اسلامی ممالک سے آنے والے مہاجرین کی نئی نسلوں کو مغربی اور امریکی معاشرہ میں جن گو ناگوں مسائل کا سامنا ہے ان میں ایک اہم مسئلہ کزنز کی باہمی شادی کا ہے۔ ان ممالک میں ایسی شادی غیرمناسب اور حرام سمجھی جاتی ہے جبکہ مسلم ممالک میں یہ مذہبی لحاظ سے معتبر سمجھی جاتی ہے اور صدیوں سے خاندانوں میں رواج پذیر ہے۔

کزنز کی باہمی شادیوں کا ایک بڑا فائدہ یہ تھا کہ فریقین ایک دوسرے کو جاننے کی وجہ سے آسانی سے اپنے بچوں کے رشتے طے کرلیتے تھے اور عام طور پر یہ شادیاں کامیاب رہتی تھیں۔ طلاق اور خلع کی شرح بھی بہت کم تھی اوراگر باہمی ناچاقی ہوتی تو اسے عام طور پر خاندان کے بڑے لوگ حل کرلیتے تھے۔ لیکن اب ان ممالک میں پلنے والی نسلیں یہاں کے ماحول سے متاثر ہوکر کزن کی باہمی شادی کو معیوب سمجھتی ہیں اور دوسرے خاندانوں کی تلاش میں سرگرداں پھرتے ہیں۔ واضح ہے کہ اس سے ازدواجی مسائل دن بدن سنگین ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ نیز اس بناء پر طلاق و خلع کی شرح بھی ترقی پذیر ہے۔

مغربی ممالک میں کزن سے شادی کی حرمت کا رواج کسی الٰہی فرمان پر مبنی نہیں ہے۔ کیونکہ عہدنامہ قدیم و جدید میں رشتوں کی حرمت کی کوئی صراحت موجودنہیں۔ استثناء باب 27 کی آیات 22-23 میں صرف بہن اور ساس سے شادی کی حرمت کا ذکر ہے۔ اس کے علاوہ بائبل میں بعض ایسی باتوں کا ذکر ہے جو انتہائی طور پر قابل شرم ہیں۔ مثلاً پیدائش باب 19 آیات 31-36 میں حضرت لوط کی بیٹیوں کا اپنے باپ سے حاملہ ہونے کا ذکر موجود ہے۔ ایسے لوگ جو کزن کی باہمی شادی کو قابل اعتراض قرار دیتے ہیں وہ بائبل کے ایسے بیان کردہ واقعات کی کیا تاویل پیش کریں گے؟

اگر بائبل کے اندر شادی کے متعلق کوئی ایسے احکام موجود ہوتے تو پھر بھی عیسائیوں کے لیے فرق نہ پڑتا کیونکہ اگرچہ مسیح یہی کہتے رہے کہ تورات کا چھوٹے سے چھوٹا حکم بھی قابلِ عمل ہے (متی باب 5 آیت 17-20) مگر آپ کے بعد آپ کے ایک خود ساختہ حواری پولوس نے شریعت کے احکام کو لعنت قرار دے دیا اور شرعی احکام پر عمل کرنے کی پابندی ختم کردی (گلتیوں 3:13) پولوس کے خطوط پڑھنے سے کئی تضادات سامنے آتے ہیں۔ خود پولوس نے غیر اقوام کو متعدد احکامات دیئے ہیں یعنی اگر خداتعالیٰ اپنی مخلوق کو اوامر و نواہی دے جو شریعت کی اساس ہیں تو وہ لعنت ہیں لیکن پولوس خود لوگوں کو اوامر و نواہی دے تووہ رحمت ہیں۔ یاللعجب۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ایسے کسی ر شتہ کی حرمت کا ذکر کسی شریعت میں نہیں ہے تو پھر یہ خیال کیسے رواج پکڑ گیا کہ کزن کی باہمی شادی نہیں ہوسکتی۔ تحقیق کرنے سے جو اس کی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ مغربی اور افریقی معاشرہ میں ان کے آباء و اَجداد ایک خاندان کے طور پر اکٹھے رہتے تھے۔ انہوں نے اپنے بچوں کو شادی سے قبل باہمی اختلاط اور جنسی تعلقات کو روکنے کے لیے یہ اصول وضع کیا کہ قریبی رشتہ داروں میں باہمی شادی نہیں ہوسکتی بلکہ صرف دو خاندانوں میں ہوسکتی ہے۔ یہ گویا ایک Taboo تھا جو حالات کے پیش نظر اختیار کیا گیا تھا جو بعد میں ایک اصول کے طور پر راسخ ہوگیا۔ اب ان ممالک میں خاص طورپر فرسٹ کزن سے شادی نہیں ہوسکتی اور امریکہ کی بعض ریاستوں میں ملکی قانون میں یہ بات شامل کردی گئی ہے۔ اس قسم کی صورتحال اکثر افریقن ممالک میں بھی ہے۔

اس بارہ میں اسلامی نقطہ نظر کو پیش کرنے سے قبل کزن کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ انگریزی زبان میں کزن کا لفظ ان تمام قریبی رشتہ داروں کے لیے استعمال ہوتا ہے جو ایک والدین کی اولاد ہوں یا والدین کے بہن بھائیوں کی اولاد ہوں۔ یہ سب فرسٹ کزن کہلاتے ہیں۔ ان سے جو آگے اولاد ہوتی ہے وہ بھی کزن کہلاتے ہیں مگر وہ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں لیکن عربی اور اُردو زبان میں ان قریبی رشتہ داروں کی تقسیم مختلف رشتوں کے لحاظ سے چچا زاد، ماموں زاد، پھوپھی زاد اور خالہ زاد وغیرہ ناموں سے کی جاتی ہے۔

اسلام نے ان رشتہ داروں کی اولاد کی باہمی شادی کو جائز قراردیا ہے۔ ہمارے پیارے آقاﷺ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ کی شادی اپنے عم زاد حضرت علیؓ سے کرکے اس کے لئے خودعمدہ نمونہ پیش کیا ہے۔

دنیا کی تمام الہامی کتب میں قرآن ِمجید وہ واحد کتاب ہے کہ جس میں بنی نوع انسان کی تمام ضروریات زندگی بشمول شادی وغیرہ کے متعلق تفصیلی احکام موجود ہیں۔ نیز جن رشتوں کو حرام قرار دیا گیا ہے ان کی حرمت کی حکمت بھی ضمنی طورپر بیان کردی گئی ہے تاکہ ان پر عمل کرنے میں آسانی ہو اور انسانی عقل کوئی انقباض محسوس نہ کرے۔ چنانچہ قرآن ِمجید میں جہاں ایک عورت یا بوقت ضرورت ایک سے زائد چار بیویوں کی اجازت دی ہے وہاں ان رشتوں کی تفصیل بھی بیان کی ہے جن سے رشتہ کرنا حرام ہے۔ چنانچہ سورۃ النساء کی آیات 23-25 میں ایسے ممنوعہ رشتوں کی تفصیل موجود ہے لیکن ان میں زیرِبحث کزنز کے باہمی رشتوں کا ذکر موجود نہیں ہے۔ اسی وجہ سے تمام اسلامی ممالک میں ایسی شادیاں بکثرت ہوتی چلی آ رہی ہیں اور قریبی رشتہ داروں میں باہمی ازدواج سے بچوں کی شادیوں کا مسئلہ کافی آسان تھا لیکن اب معاشرہ کے زیرِ اثر کزنز کی شادیوں کو معیوب سمجھا جاتا ہے اور دن بدن ازدواجی مسائل سنگین صورت اختیار کرتے چلے جارہے ہیں۔

میڈیکل شعبہ سے تعلق رکھنے والے بعض افراد کا یہ خیال ہے کہ کزنز سے باہمی شادی کی وجہ سے آئندہ نسل میں بعض خلقی نقائص پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ ان کے نزدیک قریبی رشتہ داروں کی باہمی شادی کی وجہ سے اس کا زیادہ امکان ہے۔ لیکن یہ رائے حتمی نہیں ہے۔ صدیوں سے اسلامی معاشرہ میں ایسی شادیاں ہو رہی ہیں اور وہ ہر لحاظ سے کامیاب ہیں۔ بلکہ اگر دیکھا جائے تو مغربی معاشرہ میں جہاں کزنز کی شادی نہیں ہوتی وہاں نمایاں طور پر معذور بچوں کی پیدائش نظر آتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف ایک قیاسی امر ہے اور اس کا حقائق سے تعلق نہیں۔

رشتوں کی حلت و حرمت کے سلسلہ میں قرآن ِمجید میں جو بنیادی حقیقت بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے مرد و عورت کی تخلیق آئندہ نسلوں کے تسلسل کے لیے کی ہے۔ اس لئے خالقِ حقیقی ہی بہتر جانتا ہے کہ کون سے رشتے مفید اور جائز ہیں اور کون سے رشتے ممنوع ہیں۔ یہ حق انسانوں کو نہیں دیا گیا کہ وہ خود رشتوں کی حلت و حرمت کا فیصلہ کریں۔ چنانچہ ایسے جو غلط فیصلے سوسائٹی میں رواج پاگئے تھے ان کی سختی سے تردید کی گئی ہے۔ اسی طرح بعض رشتے جو بظاہر جائز معلوم ہوتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کی حرمت کا اعلان فرما یا ہے چنانچہ ایک طرف جہاں متبنٰی کی رسم کو ختم فرمایا وہاں رسول کریمﷺ کی روحانی ابّوت کا ذکر کیا ہے اور اس لحاظ سے حضورؐکی ازواج کو اُمہات المومنین قرار دیا ہے اور حضورؐ کی وفات کے بعد ان سے شادی کو منع فرمایا ہے۔ (سورۃ احزاب آیت 7)

خداتعالیٰ نے قرآن ِمجید میں جن رشتوں کو حرام قرار دیا ہے ان کی حرمت کی حکمت بھی ساتھ ہی بیان فرما دی ہے۔ اس ضمن میں تین باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں:

1۔ بعض رشتوں کی حرمت اس وجہ سے کی گئی ہے کہ ادب اور احترام مانع ہے۔ چنانچہ باپ کی کسی بیوی سے شادی جائز نہیں اسی طرح دو بہنوں سے اکٹھی شادی معیوب اور کسی طرح مناسب نہیں۔ اس کے متعلق فرمایا ہے:’’یہ بڑی بے حیائی اور قابل نفرت عمل ہے‘‘۔

(سورۃ نساء آیت 23)

2۔ اس بنا ءپر اُمہات المومنین یعنی ازواج نبی کریمﷺ سے شادی منع کی گئی ہے۔ اسی طرح بیٹے کی بیوی یا اس کی ساس سے شادی منع کی گئی ہے۔ یہ ممانعت ان رشتوں کے بہت قریبی تعلق اور باہمی احترام کی وجہ سے ہے۔

3۔ رشتوں کی حرمت کی دوسری بڑی وجہ رضاعت کو قرار دیا گیا۔ فرمایا: ’’ (تم پر حرام کردی گئی ہیں) تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہے اور تمہاری رضائی بہنیں‘‘۔ (سورۃ النساء آیت 24)

اس بناء پر اگر کسی غیر عورت کا بھی دودھ پیا ہو تو وہ رضاعی ماں اور اس کی اولاد رضاعی بہن شمار ہوگی۔ اور اس سے شادی کی ممانعت کی گئی ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ماں کے دودھ کی وجہ سے انسانی پیدائش میں بعض ایسی تخلیقی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں کہ جن سے آئندہ نسلیں متاثر ہوسکتی ہیں۔ ان میں پیدائشی نقص واقع ہوسکتے ہیں۔

رضاعت کی بناء پر رشتہ کی ممانعت مذہبی کتب میں صرف قرآن ِمجید میں بیان کی گئی ہے۔ دیگر کسی مذہبی کتاب میں اس کا ذکر نہیں۔ خالق حقیقی نے اس کا ذکر اس وجہ سے کیا ہے کہ اس سے نسلِ انسانی متاثر ہوسکتی ہے الغرض دینِ اسلام نے شادی کے متعلق مکمل احتیاط سے کام لیا ہے۔ اگر کزنز کی شادی سے ایسے نقائص کا امکان ہوتا تو اس کی اجازت نہ دی جاتی۔

4۔ شادی سے متعلق تیسرا اہم امر یہ بیان کیا گیا ہے کہ شادی شدہ عورتوں سے خواہ ان کے خاوند مسلم یا غیرمسلم ہوں شادی جائز نہیں۔ شادی شدہ عورتوں کو قرآن ِمجید میں محصنٰت قرار دیا گیا ہے یعنی وہ ایک حصار اور قلعہ میں محفوظ ہیں۔ البتہ اگر غیر مسلم عورتیں مسلمانوں کے خلاف جنگ و جدال کے لیے باہر نکلیں تو وہ یہ اپنا حق کھو بیٹھتی ہیں۔ ان سے جنگی قیدیوں سا سلوک کیا جائے گا۔

قرآن ِمجید کی سورۃ النساء کے رکوع 4 میں بڑی تفصیل سے بیاہ اور شادی کے سلسلہ میں جائز و ناجائز رشتوں کی تفصیل بیان کر دی گئی ہے۔اور ان میں کزن سے شادی کی ممانعت کا ذکر موجود نہیں ہے۔ اور اسی وجہ سے اسلامی ممالک میں یہ رائج ہے۔ اب جس اَمر کی اجازت خالقِ حقیقی نے مخلوق کے فائدہ کے لیے جائز قرار دی ہے اسے محض مغربی معاشرہ کے خوف سے ناجائز قرار دینا ہرگز مناسب نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس اندھی اور غلط تقلید کی وجہ سے اسلامی معاشرہ کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بچوں کی شادی کے لیے مناسب رشتہ کا انتخاب خاندان کی بچیوں اور خاندان سے باہر بچیوں سے جائز ہے۔ لیکن خاندان کے بچے/بچیوں سے محض اس لئے انکار کرنا کہ وہ قریبی ہیں اور انہیں’’بہن یا بھائی‘‘ قرار دے کر رَدّ کرنا قرآنی تعلیم سے رُو گردانی ہے۔

مکرم محمد اجمل شاہد صاحب۔ امریکہ

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • فیصلہ جات مجلس شوریٰ جماعت احمدیہ جرمنی 2024

  • تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے

  • خلافت اور جماعت کے باہمی پیار کا تعلّق