احمدیہ جلسوں کی رُوداد مکرم پرویز پروازی صاحب کے قلم سے

مغربی ممالک میں موسمِ گرما جلسوں کا موسم ہوتا ہے جبکہ بھارت، پاکستان میں حضرت مسیح موعود کی مقررکردہ تاریخوں پر دسمبر کے آخر میں جلسہ منعقد ہوتا ہے۔ اس درمیانی عرصہ میں بھی دنیا کے مختلف ممالک میں جلسے ہوتے رہتے ہیں۔ سال کے آغاز میں جماعت احمدیہ گھانا کا بڑا جلسہ منعقد ہوتا ہے اور پھر پورا سال یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔

کس دن کھلا ہوا درِ پیر مغاں نہیں

پاکستان میں 1984ء میں یہ جلسہ بند کر دیا گیا مگر ’’اک دَر بند سو دَر کھلا‘‘ کے مطابق یہ جلسہ ملکوں ملکوں پھیل گیا۔ اب کہاں کہاں بند کریں گے۔

وہ جلسہ جو قادیان یا ربوہ میں منعقد ہوتا تھا۔ سادگی اور فقر کا رنگ لیے ہوئے تھا۔ ہمیں یاد ہے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ فرمایا کرتے تھے کہ ربوہ کو غریب دلہن کی طرح سجا دو۔ اورپھر اُسی مسیح الزماںؑ کی پیش گوئی کے مطابق یہ جلسے ماڈرن ائیرکنڈیشنڈ ہالز میں منعقد ہونے لگے۔ اب کی بار جرمنی میں پھر ایک کھلی اور ’’بے ہال‘‘ زمین پر جلسہ منعقد ہوگا جہاں کھلی فضا اور کھلا آسمان میّسر ہوگا جس کا لطف ہی کچھ اَور ہے۔ ابتدائی اور حالیہ جلسوں میں جو فرق ہے وہ بہت سے قلمکاروں نے بیان کیا ہے مگر ڈاکٹر پرویزپروازی مرحوم و مغفور کا رنگ و اندازِ بیاں ایک انفرادیت رکھتا ہے۔ اپنے مضمون جلسہ سالانہ اور آب خورے میں تحریر کرتے ہیں:
پاکستان بننے کے بعد سالانہ جلسے میں حاضر ہونے والوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی تھی۔ لاکھوں لوگوں کے قیام و طعام کا بندوبست کرناکوئی آسان کام نہیں مگر ہوتا تھا، مشکلیں ہوتی تھیں مگر آسان ہوتی چلی جاتی تھیں۔ ایک بار کی بات ہمیں یاد ہے۔ جلسہ پر لاکھوں مہمان حاضر تھے۔ ان کا کھانا تیار کرنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں نانبائی درکار ہوتے ہیں۔ کسی دشمن نے خدا جانے ان نانبائیوں کےکان میں کیا پھونک دیا کہ ان میں سے آدھے لوگ ہڑتال کرکے بیٹھ گئے کہ ہم روٹیاں نہیں پکائیں گے۔ منتظمین کے ہاتھ پاؤں پھول گئے کہ اب کیا ہوگا؟ نانبائی روٹی پکانے سے انکاری ہیں ادھر صبح کاذب کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ اب تک نصف سے زیادہ چولہے اور تنور روشن نہیں ہوئے صبح ہا ہا کار مچ جائے گی۔ مہمان کیا کریں گے؟ ہزاروں پر نہیں لاکھوں پر نوبت ہے۔ کیا بنے گا؟ ڈرتے ڈرتے مرشد کو خبر کی کہ یہ مسئلہ دَرپیش ہے۔ لاکھوں مہمانوں کے لیے صبح دَم ایک روٹی تو مہیا کرنا ممکن ہی نہیں۔ مرشد نے پوچھا ایک ایک روٹی مہیا کر سکتے ہو؟ منتظمین نے کہا جی ایک ایک روٹی تو مہیا کی جاسکتی ہے۔ مرشد کی جانب سے اعلان ہوا کہ آج کوئی مہمان ایک سے زیادہ روٹی طلب نہ کرے۔ مہمانوں نے ایک ایک روٹی کھائی اور جلسہ سننے کے لیے چل پڑے۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔ شام کے کھانےسے پہلے پہلے نانبائیوں کا مسئلہ حل ہوگیا۔ سب کام اپنے معمول کے مطابق ہونےلگے۔ یہ ابتلا آیا اور گزر گیا۔ ہم ایک قیام گاہ میں مہمانوں کی مہمان نوازی پر متعین تھے۔ اس فرودگاہ میں پنجاب کے اس علاقہ کے مہمان ٹھہرے ہوئے تھے جو دس دس بیس بیس روٹیاں تو بغیر ڈکار لیے کھا جاتے ہیں۔ اس روز صبح ہم نے دیکھا کہ ایک مہمان مہمان نوازی پر مستعد بچوں پر ناراض ہو رہے ہیں۔ ہم نے پوچھا کیا ہوا؟ فرمانے لگے امام کا حکم ہے کہ ایک روٹی کھاؤ اور یہ بچہ مجھے دو روٹیاں دے کر میرے ایمان کو آزما رہا ہے! جہاں مہمان نواز ایسے تھے وہاں مہمان بھی ان سےکم نہیں تھے۔

مہمان نوازی کا ذکر ہوا تو ایک بزرگ یاد آئے جو فیصل آباد کے کسی دور دراز کے علاقہ سے سائیکل پر آیا کرتے تھے۔ بوڑھے آدمی تھے۔ اپنی سائیکل پر بیٹھ جاتے اور چل میرے سائیکل بسم اللہ کہہ کر روانہ ہوجاتے۔ بستی میں وارد ہوتے تو سیدھے وہاں تشریف لاتے جہاں ان کے علاقہ کے لوگ قیام کرتے تھے۔ اتفاق سے کئی برس ہمیں اس علاقہ کے مہمانوں کی مہمان داری کا شرف ملا۔ ہم نےکہا آپ اس سردی میں اتنی دور سے سائیکل پر آتے ہیں! فرمانے لگے دور سے؟ تمہارا کیا مطلب ہے۔ تقسیم ملک سے پہلے مجھے دور جانا پڑتا تھا۔ اب تو اللہ میاں مرکز اور مرشد کے ڈیرہ کو کھینچ کر میرے پاس لے آیا ہے۔ فیصل آباد کون سا دور ہے یہی تین چار دن کا سفر بیس دنوں کا سفر تو نہیں! یہ لوگ اپنے مرشد کی باتیں سننے کو آتے تھے۔ سارا وقت جلسہ میں بیٹھے رہتے۔ اس بستی میں لہو و لعب تو ویسے بھی نہیں ہوتا تھا مگر جلسہ کے دنوں میں تو اس بستی میں روحانی رونقیں بہت ہوتی تھیں۔ درس ہے، تہجد ہے، نمازیں ہیں، جدھر نکل جاؤ اللہ رسول کا ذکر اذکار ہے۔ مگر مولویوں کو یہ سب کچھ ایک آنکھ نہیں بھایا۔ جب تک اس جلسہ پر پابندی نہیں لگوا لی، انہیں چین نہیں آیا۔ اب کے برس اس تسبیح کے بکھرے ہوئے دانے جرمنی میں جمع ہوئے۔ پچاس ہزار لوگ تھے۔ یورپ والوں کے لیے یہ عجوبہ تھا کہ لوگ دور دراز سے محض اپنے مرشد کو سننے کے لیے کھچے آ رہے ہیں اور جرمنی کے مقامی لوگ عجیب محبّت کے ساتھ ان کی خدمت پر مستعد ہیں۔ مہمانوں کو اپنے گھروں میں ٹھہرا رہے ہیں۔ ان کے کھانے پینے کے سفر حضر کے ذمہ دار ہیں۔ ان لوگوں کا آپس میں کیا رشتہ ہے؟ جرمنی میں تو باپ بھی اپنے بیٹے کو اپنےگھر میں بصد استکراہ ٹھہرنے کی اجازت دیتا ہے یہ کون لوگ ہیں جن کی روایتیں ایسی مہمان نوازی کی اجازت دیتی ہیں؟ جرمنی کے ایک سفیر ہمارے دوست ہیں انہیں باور ہی نہیں آتا کہ پچاس ہزار مہمانوں کو مفت قیام و طعام کی سہولت مہیا کی گئی۔ ہم نے کہا میاں ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے؟ جاؤ اور جا کر کسی مہمان سے پوچھ لو اس نے اپنے قیام و طعام کے لیے اپنے میزبان کو کیا ادائیگی کی ہے؟ وہ بھی پکے اور کھرّے جرمن ہیں۔ ہم سے چھپ کر ایک دو لوگوں سے پوچھ بیٹھے جب لوگوں نے ان کو بتایا کہ لاکھوں مہمانوں کی مہمان داری کرنا ہماری روایت ہے تب انہیں یقین آیا۔ ورنہ ہماری باتوں کو باور کرنے پر وہ تیار نہیں تھے۔

جلسہ کی ڈیوٹیوں کا ذکر کرتے ہوئے مکرم پروازی صاحب مرحوم لکھتے ہیں:
ہمیں بچپن ہی سے جلسہ سالانہ کے موقع پر مہمانوں کی خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ چھوٹے تھے تو صرف پانی پلانے کی خدمت ملتی اس لیے جلسہ سالانہ کے ساتھ ہمارا تعلق آب خوروں کی وجہ سے قائم تھا۔ ذرا بڑے ہوئے تو کھانا پیش کرنے کی خدمت ملنے لگی۔ پیش کرنا کیا؟ ہوتا یہ تھا کہ بالٹی میں سالن اٹھا کر زمین پر بیٹھے ہوئے مہمانوں کی قطار تک پہنچتے اور باری باری ہر ایک کے مٹی کے پیالے میں سالن یا دال جو کچھ بھی ہوتا وہ حصہ رَسدی ڈالتے جاتے۔ ختم ہوجاتا اور مزید کی ضرورت ہوتی تو مہمان پیار سے آواز دیتے کہ بیٹا سالن چاہیے۔ اس خدمت میں اتنا لطف آتا کہ اب تک اس خدمت کو ترستے ہیں۔ روٹیاں تنوروں میں پکتیں اور مہمانوں تک گرما گرم پہنچائی جاتیں۔ لنگرخانہ سے مہمانوں کی فرودگاہوں تک انہیں کیسے لایا جاتا تھا ہمیں اس کے بارہ میں اتنا ہی پتہ ہے ٹوکروں کے ٹوکرے خدام سروں پر اٹھا کر لاتے اور فرودگاہوں کے پاس لا کر رکھ دیتے وہاں سے ہم لوگ جو خورد سال تھے روٹیاں اٹھا اٹھا کر اندر تہ دَر تہ لگا دیتے اور کھانے کے وقت مہمانوں میں تقسیم کرتے۔ کچھ بچے روٹی تقسیم کرتے کچھ سالن۔ جو بہت چھوٹے ہوتے انہیں پانی پلانے کی ڈیوٹی سونپی جاتی۔

جلسہ سالانہ سے بہت پہلے محلوں میں انتظامات شروع ہوجاتے کہ کون کتنےمہمان اپنے گھر ٹھہرا سکتا ہے؟ لوگ باگ بڑے اخلاص کےساتھ مہمانوں کے لیے اپنے گھروں کو پیش کرتے اور مرکزی تنظیم والوں کو مطلع کر دیتے کہ ہمارے ہاں اتنے کمرے ہیں اور ہم ان کمروں میں سے اتنے کمرے مہمانوں کی خدمت کے لیے پیش کرسکتے ہیں۔ ہمارے اپنے گھر کا عالم یہ تھا کہ ایک بڑا کمرہ تھا اور ایک چھوٹا سا کوٹھڑی نما کمرہ۔ ساتھ میں ایک چھپر سا تھا جسے باورچی خانہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ بعد میں سڑک کے رخ ایک کمرہ اَور بن گیا جسے ہم لوگ بیٹھک کہا کرتے تھے۔ اس ڈھائی کمرہ والے مکان میں اللہ کے فضل سے ہم، ہمارے امی ابا، ہمارے پھوپھا پھوپھی جی، بھائی جان محمد احمد ہمارے دادا اور دادی سب کی سمائی رہتی تھی۔ جلسہ کے لیے سب لوگ ایک بڑے کمرہ میں سمٹ جاتے۔ بیٹھک ان مہمانوں کے لیے وقف کر دی جاتی جو جماعت کے انتظام کے تحت ہمارے ہاں قیام کے لیے آتے تھے۔ ہمیں یاد ہے مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب کا خاندان ہمارا مہمان ہوتا تھا۔ پھر بابا برکت علی صاحب برما والے بھی آتے رہے۔ یہ مہمان ان مہمانوں کے علاوہ ہوتے تھے جو جلسہ کے موقع پر چنگا بنگیال اور راولپنڈی کے اور علاقوں سے ہمارے ہاں تشریف لاتے۔ بھائی فیض عالم خان چنگوی بھائی ہدایت اللہ بنگوی یہ سب لوگ اپنے اپنے خاندانوں سمیت آتے اور جلسہ کے دنوں میں خوب رونق رہتی۔ جلسہ گاہ ہمارے گھر سے بالکل قریب پڑتی تھی۔ تعلیم الاسلام کالج کے میدان میں۔ اینٹوں سے عارضی سٹیڈیم سا بنایا جاتا اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر دو دو تین سیڑھیوں والے پشتے بنائے جاتے اور ان پر لکڑی کے بڑے بڑے شہتیر رکھ کر بیٹھنے کی جگہ بنا دی جاتی وہ زمانہ تھا کہ لاؤڈ سپیکر نئے نئے آئے تھے اس لیے ان کا انتظام بھی ہوتا تھا مگر جلسہ گاہ اس طرح بنائی جاتی تھی کہ لاؤڈ سپیکر کےبغیر بھی آواز سب لوگوں تک پہنچ جائے۔ اس زمانہ میں پچاس ساٹھ ہزار آدمیوں تک آواز پہنچانا بڑا کارنامہ سمجھا جاتا تھا اب وہ دن آ لگے ہیں کہ پانچوں براعظموں میں بیک وقت امام کی آواز نشر ہوتی اور پہنچتی ہے۔

اوپر جن بابا جی برکت علی برمی کا ذکر ہوا یہ برما کے رہنے والے تھے اور ہمارے ابا جب برما میں مبلغ تھے تو ان کی تبلیغ سے احمدی ہوئے تھے۔ ابا جی بتایا کرتے تھے کہ مَیں ان سے بہتیرا کہتا کہ امام مہدی کے آنے کے تمام نشان ظاہر ہوچکے مگر ان کی تسلی نہیں ہوتی تھی۔ وہ ہر نشان کو ظاہر میں پورا ہوتا دیکھنا چاہتے تھے کہ ہاتھ اور کان گز گز بھر کے ہوجائیں گے جو کچھ انہوں نے اپنے علماء سے سنا ہوا تھا انہیں بہ صورتِ ظاہر نظر نہیں آتا تھا۔ ابا کہتے ہیں ایک بار وہ رنگون سے کوئی دو تین سو میل کے فاصلہ پر واقع کسی شہر غالباً مانڈلے گئے۔ ابا جی کو اللہ تعالیٰ نے تدبیر سجھائی۔ آپ نے انہیں فون کیا اور کہا بابا جی میں رنگون سے بات کر رہا ہوں اور صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کے کان اتنے لمبے ہوگئے ہیں کہ آپ تین سو میل سے میری بات سن رہے ہیں۔ اتنا کہہ کر فون بند کر دیا۔ بابا جی نے واپس آتے ہی ابا جی کو بلا بھیجا اور بیعت کرلی۔

حضرت مسیح موعود نے جلسہ سالانہ کے اغراض و مقاصد بیان فرماتے ہوئے یہ بھی تحریر فرمایا تھا کہ رُوشناسی ہو کر آپس میں رشتۂ تودد و تعارف ترقی پذیر ہوتا رہے گا۔ اس رشتۂ تودد کی استواری اور بڑھوتی کا ذکر کرتے ہوئے پروازی صاحب لکھتے ہیں:
ہمیں اپنے قیام جاپان کی بات یاد آئی۔ ٹوکیو سے ہمارے جاپان کے امام نے ہمیں بتایا کہ جاپان کی کسی کمپنی نے ڈنمارک کی کسی کمپنی سے مشینری منگوائی ہے اس مشینری کو لگانے کے لیے ایک ہمارے ہم مسلک مسلمان انجینئر آئے ہوئے ہیں وہ اوساکا کی سیر کے لیے آنا چاہتے ہیں کیا آپ انہیں وقت دے سکیں گے؟ ہم نے کہا چشمِ ما روشن دلِ ماشاد! بسم اللہ تشریف لائیں۔ قدم نما وفرود آ کہ خانہ خانۂ تست۔ وہ یورپ کے رہنے والے ہم جنوبی ایشیا کے باشندے! ایک دوسرے کو دیکھا ہے نہ جانتے ہیں۔ وہ تشریف لائے ہم ریلوے سٹیشن پر انہیں لینے کو حاضر تھے۔ ایک ’’السلام علیکم‘‘ کی آواز ابھری اور ساری اجنبیت ختم ہوگئی۔ عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام! ہم لوگ ایسے ٹوٹ کر ملے جیسے برسوں سے آشنا ہیں۔ اگلے روز ہم نے اپنے جاپانی رفقاء کو اپنے مہمان سے ملانے کے لیے اپنے گھر مدعو کر رکھا تھا۔ ساتھ میں ہماری یونیورسٹی کے ڈینش زبان کے اساتذہ بھی مدعو تھے۔ سب لوگ اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے رہے کہ آپ کس رشتۂ اُخوت میں منسلک ہیں؟ ہم نے انہیں سمجھایا کہ یہ رشتہ دنیا کے باقی رشتوں سے زیادہ پائیدار ہے۔ اسی طرح ایک بار پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام جاپان میں کیوتو کے مقام پر ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے تشریف لائے۔ ہم نے انہیں اپنی یونیورسٹی میں آنے کی دعوت دی وہ تشریف لائے۔ اب پھر ہمارے رفقاء کو حیران ہونے کا موقع ملا کہ کہاں فزکس کا ایک نابغہ اور کہاں ادب کا ایک ادنیٰ استاد! دونوں میں کیا قدرِ مشترکہ ہے کہ ایک دوسرے کو یوں جانتے پہچانتے ہیں اور وہ نابغۂ روزگار شخص جس سے ملاقات کا موقع حاصل کرنے کے لیے لوگ سالوں انتظار کھینچتے ہیں۔ اس شخص کی دعوت پر بلاتکلف کھنچا چلا آیا ہے۔ وہ موقع ہماری یونیورسٹی کے لیے واقعی یادگار موقع تھا۔ جب پروفیسر سلام کو نوبل پرائز ملا تو ہمیں مبارکباد کا جو پہلا خط جاپان سے آیا وہ ہمارے انہی وائس چانسلر صاحب کا تھا۔ یہ محبّت کے رشتے یونہی قائم نہیں ہوجاتے ان کے پس پردہ کسی مرشد کی قوتِ قدسی کارفرما ہوتی ہے اور سارے رشتے سارے تعلق اس تعلق کے آگے ہیچ ہوجاتے ہیں۔

مودت کا وہ رشتہ جو مرشد نے اپنے نمونہ سے اپنی جماعت کے اندر قائم کیا تھا اب بھی اسی طرح استوار ہے اور مختلف صورتوں میں ظہور پذیر ہوتا رہتا ہے۔ اچھی روایتیں قائم و دائم رہتی ہیں۔

(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ اگست 2024ء صفحہ 19)

متعلقہ مضمون

  • ہوا مَیں تیرے فضلوں کا منادی

  • پروگرام 48 واں جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ جرمنی 2024ء

  • جلسہ سالانہ کا ایک مقصد ’’زہد‘‘ اختیار کرنا ہے

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت