حضورِ انور کا تقریب تقسیمِ اسناد جامعہ احمدیہ برطانیہ، کینیڈا و جرمنی سے خطاب کا خلاصہ
سیّدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃالمسیح الخامس یکم جون کوجامعہ احمدیہ یوکے میں رونق افروز ہوئے جہاں جامعہ احمدیہ یوکے اور جرمنی کے 2023ء کے فارغ التحصیل مربیان کرام اور جامعہ احمدیہ کینیڈا سے 2019ء تا 2023ء کے دوران فارغ التحصیل مربیان کرام نے حضور پُرنور کے دستِ مبارک سے شاہد کی سند حاصل کرنے کی تاریخی سعادت پائی۔ اسی طرح اس موقع پر حضورِانور نے جامعہ احمدیہ یوکے کے تعلیمی سال 2022/2023ء میں نمایاں پوزیشنز حاصل کرنے والے طلبہ کو امتیازی اسناد سے نوازا۔
سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس بارہ بج کر اٹھائیس منٹ پر جامعہ احمدیہ کی عمارت کے سامنے واقع پلاٹ میں اس تقریب کے لیے نصب کی گئی مارکی میں تشریف لائے۔ حضورانور نے السلام علیکم ورحمۃاللہ و برکاتہ کا تحفہ عنایت فرمایا، کرسیٔ صدارت پر تشریف فرما ہوئے اور تقریب کا باقاعدہ آغاز فرمایا۔ مکرم حافظ خواجہ احتشام احمد صاحب نے سورۃ النحل کی آیات 91تا 93کی تلاوت کی سعادت حاصل کی۔ ان آیات کا تفسیر صغیر سے ترجمہ مکرم سرفراز احمد صاحب نے پیش کرنے کی سعادت پائی۔ بعد ازاں مکرم عبدالحئی سرمد صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ کے منظوم کلام ’’عہد شکنی نہ کرو اہل وفا ہو جاؤ‘‘ میں سے منتخب اشعار خوش الحانی سے پیش کئے۔ بعدہ بالترتیب مکرم داؤد احمد حنیف صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ کینیڈا نے جامعہ احمدیہ کینیڈا، مکرم شمشاد احمد قمر صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ جرمنی نے جامعہ احمدیہ جرمنی جبکہ مکرم ظہیر احمد خان صاحب صدر تعلیمی کمیٹی نے جامعہ احمدیہ یوکے کی رپورٹس پیش کیں۔
رپورٹ جامعہ احمدیہ جرمنی
’’سیّدی! جامعہ احمدیہ جرمنی کی سال2022-23ء کی مختصر کارگزاری رپورٹ پیش خدمت ہے۔
عرصہ زیر رپورٹ میں طلبہ کی کل تعداد 108؍ تھی۔ الحمدللہ کہ آج حضورانور کے دست ِمبارک سے اسناد حاصل کرنے کی سعادت پانے والی یہ نویں کلاس ہے۔ اس کلاس میں کل 14؍طلبہ ہیں جن میں 10؍وقفِ نو کی بابرکت تحریک میں شامل ہیں۔ اس طرح جامعہ احمدیہ جرمنی اب تک 122؍ پھل اپنے پیارے آقا کی خدمت اقدس میں پیش کرنے کی سعادت پا چکا ہے۔ امسال حسبِ سابق حضورانور ایدکم اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے نئے سال کے کیلنڈر کی منظوری حاصل کرکے اس کے مطابق عمل کیا گیا۔ مقررہ نصاب کی تکمیل کے ساتھ ساتھ مجلسِ علمی، مجلسِ العاب اور مجلسِ ارشاد کی طرف سے علمی اور ورزشی مقابلہ جات اور معلوماتی لیکچرز کا اہتمام کیا جا تا رہا۔ اور مختلف سیمینارز اور جلسوں کا بھی اہتمام کیا گیا۔ ورزشی سرگرمیوں میں روزانہ ورزش کے علاوہ تین روزہ سالانہ گیمز کا انعقاد، سترہ کلومیٹر پیدل سفر، ہائیکنگ، ملکی اور غیر ملکی سطح پر مقابلوں میں شمولیت شامل ہے۔ جبکہ علمی سطح پر مقابلہ جات کے علاوہ مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں اور سینٹرز کا دورہ کروایا گیا۔ طلبہ اور اساتذہ کو دیگر جماعتی خدمات سر انجام دینے کی بھی توفیق ملتی رہی جن میں شعبہ تبلیغ کے تحت ڈیوٹیاں دینا، آن لائن سوال و جواب، ایم ٹی اے اور ریڈیو کے پروگراموں میں شرکت، فلائرز کی تقسیم اور وقف عارضی شامل ہیں۔ درجہ شاہد کے طلبہ کو مقالہ جات کی تکمیل، امتحانات اور انٹرویوز کے بعد بعض عملی کاموں کی ٹریننگ کروائی گئی جن میں ہومیو پیتھی کا تعارف، کھانا پکانا، بجلی کا کام اور گاڑی کے متعلق بنیادی معلومات شامل ہیں۔
آخر میں پیارے آقا کی خدمت میں جامعہ کے طلبہ، اساتذہ اور کارکنان کے لیے دعا کی عاجزانہ درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو کما حقہ دین کی خدمت کی توفیق عطا فرماتے ہوئے حضورانور کے سلطانِ نصیر بننے کی توفیق عطا فرماتا رہے آمین‘‘۔
بعدازاں 2019ء سے2023ء کے دوران جامعہ احمدیہ کینیڈا کے فارغ التحصیل مربیان کرام اور جامعہ احمدیہ جرمنی کے فارغ التحصیل مربیان کو حضورِ انور نے شاہد کی اسناد سے جبکہ جامعہ احمدیہ یوکے کے تعلیمی سال 2022ء، 2023ء میں پہلی تین پوزیشنز حاصل کرنے والے طلبہ کو اسنادِ امتیاز نیز شاہد کلاس فارغ التحصیل 2023ء کو اسنادِ شاہد سے نوازا۔ بارہ بج کر 58 منٹ پر حضورانور منبر پر تشریف لائے اور بصیرت افروز خطاب کا آغاز فرمایا۔
خلاصہ خطاب حضورِانور
تشہد، تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضورانور نے فرمایا کہ آج یہ سندات حاصل کرنے والے مربیان جو اس وقت میدان عمل میں ہیں، کیونکہ گذشتہ دو تین سال کے بھی مربیان ہیں، یا میدان عمل میں جا رہے ہیں۔ آپ لوگ اس ارادے سے اور اس نیت سے اور اس عہد سے جامعہ میں آئے تھے کہ حضرت مسیح موعود کے مشن کو پورا کرنا ہے۔ اس مشن کو پورا کرنا ہے جو اس زمانے میں آپ کے سپرد کیا گیا تھا۔ اور وہ ہے کہ اسلام کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچانا اور خود اپنے عملی نمونوں سے احباب جماعت کے معیار کو بھی اس نہج پر لے کے جانا جس سے وہ حضرت مسیح موعود کی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ اور یہ صرف اس وقت ہو سکتا ہے جب آپ خود بھی اس کا حق ادا کرنے والے بنیں۔ حضرت مسیح موعود نے ایک موقع پر نصائح کرتے ہوئے واعظین کو ایک بڑا بنیادی راہنما اصول بتایا بلکہ تین باتیں فرمائیں۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ یہ امر بہت ضروری ہے کہ ہماری جماعت کے واعظ تیار ہوں لیکن اگر دوسرے واعظوں اور ان میں کوئی امتیاز نہ ہو تو فضول ہے۔ یہ واعظ اس قسم کے ہونے چاہئیں جو پہلے اپنی اصلاح کریں اور اپنے چلن میں ایک پاک تبدیلی کرکے دکھائیں تا کہ ان کے نیک نمونوں کا اثر دوسروں پر پڑے۔ عملی حالت کا عمدہ ہونا سب سے بہتر وعظ ہے۔ جو لوگ صرف وعظ کرتے ہیں اور خود اس پر عمل نہیں کرتے وہ دوسروں پر کوئی اچھا اثر نہیں ڈال سکتے بلکہ ان کا وعظ بھی بعض اوقات اباحت پھیلانے والا ہو جاتا ہے کیونکہ سننے والے جب دیکھتے ہیں کہ وعظ کرنے والا خود عمل نہیں کرتا تو وہ ان باتوں کو بالکل خیالی سمجھتے ہیں اس لیے سب سے اوّل چیز جس چیز کی ضرورت ہے وہ اس کی عملی حالت ہے۔
دوسری بات جو واعظوں کے لیے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ان کوہمارے عقائد اور مسائل کا صحیح علم اور واقفیت ہو۔ جو کچھ ہم دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اس کو انہوں نے پہلے خود اچھی طرح پر سمجھ لیا ہو اور ناقص اور ادھورا علم نہ رکھتے ہوں کہ مخالفوں کے سامنے شرمندہ ہوں اور جب کسی نے کوئی اعتراض کیا تو گھبرا گئے کہ اب اس کا کیا جواب دیں۔ غرض علم صحیح ہونا ضروری ہے۔
اور تیسری بات یہ ہے کہ ایسی قوت اور شجاعت پیدا ہو کہ حق کے طالبوں کے واسطے ان میں زبان اور دل ہو۔ یعنی پوری دلیری اور شجاعت کے ساتھ بغیر کسی قسم کے خوف اور ہراس کے اظہارِحق کے لیے بول سکیں۔ اور حق گوئی کے لیے ان کے دل پر کسی دولتمند کا تمول یا بہادر کی شجاعت یا حاکم کی حکومت کوئی اثر پیدا نہ کرسکے۔ یہ تین چیزیں جب حاصل ہو جائیں۔ تب ہماری جماعت کے واعظ مفید ہو سکتے ہیں۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 3 صفحہ 369-370، ایڈیشن 1984ء)
حضورانور نے فرمایا کہ پس یہ وہ راہنما بنیادی اصول ہیں جو آپؑ نے بیان فرمائے۔ اپنے جائزے لیں۔ پہلی بات جو آپؑ نے فرمائی عملی نمونے کی۔ آپ میں اور دوسرے میں کیا امتیاز ہے؟ اگر صرف علم حاصل کر لیا جو کہ جامعہ کے سات سالوں میں مکمل حاصل نہیں ہو سکتا۔ علم حاصل کرنے کے لیے ساری عمر پڑی ہے تو یہ کافی نہیں۔ اس کے علاوہ عملی امتیاز ہونا چاہیے اور صرف یہ امتیاز دوسرے فرقوں کے علماء کے مقابلے میں نہ ہو بلکہ جیسا کہ میں نے کہا اپنے لوگوں کی اصلاح کے لیے آپ لوگوں کو ایک عملی نمونہ بننا ہوگا۔
حضورانور نے فرمایا کہ اپنی اصلاح کے لیےاللہ تعالیٰ سے تعلق بہت ضروری اور اہم بات ہے۔ ہر مربی کو اللہ تعالیٰ سے ایک خاص تعلق پیداکرنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ نہیں تو زندگی میں کامیابیاں نہیں مل سکتیں۔ ہم پرانے بزرگوں کی دعائیں قبول ہونے کی مثالیں دیتے ہیں۔ ہماری اپنی عملی حالت ایسی ہونی چاہیے کہ ہم بھی ان مثالوں کے مصداق بن جائیں۔ عبادت کے معیار بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ تہجد کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ الّاماشاء اللہ سوائے کسی خاص مجبوری کے عموماًتہجد کی طرف خاص توجہ ہونی چاہیے۔ ہر ایک کی عبادت کے معیار بلند ہوں گے تو اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق بھی پیدا ہو گا۔
حضورانور نے فرمایا کہ اخلاقی حالت بھی بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ اخلاقی لحاظ سے آپ لوگوں کو ایک عملی نمونہ بننے کی ضرورت ہے۔ عملی حالت کو بہت بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ بلند حوصلہ ہونے کی ضرورت ہے۔ بعض دفعہ مربیان بھی ذرا ذرا سی بات پر اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ یہ نہیں ہونا چاہیے۔ مربی کو بلند حوصلہ ہونا چاہیے۔ تنقید سننے کی عادت ہو اور پھر اس کا احسن رنگ میں جواب حوصلے سے دیں۔ زبان میں نرمی بھی بہت ضروری چیز ہے۔ نرم زبان دوسرے کے دل کو بھی نرم کر دیتی ہے۔ حوصلہ ہوگا تو برداشت کا مادہ بھی زیادہ ہوگا۔ یہ بہت زیادہ ضروری چیز ہے۔ حضورانور نے فرمایا کہ ایک خصوصیت جو مربی میں ہونی چاہئےوہ لغویات سے پرہیز کرناہے۔ آجکل بےشمار لغو پروگرام ہیں جو آتے ہیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی کیونکہ انٹرنیٹ پہ اور سوشل میڈیا پہ اور ٹی وی پہ انسان بیٹھا ہوتا ہے دیکھ لیتے ہیں لیکن ایک مربی کا کام ہے کہ ان لغویات سے پرہیز کرے۔ جب آپ خود پرہیز کر رہے ہوں گے تو تب ہی دوسروں کو نصیحت کر سکیں گے کہ تم لوگ بھی ان چیزوں سے بچو کیونکہ یہ اخلاق کو خراب کرنے والی چیزیں ہیں، یہ خداتعالیٰ سے دور لے جانے والی چیزیں ہیں، یہ تمہیں گندگی کی طرف لے جانے والی چیزیں ہیں، معاشرے کی برائیوں کی طرف لے جانے والی چیزیں ہیں۔ پس ہر مربی کواپنے عملی نمونے پہلے دکھانے کی ضرورت ہے۔ ورنہ جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا یہ اباحت پھیلانے والی بات ہوگی۔ یعنی اپنے لیے بعض چیزوں کو جائز کر لیا اور دوسروں کے لیے پابندی۔ دوسروں کو نصیحت کر رہے ہیں اور خود میاں فضیحت ہیں۔ آپ خود نہیں دیکھ رہے کہ ہماری اپنی حالت کیا ہے۔ حضورانور نے فرمایا کہ پس یہ بہت ضروری ہے کہ اپنے عمل اور قول کو ایک کریں اور یہ کہ خود اپنے جائزے لیں گے تبھی آپ کو پتا لگے گا کہ آپ کے قول اور فعل میں کوئی تضاد تو نہیں۔ اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا آپ پہ تنقید کرے آپ خود اپنا جائزہ لیں۔ اور اگر یہ نہیں ہو گا تو پھر جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا بات اثر کرنے والی نہیں ہوتی۔
حضورانور نے فرمایا کہ پس روزانہ اپنے تنقیدی جائزے لیں۔ بجائے اس کے کہ دوسروں کے نقص تلاش کریں پہلے ہر ایک اپنے آپ کو دیکھے، اپنے گریبان میں نظر ڈالے کہ ہمارے اندر کیا برائیاں ہیں۔ ہمارے اندر کیا خوبیاں ہونی چاہئیں۔ ہمارے کیا معیار ہونے چاہئیں۔ ایک مربی کی حیثیت سے ہمارا تعلق باللہ کا معیار کیا ہونا چاہیے۔ ہمارے اخلاق کے معیار کیا ہونے چاہئیں۔ ہمارے علمی معیار کیا ہونے چاہئیں۔ ہمارے روحانی معیار کیا ہونے چاہئیں۔ اگر وہ حاصل کرلیے تو پھر سمجھیں کہ ٹھیک ہے۔ پھر جو دوسروں پہ تنقید کرنے والی نظر ہے وہ خود بخود ختم ہو جائے گی بلکہ دوسرے کے لیے ایک ہمدردی کا اظہار اور اصلاح کا پہلو سامنے آئے گا۔ اس ہمدردی کے ساتھ اصلاح کریں گے تو اس کے لیے دعا بھی کریں گے اور جب اصلاح کے ساتھ دعا کر رہے ہوں گے تو اسی میں برکت پڑے گی، اسی میں آپ کی کامیابی ہوگی۔
حضورانور نے فرمایا کہ پھر اسی طرح علم کو بڑھاتے رہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ سات سال میں علم حاصل نہیں ہوتا۔ علم حاصل کرنے کا کام تو ساری زندگی کا ہے۔ حضرت مسیح موعود کی کتب کا گہرائی سے مطالعہ کریں۔ بہت سے سوالوں کے جواب یہیں مل جائیں گے۔ حضورانور نے فرمایا کہ بہت سے مربیان بعض دفعہ سوال لکھ دیتے ہیں حالانکہ اگر انہوں نے حضرت مسیح موعود کی کتب کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہو تو وہیں جواب بھی آپ کو مل جائیں گے۔ اس لیے پہلے خود تلاش کریں۔ پہلے بھی شاید میں نے کسی جگہ بیان کیا ہے کہ حضرت مصلح موعود کی سوال و جواب کی مجلس تھی۔ ایک لڑکے نے کھڑے ہو کر سوال کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس کا جواب دیا۔ اس نے پھر سوال کیا۔ سوال اچھا علمی تھا لیکن حضرت مصلح موعود کو خیال پیدا ہوا کہ یہ لڑکا پڑھنے والا لگتا ہے، اسے کچھ نہ کچھ علم ہے۔ اس لیے انہوں نے کہا تم کیا کرتے ہو؟ اس نے عرض کیا کہ میں جامعہ کا طالبعلم ہوں۔ تو آپؓ نے فرمایا اگر تم جامعہ میں پڑھتے ہو تو میں تمہارے سوال کا جواب نہیں دوں گا۔ تم اس کا جواب خود تلاش کرو تو تمہیں اس کا جواب مل جائے گا۔ حضورانور نے فرمایا کہ اس لیے سب سے بڑی بات یہی ہے کہ جامعہ کے طالبعلم کو، اور جب مربی بن جائے تو خاص طور پہ خود گہرائی سے مطالعہ کرکے سوالوں کے جواب تلاش کرنے چاہئیں۔
ہمارے بہت سارے مربیان اللہ کے فضل سے میدان عمل میں ہیں جو تبلیغ اور تربیت کے میدان میں ہیں، غیروں کے بھی جواب دیتے ہیں، اپنوں کے بھی جواب دیتے ہیں، اس لیے کہ انہیں علم حاصل کرنے کا شوق ہے۔ ایک لگن ہے اور تلاش کرتے ہیں کہ کہاں کہاں سے علم حاصل کریں اور پھر اپنی علمی حالت کو بہتر کریں۔ اس کا فائدہ ان کو خود بھی ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتے ہیں۔
حضورانور نے فرمایا کہ پھر یہ ہے کہ ہر بات کہنے کی جرأت ہو، لیکن حکمت کے ساتھ۔ حکمت بھی ساتھ ضروری ہے۔ تبلیغ کرتے ہوئےخوف نہ ہو۔ خوف کی کوئی ضرورت نہیں لیکن حکمت سے بات کریں۔ وہی بات موعظۃالحسنہ کے ضمن میں آپ کا دوسروں پر اثر ڈالنے والی ہوتی ہے اور پھر اس سے لوگ متاثر بھی ہوتے ہیں۔
حضورانور نے فرمایا کہ اسی طرح تربیت کے میدان میں غلط بات کو دیکھ کر اسے ردّ کریں لیکن وہاں بھی حکمت سے سمجھائیں۔ مربیان کے بارے میں بہت ساری شکایات آتی ہیں، عہدیداروں کے بارے میں بھی آجاتی ہیں کہ انہوں نے لوگوں کے سامنے اس رنگ میں ہماری بات کی، ہماری کمزوری کو ظاہر کیا جس سے ہماری سبکی ہوئی۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ اصلاح کا پہلو ضروری ہے۔ اور اگر کسی میں کوئی برائی یا کمزوری دیکھیں تو اس کے لیے پھر دعا کریں۔ اس کو علیحدگی میں سمجھائیں اور مسلسل دعا کرتے رہیں۔ حضورانور نے فرمایا کہ جس جماعت میں بھی آپ متعین ہیں یا جس جگہ بھی آپ کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے وہاں اس شعبے کے بارے میں اور جو فیلڈ میں ہیں تو وہاں کےماحول کے بارے میں مکمل علم حاصل کریں اور وہاں کی جو تربیتی کمزوریاں ہیں، ان کو دور کرنے کے لیے plan بنائیں اور پھر لوگوں کو حکمت سے سمجھائیں اور ان کے لیے مسلسل دعا بھی کرتے رہیں۔ دعا ہی ہے جو ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اس کے بغیر اصلاح نہیں ہو سکتی۔
حضورانور نے فرمایا کہ پھر یہ بہت ضروری چیز ہے کہ خلافت کے ساتھ آپ کا وفا کا تعلق ہو۔ آپ لوگ خلافت کے سپاہیوں میں شامل ہیں۔ لکھتے ہیں ہم سلطان نصیر بن جائیں۔ تو سلطانِ نصیر بغیر وفا اور اطاعت کے اعلیٰ معیار کے نہیں ہوسکتے۔ اس لیے ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہیے۔ کیا ان کا وفا کا معیار ایسا ہے جو ہونا چاہیے؟ کبھی ان کے دلوں میں شکوہ پیدا نہ ہو۔ اطاعت ایسی ہے کہ چاہے مرضی کے خلاف حکم ملے تو بلا چون و چرا اس کی تعمیل کریں گے۔ جب عملی حالت ایسی ہوگی تبھی اس کا فائدہ ہے۔ اگر عملی حالت ایسی نہیں ہے تو پھر یہ نہ وفا ہوسکتی ہے، نہ اطاعت ہوسکتی ہے۔ اور اس کے لیے بھی دعا ضروری ہے۔ دعاؤں میں لگے رہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو وفا میں کامل ہونے کی توفیق دے اور آپ اطاعت میں سب سے بڑھ کر نمونہ دکھانے والے ہوں۔
حضورانور نے فرمایا کہ پھر اسی طرح ایک چیز انتظامی صلاحیت ہے۔ مربی کو انتظامی صلاحیتوں کو بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بعض وفات یافتہ مبلغین کے حالات میں بیان کر دیتا ہوں۔ کل ہی میں نے چودھری منیر صاحب کے بھی حالات بیان کیے تھے۔ تو ان کو جس کام پر بھی لگایا گیا خود اس کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور پھر اس کام میں وہ کسی بھی ماہر سے کم رائے نہیں رکھتے تھے حالانکہ مربی تھے کوئی ٹیکنیکل تعلیم نہیں۔ پس مربی کے لیے انتظامی صلاحیت حاصل کرنے کے لیے بھی علم حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے وقت نکالنا چاہیے۔
حضورانور نے فرمایا کہ اسی طرح سوشل میڈیا پر آجکل بحثیں شروع ہو جاتی ہیں۔ پہلے بھی غالباً کینیڈا کے مربیان سے میری میٹنگ ہوئی ان کو بھی میں نے کہا تھا کہ غلط بحثوں میں نہ پڑیں۔ سوشل میڈیا کا جائز استعمال کریں اور جہاں دیکھیں کہ بحث برائے بحث ہو رہی ہے اور کج بحثی شروع ہوگئی ہے اور ہر ایک نے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے وہاں اس بحث سے باہر آجائیں اور یہ کہہ کے آئیں کہ اب یہ بحث فائدے کے لیے نہیں ہو رہی بلکہ نقصان دہ ہے اس لیے میں اس سے نکل رہا ہوں۔ تو پھر دوسروں کو بھی تحریک پیدا ہوگی کہ وہ بھی اس کج بحثی میں نہ پڑیں۔ پس یہ بھی بہت ضروری چیز ہے کہ سوشل میڈیا کا جائز استعمال کریں، غلط بحثوں میں نہ پڑیں۔ یہ دیکھیں کہ جماعت کے مفاد میں کیا ہے اگر کوئی ایسی بحث جو جماعت کے مفاد میں نہیں ہے، اس کا انسانیت کو کوئی فائدہ نہیں، جماعت کو فائدہ نہیں، آپ کی تبلیغ کے لیے وہ ممد نہیں ہے، تربیت میں اس کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہو رہا، پھر اس پہ اثر پڑنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ ہاں اگر علمی بحثیں ہیں تو اس کا ایک محدود دائرہ بنائیں اور اس میں اپنی علمی رائے دیں اور پھیلاتے ہوئے دوسروں کو بھی اس میں involve کریں۔ اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ جماعت میں جو اکائی ہے وہی اس کی کامیابی کی نشانی ہےاور مربیان کو سب سے بڑھ کر نمونہ ہونا چاہیے۔ ہمیشہ ایک جان ہونے کا اظہار ہونا چاہیے۔ اس کا پھر دوسروں پر بھی اثر ہوگا۔
حضورانور نے فرمایا کہ قرآن کریم پرغور اور تدبر بڑا ضروری ہے۔ ابھی میں نے کہا کہ اپنے علم کو بڑھاتے رہیں۔ اس علم کے لیے قرآن کریم پر غور بہت ضروری ہے۔ اسی سے آپ کو جواب بھی مل جائیں گے اور اس کے لیے جیسا کہ پہلے میں نے کہا حضرت مسیح موعود کی کتب کا مطالعہ کریں۔ آپؑ کی تفاسیر پڑھیں، اس سے آپ لوگوں کا علم بھی بڑھے گا اور روحانیت بھی بڑھے گی۔ اور پھر آپ کے کام میں اس سے برکت بھی پڑے گی۔ اسی طرح جماعتی تفاسیر ہیں خلفاء کی یا پرانے بزرگوں کی تفاسیر ہیں وہ بھی علم کو بڑھانے کے لیے پڑھیں۔
حضورانور نے فرمایا کہ بہرحال ایک مربی کے لیے بےشمار کام ہیں، خود اس کو کام نکالنے پڑتے ہیں۔ یہ کہنا کہ میرے لیے محدود وسائل ہیں، محدود جگہ ہے، کام نہیں ہے، مَیں کیا کروں؟ جو کرنے والے ہوتے ہیں وہ محدود وسائل میں ہی کام نکال لیا کرتے ہیں۔ حضورانور نے فرمایا کہ گھانا میں ہمارے محدود وسائل تھے۔ ہمارے ایک مربی صاحب تھے۔ تبلیغ کے لیے انہوں نے خود ہی طریقے نکالے ہوئے تھے جبکہ باقی کمزور حالت والے جو مربی تھے تو وہ اس طرح تبلیغ نہیں کرتے تھے جس طرح یہ کرتے تھے حالانکہ ان کے وسائل ان سے کم تھے۔ اخبار لے کر نکل جانا، لٹریچر لے کے نکل جانا، تبلیغ کرتے رہنا، عاجزی اور انکساری سے سڑکوں پہ کھڑے ہو جانا، دعائیں کرتے رہنا، ساتھ پیغام پہنچاتے رہنا۔ اور پھران کے کام میں برکت پڑتی تھی۔ تو اسی طرح خود مربی کو اپنے ذرائع explore کرنے پڑتے ہیں کہ کس طرح وہ نئے نئے ذرائع نکالے اور تبلیغ کے میدان میں آگے بڑھے، تربیت کے میدان میں آگے بڑھے، جماعت کی بہتری کے لیے کام کرے اور اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کے لیے کام کرے۔
حضورانور نے فرمایا کہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ وفا، محنت اور دعا سے کام لیتے رہیں گے تو کامیاب بھی ہوں گے اور یہی کامیابی کا راز ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ان باتوں پہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔
ایک بج کر انیس منٹ پر حضورانور نے دعا کروائی۔ دعا کے بعد جامعات احمدیہ کینیڈا، جرمنی اور یوکے سے فارغ التحصیل مربیان کرام نیز جامعہ احمدیہ یوکے کی سات کلاسز، سپیشل کلاس اور اساتذہ جامعہ احمدیہ یوکے نے حضور انور کے ساتھ مارکی کے ایک جانب تصاویر بنوانے کی سعادت پائی۔ تصاویر کے بعد مکرم امیرصاحب جرمنی نے حضورِ انور کی پُرشفقت اجازت سے تقریب تقسیم اسناد میں حاضر نہ ہونے والے دو طلبہ جامعہ احمدیہ جرمنی کی اسناد کے ساتھ حضورِانور کی معیت میں تصویریں بنوائیں۔ ایک بج کر چونتیس منٹ پر حضورِ انور مارکی سے تشریف لے گئے۔ دو بجے کے قریب حضورانور جامعہ احمدیہ کی عمارت میں تشریف لائے اور نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کے بعد مارکی میں حضورانور کی معیت میں تمام مہمانوں کے لیے ظہرانے کا انتظام تھا۔ حضورانور کے ساتھ مین ٹیبل پر 21؍افراد کو بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس تقریب میں کُل 550؍مرد و خواتین مہمان شامل تھے۔ کھانے کے بعد حضورانور کا قافلہ اسلام آباد کے لیے روانہ ہوا۔
شاہدین جامعہ احمدیہ جرمنی 2023ء
- مکرم ظافر محمود صاحب مربی سلسلہ
- مکرم طلحہ احمد صاحب مربی سلسلہ
- مکرم عدنان احمد گل صاحب مربی سلسلہ
- مکرم خواجہ احتشام احمد صاحب مربی سلسلہ
- مکرم فائز احمد صاحب مربی سلسلہ
- مکرم شمائل احمد صاحب مربی سلسلہ
- مکرم خلیق حمید صاحب مربی سلسلہ
- مکرم عثمان احمد خان صاحب مربی سلسلہ
- مکرم عبدالسلام بھٹی صاحب مربی سلسلہ
- مکرم ذیشان محمود صاحب مربی سلسلہ
- مکرم محمد طلحہ کاہلوں صاحب مربی سلسلہ
مندرجہ ذیل مربیان کرام برطانیہ نہیں جا سکے تھے اس لیے ان کی اسناد مکرم امیر صاحب جرمنی نے وصول کیں۔ - مکرم چودھری شاہ نواز صاحب مربی سلسلہ
- مکرم شاہان مجیب صاحب مربی سلسلہ
- مکرم عدیل احمد صاحب مربی سلسلہ
(بشکریہ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل 8 جون 2024ء)
(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ جولائی 2024ء صفحہ 31)