دل میں ہمارے جوش ہے
جس طرف دیکھیں وہی رہ ہے ترے دیدار کا ہے عجب جلوہ تری قدرت کا پیارے ہر طرف
ہر ستارے میں تماشہ ہے تری چمکار کا چشمۂ خورشید میں موجیں تری مشہود ہیں
اُس سے ہے شورِ محبت عاشقانِ زار کا تو نے خود رُوحوں پہ اپنے ہاتھ سے چھڑکا نمک
کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر ان اسرار کا کیا عجب تو نے ہر اک ذرّہ میں رکھے ہیں خواص
کس سے کھل سکتا ہے پیچ اِس عُقدۂ دشوار کا تیری قدرت کا کوئی بھی انتہا پاتا نہیں
ہر گل و گلشن میں ہے رنگ اس ترے گلزار کا خُوبرُویوں میں ملاحت ہے ترے اُس حسن کی
ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا چشمِ مستِ ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے
ورنہ تھا قبلہ ترا رُخ کافر و دیندار کا آنکھ کے اندھوں کو حائل ہو گئے سَو سَو حجاب
جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غمِ اَغیار کا ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اِک تیغِ تیز
تا مگر دَرماں ہو کچھ اس ہجر کے آزار کا تیرے ملنے کے لئے ہم مل گئے ہیں خاک میں
جاں گَھٹی جاتی ہے جیسے دل گھٹے بیمار کا ایک دم بھی کَل نہیں پڑتی مجھے تیرے سوا
خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا شور کیسا ہے ترے کوچہ میں لے جلدی خبر

(سرمہ چشم آریہ صفحہ 4۔ مطبوعہ 1886ء)

(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ جولائی 2024ء صفحہ 6)

متعلقہ مضمون

  • ترے مکروں سے اَے جاہل! مرا نقصاں نہیں ہرگز

  • تیرے کرم نے پیارے یہ مہرباں بُلائے

  • تیرے بن دیکھا نہیں کوئی بھی یارِ غمگسار

  • وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم