مکرم غلام محی الدّین صادق صاحب مرحوم کا ذکرِ خیر

محترمہ زینت حمید صاحبہ

 

میرے پیارے ابّا جان مکرم حاجی غلام محی الدین صادق صاحب 21 مارچ 2007ء کو کچھ عرصہ بیمار رَہ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے،انا للہ واناالیہ راجعون۔
بچپن سے لے کر ہوش سنبھالنے کی عمر تک اور پھر زندگی کے ہر موڑ پر ہرقسم کے حالات میں جس شخصیت نے اپنی محبّت و شفقت اور خاموش زبان میں اپنا نمونہ پیش کیا وہ میرے پیارے ابّا جان ہیں۔
گوناگوں خوبیوں کے حامل، اولاد سے شفقت اور بیٹیوں سے خصوصی محبّت اور زندگی کا ایک ایک لمحہ کشید کرنے والے میرے پیارے ابّا جان 1929ء میں صحابی حضرت مسیح موعودؑ مولوی الف دین صاحبؓ کے گھر آخری اولاد کی شکل میں پیدا ہوئے۔ آپ نے اسکول کی عمر سے ہی قادیان میں اپنی بڑی بہن کے زیرِ سایہ پرورش پائی اور وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ قادیان کا ذکر، صحابہ کا ذکر، اساتذہ کی شفقتوں کا ذکر لمبی کہانی ہے۔ ابّا جان کو علم حاصل کرنے کا جنون کی حد تک شوق تھا بلکہ پڑھانے کا شوق شاید جنون سے بھی کچھ زیادہ تھا۔ اس شوق کی تکمیل میں میرے ساتھ 1968ء میں اپنی 39 سال کی عمر میں پہلے نہ صرف خود میٹرک فرسٹ ڈویژن میں کیا اور حکومت سے وظیفہ حاصل کیا بلکہ ساتھ ہی اپنے ایک نیوی کے ساتھی کو بھی میٹرک کروایا اور ساری تیاری خود کرواتے رہے۔ اس کے بعد اردو آرٹس کالج کی شام کی کلاسز میں پہلے انٹر اور پھر بی اے مکمل کیا۔
آپ کی شادی میری والدہ محترمہ نور زینب صاحبہ سے 1948ء میں سیالکوٹ میں ہوئی۔ شادی کے بعد کچھ عرصہ سیالکوٹ اور ربوہ میں گزرا۔ نیوی میں ملازمت ملنے کے بعد کراچی نیول کالونی میں منتقل ہوگئے۔ آپ نے 1945ء تا 1972 نیوی میں ملازمت کی۔ پھر 1982ء تک مرچنٹ نیوی میں ملازم رہے۔ اسی دوران قرآنِ کریم کے گیارہ پارے حفظ کیے۔ 1982 سے 1992 جماعت کراچی کے حلقہ النور میں مختلف عہدوں پر خدمت کی توفیق پائی۔ اس دوران مربّی اطفال کی ذمّہ داری خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ اس زمانے کے اطفال آج بھی ابّا جان کی شفقت اور کاوشوں کے معترف ہیں۔ ملازمت کی نوعیت کی وجہ سے سال کا اکثر حصہ شہر بلکہ ملک سے باہر گزرتا۔تاہم ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے بچوں کی تربیت کے لئے اپنے آپ کو گویا وقف ہی کر دیا تھا چنانچہ اپنے نواسے نواسیوں اور پوتے پوتیوں اور اسی طرح محلے کے دوسرے احمدی بچوں کو نماز کے لیے اپنی بائک پر ساتھ لے جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج ان کی اولاد بلکہ اولاد کی اولاد میں یہ سلسلہ جاری و ساری ہے،الحمدللہ۔ پھر 1992ء میں آپ جرمنی ہجرت کر آئے تو بھی آخر دم تک خدمتِ دین کی توفیق پاتے رہے۔ آپ یہاں25 اکتوبر 1994 تا وفات 21 مارچ 2007 پہلے قاضی اوّل پھر ممبر قضا بورڈ جرمنی رہےاور ایسی شاندار خدمات سرانجام دیں کہ قضا نے قراردادِ تعزیت میں آپ کے لئے صاف گو، نڈر اور صائب الرائے کے الفاظ تحریر کیے، الحمدللہ۔
ماں باپ اور بہن بھائیوں کی شفقتوں اور ان کی تربیت سے نکھرنے والی میرے ابا جان کی شخصیت نہایت دلآویز تھی۔ سب کے دل موہ لینے والے تھے۔ قرآنِ کریم کا علم، تاریخ سے دلچسپی اور شعر وشاعری سے شغف رکھنے والے، بہترین داستان گو، مہربان مربی، بہترین استاد اور شفیق باپ، ہماری زندگیوں کو دین کی راہ پر ڈالنے والے خدا اور اس کے رسولﷺاور سلسلے کی محبّت ہمارے دل میں ڈالنے والے ہمارے ابّا جان نے اپنے دس بچوں کو بڑی محبّت، تندہی، مشقت اور تکلیفوں سے گذر کر پروان چڑھایا۔ ہر بچے سے اس کے مزاج کے مطابق سلوک کیا اور چھوٹی چھوٹی خوشی کا خیال رکھا۔ محدود وسائل کے باوجود سیر و تفریح اور خوشیاں فراہم کرنے کے دیگر طریق اختیار کیے۔ فوجی ہونے کی وجہ سے نظم و ضبط اور وقت کی پابندی آپ کا خاصہ رہا۔ شادی بیاہ کے مواقع پر عموماً تاخیر ہو جاتی ہے۔ ابّا جان ایسے موقعوں پر سخت ناپسندیدگی کا برملا اظہارفرماتے تھے اور کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ بغیر شمولیت کے واپس آ جایا کرتے تھے۔
گھر میں بھی ہاتھ بٹانا میرے ابّا جان کا مشغلہ تھا۔ انتہائی سخت ڈیوٹی کے باوجود جب گھر پر ہوتے تو امّی کا ہرطرح ہاتھ بٹاتے۔ بچوں کو نہلانا، کبھی کوئی مزیدار سی ڈش اپنے ہاتھوں سے تیار کرنا، خاص طور پر رمضان المبارک میں کچھ نہ کچھ شوق سے بنانا اور پھر بچوں کو پڑھانا، شام کو تو ہمارا گھر اسکول بن جاتا کیونکہ محلّے بھر کے بچے پڑھنے آجاتے۔ نماز روزے کی پابندی نہ صرف خود کرتے بلکہ سب بچوں کو بھی پنج وقتہ نماز کی عادت ڈالی۔ قرآنِ کریم نہ صرف اپنے بچوں بلکہ بیسیوں دوسرے بچوں کو بھی پڑھایا۔ قرآنِ کریم سے عجیب اُنس تھا۔ حفظ کرنے کا شوق اس قدر تھا کہ بیان سے باہر ہے۔ میرے اسکول کے زمانہ میں نصف نصف پارہ یاد کرکے مجھے سناتے اور کہیں رُک جاتے تو مجھے اجازت نہ ہوتی کہ مَیں بتاؤں۔ بار بار دُہراتے اور پھر یاد ہوجاتا۔ حافظہ ماشاءاللہ بلا کا تھا۔ نماز تراویح پڑھانے والے ائمہ کی ہمیشہ مدد کرتے۔ امیر صاحب جماعت جرمنی نے ان کی وفات پر ازراہِ شفقت اس کا ذکر بھی کیا کہ تراویح کی نماز میں قرآنِ کریم میں مدد کرنے والے تھے، جماعت میں اللہ کے فضل سے محض اللہ کے فضل سے خاص مقام تھا۔
عاجزہ سے بھی بہت محبّت کرتے تھے، جب صدر لجنہ جرمنی تھی تو میرا دفتر بھی بیت السبوح میں ہی تھا چنانچہ آپ دفتر میں بلا کرملتے اور ہمیشہ یہ پیش کش کرتے کہ میرے ساتھ گھر چل کر ماں کو بھی مل لینا۔ اللہ تعالیٰ کے محض اپنے فضل سے عاجزہ کو اسکول میں تقریر اور علم و ادب کے دیگر پروگراموں میں نمایاں پوزیشن ملتی تو بہت ہی سراہتے۔ آنے جانے والے عزیزوں کو بتا کر بہت ہی خوشی محسوس کرتے۔ بہت حوصلہ افزائی کرتے۔ اسکول کے زمانے میں وظیفے کے لیے جب اسکول سے فارم پر ہیڈ مسٹرس سے دستخط کروائے تو انہوں نے ازراہِ شفقت تحریر کیا:
She, the girl is the best debater of school
اس قدر خوش ہوئے کہ آج بھی مسرّت سے لبریز آنکھیں سامنے آجاتی ہیں۔ غرض آج اللہ تعالیٰ نے جوکچھ بھی دیا ہے اور خدمت کے جو بھی مواقع ملے ہیں، سب اس کے فضلوں، امامِ وقت کی دعاؤں اور میرے پیارے ابّا جان کی تربیت اور آپ کی دعاؤں کا ثمر ہیں۔
دیگر بہن بھائیوں سے، یتیم بھتیجے بھتیجیوں سے اور دیگر ضرورت مند رشتہ داروں سے بھی آپ کا تعلق پر خلوص محبّت کا تھا۔ سب سے چھوٹے ماموں اور چچا ہونے کی وجہ سے اپنے بھانجے بھانجیوں، بھتیجے بھتیجیوں میں بہت مقبول اور ہردلعزیز تھے۔ میرے بچوں کو خاص اُنسیت دی۔ ان کی کامیابیوں اور نمایاں پوزیشنوں اور خدماتِ دینیہ کو ہمیشہ فخر کی نگاہ سے دیکھا۔ انعام دے کر حوصلہ افزائی کرنا بھی آپ کا شیوہ تھا۔ ہماری اولادوں کی اولادوں کو بھی بفضل خدا پھلتے پھولتے دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے زندگی کے لمحات کو ہرقسم کی خوشی اور مسرت سے معمور رکھا۔ اپنی اولاد کی پرورش کرنے میں جو تکالیف آپ نے اور ہماری والدہ نے اٹھائیں اللہ نے ان کے بدلے بہترین انعامات سے نوازا۔ بچے اور ان کے بچے خدمتِ دین پر بھی مامور ہیں۔ دنیا کی نعمتیں بھی اللہ نے بہت دی ہیں،الحمدللہ۔
ابا جان کی یادوں کے دریچے مزید وا ہوئے تو یوں کہ ہمارے بچپن میں نبیوں کی کہانیاں، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے گیت، صحابہ رسولﷺ اور صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کی کہانیاں بھرائی ہوئی آواز سے سنانا یاد ہے۔ پاکیزہ لوریاں، بچوں کی نظمیں، ہروقت کانوں میں رَس گھولتے تھے۔ پھر خود بھی بلند پایہ شاعر تھے، حمد و نعت، خلفاء کی شان میں نظمیں، ملکی حالات پر، پردیس کی اداسی پر، عید کی خوشیوں پر، ایم ٹی اے پر، بچوں پر نظمیں، بچوں کی بسم اللہ اور آمین پر نظمیں کہیں۔ بچوں کی شادیوں پر بھی بہت خوبصورت کلام کہا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے اظہار خوشنودی کے خطوط ان کی شاعری پر ان کے لئے سرمایۂ حیات تھے۔ جو نظم لکھتے سب کو دیتے اور حضورانور کے خطوط بھی کاپی کرکے دیتے۔
آخری ایّام گھر میں گذرے، کچھ ہسپتال میں۔ گھر پر ہوتے تو فون کرکے کہتے کہ زینت میں بہت اداس ہوں آجاؤ۔ خود لیٹے ہوتے اور کہتے سینے پر سر رکھو۔ خود بھی جذباتی اور آبدیدہ ہوجاتے اور ہمارا جذباتی ہونا بھی لازم تھا۔ نماز کی پابندی کی اول وقت میں پختہ عادت تھی۔ اوّل وقت وضو کر لیتے اور جو بھی گھر میں ہوتا اس کو نماز میں شامل ہونے کا کہتے اور نماز ہمیشہ باجماعت پڑھتے۔ درس القرآن امی اکیلی ہوتیں تو ان کو بھی دیتے۔ آخری دن تک درس دیا جب تک گھر میں رہے۔ امّی جان فون پر بتاتیں کہ آج تمہارے ابا جان نے اس نبی کا ذکر کیا، یہ درس دیا۔ آخری کچھ دن بہت کمزور ہوگئے تھے، کچھ غشی کی کیفیت بھی رہتی۔ غنودگی کے عالم میں بھی بستر پر لیٹے لیٹے وضو کررہے ہوتے تھے۔ہاتھ دھونا، منہ تک لے جانا، جب پوچھنا تو کہنا کہ وضو کر رہا ہوں۔ غرض میرے پیارے ابّا جان اپنی زندگی کو خدا کی امانت سمجھتے ہوئے آخری لمحات تک اس کے اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس کے حضور حاضر ہوگئے۔
خلیفہ وقت سے محبّت،نظام کی اطاعت فدائیت کی حد تک تھی۔ حضرت مسیح موعود نے رسوم اور بدعات کے خلاف جو جہاد کا اعلان کیا تھا۔ اس کو ہر موقع پر اپنایا۔ شادی، غمی کسی بھی موقع پر کسی قسم کی بدرسوم یا بدعت کی قطعاً اجازت نہیں دی۔ سختی سے رد فرماتے۔ کراچی میں اڑوس پڑوس غیراحمدی تھا۔ سب سے اچھے تعلقات تھے لیکن شب برات یا دیگر رسومات کا کھانا لینے سے منع کرتے بلکہ ان کو نصیحت کے رنگ میں سمجھاتے تھے کہ یہ شرک اور بدعت ہے۔
میرے بڑے بھائی نے بتایا کہ ملازمت کی وجہ سے ابّا جان کو تقریباً ساری دنیا دیکھنے کا موقع ملا۔ اور عموماً یہ ہوتا کہ جب بھی کسی ملک میں پہنچتے تو یہ دعا کرتے کہ وہاں کسی احمدی سے ملاقات ہو جائے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ ہے جو مکرم بشارت نوراللہ صاحب حال مقیم مورفیلڈن نے بتایا ہےکہ
’’مَیں حاجی غلام محی الدین صادق ؔصاحب کے ساتھ رہا ہوں۔ ان سے ہمارا بہت محبّت کا تعلق تھا۔ایک دفعہ انہوں نے خود بتایا کہ مجھے افریقہ کے سفر پر جانا تھا۔ سفر کی مشکلات تھیں۔ مَیں نے اللہ تعالیٰ کے آگے گڑ گڑا کر دعا کی کہ میری مدد فرما۔ جب مَیں وہاں پہنچا تو ایک بزرگ جن کا نام مکرم چوہدری مختار احمد ایاز تھا پورٹ پر کھڑے تھے اور پوچھ رہے تھے کہ حاجی غلام محی الدین صاحب کون ہیں۔ میرے بتانے پر کہنے لگے کہ میں آپ کو ہی لینے آیا ہوں۔ مکرم چوہدری مختار احمد ایاز صاحب ڈاکٹر افتخار احمد ایاز صاحب مقیم UK کے والدِمحترم تھے اور میرے خالوجان تھے‘‘۔
دین کے لیے انتہا کی غیرت تھی۔ کراچی میں ہمارے پڑوسی اور ابا جان کے دوست مکرم بیگ صاحب رہتے تھے جو کراچی یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ ابا جان سے اکثر بحث رہتی۔ ایک دفعہ فرمانے لگے ’’حاجی صاحب فرض کریں کہ حضرت عیسیٰؑ واپس آ ہی گئے تو آپ لوگ کیا کریں گے۔‘‘ ابا جان نے فوراً فرمایا۔ ’’بیگ صاحب اگر ایسا ہوہی گیا تو بھی ایمان لانے والے ہم لوگ ہی ہوں گے لیکن آپ نے تو اُس وقت بھی انکار ہی کر دینا ہے‘‘۔
قارئین سے درخواست ہے کہ میرے پیارے ابا جان کی بلندیِ درجات کے لئے اور ہمارے ان راہوں پر چلنے کے لئے دعا کریں جن پر ہمارا پیارا باپ ہمیں ڈال گیا ہے۔ ہم سب بہن بھائیوں نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق خدمت کرنے کی کوشش کی لیکن؏
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا

متعلقہ مضمون

  • مکرم صلاح الدین قمر صاحب کاذکرِ خیر

  • مکرم کنور ادریس صاحب مرحوم کا ذکر خیر

  • محترم ڈاکٹر میاں ظہیر الدین منصور احمد صاحب

  • میرے پیارے والدین